بیس کیمپ کی صورتحال

وحدت نیوز(آرٹیکل) 24اکتوبر 1947کو آزاد کشمیر حکومت قائم ہوئی۔ بھارت باقی ماندہ کشمیر کو بچانے کے لئے  یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا، اقوام متحدہ نے  کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا جسے پاکستان و ہندوستان دونوں نے تسلیم کیا۔آزاد کشمیر حکومت کا اعلان در اصل مقبوضہ کشمیر کے بیس کیمپ کے طور پر کیا گیا تھا۔  اس  ریاست نے ابھی تک چھبیس صدور  کا دورانیہ گزارا ہے اور مجموعی طور پر  آل  جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے زیادہ عرصہ اقتدار میں گزارا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کی دوڑ میں آکسفورڈ اور کیمرج کے نصاب کے چکر میں تاریخ کشمیر کو تقریبا فراموش کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت   روزگار اور تعلیم کے حصول کے لئے مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے۔ سیاست میں داخل ہونے کے لئے  برادری ازم کے علاوہ کوئی دوسرا دروازہ کھلا ہوا نہیں۔

پاکستان کی طرح ہندی فلمیں اور گانے آزاد کشمیر میں بھی مقبولیت عام کا درجہ رکھتے ہیں۔ المختصر یہ کہ جس منطقے کو تحریک آزادی کشمیر کے  بیس کیمپ کا درجہ حاصل تھا اب   بھی اگرچہ عوام میں مقامی طور پر کشمیر سے جذباتی  لگاو تو موجود ہے لیکن اس لگاو میں وہ پہلے سی گرمی اب نہیں رہی۔

اس سردمہری کی بنیادی وجہ  چار چیزیں بنیں:۔

۱۔ ہندوستانی فلموں، ڈراموں اور گانوں کی ثقافتی یلغار

بلاشبہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری دنیا کی موثر ترین فلم انڈسٹری ہے، کشمیر کے موضوع پر ہندوستان مختلف فلمیں بنا کر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے میں کافی حد تک کامیاب ہواہے۔ اس کے علاوہ فحش گانے اور لچرموسیقی ویسے بھی انسان سے دینی غیرت ختم کر دیتی ہے۔  ان ساری چیزوں کا اثر بھی عام لوگوں میں دیکھنے میں ملتا ہے۔

۲۔آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں مسئلہ کشمیر کی خصوصی اہمیت  اور توجہ کا ختم ہونا

جدید تعلیم کی دوڑ میں ، کشمیر کی تاریخی اقدار ، اہم مناسبتیں اور نصاب تعلیم میں کشمیریات کا محتویٰ کافی حد تک سکڑ گیا ہےآزاد کشمیر کے  نصاب تعلیم کو مکمل طور پر تحریک آزاد کشمیر سے  ہم آہنگ رکھنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ کشمیر میں جہادی  کیمپوں سے  مقامی عوام کا متنفر ہونا

تیسرے مسئلے نے شدت کے ساتھ تحریک آزادی کی ساکھ کو متاثر کیا۔ اس سلسلے میں ایک تو مقبوضہ کشمیر میں بعض شدت پسند ٹولوں نے اپنی آزاد عدالتیں لگا کر  مقامی لوگوں کو ہندوستان کے لئے مخبری کے جرم کے شبے میں موت کے گھاٹ اتارا جس سے لوگوں میں جہادی کیمپوں کے خلاف شدید نفرت کی لہر پیدا ہوئی اور ہندوستانی حکومت نے اس کو کیش کیا، اسی طرح آزاد کشمیر میں متعدد جگہوں پر جہادی  کہلانے والوں نے پولیس کی پٹائی کی، بعض مقامات پر لوگوں کو اغوا کیا اور کچھ مقامی بااثر شخصیات حتی کہ ایم این اے وغیرہ کو بھی  مارا پیٹا گیا۔

یہ وہ حقائق ہیں جو ارباب دانش سے پوشیدہ نہیں ہیں لہذا ابھی بھی ضرورت ہے کہ آزاد کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کو مقامی افراد کے تعاون سے فروغ دیا جائے۔

۴۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت

پاکستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت نے بھی اہلِ کشمیر  پر اثرات مرتب کئے ہیں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ  کشمیر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان منقسم ہے۔  جب لوگ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ ، خود کش دھماکوں اور قتل و غارت کے واقعات سنتے  اور دیکھتے ہیں تو وہ قطعا یہ نہیں چاہتے کہ ہم اتنی قربانیاں دینے کے بعد ہندوستان کے کھشتریوں کی غلامی سے نکل کر  پاکستان کے تکفیریوں کے غلام بن جائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اس لئےقربانی دیتا ہے تاکہ اس کے ہم فکر، ہم عقیدہ اور ہم وطن محفوظ رہیں، کوئی بھی شخص اس لئے اپنی جان نہیں قربان کرتا کہ اس کے بعد اس کے بچوں کو سکولوں میں گولیاں مار دی جائیں اور اس کے عزیزوں کے گلے کاٹے جائیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی اپنا نیٹ ورک مضبوط کیا ہے۔ کچھ سال  پہلے توآزاد کشمیر میں بھی صورتحال اتنی سنگین ہو گئی تھی کہ  بعض شدت پسند حضرات پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوجاتے تھے اور ڈرائیور سے کہتے تھے کہ یہ کیسٹ لگاو، ان کیسٹوں میں مکمل فرقہ وارانہ تقریریں اور کافر کافر کے نعرے ہوتے تھے۔ بعد ازاں مظفر آباد کی امام بارگاہ  میں خود کش دھماکے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔ دھماکے کی تفصیلات کے مطابق ماتمی جلوس جب امام بارگاہ میں پہنچا تو خود کش حملہ آور جلوس میں شامل ہو گیا تاہم جلوس میں جورضا کار شامل تھے انہوں نے اسے پہچان لیا اور اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جس سے انسانی اعضا اور گوشت کے چیتھڑے  دور دو رتک بکھر گئے۔

اسی طرح گزشتہ سال ایک عالم دین کی ٹارگٹ کلنگ کا ہونا یہ سب چیزیں باعث بنی ہیں کہ  بیس کیمپ کے لوگ اب  یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ اس میں سارے مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں گے لیکن اب تو یہاں کسی کی زندگی محفوظ ہی نہیں  ہے۔

تحریکِ آزادی کشمیر کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مذکورہ بالا عوامل کا جائزہ لیں اور ایسی سرگرمیوں کو عوامی و سرکاری سطح پر  مسترد کریں جو تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔

کشمیر میں شہید ہونے والے لاکھوں شہدا کا خون ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بیداری اور بصیرت کے ساتھ ان کے خون کا تحفظ کریں اور ان کی جدوجہدِ آزادی کو آگے بڑھائیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ شک نہیںطاقت و اقتدارکا حقیقی سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے ،ہم اسی کے تابع ہیںاسی کی بندگی کرتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیںوہ مقتدر اعلیٰ ہے اقتدار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم میں سے کسی کو منتقل ہونا ایک امانت ہے یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے راہنما جن کو ہم منتخب کرتے ہیں وہ اقتدار میں آتے ہی مصروف ہو جاتے ہیں گویا کہ خدا معاف کرے کائنات کے راز ان پر افشاں کئے جا رہے ہو ں جبکہ حقیقتاًفرعونیت اور منافقت ان میں سرایت ہو چکی ہو تی ہے جن کو عوام اپنا مسیہا و راہنما سمجھ رہے ہوتے ہیں۔بہت سارے لوگوں کی کسی ایک شخص سے جزبات ،عقیدت ،اور مطابقت اس شخص کو ان کا راہنما بنا دیتی ہے اور لوگ اپنے جزبات ،عقیدت ،اور مطابقت کے پیش نظر اپنے راہنما کی ہر بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں جو کہ ایک سیا سی راہنما کے لیے اونچی اُڑان کا سبب بنتی ہے۔لیکن ہوا بدلنے پر غبار نیچے بیٹھ جاتا ہے تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے یہاں کیسے کیسے حکمران ،بادشاہ، راجے مہاراجے آئے جنہیں اپنی سلطنت سیاہ،عوام،اقتدار پر بہت فخرتھا ایسے بھی تھے جن کی سلطنت میں سورج تک غروب نہیں ہوتا تھا لیکن جب برا وقت آیا تو کسی کو دو گز زمین نہ ملی اور کسی کا نام و نشان تک نہ رہا۔

 تاریخ کھگالنا شروع کریں تو سیکڑوں مثالیں نظروں کے سامنے ہیں لیکن دور کیا جانا ہم اپنے وقت کی ہی بات کرتے ہیں اپنے ملک اور اپنے حکمرانوں کی مثال ہی لے لیجئے ایوب خاں کے آنے سے ملک میں صنعتی انقلاب آیا ،ڈیم بنے ،بجلی گھر بنے ،سڑکیں بنیں برآمدات درآمدات میں انتہا اضافہ ہوالوگوں کو روزگار میسر آیا تو عوام میں انتہا مقبولیت بڑھ گئی جس بنا پر طویل ترین عرصہ اقتدار میں گزارا کہا جاتا تھا کہ ایوب کے اقتدار سے جدا ہونے پر ملک معا شی و دفاعی طور پر کمزور ہو جائے گا پاکستان کا استحکام ایو ب خاں کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکا تھا لیکن افسوس کہ "ایوب کتا ۔۔۔۔ہائے ہائے "کی مہم نے انہیںگھر جانے پر مجبور کر دیا اور کوئی نا رویا ایوب کے بعد یحییٰ آئے تو طاقتور ترین اور بااختیار صدر مانے جانے لگے کہ ملک ٹوٹنے کی سازش نے انکی کوئی لاج نہ رکھی تب بھی ان کے لئے کوئی نہ رویا ۔

 ذولفقار علی بھٹو جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر تھے وہ اس میں کچھ شک بھی نہیں جب ضیاء الحق نے بھٹو کو گرفتار کروایا تو جیالے کہتے تھے کہ بھٹو کی پھانسی پر ہمالیہ روئے گا تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی نہیں رویا تھا کسی نے چڑی تک نہ پھڑکنے دی تھی اور لوگ ہمالیہ کے رونے کی باتیں کرتے رہے مرد مومن ،مرد حق ضیاالحق طویل عرصہ اقتدار میں رہے بہت قربتیں تھیں انکی اتنے طاقتور تھے انہیں صرف موت ہی اقتدار سے جدا کر سکی لیکن سب کچھ آ پ کے سامنے ہے کہ انہیں کون اچھا کہتا ہے ان کے لیے کون روتا ہے ۔بینظیر کڑوروں دلوں کی ڈھڑکن اقتدار کے نشے میں شہید ہو گئیں اور پھر ان کے خاوند زرداری نے ان کے نام پر کیاحال کیاپھر بھی کوئی نا رویا آج منتخب وزیر اعظم نوازشریف کا احتساب ہو رہا ہے فیصلہ ابھی ہونے کو ہے کہ رن کانپ رہا ہے پنتیس سالہ سیاست کی رفاقتیں بدل رہی ہیں درباری معزز اداروں کو دھمکیاں دے رہے اور ڈرا رہے ہیں کہ قوم منتخب وزیراعظم کے ساتھ ہے زیادتی ہوئی تو قوم رووئے گی ۔افسوس کہ بادشاہ سلامت اور د رباری ابھی تک تاریخی حقیقتوں کے منکر ہیں حقیقت یہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم کا جانا ٹھہر چکا ہے اب انکے لیے رونے والا کون ۔۔۔۔تب تک ان کے لیے اس شعر پر اتفاق کیا جائے
                     سارا شہر شناسائی کا دعویدار تو ہے لیکن
                       کون ہمارا اپنا ہے وقت ملا تو سوچیں گئے


کالم نگار:عابد حسین مغل

وحدت نیوز(آرٹیکل) آزادی سنتے لکھتے اور کہتے تو ہمیں 70سال ہو چکے ۔اب ذرا اصل اور حقیقی آزادی پرست اور جمہوریت پرست سربراہان مملکت جو کہ صرف غریب ممالک سے تعلق رکھتے تھے ۔میں صرف اُن کا حوالہ دونگا ۔ جن کا شمار Third Worldاور غریب ممالک میں تصور کیا جاتا تھا ۔ پہلا حوالہ میں مرحوم ہیگو شاویز کا دوں گا۔ جن کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا سے تھا ۔ جس نے حکومت میں آتے ہیUSAکی غلامی سے مکمل آزادی کے حصول کے لیے ناصرف اعلان کیا بلکہ عمل بھی کر کے دیکھا دیا ۔ USAنے 2002؁ء میں وہاں فوجی انقلاب برپا کروا دیا ۔ جو صرف 36گھنٹے تک چل سکا ۔ یہ وہاں کے عوام کی بہادری بھی تھی اور ہیگو شاویز کی دی ہوئی فلاح و بہبود بھی تھی۔USAنے کئی دفعہ سرمایہ داروں کے ذریعے بھی وہاں ہڑتالیں کروائیں۔ لیکن ہیگو شاویز نے عوام کے ساتھ مل کرانہیں ناکام کر دیا۔ آخر کار اُن سرمایہ داروں کو وہاں سے سرمایہ نکال کر امریکہ جانا پڑا۔ اورآج وہ غریب ملک Welfare Stateہے ؟مرحوم ہیگو شاویز نے امریکہ کا آخری ہربہ بھی ناکام بنانے کے لیے ایک کروڑ آبادی والے ملک میں 20لاکھ کلاشنکوفیں اور گولیاں تقسیم کیں ۔ اور انہیں تربیت بھی دی تاکہ اگر امریکہ حملہ آور ہو تو وہ وہاں سے نکل کر نہ جا سکے ۔ اوراُس نے ایک اور اچھاکام کیا ۔ کہ غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اُ س نے 2006؁ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دئیے ۔ جب اسرائیل نے لبنان پر بلاجواز حملہ کر دیا اور حزب اللہ سے عبرت ناک شکست کھائی ۔اسی Tenureمیں 6مسلم عرب ریاستوں نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم رکھے؟اب دوسری مثال میں اُن دو بھائیوں کی دینا چاہوں گا کہ جنہیں Discussنہ کرنا انتہائی نا انصافی ہو گی ۔ بڑے بھائی کا نام فیڈل کاسترواور چھوٹے کا نام راول کاسترو ہے ۔ دونوں بھائیوں نے بڑی مشکلات جھیلیں جس میں قیدو بند اور جلاء وطنی بھی شامل ہیں۔ آخر کار 1959؁ء میں دونوں بھائیوں نے عوام کی مدد سے کیوبہ میں انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ Fidal Castroنے انقلابی لڑائی کے دوران کیوبن عوام سے وعدہ کیا تھا کہ کاسترو خاندان کی 2لاکھ ایکڑ زمین غریب عوام میں تقسیم کر دوں گا۔ اور انقلاب برپا کرنے کے بعد اُس نے عملی طور پر ایسا کر کے بھی دکھایا ۔جس کی وجہ سے اُس کی ماں مرتے دم تک اُس سے ناراض رہی ۔ Cubaامریکہ سے بمشکل 40کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے ۔ جسکی آبادی بمشکل ایک کروڑ ہے ۔ امریکہ اور C.I.Aسے مل کر کئی دفعہ کیوبہ کی حکومت کو گرانے کی بڑی کوششیں کیں ۔ لیکن عوام اور فیڈل کاسترو نے اُن کی ہر کوشش ناکام کر دی ۔ تیسرا اور حتمی تاریخی حوالہ ۔ مہاتیر محمد جو 1981؁ء میں ملائشیا ء کے صدر بنے اور 25سال جمہوری حکومت کے فرائض سرانجام دینے کے بعد از خود اپنی مرضی سے اقتدار سے علیحدہ ہو گئے ۔مہاتیر محمد نے جب اقتدار سنبھالا تو ملائشیاء کی فی کس سالانہ آمدنی 300ڈالر تھی ۔ جب آپ نے اقتدار چھوڑا تو اس وقت فی کس سالانہ آمدنی دس ہزار ڈالر تھی ۔ مہاتیر محمد نے سب سے پہلے چینی کمیونٹی جو کہ امیر بھی تھی اور اقلیت میں بھی تھی ۔ ان کو Convinceکیا کہ پچاس لاکھ Ringgetسے اُوپر کسی بھی فر د کے پاس رقم موجودپائی گئی تو اُسے حکومتی خزانہ میں جمع کر دیا جائے گا۔ مہاتیر محمد کی اس پالیسی نے ملائشیاء کو Welfare Stateبنا دیا ۔ مہاتیر محمد کی حکومت کے دوران ہی ایک اہم نام سامنے آیا۔ جو کہ جارج سورس کے نام سے مشہور ہے ۔ جو 1930؁ء میںHungeryکے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ جسکا اصل نام سوارٹرز گاورگی تھا ۔اسکا نام اسکے یہودی ہونے کی عکاسی کرتا تھا ۔ اس لیے اس نے اپنا نام جارج سورس رکھ دیا ۔ تاکہ اسکی یہودی پہچان نہ سکے ۔ اب اُسکا شمار دنیا کے 30ویں امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کی Economiesکو مکمل طور پر Upsetکرنا ہی اُسکا اصل بزنس ہے۔اس وحشیانہ طرز عمل میں I.M.Fاور C.I.Aاُسکا بھر پور ساتھ دیتے ہیں۔ 1992؁ء میں اُس نے Bank of Englandکو بنک کرپٹ کروادیا۔ اور Englandکو مکمل طور پر امریکہ کے گھٹنے تلے لے آیا۔ پھر اُسکا رخ ایشین ٹائیگر ز یعنی ملائشیاء اور تھائی لینڈ کی طرف ہو گیا۔ پہلے وہ تھائی لینڈ کی معاشی بربادی کا باعث بنا ۔ جس پر مہاتیر محمد نے تھائی لینڈ کی بھر پور سپورٹ کی ۔ کیونکہ مہاتیر محمد کو ملائشیاء کی معاشی تباہی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ جس کا کہ بعد میں ملائشیاء کو سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اور ملائشین Ringgetجو کہ ملائشیا کی کرنسی کا نام ہے ۔ وہ 40%تک نیچے آگیا یا ڈائون ہو گیا۔ جب I.M.Fکے نمائندے ملائشیاء اور تھائی لینڈ پہنچے اور انہیں آفر کی کہ اپنی Stock Marketsکے Sharesاور اپنی بڑی کمپنیاں ہمیں فروخت کر دو۔ جس پر دونوں ممالک نے قطعی انکار کرتے ہوئے ۔صاف لفظوں میں کہا کہ ہم ایک قوم ہونے کے ناطے اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو کر دکھائیں گے ۔ اور انہوں نے ایسا کر کے بھی دکھایا۔ اُسکے بعد مہاتیر محمد نے اپنی غلطی کو سدھارتے ہوئے Ringgetکے ملک سے باہر جانے پر مکمل پابند ی عائد کردی تاکہ ایسا بحران دوبارہ نہ آسکے ۔ مشرف کے دور حکومت میں مہاتیر محمد عمران خان کی دعوت پر پاکستان آئے تو ایک صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ پاکستان میں بہتری کیسے آسکتی ہے۔ جس پر مہاتیر محمد نے کہا Right Man at a Right Placeلیکن میرا س کے ساتھ ساتھ یہ ماننا ہے کہ Right Policy at Rigth Timeیہ ہوتی ہیں قومیں اور یہ ہوتے ہیں حکمران؟
اللہ تعالیٰ آپ کا اور میرا حامی و ناصر رہے۔(آمین )


تحریر۔۔۔سید ریاض شاہد بخاری
 0336-7451460

وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام 17  ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن 84 ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کی مشہور ترین کنیت ابو عبد اللہ اور معروف ترین لقب صادق تھا ۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت " ام فروہ " تھی ۔یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا م کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ امام صادق علیہ السلام نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں ‎سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

 آپ نےنصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر گرامی کی تربیت میں گزارا ۔یہ قیمتی زمانہ آپ کے لئے خاندان وحی سے سے علم و دانش، فضیلت و معرفت الہی کسب کرنے کا بہترین موقع تھا ۔ امام علیہ السلام اسلامی اخلاق اور انبیائی فضائل کے مکمل نمونہ تھے آپ کا ارشاد ہے {کو نوادعاۃ الناس بغیر السنتکم } لوگوں کو بغیر زبان کےاپنے عمل سے دعوت دو۔ آپ حلم ،برباری ،عفو درگزر کےپیکر تھے۔حاجت مندوں کی مدد کرنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ امام علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ کا سخت ترین دشمن منصور دوانقی جب آپ کی خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے بھی گریہ کیا اور کہا : کیا جعفر ابن محمد کی نظیر مل سکتی ہے؟مالک ابن انس کہتے ہیں کہ جعفر صادق جیسا نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے  دل میں یہ خطور ہوا کہ علم ،عبادت ،پرہیزگاری  کے اعتبار سے جعفر بن محمد سے برتر بھی کوئی ہوگا ۔ ابو حنیفہ جو حنفی  مذہب کے امام  ہے کہتے  ہیں کہ میں نے  جعفر صادق سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا  ۔ابن ابی العوجا ء جو کہ اس زمانے  کے مادہ پرستوں کا امام تھا امام  کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جعفر صادق بشر سے بالا تر ہیں اگر زمین پہ کسی روحانی کا وجود ہو سکتا ہے تو وہ بشر کی صورت میں تجلی ریز ہو تو وہ جعفر بن محمد ہیں۔آپ کے علمی مقام کو بیان کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ  اہل سنت کے ائمہ کے استاد ہیں ۔امام علیہ السلام کی بڑی درس گاہ میں بہت سے ایسے شاگردوں نے پرورش پائی جنھوں نے مختلف مضامین میں علوم و معارف اسلام حاصل کر کے دوسروں تک منتقل کئے  ۔آپ کے شاگردوں میں حمران بن اعین ، مفضل ابن عمر اور جابر بن یزید جعفی کا نام قابل ذکر ہیں ۔حمران کے بارے میں آپ علیہ السلام  نے فرمایا  حمران اہل بیت بہشت میں سے ہے جب لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ کسی کا تعارف کرائیں کہ اس سے سوال کریں تو آپ نے  فرمایا مفضل کو میں نے تمہارے لئے معین کیا وہ جو کہیں قبول کر لو اس لئے کہ وہ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔جابر کے بارے میں آپ نے فرمایا : جابر میرے نزدیک اسی طرح ہیں جس طرح سلمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نزدیک تھے ۔ غرض علوم کو پہنچانے میں آپ کے والد بزرگوار نے زندگی کے آخری ایام میں اور آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں کام کئے ۔اور آپ نے ان تمام نظریات کو جن کو افلاطون اور ارسطو نے پیش کیے تھے سب کو باطل قرا دیا اور دلائل کے ذریعے حقائق کو ثابت کر دیا اور پہلی مرتبہ دنیا میں یہ بتا دیا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے اور کائنات میں صرف چار عناصر نہیں بلکہ کئی ہزار عناصر ہیں ۔

آج سائنس نے اتنی ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کوئی ماں کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو صا دق آل محمد  ع کےاس نظریے کے خلاف کوئی چیز ثابت کرے۔آپ کا ذات  اقدس علوم کا ایک بحر بیکران تھا جس کے مقابلے میں سائنس لاکھ درجہ ترقی کریں تب بھی اس درجے تک نہیں پہنچے گا اس لئے کہ آپ کا علوم کسبی نہیں تھا بلکہ آپ کو خدا کی طرف سے اور اپنے آباو اجداد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ۔

آپ نے دہریوں، قدریوں، کافروں اور یہودیوں و نصاری  سےبے شمارعلمی مناظرے کئے اور ہمیشہ  انہیں شکست  دی ۔ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں  ایک قدریہ مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخو ہشمندہوا، بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ سے مناظرہ کروعلماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی لیکن تمام علماء عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراایک خط حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکید کی کہ آپ ضرور تشریف لائیں حضرت امام محمد باقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے لیے شام چلے جاؤ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدربزرگوارکے حکم پر شام پہنچ گئے۔

عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقرعلیہ السلام کے بجائے امام جعفر صادق علیہ السلام کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں ہوسکتاہے کہ آپ بھی دوسرے علماء کی طرح شکست کھاجائیں، اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا،  تو مت ڈرو، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ میں مناظرہ ختم کردوں گا۔

قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں، اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف ایک بات کہنا چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچا تو آپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ جب خدا کوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیا اورکوئی جواب نہ دے سکا، اور مجلس مناظرہ برخواست ہوگئی۔

اہل سنت کی کتابوں میں ابوحنیفہ کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مناظرہ کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے ابوحنیفہ بن ابی شبرمہ و ابن ابی لیلی ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے  امام صادق علیہ السلام نے ابن ابی لیلی سے فرمایا : یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اس نے عرض کیا : یہ ایسا شخص ہے جو صاحب بصیرت اور دین میں اثر و رسوخ رکھتا ہے ۔ امام نے فرمایا : گویا یہ شخص دین کے امور میں اپنی رائے سے قیاس کرتا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ امام نے ابوحنیفہ سے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : نعمان ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : میں دیکھ رہاہوں کہ تم کسی بھی چیز کو اچھی طرح نہیں جانتے ؟ اس کے بعد امام نے کچھ مسائل بیان کرنے شروع کئے جن کا ابوحنیفہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔

 امام نے فرمایا : اے نعمان ! میرے والد نے میرے جد امجد سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس شخص نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا ، خداوند عالم نے اس سے فرمایا : آدم کو سجدہ کرو۔اس نے جواب میں کہا : {انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین }  میں اس سے بہتر ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ۔ پس جو شخص بھی دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے اس کو خداوند عالم قیامت کے روز ابلیس کے ساتھ محشور کرے گا کیونکہ اس نے قیاس میں ابلیس کی پیروی کی ہے۔ابن شبرمہ کہتے ہیں : پھر امام نے ابوحنیفہ سے سوال کیا:  ان دو چیزوں میں سب سے عظیم چیز کیا ہے : انسان کو قتل کرنا ، یا زنا کرنا ؟ ابوحنیفہ نے کہا : انسان کو قتل کرنا ۔ امام نے فرمایا : پھر خداوندعالم نے انسان کو قتل کرنے میں دو گواہوں کو کافی کیوں سمجھا جبکہ زنا کے شواہد میں چار گواہوں کو ضروری سمجھا ہے ؟پھر فرمایا : نماز زیادہ عظیم ہے یا روزہ؟ ابوحنیفہ نے کہا : نماز ۔ امام نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت اپنے روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ وائے ہو تجھ پر ! تیرا قیاس کس طرح حکم کرتا ہے ؟ خدا سے ڈر اور دین میں اپنی رائے سے قیاس مت کر  ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشہداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔ ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"، میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، ا سکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:

امرر علی جدث الحسین
فقل لاعظمہ الزکیہ

اگر اپنےجد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں تو ا نکے پاکیزہ بدن کو کہیں ۔۔۔۔۔"امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔

امام صادق علیہ السلام نےمنصور کے دور حکومت میں بڑی دشواری اور نگرانی میں زندگی گزار ی  لیکن مناسب حالات میں حکام وقت پر اعتراض اور ان کو ٹوکنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔جب منصور نے خط کے ذریعے چاہا کہ آپ اس کو نصیحت کریں تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا : جو دنیا کو چاہتا ہے وہ تم کو نصیحت نہیں کر سکتا اور جو آخرت کو چاہتا ہے وہ تمھارا ہم نشین نہیں ہو سکتا ۔ ایک دن منصور کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھ گئی ۔ ایسا بار بار ہوتا رہا یہاں تک کہ منصور کو تنگ آگیا  اور اس نے  غصے  میں امام جو تشریف فرما تھے پوچھا کہ خدا نے مکھی کیوں پیدا کیا ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا  تا کہ جو جابر ہیں انہیں ذلیل و رسوا کرے  ۔ آسمان ولایت و امامت  کے اس درخشاں ستارے کا  وجود ظالم حکمران منصور کے لئے برداشت نہیں ہو اور اس ملعون نے آپ کو زہر دینے کا ارداہ کیا اور آخر کار آپ کو زہر سے شہید کیا گیا ۔یوں 25 شوال 148ھ کو 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کو آپ کے پدر گرامی کے پہلو میں بقیع میں سپرد خاک کر دیا ۔{وَسَلَامٌ عَلَيْہِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا}

حوالہ جات:
۱۔تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳ ۔
۲۔ الطبقات الکبری، شعرانی، ج 1، ص 28 ; حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 193.
۳۔اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت، علی اصغر رضوانی، ص 99۔
۴۔ کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) دشمن اگر غیرت مند ہوتو بچوں اور عورتوں پر حملہ نہیں کرتا۔پشاور سکول کا سانحہ اس بات پر دلیل ہے کہ پاکستان اور پاکستانی افواج کا دشمن  ہر طرح کی غیرت و حمیت کھو چکا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جس طرح برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کی خاطرلارڈ میکالے کی تجویز پر ہندوستان میں ایک ایسے طبقے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا تھا جو جسمانی طور پر ہندی ہو لیکن فکری طور پر برطانوی ہو اور اس طرح وہ طبقہ ہندوستان میں رہ کر برطانیہ کے مفادات کا محافظ ہو۔

اسی طرح اکیسویں صدی میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ یہودو ہنود کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ہندوستان اور اسرائیل  اچھی طرح جانتے ہیں  کہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی  اسرائیل اور ہندوستان کے ٹکڑوں پر منتہج ہو گی۔چنانچہ یہود و ہنودفلسطین  اور کشمیر  پر ہر صورت میں  اپنا قبضہ قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اس وقت وہ پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اسرائیل  اور ہندوستان کی بقاء کی سفارتی و عسکری  جنگ لڑ رہے ہیں۔

دونوں ممالک یعنی  ہندوستان اور اسرائیل  کو شدید خطرہ پاکستان کے ایٹم بم سے ہے۔ چنانچہ پاکستان میں یہودو ہنود کو ایک ایسے طبقے کی ضرورت تھی جو بظاہر نہ صرف یہ کہ مسلمان ہو بلکہ خوارج کی طرح ایک ٹھوس قسم کا سچا اور پکا مسلمان نیز مجاہدبھی ہو اور پاکستان میں  رہ کر  ہندوستان اور اسرائیل کے مفادات  کا تحفظ کرے۔

را اور موساد کو  پاکستان میں ایسے ٹولوں  کی ضرورت تھی جو مسلمان اور مجاہد بن کر نہتے لوگوں  پر اس قدر شب خون ماریں کہ،چرچ،کلیسا،عوامی مراکز،بازار، مساجد،امام بارگاہیں اور اولیاء کرام کے مزارات سمیت کچھ  بھی محفوظ نہ رہے تاکہ پاکستان  کو ہندوستان اور اسرائیل کے بجائے اپنی فکر پڑجائے۔

یہ بات خصوصا احسان اللہ احسان اور کلبھوشن  کے اعترافات کے بعد اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ  پاکستان میں موجود شدت پسند گروہ  ہندوستان کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

ان جہادی کیمپوں کی آوٹ پٹ آج آپ کے سامنے ہے جسے دیکھ کر آپ بخوبی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ  ان کیمپوں میں بھرتی کئے جانے والے  لوگوں کو سو فی صد  درندوں کی طرح ٹریننگ دی گئی ہے۔

ہر تجزیہ و تحلیل اور ریسرچ و تحقیق کرنے والا بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ جوکام ماضی میں یہودی کرتے تھے ،مثلاً لوگوں کے گلے کاٹنا،عوامی مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا،مستحکم ممالک کو متزلزل کرنا،عورتوں کا استحصال کرنا،دین کے نام پر لوگوں کو ظلم و بربریت کی طرف دعوت دینا،پر امن بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا دینا،اپنے سوا باقی سب کو گمراہ سمجھنا،دوسرے مکاتب کے مفکرین اور سکالرز کو قتل کرنا،لاشوں کو درختوں اور بجلی کے کھمبوں لٹکانا،پرامن بستیوں میں خوف و ہراس پھیلانا،انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کرنا اور آستین کا سانپ بن کر ڈسنا ...وغیرہ وغیرہ آج یہ  سارے کام یہودو ہنود کے جہادی کیمپوںمیں تربیت پانے والےجہادی کررہے ہیں۔

ہندوستان اور اسرائیل مستقیما پاکستان کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے چنانچہ انہوں نے امریکہ و سعودی عرب کے ذریعے پاکستان کو فلسطین اور مسئلہ کشمیر سے  عسکری اور سفارتی طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا  ہے۔

اب  سعودی عرب کے تربیت یافتہ نام نہاد   مجاہدین،  پاک فوج کو ناپاک فوج کہہ کر حملے کرتے ہیں حتی کہ پاک آرمی  پبلک سکول کے ننھے منھے بچوں پر بھی انہوں نے کوئی رحم نہیں کیا۔

اس وقت پاکستان کے  دشمن جہادیوں کی پشت پر امریکہ ، ہندوستان ، اسرائیل اور سعودی عرب کی طاقت کارفرما ہے۔

 مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو  سعودی عرب نے سب سے بڑا ایوارڈ دیا  ہے اور ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب  کا دورہ کیا اور اس کے بعد سیدھا اسرائیل جا کر دم لیا۔ اس وقت ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور   اسرائیل کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم 4ارب 60کروڑ ڈالر ہے۔

دوسری طرف معاشی تعلقات کے علاوہ سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان زبردست  دفاعی تعلقات ہیں۔ ان دفاعی تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان جہادی ٹولوں کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔  2009 میں سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان اپنی تاریخ کے سب سے اہم دفاعی معائدے ہوئے جس کے بعد سعودی عرب نے  متعدد جہادیوں کو پکڑ کر ہندوستان کے حوالے کیا ہے۔

2012ء میں سعودی عرب نے  سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو ملک بدر کرکے بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ بھارت نے ابوجندل کو  2008ء کے بمبئی حملوں اور بعد ازاں پونا میں ہونے والے دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ اور دیگر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

 بعد ازاں چند سالوں کے اندر سعودی اور بھارتی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے سے سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان اور محمد عبدالعزیز کو بھی گرفتار کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افراد کئی سالوں سے بھارت کو مطلوب تھے۔ بھارت کو مطلوب افراد میں سے ایک بڑا نام حافظ سعید صاحب کا ہے، جن کو ہماری سعودی نواز حکومت نے پاکستان میں ہی نظر بند کر دیا ہے۔

اس وقت  موجودہ جہادی سسٹم  بڑی حد تک ، سعودی عرب، امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے۔ لہذا پاکستان سے نفرت کرنا،  پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی کہنا، پاکستان کی عوام پر خود کش حملے کرنا اور پاکستان کی فوج و پولیس پر شب خون مارنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دشمنوں کی دشمنی پر تعجب اور افسوس کرنے کے بجائے اپنی عوامی قوت اور سرکاری اداروں  پر اعتماد کریں اور ہر جگہ  پاکستان دشمن ٹولوں کی مشکوک سرگرمیوں سے اپنے اداروں کو بروقت آگاہ کریں۔ بے شک بیدار اور متحد پاکستان ہر دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت عرب ریاستوں میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔یہ جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔اس کا یہ  رقبہ  صحرا و نیم صحراہے اوریہاں کوئی بھی دریا ایسا نہیں جو پورا سال بہتا  ہوا،اسی طرح  یہاں بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں لہذا  صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔

80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں  روزگار کے سلسلے میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن یہاں  مقیم ہیں۔

سعودی عرب میں سب سے زیادہ فٹ بال  کو پسند کیا جاتا ہے  ۔ ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني  سعودی عرب میں فٹبال  کے معروف     کھلاڑی ہیں۔سعودی عرب میں مقبول ترین رقص ارضیٰ ہے  جو قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے ، سعودی عرب میں اس رقص کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ  کی ریاض  آمد کے موقع پر شاہ سلمان نے ضعیف العمری کے باوجود اسی رقص کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔

نئی نسل کو گمراہی اور فحاشی سے بچانے کے لئے سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم بعض علاقوں میں ایسے مراکز موجود ہیں جہاں  فلموں اور ڈراموں کے بجائے موسیقی اور  کچھ دیگر فنون پیش کئے جاتے ہیں البتہ امریکی فلموں کی وڈیوز اور ڈی وی ڈیز  کی خریدو فروخت  کی قانونی اجازت ہے اور ہر جگہ دستیاب ہیں۔

سعودی عرب کے  بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر ہمیشہ  پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولادہی  حکمرانی کرے گی لہذا ملک میں کسی سیاسی جماعت کے قیام  کا کوئی تصور نہیں۔ انتظامی لحاظ سے یہ ملک تیرہ صوبوں میں تقسیم ہے۔

۱۷۵۰ عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار  محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے ایک  نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے  عقائد و  افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک  نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ  معائدہ کیاکہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔

ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے ان پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

اس سے پہلے۱۹۳۰ میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے  John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدلیا۔ [1]

یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔

اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔

اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے  تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔

یاد رہے کہ سعودی عرب کو  مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔  حرمین شریفین کی وجہ سے  جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ   آج سے تقریباً ٨٠ سال قبل یعنی ١٣٤٤ھ/ ١٩٢٦ء میں ۸ شوال کو  مدینہ منورہ  اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔

ان میں سے  اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اسلامی آثار منہدم کرنے کی وجہ سے سعودی عرب کی ساکھ کو دھچکا لگا اور ہر سال آٹھ شول کو مسلمان یوم احتجاج اور یوم سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔

سعودی عرب کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے گھروں اور مزارات کو مٹانے سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جبکہ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان آثار کو باقی رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔

اسی طرح طالبان ، القاعدہ، داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی تشکیل سے فائدہ تو امریکہ کو ہوا لیکن اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کی مقبولیت پرشدید  منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ  سعودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی وزیراعظم مودی کو سب سے بڑے سیویلین ایوارڈ کا دیا جانا ،مسئلہ کشمیر پرسعودی عرب کا  بھارتی پالیسی کے مطابق پاکستان پر دباو ڈالنا، پاکستان میں دہشت گردوں  کا  پاک فوج کو ناپاک فوج  کہنا ،پاکستانی فوجیوں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلنا، قائداعظم کی ریذیڈنسی کو شرک کا مرکز کہہ کر تباہ کرنا، دیگرفرقوں اور مسالک کے مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانا، اسی طرح فوج و پولیس کے ٹھکانوں نیز پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ  کرنا اور پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی اور عوام کو واجب القتل کہنا اس سے  پاکستان کے اندر بھی عوام میں سعودی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

اسی طرح قطر کے ساتھ قطع روابط اور حماس و الاخوان کو دہشت گرد قرار دینے نیز اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے فروغ نے بھی  سعودی عوام اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی  بہت سارے سوالات  اور شکوک و شبہات  پیدا کر دئیے ہیں۔

امریکی اداروں نے   سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہو ہے کہ ان پالیسیوں سے  ان کا ملک ترقی کر رہا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق  یہ پالیسیاں سعودی عرب کے مفاد میں نہیں ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ شہنشاہ ایران کی طرح  جس نے بھی امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد شروع کیا اس کا انجام بہت برا ہوا۔

دنیا میں امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی  دشمنی کے بجائے اس کی دوستی نقصان دیتی ہے۔ چونکہ امریکی دوستی ایک ایسے بھنور کی مانند ہے جس  کا ظاہری حسن ،ملاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کی  اندرونی گردش  کشتی کو ڈبو دیتی ہے۔

 ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم امریکہ کے شر سے تمام دنیا باالخصوص عالم اسلام کو نجات دے ۔ آمین


تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree