وحدت نیوز(آرٹیکل)  سورج افق میں چھپ چکا تھا رات کی تاریکی چھا رھی تھی طلاب مدرسے کی عمارت کو دلھن کی طرح سجھا رھے تھے سبھی کے چھرے خوشی و سرور سے تلملا رہے تھے کچھ ہی دیرمیں سارےمدرسے پے قمقموں کی روشنی چمکنے لگی جشن کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک ایسی خبر آئی جسے سنتے ہی سب چہرے اتر گئے خوشی غم و غصہ میں تبدیل ہوگئی جشن کی تقاریر کے موضوعات بدل گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے قمقموں کی روشنی ماند پڑ گئی ھو جی ھاں یہ پچهلے سال تین شعبان کی بات ہے جب ہم محسن انسانیت،علمبردار حریت،غیور و آزاد صفت انسانوں کے قافلہ سالار امام حسین ؑابن علیؑ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف تھے اسی دوران خبر ملی کہ پاراچنار کے محب وطن اور غیرتمند عوام پر کہ جنھوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج ایک اور ظلم ڈھایا گیا ہے جی ہاں پتہ چلا کے عوام کی جان و مال کے رکھوالوں نے مومنین پے صرف اس لیے فائر کھول دیے کہ وه نواسہ رسول کی آمد کی خوشی منارہے تھے ہاں وه محب وطن قوم جس نے پاکستان کے لیے سب سے زیاده قربانیاں دیں اور دہشتگردی نے جس کی ماؤں سے جوان بیٹے بھنوں کا سہارا بھائی بچوں سے والدین اور جوان سال بیٹیوں سے انکے سہاگ چھینے آج وه ریاستی دہشتگردی کے نشانے پر تھی سمجھ نھیں آرہا تھا کہ آخر کون آواز اٹھائے گا کون اس مظلومیت کو پاراچنار کے پهاڑوں سے نکال کر ریاستی اداروں کی دہلیز تک پهنچائے گا جمعہ 13 مئی 2016 کو مختلف تنظیموں نے احتجاج کی کال دی مختلف جگہوں پے احتجاج کیا گیا اسلام آباد کے مرکزی احتجاج کے اختتام پر ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفرى نے مظلوموں کے مطالبات کی منظوری تک بھوک ھڑتال کرنے کا اعلان کردیا سب حیران تھے کہ ناصر ملت نے یہ کیسا سخت اعلان کردیا جبکہ آغا کے بقول وه کسی بڑی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملت کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے خود کو مشکل میں ڈالنا زیاده بھتر سمجھ رہے تھے ۔

13 مئی وه تاریخی دن تھا جب ملت مظلوم پاکستان کے ایک مخلص رہنما نے وطن عزیز کو دہشتگردی کی عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس موجود تھا دن ڈھلا تاریکی چھائی اور یہ عالم بزرگوار بھوک برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے زمین پے اگی گھاس پے اپنی عبا سر کے نیچے رکھے سو گیا جن احباب کو وه مقام دیکھنے کا موقع ملا وه جانتے ہیں کہ وه جگہ سیکیوریٹی اعتبار سے انتہائی غیر محفوظ تھی لیکن شہادت کے تمنائی کے لیے خطرات کوئی ارزش نہیں رکھتے راجہ صاحب اور آغا احمد اقبال زمین پے سو گئے جبکہ آغا اعجاز بھشتی اور چند جوان جن کی تعداد تقریبا 12 یا 14 سے زیاده نہیں تھی آغا کی حفاظت کے لیے جاگ رہے تھے اتنے میں آسمان نے کھا آج اس مرد مقاوم کی مقاومت کا امتحان لیا جائے تیز ہوا چلی اور طوفان کی شکل اختیار کرگئی جوان راجہ صاحب کے ٹینٹ کے ستون پکڑ کے کھڑے ہوئے تو ہوا نے سارا ٹینٹ پارا پارا کردیا راجہ صاحب بھی نیند سے بیدار ہوگئے ادھر سے ٹینٹ ناکاره ہوکے گرا اور ادھر سے بارش نے برسنا شروع کردیا آغا صاحب سے گزارش کی گئی کہ آپ گاڑی میں چلے جائیں لیکن شاید شھداء کی مظلومیت کا درد ناصر ملت کو وھاں سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا ہم نے ایک بینر کے ساتھ آغا صاحب پے سایہ کیا کافی دیر بارش کے بعد ناصر ملت سمیت سب جوان بھیگ چکے تھے فجر کی نماز بھی بارش میں ھوئی اور دعائے عہد کے بعد ناصر ملت نے بارش میں بیٹھے ہوئے صبر کے موضوع پے درس دیا اور خانواده عصمت و طہارت کے مصائب پڑہے ناصر ملت بھوک برداشت کرتے رہے اور ظلم پے خاموش حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑتے رہے ۔

آغا کا بلڈ پریشر کم اور شوگر مسلسل بڑھتا رہا دھیرے دھیرے کھڑے ہوکے نماز پڑھنا دشوار ہونے لگا کئی بار آندھی طوفان اور بارش نے امتحان لیا لیکن یہ مرد مجاہد کھلے مقام پر دہشتگردوں سے بے خوف اور کیمپ میں آنے والوں کی تعداد سے لاپرواه اپنے فریضے کی انجام دهی میں مصروف رھا کبھی فون پے بات کرتے ھوئے زمین پے گرا اور کبھی طبیعت زیاده ناساز ھونے پر ھسپتال منتقل ہوا لیکن اپنے وعده سے پیچھے نہ ہٹا مظلومیت کی آواز ہر باضمیر کے کانوں تک پهنچی اور شیعہ ، سنی، دیوبندی، عیسائی، ھندو،سکھ،وکلاء،میڈیا،خواتین،بچے، جوان،بزرگ اور تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے حمایت کے لیے بھوک ھڑتالی کیمپ تشریف لائے پاراچنار ڈی آئی خان گلگت اور پنجاب میں مظلوموں کے مطالبات پر کافی حد تک پیشرفت ہوئی جسکی تفصیلات ایک مکمل کتابچے میں چھپ چکی ہیں، شوریٰ عالی  کے اصرار اور مراجع و فقہاء کے خطوط کے بعد ناصر ملت نے شھید قائد کی برسی پے اپنی جدوجھد کے اس مرحلے کو تمام کیا اور اپنے خلوص اور سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا البتہ ابھی اس مادر وطن میں امن و ترقی کے حصول کی جنگ جاری ہے اور قائد کے پاکستان کو لوٹانے کے لیے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کی ضرورت ہہے ملت مظلوم پاکستان کو ایسے مخلص لیڈرکا ساتھ دینا ہوگا اور اپنی مسلسل استقامت سے دشمنان وطن کو ذلیل و خوار کرنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔سید حسن رضا نقوی

تعلیم و تربیت

وحدت نیوز(آرٹیکل) قلم دیکھو مسلسل رو رہا ہے             
تماشا کاغذوں پر ہو رہا ہے

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا،ایک اچھا پڑھا لکھا انسان ہی عشق اور جنون سے انقلاب لا سکتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے عہد اقتدار میں تعلیمی اداروں میں غنڈہ گردی کے کلچرنے فروغ پایا.تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہے.افسوس کے آج ہم تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ہم سب کی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے بچوں کو تعلیم و تربیت دینا،اور تعلیم کی کمی،تربیت کا فقدان ،بے روزگاری نے نوجوان نسل کو کرائم،اور جرائم کی طرف راغب کیا ہی تعلیم خود کو شناخت کرنے نکھارنے، ایک امن اور قانون پسند خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔جب تک حکومتوں نے تعلیم کو پہلی ترجیح نہ بنایا پاکستان انتہا پسندی اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ہمارے حکمران پڑھے لکھے ہوتے تو آج پاکستان میں تعلیم کا اچھا میعار ہوتا.کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو ہر جلسے میں سڑکوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیا اس ملک میں صحت اور تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اورجب تعلیم یا علم کے نام پر دھندا کرو گے تو گندی ذہنیت کی نسل تیار ہوگی

"ہم تعلیم خرید سکتے ہیں مگر عقل خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے۔"

تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم

وحدت نیوز(آرٹیکل) سینکڑوں برس ہوچلے ہیں کروڑوں انسان اس آرزو کو لیئے منتظر پھر رہے ہیں کہ آپؑ تشریف لے آئیں۔ باپ بیٹوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے چلے گئے،مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں ،خواتین، مرد، بچے ،بوڑھے ،جوان ہر مذہب، مسلک ،مکتب اور خطہء ارضی وسماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کی آمد کی حسرت دل میں لیئے زندگی کے سفر کو طے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔پھول ،کلیاں،گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں ،شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نہیں کرپاتی اور لاکھوں اشک بہاکر آپؑ سے التفات کا اظہار کرتی ہیں ،بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رہتا ہے ،عاشقان خون کے آنسو بہا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں ،ہر ایک آپؑ کے دیدار کامشتاق ہے، ہر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواہش مند ہے، ہر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔یہ تڑپ ،یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواہش دیدار۔۔۔۔۔وقت گذرنے کے ساتھ مایوسی نہیں پھیلاتے بلکہ ۔۔۔۔۔آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رہے ہیں لہٰذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ہو ۔۔۔۔۔مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ہو،آنسو بہائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں اور دنیا کو ظالموں سے آزاد کروائیں ،کیسی کیسی اُمیدیں ہیں جو آپ ؑ کے ظہورتک موقوف ہیں ۔۔۔۔۔کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ! وہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں ،جنہیں آپؑ کا منتظر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ہوئے ہیں اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں ۔۔۔۔۔15 شعبان المعظم آپ ؑ کے میلاد پاک کا مبارک دن ہے ،اس روز پوری دنیا میں عاشقان مہدی ؑ، آپؑ کی یاد سے محافل گرماتے ہیں، آپؑ کے ذکر سے لذت دیدار و تڑپ ،انتظار کے لطف اُٹھاتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ سچے اور کھرے عاشقان ہر دم و ہر لحظہ اسی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں  سچے اور کھرے عشق کا تقاضا بھی یہی ہے۔

 آپ کا فرمان ہے کہ " میں خاتم الاوصیاء ہوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب ومشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ " میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پہنچے گا جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ہورہے ہوتے ہیں"۔

آج ہم پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جن مشکلات سے دوچار ہیں ان کو سوچ اور سمجھ کر کئی ایک بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے اور ناگہانی آفات گھیرنے والی ہیں،مشکلات اور مصائب پہاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہوتی کہ ۔۔۔۔۔یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں ،مصائب اور پریشانیاں کافور ہوجاتی ہیں ،غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ہوجاتا ہے ،کسی کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی مگر ایسا ہوتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔یہی وہ فائدہ ہوتا ہے جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پہنچا رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اور اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہم (اہل تشیع) بغیر صاحبؑ( سرپرست وولی ) کے نہیں ہیں ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایسے الطاف و کرم پر آپؑ کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں ۔۔۔۔ان کا لطف و کرم جاری رہتا ہے،ان کے کرم کے سایہ کی چھت ہمیشہ تنی رہتی ہے۔۔

دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر والزمان ؑ کی صف میں شمار ہونا یقینا ایسی سعادت و عبادت ہے جس کا شاید کوئی تقابل نہ ہو مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب ،طہارت روح و نظر انسانیت سے محبت ،درد مند دل، اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ضرورت ہے وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ہمیں اس روز (15 شعبان ) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اپنا احتساب کررہے ہوں تو حقیقی منتظر کہلانے کے حق دار ہونگے۔

دوستان و خواہران محترم ! آج کے دن اس بات کا جائزہ ضرور لیں کہ ہم جس امام ؑ کا انتظار کر رہے ہیں ان کی آمد کے بعد معاشرے میں کونسی تبدیلیاں پیدا ہونگی، اگر ہم ان تبدیلیوں کیلئے آج سے ہی کوشش شروع کردیں تو یہ زمینہ سازی آپؑ کی خوشنودی کا باعث بن جائے گی ۔۔۔۔۔اگر امامؑ کی آمد پر مستضعفین مستکبروں پر غالب آنے والے ہیں اور کمزور قرار دیئے گئے ،لوگ غالب قرار پائیں گے ،عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا تو اس کا م کیلئے آج ہی سے کوششیں کیوں نہ شروع کی جائیں ۔ دردمندوں اور زخم خوردوں کیلئے مرہم کیوں نہ فراہم کیا جائے،اگر ہمارے دل مظلوموں و ستم رسیدوں کیلئے تڑپنے سے قاصر رہتے ہیں،ہماری نگاہیں اپنے سامنے ظلمہوتا دیکھتی ہیں اور لا تعلق ہو جاتی ہیں تو معاملہ درست نہیں ہے،اگر ہمارے آس پاس،ہماریے شہروں،ہمارے دیہاتوں اور ہمارے محلوں میں ظلم ہو رہا ہو،اسے روکنے کی جرات نا کی جائے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جائے یا لاتعلقی کا مظاہرہ کیا جائے تو کیسے امامؑ کی ہمرکابی میں ظالموں کے خلاف میدان سجایا جائے گا ۔ عدل کی حکومت تمام عالم پر قائم کرنے کیلئے آج سے ہی تبدیلی کی تحریک کیوں نہ شروع کی جائے ۔یاد رکھیں معاشرے میں تبدیلی ذات میں تبدیلی سے مشروط ہے ۔ معاشرہ سازی کا عمل خود سازی کے راستہ سے ہوکر گذرتا ہے۔

حدیث پاک ہے کہ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا"

امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رہنا ضروری ہے او ر جو دوست و خواہران میدان عمل میں رہتے ہیں انہیںخود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاہیئے ۔ ہر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے اگر سفر بہ خدا ہے تو یقینا ہم زما نے کے امام ؑ کی خوشنودی حاصل کر نے میں کامیاب ہوں گے۔ یوم میلاد امام زمانہؑ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ہم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ،ہماری بے قراری ،ہماری دعائیں ،ہماری مناجات، ہماری خواہش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ہم حقیقی منتظر کہلا سکیں گے۔

ایک دوست نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ امام حکم ربی سے غائب ہیں اور امر ربی سے ہی ظہور فرمائیں گے،اس صورت میں ہمیں دعائیں مانگنے،گڑگڑانے اور آنسوئوں کیساتھ مناجات اور ظہور کی دعائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ امر ربی سے ظاہر ہونگے ،ہماری دعائیں انہیں کیسے ظہور پر مجبور کر سکتی ہیں،،بندہ حقیر نے عرض کیا کوئی شک نہیںکہ امام کی غیبت امر ربی سے ہوئی،اور ان کا ظہور بھی امر ربی سے ہی ہو گا،اس لیئے کہ امر ربی کے سامنے کسی کو بھی سرتابی کی جرات نہیں ،چاہے کوئی بھی ہو،اس لیئے آپ کا ظہور پر نور امر ربی سے ہو گا اللہ جب چاہے گا انہیں ظہور کا اذن فرمائیں گے،مگر بقیۃ اللہ اعظم خود انتظار فرما رہے ہیں اپنے ظہور کا اسی لیئے آپ متظِر بھی ہیں اور منتظر بھی،جب وہ بھی منتظِر ہیں کہ ظاہر ہو کر ظلم کا خاتمہ کر دیں تو ان کا بیقراری میں فرمانا ہے کہ میرے جلد ظہور کی دعا کرو،یہ بہت بڑی عبادت کہی گئی ہے،آپ کی غیبت بلا شک و شبہ ایک الہی راز اور سر ہے ،اس راز سے آئمہ طاہرین نے بھی پردہ نہیں اٹھایا ،ہم بھی نہیں اٹھاتے بس انتظار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اپنی آخری حجت کو جلد اذن ظہور دے ،ہمارا جلد ظہور کی دعا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم مایوس نہیں ،ہم ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں،ہم ان سے محبت اور عشق و عقیدت رکھتے ہیں ،ہم تیاری کر رہے ہیں کہ ظالموں کو نابود کر دیں اور اس راہ کو ہموار کر رہے ہیں ،زمینہ سازی کر رہے ہیں،زمینہ سازی یعنی ظہور کی راہیں ہموار کرنا،اس میں طہارت و پاکیزگی نفس سب سے پہلے ہے،تہذیب نفس سے ہی معاشرہ سازی کی طرف قدم اٹھائے جاتے ہیں،ہمیں اس مقصد کیلئے دو رنگی کو چھوڑناہو گا،دورنگی امام کے سپاہیوں میں نہیں چلتی،یہ کیسے ممکن ہے کہ لشکر حسین میں شامل ہوں اور عملی طور پر شمر ،خولی،یزید،عمر ابن العاص،امیر شام کے کردار و عمل کے نمونے پیش کرو جبکہ امام کے سپاہیوں کو ابوذر،عمار،مالک اشتر،میثم تمار بننا ہو گا،اب دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے ،آیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں سپاہیان امام کے ساتھ کھڑا کر سکنے کی جرا ت کریں؟ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ہو اور ہم امام کے سپاہی بن جائیں یہ ممکن نہیں،کوئی اس دھوکہ و فریب میں نا رہے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاہی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ہوجائے گی،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ہم آمادہ و تیار ہی نا ہوں۔ذرا جائزہ لیںکہ ہماری محبت اور تڑپ علی ابن مہزیار جتنی ہے،جس نے کتنے ہی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدا ر نصیب ہوجائے،اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ہو گئی ،ملاقات ہو گئی،محفل یاران میں بیٹھے کا اذن نصیب ہوا۔ہمیں جائزہ لینا ہے،ہمیں احتساب کرنا ہے ،ہمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

تحریر ۔۔۔۔ارشادحسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) ٹیکنالوجی اور انسانی مسائل ایک ساتھ ترقی کررہے ہیں۔ دنیا جہاں پر گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے وہیں پر پورا انسانی معاشرہ باہمی خلفشار اور ابتری کا شکار بھی ہے۔ بھوک، افلاس، بیروز گاری، مہنگائی، کرپشن ، دھونس دھاندلی اور مکرو فریب کے سرطان نے ہر ملک اور ہر معاشرے کے قلب و جگر میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہ ادارے جو بین الاقوامی برادری کو اِن مسائل سے نجات دلانےکیلئے معرض وجود میں آئے تھے، آج  خود انہی مسائل کے شکار ہیں۔

انسانی معاشرے کے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ  آج کے دور میں انسان پرمسائل کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ بہت سارےلوگوں کی معاشرتی حالت ہزاروں سال پرانے غلاموں کی حالت سے بھی بدتر ہے۔ ماضی کا غلام انسان خود کو غلام سمجھ کر ظالموں اور جابروں کی غلامی کرتا تھا لیکن آج کا انسان اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر بھی دوسروں کی  غلامی کر رہا ہے۔

انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال  اس بات کا ثبوت ہے کہ  وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور اس کاباعث یہ ہے کہ انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔ ہم تاریخ عالم کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور انسانی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔

چنانچہ انسانی مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ہر مظلوم انسان کویہ شعوردیاجائے کہ اُسے درپیش مشکلات کی اصلی جڑیں کہاں ہیں؟اس کےحقوق کو  سامراج  کس طرح پامال کررہاہے؟ سامراج کس طرف مورچہ زن  ہے؟  سامراج  کے پاس کیا کچھ اسباب و وسائل  اور ہتھیارہیں؟ اورکون لوگ   سامراج  کے مدد گار ہیں؟

 اگر لوگوں  کو  سامراج  کی مکمل طور پر شناخت نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ  سامراج  کو پسپا نہیں کیا جاسکتا بلکہ  سامراج کی چالوں سے  لوگوں کو بھی محفوظ نہیں رکھا جاسکتا

 زمان و مکان اور مدین و مذہب  کی قید نہیں، جس بھی زمانے میں، جس بھی جگہ پر بھی ، جو شخص بھی ، کسی کا حق غصب کرتا ہے وہ  سامراج  ہے یا  سامراج  کا ایجنٹ ہے۔

   طاقتور مختلف حیلوں اور حربوں  کے ساتھ ہردور میں کمزور لوگوں  پر حکومت کرتے رہے اور ان  کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے اور اسی سوچ نے   آگے چل کر سامراجیّت کے مکتب کو جنم دیا ۔اب آیئے دیکھتے ہیں کہ  علمی دنیا میں سامراجیّت  کسے کہتے ہیں۔

 ”مستکبرین کے دیگر ریاستوں کے مفتوح کرنے کے عمل کو علم سیاسیات میں سامراجیت کہا جاتا ہے“

مفکر سیاسیات چارلس اے برڈ کے مطابق سامراجیت وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت حکومت کی مشینری اور ڈپلومیسی کو دوسری اقوام یا نسلوں کے ماتحت علاقوں پر قبضہ کرنے، زیر حمایت رکھنے یا حلقہ اثر میں لانے کیلئے استعمال میں لایا جائے تاکہ صنعتی تجارت کی ترقی اور سرمایہ لگانے کے مواقع حاصل ہوسکیں۔

سامراجیّت بطور مکتب:

تاریخ بشریّت میں ابلیسیت باقاعدہ ایک مکتب کی صورت میں سامراج کے نام سے پندرہویں صدی میں  منظم ہوئی۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق وسطی اور ایشیاء کے بارے میں اہل یورپ نہ ہونے کے برابر معلومات رکھتے تھے۔ان کی معلومات کی کہکشاں زیادہ تر مارکوپولو کے سفرنامے کے گرد ہی گردش کرتی رہتی تھی۔

پھر جیسے جیسے ان کی معلومات بڑھتی گئیں یہ دوسرے ممالک کو مفتوح کرتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ سولہویں و سترہویں صدی میں سائنسی ایجادات اور صنعتی انقلاب نے سامراجی قوتوں میں نئی روح پھونکی اور ہالینڈ، برطانیہ، فرانس، سپین اور پرتگال نے دیگر ریاستوں کو مفتوح کرنے پر کمر کس لی۔یاد رہے کہ صاحبان علم و دانش سامراجیّت کو اس کی عمر کے لحاظ سے دو حصوں سامراجیّت  قدیم اورسامراجیّت جدید میں تقسیم کرتے ہیں۔

قدیم سامراج اور اس کا طریقہ واردات

پندرہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی میلادی تک کے زمانے کو سامراجیّت قدیم کہاجاتاہے۔اس زمانے میں سامراجیّت کا طریقہ واردات کچھ اس طرح تھا:                          

١۔بغیر کوئی  بہانہ ڈھونڈےدوسری ریاستوں پرقبضہ کرلیاجاتا تھا۔  

 ۲۔قبضہ براہ راست کیاجاتاتھا۔                                                                                                                                          

 ۳۔مفتوحہ ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی تھی،قتل عام کیاجاتاتھا اور بستیوں کو آگ لگا دی جاتی تھی۔

  سامراجی طاقتیں جلد ہی  اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ یہ طریقہ ان کے لئے زیادہ سود مند نہیں ہے چونکہ اس طرح انہیں مندرجہ زیل دو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا:

        ١۔مفتوحہ ریاستوں میں پائی جانے والی عوامی نفرت انہیں بے چین کئے رکھتی تھی۔                                                              

  ۲۔کھلم کھلا لشکر کشی خود ان کی اپنی فوج کے تلف ہونے اور بھاری جنگی اخراجات کا باعث بنتی تھی۔

  صنعتی انقلاب، نہر سویز کھلنے اور ریلوے کی ترقی کے بعد سامراجی ممالک نے دیگر ممالک کو مفتوحہ بنانے اور مقبوضہ رکھنے کیلئے نئے انداز اور طریقے وضع کئے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

 ۱۔ ترقی پذیر ممالک کو امداد دےکر من مانی شرائط منوائی جائیں اور ان کے علاقوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جائے۔

 ۲۔ دنیا بھر میں ایسا تعلیم یافتہ طبقہ تیار کیا جائے جو سامراجی پالیسیوں کا ہمنوا ہو۔

 ۳۔ غیر ترقی یافتہ علاقوں میں اپنی منڈیاں قائم کی جائیں۔

 ۴۔ جمہوریت اور آزادی کے نام پر دیگر ممالک میں اپنی فوجیں داخل کرکے وہاں کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی و معاشی مفادات حاصل کئے جائیں۔

 سامراجیت کے چوتھے طریقہ واردات یعنی جمہوریت و آزادی اور خوشحال و ترقی کے نام پر کسی ملک میں فوجیں داخل کرنے کے عمل کو سیاسیات میں   استعماریت  یا نو آبادیات  کہتے ہیں۔ یعنی سامراجیت اصل ہے اور  استعماریت اس کی ایک شاخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی سامراجی طاقتیں جن ممالک کو مفتوح کرتی تھیں اُنہیں ”نو آبادی“ کہا جاتا تھا۔

 تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سامراجی قوتیں کچھ اس طرح کے بہانوں سے دیگر ممالک کو زیر تسلط لاتی تھیں کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ کاروبار حکومت چلانے نیز علمی و فنی پیشرفت کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا اُنہیں علوم و فنون سے آراستہ کرنے اور فلاح و بہبود کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے اور ان کی سیاسی فکر میں ارتقاءکیلئے ضروری ہے کہ انہیں مغلوب رکھ کر اُن پر کام کیا جائے۔

  اس طرح کے لیبل لگا کر مختلف بہانوں سے طاقتور قومیں کمزور اقوام کا استحصال کرتی رہی ہیں ،بالآخر 1945ءمیں اقوام متحدہ نے اپنے منشور میں یہ شق شامل کی کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کو اپنی نو آبادی نہیں بنائے گی لیکن اس کے باوجود سامراجی طاقتوں نے بعد ازاں کئی دوسری ریاستوں کو اپنی نو آبادی بنا یاہے۔

 مثلاً ماضی قریب میں روس نے افغانستان کو اپنی نو آبادی بنانے کیلئے حملہ کردیا تھا اور تقریباً افغانستان کو اپنی نو آبادی بنا لیا تھا، بعد میں امریکہ نے افغانستان اور عراق کو غیر اعلانیہ طور پر اپنی نو آبادی بنالیا ہے،  اِسی طرح اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے بیشتر علاقے کو اور ہندوستان نے کشمیر کے ایک بڑے حصے کو اور روس نے چیکو سلاویہ، ہنگری اور بلغاریہ وغیرہ کو آج بھی اپنی نو آبادی بنا رکھا ہے۔

 آج بھی دنیا میں بہت سارے ایسے ممالک موجود ہیں جو بظاہر سامراجی افواج سے خالی ہیں لیکن سامراج اُن پر مالی کمک، منڈیوں اور صنعتوں کے ذریعے قبضہ جمائے ہوئے ہے اور دنیا کے تمام تر سیاسی و معاشی مسائل سامراج کے ناجائز تسلط اور غیر قانونی قبضے کی وجہ سے ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مختلف اقوام کو آج بھی دبوچ رکھاہے۔

مثلاً اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائے تو سامراج، عربوں کی دولت کو نہیں لوٹ سکتا، اگر عراق و افغانستان کا مسئلہ حل ہوجائے تو امریکہ اور اس کے حواری  اِس خطے کی دیگر ریاستوں کی نگرانی کرنے سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ عراق کے تیل سے بھی محروم ہوجائیں گے، اگر کشمیر سے بھارتی فوجیں نکل جائیں تو کشمیر کے آبی ذخائر، جنگلات اور معدنی ذخائر سے بھارت کو ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذکورہ علاقوں میں سامراجی عناصر اپنے مفادات کے حصول کیلئے انسانی خون کو پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ان علاقوں میں کسی بھی طرح کی  انسانی یا اخلاقی  حدود کا احترام نہیں کیا جاتا۔ یہ بھی  ایک کھلی حقیقت ہے کہ  سامراجی طاقتوں نے اپنے معاشی مفادات کیلئے ایڈز، ہیپاٹائٹس اور امریکی سونڈی کے وائرس تک دنیا میں عام کئے تاکہ اُن کی دوائیاں اور انجکشن بڑے پیمانے پر فروخت ہوں۔

  ساری دنیا کو سامراجی طاقتوں نے اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی خاطر بدامنی اور عدم استحکام کی آگ میں جھونکا ہوا ہے۔ اگر دنیا میں امن بحال ہوجائے تو سامراجیوں کا جنگی ساز و سامان اور اسلحہ کس سیارے پر فروخت ہوگا،  چنانچہ سامراجی طاقتیں پوری دنیا میں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے اپنے  اپنے مفادات حاصل کررہی ہیں۔

 مثلا امریکہ، اسرائیل کے مفادات پورے کرتا ہے،اسرائیل،  بھارت کے مفادات کو پورا کرتا ہے،بھارت ، سعودی عرب  کے مفادات  کی تکمیل کرتا ہے، سعودی عرب ، پاکستان کو فوائد پہنچاتا، پاکستان امریکہ اور پاکستان، امریکہ  کے ہر حکم کی تعمیل کرتا ہے ۔۔۔  یوں مفادات کی یہ زنجیر پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔

اس کے بعد آئیےسامراجِ جدید کابھی ایک جائزہ لیتے ہیں:

سامراج ِ جدید:

سامراج جدید کاآغاز بیسویں صدی میں ہوا اور یہ اصطلاح پہلی مرتبہ ۱۹۵۵ میں افریقی و ایشیائی ممالک کی ایک کانفرنس میں انڈونیشیا کے صدر احمد سوکارنو نے استعمال کی۔ جدیدسامراج کا طریقہ واردات ملاحظہ فرمائیں:

جدید سامراج کاطریقہ واردات:

۱۔قبضہ غیرمحسوس ہو۔میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مختلف ایشوز میں الجھاکر غیر محسوس انداز میں پہلے نفوز کیا جائے پھر مستقل طور پر نظام کو زپنے زیر اثر لایاجائے۔        

    ۲۔کسی بھی ملک کے مقامی افراد کو اپنے افکار کے مطابق تعلیم و تربیت دے کر فکری طور پر اپنا غلام بنایاجائے اور پھر انہی کے ذریعے حکومت کی جائے۔جیساکہ آج پاکستان میں ہورہاہے۔پاکستان کے حکمران سامراجی نظام تعلیم کے لکھے پڑھے ہیں لہذا وہ  امریکہ و یورپ کی محبت کا سرعام دم بھی بھرتے ہیں اور ان کے مفادات کی خاطر سب کچھ کرتے بھی ہیں۔اسی طرح پاکستان کے باصلاحیت نوجوان تعلیم اور روزگار کے حصول کے لئے سامراجی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور پھر اسی رنگ میں رنگے جاتے  ہیں، ان میں سے پھر بہت کم ہوتے ہیں جو اپنے  ملک و ملت کی فکر کریں۔ اس کے بعد آئیے  جدید سامراج کے طریقہ واردات پر بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں:

جدید سامراج اور اس کا طریقہ واردات:

جدید سامراج  کی زندہ مثال نیٹو ہے ۔  نیٹو سامراج  قدیم سامراج کے  مذکورہ ہتھکنڈوں سے بھی لیس ہے اور اس کے علاوہ  مندرجہ ذیل پالیسیوں پربھی پابندی سے عمل پیراہے:

۱۔کسی بھی ملک پرباہر سے خود حملہ آور ہونا اورداخلی طور پر اس ملک میں مخصوص شدّت پسند  ٹولے تشکیل دے کر ممالک کو عدم استحکام اور عوام کو عدم تحفظ میں مبتلاکرنا۔جیسے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ   کے ذریعے کیاگیا۔

۲۔دیگر ممالک میں کرپٹ سیاستدانوں،نام نہادمفکرین ،بزدل حکمرانوں ،ڈکٹیٹر سلطانوں اور ناسمجھ خطبا و علماء کے ذریعے پہلے مقامی سطح پر  سامراجی گروہ  تشکیل دینا اور پھر  خود لڑنے کے بجائے ان سامراجی گروہوں کے ذریعے  اپنے مفادات کو حاصل کرنا۔

جیساکہ پاکستان میں ہمیں خود نیٹو کے فوجی آکر نہیں مارتے بلکہ ان کے تربیت یافتہ خود کش بمبار ہم پر حملے کرتے ہیں۔

اسی طرح برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے مقامی غنڈوں کو جاگیریں اور خطابات دے کر مقامی استعمار کو تشکیل دیا۔ یہ مقامی  استعمار  بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑ کر انگریزوں کو پلاتا تھا اور برصغیر کے عوام ان بد معاشوں اور غنڈوں کو اپنا مسیحا اور ہمدرد اور اپنے حقوق کے محافظ سمجھتے تھے۔   آج بھی ہمارے ہاں اکثر  اسی طرح کے لوگ  ہی سیاستدان کہلاتے ہیں اور اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں۔

آج بھی ہمارے ہاں جو سکول اور کالج کے زمانے میں جتنا بڑا ، قانون شکن،بدمعاش اور غنڈہ ہوتا ہے  ، مستقبل میں اس کے سیاستدان بننے کے امکانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں  سامراج نے صرف سیاست اور مذہب کو جدا نہیں کیا بلکہ سیاست اور شرافت کو بھی جدا کیا ہے۔

تفصیلات کے لئے وکیل انجم کی کتاب  فقط سیاست کے فرعون بھی  ایک مرتبہ پڑھ لیں تو کافی ہے، اس کے علاوہ اپنے ہاں پائے جانے والے سیاستدانوں  کی اخلاقی حالت کا خود سے بھی جائزہ  لینے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ہاں پائے جانے والے مقامی سامراج کا طریقہ واردات:

۱۔عوام کو  تعلیمی و معاشی طور پر ضعیف اور کمزور رکھا جائے۔                                                                                              

اس مقصد کے لئے تعلیمی نصاب کو بھی طبقاتی طور پر تقسیم کیا گیا ہے اورعام لوگوں کے بچے غیر معیاری تعلیم کے باعث کولہو کے بیل ہی بنے رہتے ہیں۔  

۲۔لوگ  آپس میں متحد نہ ہوں اور ایک دوسرے سے دشمنی کریں۔                                                   

اس مقصد کے لئے یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بڑے بڑے بیانات دے کر، اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر خود تو باڈی گارڈز اور پروٹوکول کے ہمراہ نقل و حرکت کرتے  ہیں ، اور اہم موقعوں پر ایک باہم شیروشکر ہوجاتے ہیں جبکہ عام لوگ ان کے بیانات کو بنیاد بنا کر آپس میں لڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے دشمنیاں اور ناراضگیاں مول لیتے ہیں۔ بعض اوقات تو  مختلف پارٹیوں کے جیالے ایک دوسرے کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔

 ۳۔تھانے ، ایجنسیاں اور میڈیا مکمل طور پر ان کا مطیع ہو۔                                                          

یہ خود چونکہ کسی میرٹ اور قانون کے پابند نہیں ہوتے  اور بعض اوقات تو ان کی ڈگریاں بھی جعلی ہوتی ہیں،  اس لئے یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا کو بھی اپنی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لئے یہ دھونس اور رشوت ہر طرح کے حربے آزماتے ہیں۔

۶۔لوگ  فوج، پولیس، ایجنسیوں  اور میڈیاسے مایوس ہو جائیں۔                                                                                                        

یہ اپنے خلاف تو میڈیا میں قبل از وقت  کوئی خبر نہیں چھپنے دیتے، یاد رہے کہ اکثر سیاستدانوں کی خبریں اس وقت چھپتی ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے، لیکن فوج، پولیس اور ایجنسیز   کے خلاف ماحول کو گرم رکھتے ہیں اور لوگوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ  فوج ، پولیس ، ایجنسیز تو عوام کی دشمن ہیں۔ چونکہ اگر یہ ادارے عام عوام  کا اعتماد حاصل کر لیں اور عوام میں اپنے قدم مضبوطی سے جمالیں تو پھر سیاست کے نام پر  غنڈہ گردی اور بدمعاشی بالکل نہیں چل سکتی۔

۷۔لوگوں میں ان کے نام کا خوف قائم رہے۔

یہ لوگوں کو ڈرا کر رکھنے کے لئے گینگز اور غنڈے پالتے ہیں،اسمبلیوں میں بیٹھ کر دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں، موقع ملنے پرپولیس اور فوج کے اہلکاروں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، مخالفین کو عبرتناک طریقے سے قتل کرواتے ہیں، مثال کے طور پر  ہم پرانے واقعات کے بجائے اپنے موجودہ  سیاستدانوں کے  کچھ حربے آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں :

کچھ عرصہ پہلے  ہمارے ایک بڑے معروف سیاستدان نے  اسلام آباد میں  عدالت کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو تھپڑ رسید کیا۔ یہ واقعہ کسی دورافتادہ گاوں میں پیش نہیں آیا بلکہ  پاکستان کے دارالحکومت میں پیش آیا۔[1]   یہ سب عوام کو قانون کے بجائے اپنی شخصیت سے مرعوب کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ  مشعال خان کو دردناک طریقے سے قتل کروانے میں،  ایک  عزت ماب تحصیل کونسلر پیش پیش تھا۔[2] یہ واقعہ بھی کسی جنگل میں نہیں بلکہ مردان یونیورسٹی میں پیش آیا۔

اس طرح کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن ہم  موضوع کی طوالت سے بچنے کے لئے صرف  ایک مثال مزید پیش کرتے ہیں۔

ابھی اسی ہفتے کی بات ہے کہ عمر کوٹ میں  بڑی معروف سیاسی شخصیت نے بجلی چوروں کو گرفتار کرنے پر تھانے میں جا کر ایس ایچ او  کی درگت بنائی۔[3] جس پر اب  چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واقعے  کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس سے  رپورٹ طلب کی ہے۔[4]

اس کے بعد آئیے استعمار کے خلاف عوامی جدو جہد کے لئے ایک منصوبہ بندی کے حوالے سے غوروفکر کرتے ہیں:۔

 سامراج کے خلاف  عوامی جدوجہد کے لئے مجوزہ  منصوبہ بندی :

جب تک ہم سامراج کو نہیں پہچانتے اور اس کے چنگل سے نہیں نکلتے اس وقت تک ہماری ملکی و قومی حالت بہتر نہیں ہو سکتی اور ہمارے سرکاری ادارے، فوج ، پولیس اور ایجنسیاں عوامی توقعات پر بھی پوری نہیں اتر سکتیں، چونکہ جب تک یہ ادارے خود سامراج  کے  کھینچے گئے دائرے کے پابند ہیں تب تک یہ حقیقی معنوں میں اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔ لہذا  ضروری ہے کہ ان مسائل کے حل کئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔

مجوزہ منصوبہ بندی

۱:۔ ریسرچ سنٹرز اور تھنک ٹینکس کی تشکیل کی جائے

    سب سے پہلے ہمیں  عالمی اور مقامی سامراج کی مکمل منصوبہ بندی پر عبور حاصل کرناچاہیے ،ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عالمی  سامراج نے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے الگ ریسرچ سنٹرز اور تھنک ٹینکس تشکیل دے رکھے ہیں جو دن رات اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔مثلاً  سامراج نے میڈیا،تجارت،نظام تعلیم وتربیّت،تہذیب و تمدّن و ثقافت،آرمی،خفیہ ایجنسیز،این جی اوز،منبر و محراب اور سیاست سمیت ہر میدان کے لئے  الگ سے ریسرچ سنٹرز قائم کررکھے ہیں چونکہ میڈیاکامیدان تجارت و اقتصاد سے مختلف ہے،تجارت و اقتصاد کا میدان  آرمی سے مختلف ہے،آرمی کی دنیاخفیہ ایجنسیوں سے مختلف ہے لہذا ہمیں بھی سامراج کے مقابلے کے لئے اسی شعبے کے ماہرین کے تجربات کی خدمات درکار ہیں۔

لہذا ہر شعبے سے متعلقہ ماہرین پر ہی  ریسرچ سنٹرز  تشکیل پانے چاہیے جو اپنی متعلقہ دنیا سے سامراج کے خاتمے کے لئے منصوبہ بندی کریں اور سامراجیت کے تمام پہلووں کا جائزہ لیکر اقوامِ عالم کو عصر حاضر کے سامراج کی سازشوں سے آگاہ بھی کریں اور ان سازشوں کا توڑ بھی بتائیں۔

اسی طرح مقامی سامراج کے خلاف بھی علمائے کرام اور دانشمندوں کو بولنا چاہیے اور اپنے اور ریاستی اداروں کے تحفظ کے لئے  غنڈوں اور بدمعاشوں کے خلاف عوام کو منظم طریقے سے باشعور کیا جانا چاہیے۔

 ۲۔ سامراج کی شناخت کروائی جائے

 عالمی اورمقامی سامراج کے چنگل سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ عوام کو سامراج  کی صحیح شناخت کروائی جائے، لوگوں کو عالمی سامراجی اور مقامی سامراج کا ٹھیک تعارف کروایا جائے، اس  کے ساتھ ساتھ سامراج کے جاسوس ٹولوں،تنظیموں اور پارٹیوں نیز وظیفہ خور سیاستدانوں سے آگاہ کیا جائے اور لوگوں کو یہ شعور دیا جائے کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لئے بے دین اور بدمعاش لوگوں کے بجائے دیندار اور شریف لوگوں کی طرف رجوع کریں۔

۳۔ تہذیب و تمدن کا تحفظ کیا جائے

  مستکبرین  لوگوں کی  سیاسی و ملی شعور کی ناپختگی سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کرکے اُن پر اپنی تہذیب اور تمدن کو نافذکرتے ہیں۔ لوگوں کو تہذیب و تمدن کے نام پر فحاشی و عریانی  سکھائی جاتی ہے لہذا  اس صورت حال سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ  کسی بھی طورپر  لوگوں کا رابطہ اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے دانشمندوں سے  نہیں کٹنے دینا چاہیے اور انہیں سامراج کی چالوں سے فوری طور پر آگاہ  کیا جانا چاہیے۔

 ۴۔ سامراج  کے خلاف   لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں

 ضروری ہے کہ دانشمند حضرات  لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کریں،  غنڈہ گردی اور بدمعاشی کرنے والی تنظیموں کے خلاف سب لوگ مل کر جدوجہد کریں، اس طرح کے سیاستدان کہلانے والے لوگوں کے خلاف نفرت کا اظہار کریں  اور دیگر علاقوں کے عوام سے اس سلسلے میں تعاون کریں۔

یاد رکھیں کہ مذہبی منافرت پھیلانے، دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے ، اپنے سیاسی ووٹ بینک کے لئے لوگوں کو مذہبی فرقوں میں تقسیم کرنے کے پیچھے بھی انہی  بدمعاشی  اور غنڈہ گردی کرنے والے سیاستدانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگانے کے بجائے اپنے علاقے کے سیاسی بدمعاشوں  کو پہچاننا چاہیے اور ان کی چالوں میں نہیں آنا چاہیے۔

 ۵۔ میڈیا سامراج کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے

 ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور مجلات میں ہر سطح کے لوگوں کے ذہنی معیارات کے مطابق عالمی اور مقامی سامراج  کی سازشوں، مظالم کے خلاف بریکنگ نیوز چلنی چاہیے، عوامی شعور کو  بدمعاشوں کی غلامی سے نکالنے کے لئے ، سیاسی تجزیہ و تحلیل پر مشتمل  پروگرام نشر کئے  جانے چاہیے، نیز  اس موضوع پرباقاعدگی سے مقالات ، کالمز اور اداریے لکھے جانے چاہیے۔ ۔

سامراجیت کے موضوع پر جا بجا تحقیقی کانفرنسیں منعقد کرکے اُنہیں میڈیا میں بھرپور کوریج دی جائے۔اسی طرح عوام  اور صحافیوں کو سیاست دانوں کے بارے میں اندھادھند نعرے لگانے اور دھمال ڈالنے اور ڈانس کرنے  کے بجائے سوچنے،تنقید و تبصرہ کرنے ،اپنی رائے بیان کرنے،سامراج کے خلاف زبان کھولنے، الیکشن کے موقع پر بدمعاشوں کے بجائے شرفا کی حمایت کرنے کی جرات دی جانی چاہیے۔

 ۶۔ تعلیمی ادارے  اور نظام تعلیم:

 دینی مدارس، سکولز، کالجز الغرض ہر سطح کے طالب علموں کے سامنے، ان کی سطح کے مطابق انہیں سیاسی شعور دیا جائے اور نیک و امین سیاستدانوں کو ان کے لئے آئیڈیل  بنا کر پیش کیا جائے ۔ تاکہ  ہمارے طالب علم مستقبل میں اچھے اور امین سیاستدان بن سکیں۔ اسی طرح  ہمارے دانشمندوں کو داخلی استعمار کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام تعلیم کا توڑ سوچناچاہیے اور ملک میں یکساں اور معیاری نظام تعلیم کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔

 ۷۔ پبلک پلیٹ فارم، سیاسی و مذہبی اجتماعات کو آگاہی کا ذریعہ بنایا جائے

 مختلف فرہنگی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کیا جائے جن میں مختلف فنون کے ذریعہ سامراج کے مظالم سے پردہ اُٹھایا جائے، شعر و شاعری اور مزاح نگاری  نیز  سیاسی و مذہبی اجتماعات میں  سامراج  کی تازہ ترین سازشوں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے،مسجد و منبر و محراب سے سامراج کے خلاف آواز اٹھائی جائے، ظلم، نا انصافی اورپسماندگی ، جہالت اور غیر معیاری سکولوں  کے خلاف لوگوں کو میدان میں لایا جائے اور انہیں بتا یا جائے کہ ان کے انسانی و ریاستی حقوق کیا ہیں،  ہینڈ بلز اور پمفلٹس نیز چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں گلی،  محلوں اور قصبوں کی سطح تک  عالمی اور مقامی سامراج سے متعلق ضروری مواد اور شعور و آگاہی پہنچائی جائے۔

 ۸۔ اقتصادی و صنعتی مسائل کا حل سوچا جائے

  سامراج  کے اقتصادی و صنعتی ڈھانچوں کی درست رپورٹس اکٹھی کرکے ماہرین اقتصادیات کو فراہم کی جائیں اور ان سے گزارش کی جائے کہ وہ سامراج کے چنگل سے نکلنے کیلئے مستضعف اقوام کے لئے ٹھوس اقتصادی و صنعتی لائحہ عمل تیار کریں۔علاقوں کو پسماندہ رکھنے والے سیاستدانوں کا زور توڑا جائے اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو بہترین معاشی امکانات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔

 ۹۔ کمزور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے

کمزور اور پسماندہ لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور صاحب ثروت حضرات کی طرف سے کمزور لوگوں کی مختلف امور میں حوصلہ افزائی کی جائے، ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور نوکریوں کے حوالے سے سکالر شپ  سسٹم اور جاب سیل بنائے جائیں،  اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ اُن کا اور اس ملک  کا مستقبل، وڈیروں اور جاگیرداروں  کے بجائے،  ان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔

 ۱۰۔اچھی سیاست سے عشق  پیدا کیا جائے

لوگوں کویہ سمجھایا جائے کہ دینِ اسلام میں سیاست بھی  عین عبادت اور ایک مقدس عمل ہے، دین اسلام میں حکومت اور جمہوریت سے مراد لوگوں پر اللہ کے نیک اور صالح افراد کے ذریعے اللہ کی حکومت  قائم کرنا ہے۔اس مقصد کے لئے لوگوں کوسامراج کے غلیظ لٹریچر اور کرپٹ سیاستدانوں کی خبروں اور بیانات  کے بجائے دین اسلام کے سیاسی ا فکار، سلف صالحین  کے سیاسی کارناموں اور پاکستان نیز  دنیائے اسلام کے بہترین اور نیک  سیاستدانوں کے  کارناموں سے آشنا کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ  عوام  میں  الٰہی اورحقیقی مسلمان سیاستدان بننے اور  ایک نیک اور دیانتدار سیاستدان کو منتخب کرنے کا عشق پیدا کیا جائے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ علمی دنیا میں کوئی بھی منصوبہ بندی حرف آخر نہیں ہوتی، یہ ایک مجوزہ منصوبہ بندی ہے،اس کا مقصد منصوبہ بندی کا آغاز ہے ،  حالات اور ضرورت کے پیش نظر اس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ ہم نے دس نکات پیش کئے ہیں کہ اگر ان پر کام کیا جائے تو ہمارے نزدیک  ملک کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔

 آج ہمارے ہاں جتنی بھی ، غربت، پسماندگی، کرپشن، بدنظمی اور ملی مشکلات ہیں اور ہمارے  سرکاری ادارے   عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوچکے ہیں ، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ آزاد نہیں ہیں، بلکہ  ہم لوگ مقامی استعمار کے غلام ہیں اور عالمی استعمار مقامی استعمار کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کر رہاہے۔اگر ہم نے اپنی ملی حالت کو بہتر کرنا ہے تو یہ کام منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ آئیے ہم سب اپنے ملک کو بین الاقوامی اور مقامی سامراج کی غلامی سے نکالنے کے لئے اپنے اپنے وسائل اور ہمت  کے  مطابق اپنااپنا کردار ادا کرنے کا عہد کریں۔

پاکستان پائندہ باد۔۔۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک دفعہ ایک شخص مرغی فروش کے پاس گیا اور ایک مرغی ذبح کرنے کو کہا مرغی فروش کے پاس آخری مرغی بچی تھی اور اُس نے مرغی ذبح کی ، خریدار نے قیمت ادا کرنے بعد کہا تم اس کی بوٹیاں بنا دو مجھے کچھ کام ہے میں وہ نمٹا کر آتاہوں یہ کہ کر وہ شخص چلا گیا، مرغی فروش نے ابھی مرغی بوٹی کر کے رکھا ہی تھا شہر کا قاضی وہاں آن پہنچا اور کہنے لگا کہ ایک مرغی ذبح کرو ، مرغی فروش نے جواب دیا جناب قاضی صاحب مرغی ختم ہو چکی ہے لہذا میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں قاضی کی نظر تیار شدہ گوشت پر پڑی اور کہنے لگا پھر یہ گوشت مجھے دے دو مرغی فروش نے کہ جناب یہ ایک شخص کی امانت ہے وہ اس کی قیمت ادا کر چکا ہے ابھی وہ اسے لینے آتا ہی ہوگا۔ قاضی کچھ غصے میں کہنے لگا تم مجھے نہیں جانتے میں شہر کا قاضی ہوں ،مرغی فروش نے کہا جناب میں آپ کو جانتا ہوں مگر میں اُس شخص کو کیا جواب دوں گا؟ قاضی کہنے لگا اُسے کہنا تمہاری مرغی اڑ گئی ہے۔ مرغی اڑ گئی ہے !، مرغی فروش کافی تعجب سے کہنے لگا، جناب میں نے اُس کے سامنے مرغی ذبح کر کے بوٹی کرنے لگا تھا بھلا ایک مردہ مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟ قاضی نے کہا یہ تم مجھ پر چھوڑو اور بس تم اُس سے یہی کہو زیادہ سے زیادہ وہ تم سے جھگڑا کرے گا اور آخر عدالت کے لئے میرے پاس ہی آنا ہے، تم بے فکر رہو اور گوشت مجھے دے دو قاضی کے حکم کے آگے مرغی فروش بے بس تھا اور نا چاہتے ہوئے گوشت قاضی کے سپرد کر دیا قاضی گوشت لے کر چل پڑا اِدھر مرغی فروش پریشانی کے عالم میں سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ابھی کچھ دیر گزرا تھا خریدار مرغی فروش کے پاس آیا اور گوشت کا تقاضا کرنے لگا مرغی فروش نے کچھ سہمے انداز میں کہا کہ مرغی اڑ گئی ہے، خریدار نے حیرت سے کہا مرغی اڑگئی ؟ لیکن میں نے تو ذبح کے بعد بوٹی کر نے دیا تھا بھلا پھر کیسے اڑ سکتی ہے؟! مرغی فروش نے کہا کہ میں بوٹی ہی کر رہا تھا اچانک گوشت مرغی میں تبدیل ہوا اور اڑ گئی بالآخر لڑائی جھگڑے کے بعد قاضی کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا اور لوگ دونوں کو لیکر قاضی کے پاس جارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی اور مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے یہ دیکھ کر یہ لوگ بھی بیچ بچاو کے لئے کود پڑے اتنے میں مرغی فروش کا ہاتھ یہودی کے آنکھ پر لگا اور ایک آنکھ ضائع ہوگئی، مرغی فروش جو ابھی ایک دلدل سے نکلا نہیں تھا دوسرے دلدل میں پھنس چکا تھا اور لوگ اس کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے جا رہے تھے راستے میں ایک مسجد کے پاس پہنچا اور اس نے موقع پاکر جان بچانے کی غرض سے مسجد کی طرف بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ گئے لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے مینار تک پہنچ گئے۔ مرغی فروش نے لوگوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر مینار سے چھلانگ لگا دی اور بد قسمتی سے وہ کسی ضعیف اور ناتواں شخص کے اوپر گرا اور وہ شخص وہی مر گیا اس شخص کا جوان بیٹا وہی کھڑا تھا اس نے انتقام کی نیت سے خون خوار آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا مگر لوگوں نے پکڑ کر قاضی کے پاس پہنچا دیا۔ قاضی نے جب مرغی فروش کو دیکھا تو ہنسنے لگا قاضی کے دماغ میں صرف وہی گوشت والی بات تھی اور باقی واقعات سے وہ بے خبر تھا جب قاضی کو تمام حالات کا پتہ چلا تو کافی پریشان ہوئے اور ماتھے پر بل پڑنے لگے لیکن کچھ دیر بعد قاضی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا میں ایک ایک کر کے تینوں فیصلے سنا دوں گا لہذا سب سے پہلے مرغی کا مسئلہ حل کروں گا اس کے بعد مرغ کے خریدار اور مرغی فروش کی بات سنی، جب دونوں نے اپنی باتیں مکمل کی تو قاضی نے خریدار سے سوال کیا کہ کیا تمہیں خدا کی قدرت پر بھروسہ ہے؟ کیا اس بات پر ایمان ہے کہ خدا زندوں کو مردہ اور مردوں کو زندہ کرتا ہے؟ خدا کے پاس یہ قدرت ہے کہ وہ جب جس کو چاہے مردہ اور زندہ کرے؟ کیا قرآن میں پرندوں اور اور عیسیٰ علیہ اسلام کو دیے گئے معجزہ کو نہیں مانتے ہو؟ خریدار نے توقع سے ہٹ کر جب یہ باتیں سنی تو کہنے لگا قاضی صاحب میں خدا کی قدرت پر پورا بھروسا ہے اور ایمان ہے لیکن۔۔۔ قاضی کہنے لگا لیکن ویکن کچھ نہیں تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خدا ذبح شدہ مرغی کو کیسے زندہ کر سکتا ہے مطلب تمہیں شک ہے؟ خریدار کہنے لگا قاضی صاحب میرا یہ مطلب نہیں۔۔ قاضی صاحب نے سوال کیا کیا خدا مرغی کو زندہ کر سکتا ہے یا نہیں ہاں میں یا نہیں میں جواب دو؟ خریدار ہاں، قاضی بس فیصلہ مرغی فروش کے حق میں دیا جاتا ہے۔دوسرا کیس شروع یہودی کو بلایا گیا اور یہودی اور مرغی فروش کی ساری داستان سنے کے بعد کہا کہ میں مرغی فروش کو حکم دیتا ہوں کی یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑا جائے۔ یہ سن کر یہودی رونے لگا جناب یہ کیساانصاف ہے میں پہلے سے ہی ایک آنکھ سے محروم ہوچکا ہوں آپ دوسری آنکھ سے بھی مجھے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ قاضی نے کہا آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تم یہودی ہو اور یہ مسلمان، کافر مسلمان پر آدھا دیا لے سکتا ہے اب ایک آنکھ کا آدھا تو ہو نہیں سکتا لہذا تمھاری دنوں آنکھ جب خراب ہوگی تو تم اس کے ایک آنکھ کو پھوڑ سکتے ہو قاضی کا جواب سن کر یہودی چکرانے لگا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا جناب میں نے اس کو معاف کر دیا اس کا ہاتھ غلطی سے لگا تھا۔۔ آخر میں جوان لڑکا کھڑا ہوا اور اپنے باپ کی مرغی فروش کے ہاتھوں موت کا واقع سنا ڈالا۔ واقعہ سنے کے بعد قاضی نے کہا میں جائے واقع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ، اس کے بعد قاضی تمام لوگوں کے ساتھ مسجد کے مینار کے پاس پہنچ گئے اور لڑکے نے کہا جناب میرا باپ اس مقام پر کھڑا تھا کہ یہ مر غی فروش اوپر سے کودا اور سیدھا میرے باپ پر جا لگا اور میرا باپ مر گیا ۔ قاضی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد مرغی فروش سے کہا تم یہاں کھڑے ہوجاو اور لڑکے سے کہا تم اپنے باپ کے قتل کا بدلا لو ، تم مینار پر چڑھ جاو اور سیدھا اس مرغی فروش کے اوپر کود جانا، لڑکے نے جب یہ فیصلہ سنا تو دنگ رہ گیا اور کہنے لگا قاضی صاحب اگر یہ اپنی جگہ سے دائیں بائیں ہوا تو میں تو مر جاؤں گا؟ قاضی نے کہا یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تمھارے باپ بھی تو اس کو دیکھ رہا تھا وہ دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا؟لڑکے کو اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی اور روتے ہوئے کہنے لگا جناب میں اپنے باپ کے خون کو معاف کرنا چاہتا ہوں آپ مہربانی کر کے اس کیس کو خارج کر دیجئے۔۔ خلاصہ یہ کہ" اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ہو تو پھر قاضی ہر کیس کا فیصلہ آپ کے حق میں دے سکتا ہے"۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن، آیان علی ، ڈاکٹر عاصم کا کیس ہو یا پاناما پیپرز کا ہماری عدالت کے اعلی ججزز اور اعلی بیجزنے کبھی کوئی اچھا اور حق کا فیصلہ نہیں دیا۔ ہمیشہ یا تو مرغی کی ٹانگ منہ میں دبا کر فیصلہ سنایا ہے یا ڈنڈا دیکھ کر۔کسی بھی معاشرے کی امن امان و خوشحالی اور ترقی کا اسی فیصد آزاد خودمختار اور عادل عدلیہ پر انحصار کرتی ہے۔ اگر عدلیہ آزاد اور مضبوط بلکہ عادل ہوں تو پھر اس معاشرے کی ترقی میں دیر نہیں لگتی، ایک چور بار بار چوری اسی لئے کرتا ہے کہ اُس کو چوری اور فائدہ کا نشہ چڑ گیا ہے لیکن اُس کو دو دفعہ چوری کی سزا مل جائے تو پھر وہ دوبارہ چوری کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا کہ کہیں پھر عدالت سے کوئی سخت سزا نہ مل جائے، کوئی ظلم کرے تو مظلوموں اور غریبوں کی دلوں میں آخری امید عدلیہ پر ہوتی ہے کہ کہی سے ملے یا نہ ملے عدالت سے تو حق کا فیصلہ ہی آئے گا اور اگر ایک ظالم جابر ڈاکو کو سزا مل جائے تو پھر کسان مزدور غریب اور مظلوموںؤ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اس طرح معاشرے میں اچھائی ٰکی ابتدا اور برائی کی تنزلی شروع ہوتی ہے جس کا براہ راست فائدہ عوام اور ملک کو پہنچتا ہے اور وہ علاقے یا ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے عوام اور رعایا ، امیر اور غریب کا بڑھتا فاصلہ اگر کم کرنا ہے تو عدلیہ کو ٹھیک کرنا ہوگا، ملک سے بیروز گاری، کرپشن، بد امنی ، فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اصول اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا اور عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں کیسوں کی فائلوں کو تاریخ پہ تاریخ ، رشوت، مرغی اور سفارش کے بغیر حق پر فیصلہ کرنا ہوگا۔ جس دن عدلیہ نے حق گوئی اور پوری دیانت داری سے کام شروع کر دیا تو پھر اس ملک کو خوشحالی ترقی اور امن کی فضا قائم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

تحریر۔۔۔۔۔ناصر رینگچن

والدین کی خودکشی

وحدت نیوز(آرٹیکل) زندگی ہرجاندار کو پیاری  ہے، انسان  تو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے بھی  پریشان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے کانفرنسیں کرتا ہے اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے منصوبے بناتا ہے، اسی طرح عالمی برادری کسی قوم کو دوسری قوم پر شبخون مارنے اور جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتی،  بین الاقوامی برادری ، جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع کرتی ہے اور سزائے موت کے حقدار افراد کے لئے بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، جبکہ دوسرا رخ یہ ہےکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کانفرنسیں کرنے والے  وزیر اور مشیر ہی  جنگلی جانوروں کے شوقین نظر آتے ہیں اور حکمران اپنے شوق پورے کرنے کے لئے جنگلی حیات کے قوانین سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم ماضی کی باتیں نہیں کرتے ، ابھی  دسمبر ۲۰۱۶ کی بات ہے کہ جب میڈیا  کے مطابق کھپرو میں 50کلو میٹر دور اچھڑو تھر کے علاقے رانا ہوٹرمیں متحدہ عرب امارات کے شہزادے شیخ سلطان بن خالد النیہان، شیخ سلطان بن محمد النیہان، شیخ احمد بن سلیم اور شیخ حمدان بن محمد النیہان ذاتی عملے کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے رینجرز اور پولیس کے سخت سیکیورٹی میں 20سے زائد خیموں کے شہر میں پہنچ گئے، علاقے میں ایک کلو میٹر سے زائد رقبے پر خیموں کا شہر آباد کرکے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ۔[1] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  سعودی شاہی خاندان کے  افراد بلوچستان میں نایاب پرندے تلور کے شکار کی غرض سے دالبندین کے ایئر پورٹ پہنچے،جہاں صوبائی وزراء اور سینیئر سرکاری افسران نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے  کہ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014ء میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2] ایک نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے تلور کا  فقط شکار نہیں کرتے بلکہ  یہ لوگ جن مقاصد کے لیے تلور کھاتے ہیں بعد میں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ اور کام بھی کرتے ہیں.میں جو غیرت اور عزت کی بات کی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں کھلے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ حامد میر  کے الفاظ ہیں کہ قطری شہزادوں کے پاکستانی میزبان صرف ان کے لیے تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور غیرت کے شکار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔[3]

یہاں قانون سے کھیلنے والے طالبان یا داعش نہیں تھے بلکہ ہمارے   حکمران تھے، اسی طرح طالبان یا داعش کی دہشت گردی کو چھوڑیے اور اپنے تعلیم یافتہ اور روشن فکر کہلانے والوں کی دہشت گردی کی فکر کیجئے،  لاہور میں کتنے ہی عرصے تک  ڈاکٹر حضرات لوگوں کو زبردستی جعلی سٹنٹ ڈالتے رہے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ ابھی باقی ہے کہ  یہ بھی انکشاف ہو گیا ہے کہ  لاہور میں ڈاکٹر حضرات نے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے گردے بھی نکال کر بیچنے شروع کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳۰ اپریل ۲۰۱۷ کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس وقت دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا ۔[4]یہ ہیں ہماری یونیورسٹیاں اور ان سے پڑھ کر نکلنے والے مسیحا۔

اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا اصلی سہرا انہی  روشن فکر لوگوں کے سر جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لئے دینی مدارس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

   اس کے بعد  شبخون مارنے اور جارحیت کے حوالے سے آج ہم  فلسطین اور کشمیر کی بات نہیں کریں گے بلکہ  اپنے ہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کی ویڈیو ہی دیکھ لیجئے ، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے اور سمجھنے والے دوسروں کے خلاف کس طرح طاقت کا ستعمال کرتے ہیں،  اب تک کی اطلاعات کے مطابق  مشال خان قتل کیس میں پولیس نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے لیکن اس سے پہلے با اثر لوگوں اور ان کے بچوں اور عزیزوں  کے نام کیس سے خارج ہو چکے ہیں۔مشال خان کیس میں اب زیادہ تر کرائے کے قاتل ہی رہ گئے ہیں۔

ہمارے تعلیمی ا داروں میں صرف صرف مشال خان جیسے لوگ ہی نہیں مارے جاتے  بلکہ یہ  فروری ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ  کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے  اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ  مکمل ذہنی صلاحیت سے  محروم ہوگیا ۔یہ کسی عام ادارے کی بات نہیں بلکہ ایک کیڈٹ کالج کی روداد ہے۔

بات کیڈٹ کالج کی ہوئی ہے تو کچھ ذکر سولجر بورڈ کا بھی کر لیتے ہیں، اس ادارے کا ایک اہم کام ریٹائرڈ  فوجی حضرات کے بچوں کو سکالر شپ دینا بھی ہے۔ریٹائرڈ ہونے والےچھوٹی سطح کے فوجی حضرات کے بچوں کے نصیب میں سکالرشپ فارم آتے ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ  ابھی فارم ختم ہوگئے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو تاریخ ختم ہو گئی ہے۔خصوصا آزاد کشمیر میں تو  کسی بڑے افیسر کی سفارش کے بغیر کسی عام فوجی کے بچے کا سکالرشپ لگ ہی نہیں سکتا۔

اب جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کی بات رہ گئی ہے تو  تحریک طالبان پاکستان  اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ لیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں  کوئی نئی بات نہیں بتائی ،موصوف نے وہی کچھ کہا ہے کہ  جو سب کو پتہ ہے، ویسے بھی اس کے پاس ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو پتہ نہیں۔۔۔

 احسان اللہ احسان جیسے لوگ تو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں ۔ اصل میں تو وہ لوگ حقیقی دہشت گرد ہیں  جودہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کے لئے اسمبلیوں اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،   اس وقت ہماری حکومت، احسان اللہ احسان کو خواہ مخواہ ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے زور لگا رہی ہے۔

 یہ خود ہمیں سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے آخر پاکستانیوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ احسان اللہ احسان کو سزائے موت یا فلاں سزا  دی جائے  بلکہ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چا رہاہوں کہ جو کچھ ہماری سادگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

راقم الحروف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے لوگوں کا جرم فقط دہشت گردی نہیں ہے بلکہ توہینِ اسلام اور توہین رسالت ان کا اصلی جرم ہے ، انہوں نے  مساجد میں نمازیوں کو شہید کر کے اور بے گناہ لوگوں کو دھماکوں میں اڑا کر  دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر مسخ کر کے شانِ رسالت میں عظیم  گستاخی کی ہے۔ حقیقی معنوں میں توہین رسالت تو یہ ہے جو احسان اللہ خان اور ان کے  ہمنوا کرتے چلے آرہے ہیں۔

جس طرح یہاں لاکھوں روپے کے نادہندگان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں اور توہینِ رسالت و توہین اسلام کرنے والوں  کے لئے بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں  اور کرپشن کرنے والوں کے سہولت کار سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اپنا کام انجام دے دے رہے ہیں۔

اب  دوسری طرف  ہمارے ہاں پائے جانے والے دینی شعور کا اندازہ بھی لگائیے! بڑی بڑی مساجد اور دینی مدارس سے مزیّن، ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات  اور دینی شعور کا یہ عالم ہے کہ ایک فرقے یا مسلک کا آدمی اب دوسرے فرقے یا مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔

 عید فطر کے موقع پر صدقہ و خیرات کے ریکارڈ قائم کرنے والے ملک میں اور عید قربان کے ایام میں دل کھول کر قربانیاں دینے والے دیس میں،  صرف چند روز پہلے طارق نامی شخص، حالات سے تنگ آکر  اپنے پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں 4 بچیاں اور 1 بچہ شامل ہے جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔

طارق کی بیوی صائمہ ایک سال قبل خلا لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی،طارق خود اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا اور بچوں کی وجہ سے فکر مند رہتا تھا۔ طارق کی اہلیہ نے ایک سال قبل اس سے خلع لی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ناچاقی تھی، دوسری جانب محمد طارق کا اپنے بھائی اور بھابھیوں سے بھی جھگڑا رہتا تھا جبکہ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔

ہر مہینے میں ہمارے معاشرے میں کئی طارق خودکشیاں کرتے ہیں، یہ خود کشیاں دینی مدارس و مساجد اور یونیورسٹیوں  کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔  ان خود کشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے  خواہ مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں، عوام میں محبت، اخوت، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، برداشت اور صبر و تحمل پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

بدقسمتی سے بعض تعلیمی اداروں  نے لوگوں کو اچھا انسان اور مسلمان بننے کے بجائے ،  اسلحے سے مسلح کیا ،عدمِ برداشت سکھائی اور پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔

جس معاشرے میں  لوگوں کے ساتھ ہر طرف فراڈ ہو رہا ہو، پارٹیوں کے انتخابی منشور فقط الفاظ تک محدود ہوں، میرٹ کے بجائے رشوت سے نوکریاں ملتی ہوں اور دھونس دھاندلی سے کام چلتا ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو، حکمران خود قانون سے کھیلتے ہوں!  پانامہ کیس کی طرح ، عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے میں احتیاط سے کام لیتی ہوں، معصوم بچوں کو کرائے کے قاتلوں میں تبدیل کیا جاتا ہو اور دہشت گردوں کو پروٹوکول ملتا ہو، سفارش کے بغیر کسی کو سکالر شپ تک نہ ملتا ہو،  جہاں لوگوں  کے بچے دینی مدارس میں دینی تعلیم و تربیت کے لئے جائیں  لیکن  انہیں خودکش بمبار اور دہشت گرد بنا دیا جائے اور اگر  یونیورسٹیوں میں جائیں تو  ان کی یونیورسٹیوں کا اسٹاف ہی  کرائے کے قاتلوں سے انہیں قتل کروا دے، ، جہاں کیڈٹ کالجوں میں بھی بچوں پر وحشیانہ تشدد کیا جائے اور تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو۔۔۔

  اس ملک میں  تو والدین  خود کشی  سے پہلے ہی مر جایا کرتے ہیں ، خود کشی تو صرف ان کی بے بسی کا اعلان کیا کرتی ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree