امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر

15 جولائی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام 17  ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن 84 ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کی مشہور ترین کنیت ابو عبد اللہ اور معروف ترین لقب صادق تھا ۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت " ام فروہ " تھی ۔یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا م کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ امام صادق علیہ السلام نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں ‎سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

 آپ نےنصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر گرامی کی تربیت میں گزارا ۔یہ قیمتی زمانہ آپ کے لئے خاندان وحی سے سے علم و دانش، فضیلت و معرفت الہی کسب کرنے کا بہترین موقع تھا ۔ امام علیہ السلام اسلامی اخلاق اور انبیائی فضائل کے مکمل نمونہ تھے آپ کا ارشاد ہے {کو نوادعاۃ الناس بغیر السنتکم } لوگوں کو بغیر زبان کےاپنے عمل سے دعوت دو۔ آپ حلم ،برباری ،عفو درگزر کےپیکر تھے۔حاجت مندوں کی مدد کرنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ امام علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ کا سخت ترین دشمن منصور دوانقی جب آپ کی خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے بھی گریہ کیا اور کہا : کیا جعفر ابن محمد کی نظیر مل سکتی ہے؟مالک ابن انس کہتے ہیں کہ جعفر صادق جیسا نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے  دل میں یہ خطور ہوا کہ علم ،عبادت ،پرہیزگاری  کے اعتبار سے جعفر بن محمد سے برتر بھی کوئی ہوگا ۔ ابو حنیفہ جو حنفی  مذہب کے امام  ہے کہتے  ہیں کہ میں نے  جعفر صادق سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا  ۔ابن ابی العوجا ء جو کہ اس زمانے  کے مادہ پرستوں کا امام تھا امام  کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جعفر صادق بشر سے بالا تر ہیں اگر زمین پہ کسی روحانی کا وجود ہو سکتا ہے تو وہ بشر کی صورت میں تجلی ریز ہو تو وہ جعفر بن محمد ہیں۔آپ کے علمی مقام کو بیان کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ  اہل سنت کے ائمہ کے استاد ہیں ۔امام علیہ السلام کی بڑی درس گاہ میں بہت سے ایسے شاگردوں نے پرورش پائی جنھوں نے مختلف مضامین میں علوم و معارف اسلام حاصل کر کے دوسروں تک منتقل کئے  ۔آپ کے شاگردوں میں حمران بن اعین ، مفضل ابن عمر اور جابر بن یزید جعفی کا نام قابل ذکر ہیں ۔حمران کے بارے میں آپ علیہ السلام  نے فرمایا  حمران اہل بیت بہشت میں سے ہے جب لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ کسی کا تعارف کرائیں کہ اس سے سوال کریں تو آپ نے  فرمایا مفضل کو میں نے تمہارے لئے معین کیا وہ جو کہیں قبول کر لو اس لئے کہ وہ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔جابر کے بارے میں آپ نے فرمایا : جابر میرے نزدیک اسی طرح ہیں جس طرح سلمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے نزدیک تھے ۔ غرض علوم کو پہنچانے میں آپ کے والد بزرگوار نے زندگی کے آخری ایام میں اور آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں کام کئے ۔اور آپ نے ان تمام نظریات کو جن کو افلاطون اور ارسطو نے پیش کیے تھے سب کو باطل قرا دیا اور دلائل کے ذریعے حقائق کو ثابت کر دیا اور پہلی مرتبہ دنیا میں یہ بتا دیا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے اور کائنات میں صرف چار عناصر نہیں بلکہ کئی ہزار عناصر ہیں ۔

آج سائنس نے اتنی ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کوئی ماں کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو صا دق آل محمد  ع کےاس نظریے کے خلاف کوئی چیز ثابت کرے۔آپ کا ذات  اقدس علوم کا ایک بحر بیکران تھا جس کے مقابلے میں سائنس لاکھ درجہ ترقی کریں تب بھی اس درجے تک نہیں پہنچے گا اس لئے کہ آپ کا علوم کسبی نہیں تھا بلکہ آپ کو خدا کی طرف سے اور اپنے آباو اجداد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ۔

آپ نے دہریوں، قدریوں، کافروں اور یہودیوں و نصاری  سےبے شمارعلمی مناظرے کئے اور ہمیشہ  انہیں شکست  دی ۔ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں  ایک قدریہ مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخو ہشمندہوا، بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ سے مناظرہ کروعلماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی لیکن تمام علماء عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراایک خط حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکید کی کہ آپ ضرور تشریف لائیں حضرت امام محمد باقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے لیے شام چلے جاؤ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدربزرگوارکے حکم پر شام پہنچ گئے۔

عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقرعلیہ السلام کے بجائے امام جعفر صادق علیہ السلام کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں ہوسکتاہے کہ آپ بھی دوسرے علماء کی طرح شکست کھاجائیں، اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا،  تو مت ڈرو، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ میں مناظرہ ختم کردوں گا۔

قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں، اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف ایک بات کہنا چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچا تو آپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ جب خدا کوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیا اورکوئی جواب نہ دے سکا، اور مجلس مناظرہ برخواست ہوگئی۔

اہل سنت کی کتابوں میں ابوحنیفہ کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مناظرہ کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے ابوحنیفہ بن ابی شبرمہ و ابن ابی لیلی ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے  امام صادق علیہ السلام نے ابن ابی لیلی سے فرمایا : یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اس نے عرض کیا : یہ ایسا شخص ہے جو صاحب بصیرت اور دین میں اثر و رسوخ رکھتا ہے ۔ امام نے فرمایا : گویا یہ شخص دین کے امور میں اپنی رائے سے قیاس کرتا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ امام نے ابوحنیفہ سے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : نعمان ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : میں دیکھ رہاہوں کہ تم کسی بھی چیز کو اچھی طرح نہیں جانتے ؟ اس کے بعد امام نے کچھ مسائل بیان کرنے شروع کئے جن کا ابوحنیفہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔

 امام نے فرمایا : اے نعمان ! میرے والد نے میرے جد امجد سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس شخص نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا ، خداوند عالم نے اس سے فرمایا : آدم کو سجدہ کرو۔اس نے جواب میں کہا : {انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین }  میں اس سے بہتر ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ۔ پس جو شخص بھی دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے اس کو خداوند عالم قیامت کے روز ابلیس کے ساتھ محشور کرے گا کیونکہ اس نے قیاس میں ابلیس کی پیروی کی ہے۔ابن شبرمہ کہتے ہیں : پھر امام نے ابوحنیفہ سے سوال کیا:  ان دو چیزوں میں سب سے عظیم چیز کیا ہے : انسان کو قتل کرنا ، یا زنا کرنا ؟ ابوحنیفہ نے کہا : انسان کو قتل کرنا ۔ امام نے فرمایا : پھر خداوندعالم نے انسان کو قتل کرنے میں دو گواہوں کو کافی کیوں سمجھا جبکہ زنا کے شواہد میں چار گواہوں کو ضروری سمجھا ہے ؟پھر فرمایا : نماز زیادہ عظیم ہے یا روزہ؟ ابوحنیفہ نے کہا : نماز ۔ امام نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت اپنے روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ وائے ہو تجھ پر ! تیرا قیاس کس طرح حکم کرتا ہے ؟ خدا سے ڈر اور دین میں اپنی رائے سے قیاس مت کر  ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشہداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔ ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"، میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، ا سکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:

امرر علی جدث الحسین
فقل لاعظمہ الزکیہ

اگر اپنےجد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں تو ا نکے پاکیزہ بدن کو کہیں ۔۔۔۔۔"امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔

امام صادق علیہ السلام نےمنصور کے دور حکومت میں بڑی دشواری اور نگرانی میں زندگی گزار ی  لیکن مناسب حالات میں حکام وقت پر اعتراض اور ان کو ٹوکنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔جب منصور نے خط کے ذریعے چاہا کہ آپ اس کو نصیحت کریں تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا : جو دنیا کو چاہتا ہے وہ تم کو نصیحت نہیں کر سکتا اور جو آخرت کو چاہتا ہے وہ تمھارا ہم نشین نہیں ہو سکتا ۔ ایک دن منصور کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھ گئی ۔ ایسا بار بار ہوتا رہا یہاں تک کہ منصور کو تنگ آگیا  اور اس نے  غصے  میں امام جو تشریف فرما تھے پوچھا کہ خدا نے مکھی کیوں پیدا کیا ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا  تا کہ جو جابر ہیں انہیں ذلیل و رسوا کرے  ۔ آسمان ولایت و امامت  کے اس درخشاں ستارے کا  وجود ظالم حکمران منصور کے لئے برداشت نہیں ہو اور اس ملعون نے آپ کو زہر دینے کا ارداہ کیا اور آخر کار آپ کو زہر سے شہید کیا گیا ۔یوں 25 شوال 148ھ کو 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کو آپ کے پدر گرامی کے پہلو میں بقیع میں سپرد خاک کر دیا ۔{وَسَلَامٌ عَلَيْہِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا}

حوالہ جات:
۱۔تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳ ۔
۲۔ الطبقات الکبری، شعرانی، ج 1، ص 28 ; حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 193.
۳۔اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت، علی اصغر رضوانی، ص 99۔
۴۔ کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree