وحدت نیوز(آرٹیکل)  انڈیا کے جاسوس نے اعتراف کیا کہ ہم پاکستان میں مسلکی بنیاد پر تقسیم کے ایجنڈنے پر کام کر رہے ہیں اور پاکستان کا بیرونی دشمن پاکستان پہنچنے کے لئے کس سرحد کو استعمال کیا اس پر بہت شور مچایا گیا اور ایک خاص سوچ کے اھداف کی تکمیل کے لئے منطقی وغیر منطقی تانے بانے بہت ملائے  گئے،کوئی بھی دشمن ہو وہ اپنے ہدف تک رسائی کے لئے سارے راستے استعمال کرتا ہے اور ہر حربہ و راستہ  اور چاروں اطراف اور فضائی وسمندری سب راستے استعمال کر سکتا ہے ،وہ ہمسایہ ممالک کے علاوہ دیگر سب قریب اور دور ایئر روٹس استعمال کر سکتا ہے،  ہمارے زمہ دار اداروں کو دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بیدار اور باخبر کی ضرورت ہے اور یقینا حتی الامکان کوشش کر رہے ہونگے،ان بیرونی روٹس سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہم ان عناصر اور دشمن کے الہ کاروں اور تنخواہ داروں کو پہچانیں جو اس کے ناپاک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہچاتے ہیں یا پہچانے کے زمہ دار اور سہولتکار ہیں.

دشمن کا ہدف:

"دشمن نے بتا دیا کہ ہمارا ہدف مذہبی اور مسلکی بنیاد پر انتشار پھیلانا اور اختلافات پیدا کرنا ہے. تاکہ پاکستان کو کمزور کر سکیں."

دشمن کے الہ کاروں کہ پہچان:

"ہر وہ فرد یا افراد کا مجموعہ یا گروہ اور پارٹی جو ملک میں عملی طور پر مذہبی ومسلکی تفرقہ ایجاد کرے اور انتشار پھیلائے یا انتشار پھیلانے میں مدد کرے."

ملک شہریوں میں مسلکی اختلافات وانتشار پھیلانے کا زمہ دار کون؟

23 جون 2017 کو جمعۃ الوداع کے دن یکے بعد دیگرے دو دھماکے پار چنار شہر میں ہوئے اور جس کے نتیجے میں سیکڑوں پاکستانیوں کے گھر اجڑ گئے. اس کے بعد عوام نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا. احتجاج کرنے والے نہتے شہریوں پر ایف سی عناصر نے گولی چلا دی. اور کئی ایک گھروں کے چراغ گل کر دیے. اور ستم بالائے ستم کہ ان احتجاج کرنے اور دھرنے دینے والے ان مقتولوں کے ورثاء اور ان سے اظہار ہمدردی و یکجہتی کرنے والوں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک میں مذہبی اور مسلکی انتشار پھیلایا.

لیکن آئیں فیصلہ کریں کہ شہریوں میں انتشار پھیلانے کا زمہ دار کون ؟

1- اگر یہ سانحہ رونما نہ ہوتا تو یہ انتشار  نہ ہوتا . تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسں گروہ اور مجموعہ نے انتشار پھیلانے میں دشمن کی ھ مدد کی.آیا دھماکے کرنے والوں نے یا قتل وغارت پر احتجاج کرنے والوں نے؟
2- دشمن کے رابطے میں کون ہے دھماکے کرنے والا یا عام شہری دھماکوں کا شکار بننے والا ؟
3- انتشار پھیلانے میں دھماکے کرنے والوں کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرنا دشمن کی خدمت ہے یا دھماکے کرنے والوں کی وکالت اور حوصلہ افزائی دشمن کی خدمت ہے.؟
4- دھماکے کرنے والوں کے سہولتکار تلاش کرنا اور انکی نشان دھی کرنا دشمن کی خدمت ہے. یا انہیں بے نقاب کرنا اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کیلئے کوشش کرنا دشمن کی خدمت ہے.
5- ایک وقت میں دو سانحے ملک کے مختلف دو مقامات پر ہوتے ہیں کیا دونوں سانحات کے متاثرین کی دلجوئی اور مدد انتشار کا سبب بنتی ہے یا ایک سانحه کے متاثرین کی مدد اور دلجوئی اور دوسرے سانے پر مکمل خاموشی اور انکی دلجوئی اور مدد نہ کرنا انتشار کا سبب بنتی ہے.
6- کیا دونوں سانحوں کے متاثرین کے پاس جانا انتشار کا سبب بنتا ہے یا ایک سانحے کے متاثرین کے پاس جانا اور دوسرے سانحے کے متاثرین کے پاس نہ جانا انتشار کا سبب بنتا ہے.
7- کیا دونوں سانحوں کے متاثرین کی یکسان مالی مدد انتشار کا سبب بنتی ہے یا ایک سانحے کے متاثرین کو دو برابر اور دوسرے سانحے کے متاثرین آدھی مدد کرنا شہریوں میں انتشار کا سبب بنتی ہے.
8- دونوں سانحات کی برابر میڈیا کوریج شہریوں میں انتشار پھیلاتی ہے یا ایک سانحہ کی کوریج کرنا اور دوسرے کی کوریج پر پابندی لگانا عام شہریوں میں انتشار پھیلانا ہے.
محترم قارئین آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ دشمن کا آلہ کار کون ہے؟ اور ملک کی عوام کو تقسیم کس نے کیا. ؟ اور انتشار کس نے پھیلایا.؟

تحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہاں ہم جذباتی قوم ہیں ہاں ہم جذباتی ہیں حرمت رسول ص کے بارے میں ہاں ہم جذباتی ہیں  عزادری سید الشہداء سے متعلق ہاں ہم جذباتی ہیں اپنے ارض پاک کے بارے میں ہاں ہم جذباتی ہیں اپنی پاک فوج کے بارے میں. ہاں ہم ہیں جذباتی کیوں کہ ہمیں اپنی مٹی سے پیار ہے ہمیں پاکستان سے عشق ہے اور اس وطن کے غیور بہادر سپوتوں اس وطن کے محافظوں سے جنون کی حد تک محبت ہے،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں کیونکہ ہم اپنے وطن کیخلاف اور اپنے قومی  سلامتی کے ضامن اداروں کیخلاف کسی کی بکواس سننے کو قطعی طور پرتیار نہیں. ہاں ہم ہیں جذباتی کیوں کہ ہمیں اپنے نیشنل انٹرسٹ سے بڑھ کر اور کچھ عزیز نہیں،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں مگر پاراچنار میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد ساوتھ افریقہ لندن بھارت اور ملک کے اندر موجود چند ضمیر فروشوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور انکے مذموم مقاصد سے بخوبی آگاہ ہیں،ہاں ہم جذباتی قوم ہیں مگر فورتھ جنریشن وار فیئر سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ہاں ہم جانتے ہیں کہ امریکی اسرائیلی اور بھارتی خفیہ مشترکہ اتحاد پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگی حکمت عملی ترتیب دے چکا ہےجس کے تحت افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے کر جانا ھے اور پاکستان میں پاک آرمی کے خلاف  محاذ بنانا ھے ۔ درحقیقت یہی وہ ڈاکٹرائن ہے جس کے تحت اس وقت پاکستان کی کم از کم دو لاکھ فوج حالت جنگ میں ھے اور اب تک ھمارے  20 ہزار سے زائد فوجی جوان اس مٹی کا قرض چکانے اور پاکستان کی سالمیت کے لیئے ہمیں پرامن ماحول فراہم کرنے کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جو پاکستان کی انڈیا کے ساتھ لڑی جانی والی تینوں جنگوں میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔

اس جنگ کے لئے امریکہ اور انڈیا کا آپس میں آپریشنل اتحاد ھے اور اسرائیل کی تیکنیکی مدد حاصل ھے۔ حال میں پاراچنار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردی کی وارداتیں کروائی گئیں جبکہ ماضی میں کرم ایجنسی اور ہنگو میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے وادی سوات میں نفاذ شریعت کے نام پر ایسے گروہ کو مسلط کیا گیا جنہوں نے وہاں عوام پر مظالم ڈھائے اور فساد برپا کیا جس کے لئے مجبوراً پاک فوج کو پہلی بار انکے خلاف ان وادیوں میں داخل ہونا پڑا ۔ پاک فوج نے عملی طور پر انکو پیچھے دھکیل دیا لیکن نظریاتی طور پر ابھی بھی انکو  بہت سے جاہلوں اور احمق نام نہاد فساد فی الارض کے متمنی مذہبی جنونی افرادکی حمایت حاصل ہے۔

فورتھ جنریشن وار (Fourth-generation warfare) ایک نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جسکے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے، مرکزی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے ، صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے ، لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایا جاتا ہے ۔ اسکے ذریعے کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے اور اسکے ذریعے ملک میں خلفشار ، انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔

فورتھ جنریشن وار کی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ ، عراق اور لیبیا کا حشر کر دیا اب اس جنگی حکمت عملی کو پاکستان  پر آزمایا جا رھا ھے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہیکہ اس میں انہیں ابھی تک وہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی جسکا وہ خواب دیکھ رہے تھے،پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں، باراک اوباما نے اپنے منہ سے کہا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا میں 50 ملین ڈالر سالانہ خرچ کریں گے، آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کس مقصد کے لئے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جائینگی جبکہ انڈیا کا پاکستانی میڈیا پر اثرورسوخ دیکھا جا سکتا ہے ، پاکستان کی ساری قوم اس امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے۔

یہ واحد جنگ ھوتی ھے جسکا جواب فوج نے نہیں قوم نے دینا ہوتا ہے،فورتھ جنریشن وار بنیادی طور پر ڈس انفارمیشن وار ہوتی ہے اور اسکا جواب سول حکومتیں میڈیا اور محب وطن عوام دیتی ہے ۔ پاکستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں سول حکومتوں سے کوئی امید نہیں اسلئے عوام میں سے ھر شخص کو خود اس جنگ میں عملی طور پر حصہ لینا ہوگا،اس حملے کا سادہ جواب یہی ہے کہ عوام ہر اس چیز کو رد کر دیں جو پاکستان ، نظریہ پاکستان اور دفاع پاکستان یا قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہو،اگر اس مٹی کا قرض اور اپنا فرض ادا کرنا ہے تو ہم سب محب وطن عوام پاکستان پر یہ واجب ہیکہ ہم من حیث القوم متحد ہوں پاکستان اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اس مسلط کردہ جنگ سے نجات کے لیئے اپنا اپنا کردار ادا کریں.اور تفرقہ پیدا کرنے والوں کو شٹ اپ کال دیں۔

 پاکستان پائندہ باد

تحریر۔۔۔سید علی حسین نقوی
(سیکریٹری امور سیاسیات ایم ڈبلیوایم صوبہ سندھ)

وحدت نیوز(آرٹیکل) عید کا دن غم میں ڈوب گیا،ان چند دنوں میں  کوئٹہ میں تیرہ ، کراچی میں چار، پارہ چنار میں ایک سو سے زائد اور بہاولپور میں ایک سوچالیس افراد کا خون ناحق بہہ گیا۔

کس حادثے میں کون کتنا قصوروار ہے ، اب اس پر بحثیں ہوتی رہیں گی، سیاستدان بیانات داغتے رہیں گے اور ٹسوے بہاتے رہیں گے ، میڈیا نت نئی سرخیاں منتشر کرتا رہے گا اور  یہ سلسلہ  یونہی چلتا رہے گا ،یہانتک کہ تھک ہار کر لوگ اپنے گھروں کو سدھار جائیں گے اور پھر کسی نئے واقعے کا انتظار کریں گے۔

  آئیے سب سے پہلے  بہاولپور  چلتے ہیں  جہاں ایک سو چالیس انسان جل کر خاکستر ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ ایک الٹے ہوئے  آئل ٹینکر  سے بہنے والا تیل بالٹیوں اور برتنوں میں بھر کر لے جا رہے تھے، اس دوران ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا  اور  ۔۔۔

جہاں پر  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا   آج کے دور میں بھی موٹر وے  پولیس اتنی بے خبر ہے کہ اسےٹینکر الٹنے کی خبر نہیں ہوئی اور یا پھر پولیس نے  حسبِ عادت موقع پر پہنچ کر حفاظتی اقدامات نہیں کئے؟

وہیں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا  وہاں کوئی ایک بھی سمجھدار شخص نہیں تھا جو لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتا۔افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد  موت کے منہ میں چلی گئی لیکن  شاہراہِ عام پر کسی نے انہیں نہیں  روکا ۔

بعض ذرائع کے مطابق وہاں موٹر وے پولیس کے اہلکار لوگوں کو منع کرتے تھے لیکن لوگوں نے نہیں توجہ نہیں دی ، اگر ایسا ہے تو یہ سانحہ مشال خان کے قتل کے بعد دوسرا انسانیت سوز واقعہ ہے جو پاکستان پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

دوسری طرف یہ بھی خبر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ احمد پور شرقیہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر دورہ برطانیہ مختصر کردیا ہے۔ وہ آج وطن پہنچتے ہی بہاولپور تحصیل احمد پور شرقیہ جائیں گے۔  یہ  ایک اچھی خبر ہے تاہم وزیراعظم کو فوری طور پر پارہ چنار بھی جانا چاہیے  جہاں گزشتہ چار دن سے لوگ  دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔

پارہ چنار میں  شہدا اور زخمیوں کے لواحقین کے مطالبات میں سے سر فہرست  مطالبہ یہ ہے کہ کرنل عمر اور    کرنل اجمل ملک  سمیت ان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ، جنہوں نے شہدا  کے ورثا پر گولیاں چلا کر مزید لوگوں کو شہید کیا ہے۔

پارہ چنار کے عوام علاقہ کا کہنا ہے کہ  موجودہ سیکورٹی فورسز میں  دہشت گردوں کے  سہولت کار موجود ہیں، اس لئے ان کے بجائے مقامی ملیشیا اور رضاکار فورسز کو متعین کیا جائے ۔

لوگوں کے مطابق  ریڈزون  اور خندقیں صرف  دکھاوے کے لئے اور مقامی لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے ہیں، اگر ان کا مقصد عوام کی سہولت اور حفاظت ہے تو انہیں شہر سے باہر نکالا جائے۔

 لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ملیش خیل بارہ ہزار کنال اراضی پر حکومتی قبضے کو فوری ختم کرکے فی الفور اصل مالکان کے حوالے کیا جائے اور  پارہ چنارکو تقسیم کرنے کی کوششیں ترک کی جائیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت ، مقامی مسائل کو  پولیٹیکل ایجنٹ کے مراعات یافتہ عناصر کے بجائے مقامی اور حقیقی رہنماوں  کے مشوروں سے حل کرے۔

یہاں پر انتہائی افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ  دھماکے کے بعد سے اب تک لوگوں کو محصوررکھنے  کے لئے پارا چنار میں ہر طرح کی کمیونیکیشن  سروس معطل ہے۔   عوامی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پارہ چنار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں مقیم ہے۔ اس وقت دیگر ممالک اور علاقوں سے  لوگ اپنے عزیزوں کی خیروعافیت جاننے کے لئے بے قرار ہیں لیکن بے حس انتظامیہ  ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

ہماری انسانیت کے نام پر وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے اپیل ہے کہ فوری طور پر کمیونیکیشن سروسز بحال کی جائیں اور عوام علاقہ کے مطالبات منظور کئے جائیں۔

اس وقت ہمیں عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ جو سیاست دان  اور ادارے مسائل پیدا کرتے ہیں ، اور مسائل پیدا کرنے کی وجہ سے جن کی سیاست اور نوکریاں چلتی ہیں ، ان سے مسائل  حل کرنے کی امید رکھنا عبث ہے۔

اگر ہم نے اس ملک کو بحرانات سے نکالنا ہے تو  ہمارے مسائل  کا حل صرف اور صرف  یہی ہے کہ  ہمارے باشعور   اور پڑھے لکھے لوگ  بطور عوام ، عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، عوام کوپارٹیوں،   فرقوں، علاقوں، زبانوں اور قبیلوں میں تقسیم نہ ہونے دیں، عوام کو  اسلامی ، پاکستانی اور انسانی بنیادوں پر متحد کریں، لوگوں کو سیاسی وڈیروں اورحکومتی  اداروں کے مقابلے میں تنہا نہ چھوڑیں،عوامی ایشوز پر سمجھوتہ نہ کریں، عوامی مسائل کو اجاگر کریں اور  عوام کو عوام کی مدد کرنے کے لئے میدان میں لا ئیں، عوام کو آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاووے کے بجائے  ظالموں کو پہچاننا اور ان کے  خلاف بولنا  سکھائیں۔

عوام بیدار ہو جائیں  تو ایران کی طرح اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو روند سکتے ہیں اور  دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک آزاد  اور نیا ملک بنا سکتے ہیں،  لیکن اگر عوام سو جائیں تو وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حکمرانوں اور اداروں کے ہاتھوں لٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ممالک اور اقوام کی  تاریخ کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ بیدار اور باشعور عوام ہی  اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) بدعت کا لغوی معنی کسی نئے اوربےسابقہ کام کو انجام دیناہے اور عام طور پر بدعت ہر اس نئے کام کو کہا جاتا ہےجو فاعل کے حسن و کمال پر دلالت کرتا ہے۔اگر خدا  کے لئے لفظ بدیع استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال نے کائنات کو آلات و  وسا یل  اور کسی سابقہ چیز کو دیکھے بغیرخلق کیا ہے ۔ بدیع کبھی اسم فاعل {مبدِع}اور کبھی اسم مفعول {مبدَع}کے معنی میں استعمال ہوتاہے  اور آیۃ کریمہ { قُلْ مَا کُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل}کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا {رسول} نہیں ہوں،میں ہر دو معنی کا احتمال دیا گیا ہے ۔

روایات میں لفظ بدعت شریعت وسنت کےمقابلے میں استعمال ہواہے اور اس سے مراد اسلام اور سنت نبوی  کے خلاف کوئی کام کرنا ہے۔حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:{انما الناس رجلان متبع شرعۃ و مبتدع بدعۃ}لوگ دوقسم کے ہوتےہیں یاوہ جو شریعت کی پیروی کرتےہیں یا وہ جو بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ آپ ؑایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں:{اظہر بہ الشرائع المجعولۃ و اقمع بہ البدع المدخولۃ}آپ  ؐ کےذریعے غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہےاور مہمل بدعتوں کا قلع و قمع کر دیاہے ۔اسی طرح آپ ؑفرماتے ہیں :{ و ما احدث بدعۃ الا ترک بہ سنۃ}کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی جب تک کوئی سنت ترک نہ ہوجائے۔

فقہاء و محدثین نےبدعت کی مختلف عبارتوں میں تعریف کی ہے یہاں ہم چند نمونے ذکر کر تے ہیں :
{البدعۃ مااحدث مما لا اصل لہ فی الشریعۃ یدل علیہ واما ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ وفلیس  ببدعۃ شرعا و ان کان بدعۃلغۃ}بدعت وہ چیزہےجس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اگر شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو تو وہ شرعا بدعت نہیں ہےاگرچہ لغت میں اسے بدعت کہا جاتا ہے ۔
{البدعۃ مااحدث و لیس لہ اصل فی الشرع،وما کان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس بدعۃ}بدعت وہ چیزہےجو{پیغمبر اسلام کےبعد} ایجاد ہوئی ہواور اس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اور جس چیز کا دین میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃزیادۃفی الدین او نقصان منہ من اسناد الی الدین}بدعت شریعت میں دین کےنام پر کمی یابیشی کرنا ہے ۔
{البدعۃ،الحدث فی الدین و ما لیس لہ اصل فی کتاب ولاسنۃ}بدعت سےمراددینمیںکسی چیز کا اضافہ کرناہے جس  کے جواز پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃ فی الشرع ماحدث بعد الرسول و لم یرد فیہ نص علی الخصوص و لایکون داخلا فی بعض العمومات أو ورد نہی خصوصا أو عموما}شریعت میں بدعت وہ چیز ہےجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد ایجاد ہوئی ہو اوراس کے جواز میں کوئی خاص یاعام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔

علماء کی اصطلاح میں بدعت سےمراد دین میں کسی حکم  کا زیادہ یا کم کرنا ہے ۔یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں غیر موجودکسی حکم کودین میں شامل کرنا جبکہ اس کےجوازپر کوئی خاص یا عام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ لہذا جب بھی کوئی حکم سابقا موجودنہ ہو لیکن کتاب و سنت سےاستنباط کیا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگرچہ کتاب وسنت سے استنباط کرنےمیں غلطی ہونا ممکن ہے لیکن اجتہاد کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اس پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔

دین میں بدعت گذاری گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔کتاب و سنت ،عقل اور اجماع  مسلمین اس کی حرمت  پر دلالت کرتی ہے ۔ عقلی اعتبارسے قانون گزاری کا حق صرف خدا کو حاصل ہے  اور خدا کے اذن و مشئیت کےبغیر کسی کو دین میں قانون گزاری کا حق حاصل نہیں ہے  ۔قرآن کریم یہودیوں کی سرزنش کرتا ہے کیونکہ وہ دینی علماء کی بےچون وچرااطاعت کرتے تھےاور انہیں  ارباب قرار دیتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اتخَّذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ الله}انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماءاور راہبوں کواپنا رب بنا لیا ہے۔”یہودی علماءلوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ لوگ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار دیتے تھے اور لوگ بے چوں و چرا ان کی اطاعت کرتے تھے گویا یہ افراد حقیقت میں  ان کی پرستش کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت کےبارے میں فرماتے ہیں:{کل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار}ر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔حضرت علی علیہ السلامبدعت گزاروں کو خدا کےنزدیک مبغوض ترین افراد میں سےقرار دیتےہیں جنہیں خدا نے اپنی حالت پر چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ہیں اور دین میں بدعت ایجاد کر کے لوگو ں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :{إن أبغض الخلائق إلی الله رجلان:رجل وکلہ الله الی نفسہ فہو جائر عن قصدالسبیل،مشغوف بکلام بدعۃودعاء ضلالۃ}بےشک پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار نے اسی  کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو اور وہ درمیانی راستے سےہٹ گیا ہے ۔جوصرف بدعت کا دلداہ اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔اس قسم کے افراد اپنے برے اعمال کی سزا پانے  کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد{جنہیں گمراہ  کیا ہے} کا بھی بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
 حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنےکو فتنوں کی ابتدا قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں :{انما بدءوقوع الفتن احکام تبتدع و اہواءتتبع،یخالف فیہا کتاب الله ویتولی فیہارجال رجالا علی غیردین الله}فتنوں کی ابتداء ان خواہشات سےہوتی ہےجن کی پیروی کی جاتی ہے اوران جدیدترین احکام  سےہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور کتاب خدا کےبالکل خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سےالگ ہوجاتے ہیں ۔

بدعت اجتماعی زندگی میں نمایاں ہونےوالے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو معاشرے کو گمراہی ا ور فساد کی طرف دھکیل دیتی ہے  لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہی عن المنکر کرتےہوئے بدعت گزاروں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اگرچہ علماء پر اس حوالے سےسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اسلامی روایتوں میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :{من أتی ذا بدعۃ فعظمہ فانما یسعی فی ه  ہدم الاسلام}اگر کوئی صاحب بدعت کےپاس آئے اوراس کی بزرگی کا اقرار کرے تو اس نے اسلام کو تباہ کرنےکی کوشش کی ہے۔آپؐ ایک اور حدیث میں فرماتےہیں:{اذا رایتم اہل الریب و البدع من بعدی فاظہروا البراءۃ منہم}جب تم میرے بعد اہل شک و اہل بدعت کو دیکھو تو ان سےبرائت کا اظہار کرو ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{لا تصحبوا اہل البدع ولاتجالسوہم}اہل بدعت کےساتھ نہ تعلقات رکھو اور نہ  ہی ان کےپاس بیٹھو۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور حدیث میں  فرماتے ہیں:{اذاظہرت البدعۃ فی امتی فلیظہرالعالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃالله}جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں توعالم دین کو چاہیے کہ وہ اپنےعلم کا اظہار کرے اورجوایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے  ۔

بدعت کے مصادیق کی پہچان سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں مختلف مذاہب  کے پیروکار ایک دوسرے کو بدعت گذار قرار دیتے تھے ۔بدعت سے مرادکسی حکم کو دین کی طرف منسوب کرنا جبکہ اس پر دلالت کرنے کے لئے کتاب و سنت اور عقل سے کوئی دلیل [عام و خاص ،مقید و مطلق}موجود نہ ہو لیکن اگر کوئی ان منابع پراستناد کرتا ہواکسی چیز کے بارے میں حکم دے تواسےبدعت نہیں کہہ سکتےاگرچہ دوسروں  کے نزدیک یہ حکم غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اس دور میں وہابیت اور تکفیری گروہ مسلمانوں کو بدعت گزار قرار دیتےہیں ۔ان کی نظر میں مسلمانوں  کےاکثر اعمال بدعت اور حرام ہیں جیسے اذان و اقامت  کےدرمیان یا اذان و اقامت سےپہلےیا بعد میں پڑھنے والے اذکار ،میناروں پر بلند آواز سے قرآن پڑھنا ،اذان کے بعد اور شب جمعہ کو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجنا،رمضان المبارک کی راتوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ،عید میلا النبی منانا،بلند آواز میں نعت رسول مقبول پڑھنا ،تشیع جنازہ کے وقت بلند آواز سے اکٹھے لا الہ الا اللہ پڑھنا۔

مذکورہ موارد میں سے کوئی ایک بھی بدعت شمار نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مستحبات شرعیہ ہیں اور ان مستحبی اذکار کا ہر وقت پڑھنا ایک نیک عمل ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےمیلاد کےدن جشن و سرور کی محفلوں کا انعقادکرنا اور ان کی شہادت کے ایام میں مجالس عزا کا انعقاد کرنایہ سب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاہل بیت سے اظہار محبت ہے جو شریعت کی رو سے ممدوح اور پسندیدہ ہے ۔قرآن کریم اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے بارے میں فرماتاہے: کہہ دیجیے: کہ میں اس {تبلیغ رسالت}پر تم سےکوئی اجرت نہیں مانگتا سوائےقریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانصار کی عورتوں کو اپنےشہیدوں پر گریہ و زاری کرنےسے منع نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے حضرت حمزہ علیہ السلام پر گریہ و زاری نہ کرنےپر ان سے نارضگی کا اظہار فرمایا :{ولکن حمزۃ لابواکی}لیکن کوئی حمزہ پرگریہ نہیں کرتا ہے۔جب انصار نے یہ احساس کیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچا  کے لئے مجلس عزا منعقد کرنے کے خواہاں ہیں تو انہوں نے مجلس عزاء برپا کر کےحضرت حمزہ علیہ اسلا م پر گریہ وزاری کیں۔رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کے اس عمل کا شکریہ ادا کیا اوران کے حق میں دعا کی اور فرمایا:{رحم الله الانصار}خدا انصار پررحمت نازل فرمائے۔

حوالہ جات:
1.    احقاف،9۔
2.    مفرادات راغب ،کلمہ بدع۔
3.    نہج البلاغۃ،خطبہ 161۔
4.    ایضاً،خطبہ161۔
5.    ایضاً،خطبہ145۔
6.    ابن رجب ،الحنبلی ،جامع العلوم الحکم،ص 160۔
7.    ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج17،ص9۔
8.    الشریف المرتضی ،الرسائل ،ج2،ص264۔
9.    الطریحی ،مجمع البحرین ،ج1،کلمہ بدع۔
10.    علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج74،ص203۔
11.     توبہ،31۔
12.    اصول کافی ،ج2،باب الشرک،حدیث 3،تفسیرطبری،ج10،ص81۔
13.    اصول کافی ،ج 1،باب البدع،حدیث12۔ابن اثیر ،جامع الاصول،ج5 ،حدیث 3974۔
14.    نہج البلاغۃ،خطبہ،17۔
15.    ایضاً،خطبہ 50۔
16.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 3۔
17.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 4۔
18.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 3۔
19.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 4۔
20.    شوری ،23۔
21.    سیرت ابن ہشام، ج1،ص99۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ماہ مبارک رمضان تھا، تہران پارلیمنٹ اور مرقد امام خمینی(رہ) پر دہشتگردانہ حملوں میں  ۱۲ روزہ دار شہید اور بیالیس  زخمی ہوگئے،  جمعۃ الوداع تھا، یعنی ماہ مبارک کا عظیم القدر اور آخری جمعہ ، اس روز  کوئٹہ کے آئی جی آفس کے سامنے شہدا چوک پر بارودی مواد سے بھری گاڑی میں زور دار دھماکے سے 6پولیس اہلکاروں سمیت 12افراد شہید 21افراد زخمی ہوگئے۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اسی مقدس دن  پارا چنار میں یکے بعد دیگرے 2 بم دھماکوں میں 45 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ  کراچی میں  نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 4 پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔

ابھی دن کے زخم ہرے ہی تھے کہ رات کو  3دہشت گرد گروپوں  نے مسجد الحرام پر حملہ کیا،2گروپوں کا تعلق مکہ جبکہ  ایک گروپ کا تعلق جدہ سے تھا۔ اگر چہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اس حملے پر بھی   ہر باشعور اورباضمیر انسان کا دل اداس ہے۔

بدقسمتی سے عالم اسلام کی عدم توجہی اور غفلت کے باعث ،مسلمانوں میں  اب ایک ایسی دہشت گرد نسل تیار ہوچکی ہے،  کہ جس کے نزدیک ماہِ مبارک رمضان،  مسلمان کے خون کی حرمت، سرزمین  حرم کا تقدس ، ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

یہ نسل آسمان سے نہیں اتری، یہیں مسلمانوں کے  ہی بعض دینی مدارس میں  تیار کی گئی ہے۔ اس کی وارداتوں  خصوصا عورتوں، بچوں، عبادت گاہوں، سکولوں  اور بازاروں میں نہتے لوگوں پر حملوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اسے مکمل اسرائیلی اور صہیونی خطوط پر پروان چڑھایا گیاہے۔

پشاور پبلک سکول کا سانحہ اس پر دلیل ہے کہ ان کے   انسانی احساسات و جذبات  کو کچل دیا گیا ہے، ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو مار دیا گیا ہے، ان کے دماغوں میں صرف دو ہی  باتیں بٹھا دی گئی ہیں،  دنیا میں اپنی حکومت قائم کرو یا پھر آخرت میں حوروں سے ملو۔

جب انہیں پاکستان کے بعض دینی مدارس میں خلافت کا سبق پڑھایا جارہاتھا اور افغانستان کے تخت کے خواب دکھائے جا رہے تھے، تب تو خلیجی ممالک  اور پاکستان کو ہوش نہیں آیا ،  البتہ یہ یقینی بات ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ سوچ کر افغانستان میں آیا تھا۔ امریکہ نے  افغانستان میں ان  گوریلوں سے بھرپورفائدہ اٹھا یا اور پھر  اس کے بعد ان سے  منہ پھیر لیا۔

اب مسئلہ صرف اکیلے امریکہ کا نہیں تھا ، امریکہ کے وعدے میں تو خلیجی ریاستیں  بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ اگر گوریلے واپس اپنے اپنے ممالک میں جاتے  تھے تو  خود  خلیجی  ریاستوں  میں قائم بادشاہتوں کے لئے خطرہ تھے، اور اگر انہیں مناسب طریقے سے استعمال نہ کیا جاتا تو ممکن تھا  کہ کہیں اسرائیل کا ہی رخ نہ کرلیں، چنانچہ ان کا رخ  عراق اور شام  کی طرف موڑ دیا گیا۔

اگرچہ شام اور عراق کی حکومتوں نے ان کے کس بل تو نکال دئیے ہیں تاہم پاکستان چونکہ ان کا مادری وطن ہے ، یہاں ان کے بہت زیادہ نیٹ ورکس ہیں۔

یاد رہے کہ ماہِ مبارک رمضان میں حملہ اگرچہ ایران  اور سعودی عرب  میں بھی ہوا ہے ، لیکن پاکستان کی نوعیت مختلف ہے۔ ایران نے بھی چند گھنٹوں کے اندر  دہشت گردوں کو ان کے کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیا اور سعودی عرب نے بھی ایسا ہی کیا لیکن پاکستان۔۔۔

پاکستان نے  دہشت گردوں کے خلاف عملا  پہلے بھی نہ کچھ کیا ہے اور نہ  آئندہ کرے گا۔  اس کی وجہ بہت واضح ہے، چونکہ خلیجی ریاستوں نے اگرچہ طالبان و القاعدہ و داعش کی ہر ممکنہ مدد کی لیکن اپنی سرزمین پر ان کے بیج نہیں بوئے ،  لیکن پاکستان کی سر زمین پر باقاعدہ دہشت گردی کی کاشتکاری کی گئی۔ ایک لمبے عرصے تک لوگوں کو یہ ذہن نشین کروایا گیا کہ  یہ گوریلے اور کمانڈو تو ہمارے ہیرو ہیں۔

جب انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں تو  ابتدا میں لوگ دہشت گردی کی مذمت کرنے کو بھی گناہ سمجھتے تھے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ  یہ مصلحین اور خلافت اسلامیہ کے علمبردار  تو  کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔

بعد ازاں  ایک لمبے عرصے تک لوگ  یہی سمجھتے تھے کہ یہ صرف ایک فرقے کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں،  لہذا ہم تو محفوظ ہیں۔ ۔ دوسری طرف  ان کمانڈوز کو  حکومت قائم کرنے کا اتنا شوق دلایا گیاتھا  اور حکومت کے قیام کے لئے ان کی ایسی برین واشنگ  کی گئی تھی  کہ انہوں نے  پاکستان پر ہی قبضہ کرنے  کی کوششیں شروع کر دیں۔

چنانچہ جب  ہر طرف بلاسٹ اور حملے ہونے لگے تو اس وقت  لوگوں کو یقین آیا کہ  یہ امریکہ کے مفاد کی تکمیل کے لئے تربیت پانے والے گوریلے اور کمانڈوز کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں فرقہ واریت کے خول سے لوگوں نے تب سر نکالا جب دہشت گردی کی جڑیں پاکستان کے اندر دور دور تک پہنچ گئیں ۔ تمام  اداروں میں دہشت گردوں کے حامی ، سرپرست اور سہولت کا ر  پھیل گئے۔ چرچ، مساجد، مدارس ، سکول ، قائد اعظم کی ریذیڈنسی، فوج و پولیس کے مراکز اور اولیائے کرام کے مزارات ۔۔۔  کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔

یاد رکھئے !یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد باہر سے نہیں آتے ، یہیں پر تیار کئے جاتے ہیں، اس کا ایک واضح ثبوت گزشتہ روز پارا چنار میں ہونے والے دھماکے بھی  ہیں۔

پارہ چنار کو چاروں طرف سے سیکورٹی فورسز نے گھیرے میں لیا ہوا ہے، مقامی افراد کی بھی جابجا چیکنگ اور شناخت کی جاتی ہے، اجنبی آدمی داخل ہی  نہیں ہو سکتا، خود سیکورٹی عملے کے بقول پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، ایسے میں  دہشت گرد  بارود سمیت پارہ چنار میں  داخل ہو جاتے ہیں اور کسی بھی چیک پوسٹ پر  انہیں  روکا نہیں جاتا۔

دوسری طرف ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر مرتبہ دھماکوں کے بعد نہتے عوام پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے   فائرنگ کر کے مزید لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ ہماری بحیثیت پاکستانی حکام بالا سے یہ اپیل ہے کہ پاراچنار  کے عوام کے ساتھ اگر کوئی ہمدردی نہیں کی جاسکتی تو نہ کی جائے البتہ ان کے قانونی مطالبات ضرور پورے کئے جائیں۔

حکومت کو چاہیے کہ عوام علاقہ کو اپنے اعتماد میں لے اور  سیکورٹی فورسز میں موجود  دہشت گردوں کے سہولت کار وں کی شناخت کر کے   ان کے خلاف  کارروائی کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام علاقہ کے مطالبے کے مطابق  سیکورٹی کی ذمہ دارای مقامی افراد پر مشتمل ملیشیا یا رضاکار فورسز کے حوالے کی جائے اور سیکورٹی فورسز کے جو لوگ  شہدا اور زخمیوں کے لواحقین پر گولیاں چلانے کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں ہر قیمت پر سزا  دی جائے۔

کاش ہمارے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں  کو یہ احساس ہو جائے کہ عید سے ایک دن پہلے جن گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں ، ان   پر گولیاں نہیں برسائی جاتیں بلکہ  ان کے ساتھ تعزیت کی جاتی ہے اور ان کے غم میں شریک ہوا جاتا ہے۔

بہر حال  اگر ہمارے حکمرانوں سے  یہ احساس ختم ہو  گیا ہے تو بحیثیت قوم اس عید پر ہمیں،  وطن عزیز کے تمام  شہدا ،خصوصا  گزشتہ روز کے شہدا  کے لواحقین کو اپنی محبت  کا احساس  دلانا چاہیے۔

ان بے کسوں  کا احساس  کرنا چاہیے کہ  جن کے پیارے عید سے ایک یا دودن پہلے اس دنیا سے چلے گئے ہیں،  احساس کو زندہ رکھئے ! احساس زندگی کی علامت ہے ، اگر احساس مر جائے تو قومیں مر جایا کرتی ہیں۔

 بقول شاعر:

موت کی پہلی علامت صاحب

 یہی احساس کا مر جانا ہے


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہم سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔

جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔

یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔

 یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔

بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

 چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔

 یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نےانجمن  محبّین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔

 کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔

 فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔

 حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔

 چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔

 حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔

 دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔

 جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔

اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہار رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔

 40 سال  کےبعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔

اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔

 اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔

 چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔

حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔

بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو، اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔

98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔

 64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

 رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔

 بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔ حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر  دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔

 پھر یہ سپین میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا۔ سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔

پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

 پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا، پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا، پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔

 چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔

فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔

 اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔

 1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔

اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔

 انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

 یہ صحافی اپنی موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔

 ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

 اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی، چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے۔

 یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے نہ صرف قربانیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔

 چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔

 چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔

 مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔

اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔

ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔

دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔ اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔

 اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔

 اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

 اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن" نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔

برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے اپنے عربی مزاج کے مطابق  ، اس مسئلے میں بھی عربی و عجمی کی تقسیم کو باقی رکھا اور سب سے پہلے تو اسے عربوں  کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی،  اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔

امریکہ و اسرائیل نے اس کے بعد  عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے  بھرپور کام کیا۔

 سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔

اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطینوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔

تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں 1979ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن عرب ریاستوں نے ان کی مدد کرنا چھوڑ دیا تھا۔  ایران میں اسلامی انقلاب نے فلسطین کو عربی مسئلے کے  بجائے اسلامی مسئلے طور پر اٹھایا،  جس کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا اور مسلمانوں نے از سرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے  کے لئے سوچنا شروع کر دیا۔

 ایران میں اسلامی انقلاب کے بانیوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم قدس کے طور پر منانے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دنیائے اسلام نے  یوم القدس  کو بھرپور طریقے سے منعقد کرنا شروع کر دیا اور یوں فلسطینیوں کو نئی ہمت اور حوصلہ ملا، یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں کی مدد اور امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج اس وقت جب ساری خلیجی ریاستیں امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہیں، اس کے باوجود فلسطینی بچے پتھر لے کر ٹینکوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی   ٹینکوں پر   پتھر  برسانا  در اصل طمانچہ ہے ان ممالک کے منہ پر جو فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینی  ، غلامی کے باوجود آزاد اور بہادر  ہیں  جبکہ  فلسطینیوں سے غداری کرنے والے آزادی کے باوجود غلام  اور بزدل ہیں۔

اسرائیل مردہ باد۔۔۔ فلسطین زندہ باد


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree