وحدت نیوز (آرٹیکل) سکندر ذوالقرنین ایک بادشاہ تھا۔ ایک دفعہ اس نے  کسی شہرکا  دورہ کیا۔ وہاں کی حالت دیکھ کر وہ دھنگ رہ گیا۔ نہ وہاں پولیس تھی نہ فوج۔ نہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ وہاں کا ہر شخص بروقت اپنے کام پر جاتا تھا۔ مخلصانہ ڈیوٹی دیتا تھا۔ وقت مکمل کرکے واپس گھر آتا تھا۔ نہ انھیں روکنے والا ہے اورنہ ٹوکنے والا۔ وہاں اس نے ایک اور عجیب حالت بھی دیکھی۔ ہر گھر کے سامنے دوتین قبریں تھیں۔ اس کے  استفسار پر کسی نے  جواب دیا کہ ہم اپنے عزیزوں کو گھروں کے سامنے دفناتے ہیں۔ روزانہ صبح کام سے جاتے وقت ہم ان قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبروں  پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہی تئیں یہ بات کرتے ہیں کہ ان کا جو انجام ہوا ہے وہی انجام ہمارا بھی ہوگا۔ آخر کار پانچ میٹر کپڑا اور پانچ فٹ کی زمین ہی ان کے کام آئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہی ان کے کام آئیں گے۔ انھوں نے جو انسانیت کی خدمت بجا لائی ہے وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے۔ خدا کی جو خوشنودی مول لی ہے وہی انھیں فائدہ پہنچائے گی۔ حلال و حرام کی جو رعایت کی ہے اسی کا صلہ انھیں ملے گا۔ نمازیں جو انھوں نے وقت پر  پڑھی ہیں وہی ان کے لیے نجات بخش ثابت ہوں گی۔ ایسی ہی باتیں کرنے کے بعد ہم بروقت اپنے کام پر نکلتے ہیں اور اہم میں سے ہر کوئی ایسا ہی کرتے ہیں۔ دن بھر اپنے روزمرہ کاموں میں ان باتوں کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ نہ دوران زندگی ہم کسی کا حق چھینتے ہیں۔ نہ کسی چوری ڈاکے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی دل آزاری کرتے ہیں۔ نہ کسی کو بے جا تنگ کرتے ہیں۔ نہ کسی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہیں۔ نہ کسی چغلی ا ور تہمت میں وقت گزارتے ہیں۔ نہ کسی کی غیبت میں ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ نہ ہم  انسانیت کے حدود کو عبور کرتےہیں۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے احترام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر مطمئن ہوکر شام گئے ہم گھروں کو واپس لوٹتے ہیں ۔ اس وقت ان قبروں پر ایک دفعہ پھر حاضری ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں حاضر ہوکر پورے دن کی ڈائری ہم  وہاں پیش کرتے ہیں۔ آج کے دن دفتری کاموں سے لیکر محنت مزدوری  تک کے امور میں ہم نے کسی سے خیانت نہیں کی۔ حق الناس نہیں کھائے۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ مروت کا لحاظ رکھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک روا رکھا۔ نہ کسی نے عہدہ دار ہونے پر ناز کیا اور نہ ہی کسی مزدور کی دل شکنی کی گئی۔ نہ کسی نےاپنی بڑائی کا لوہا منوانے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو اس کی  غربت کا احساس ہونے دیا۔ کیونکہ ہمیں احساس ہے کہ بادشاہ اور غلام سب نے آخر اسی پانچ فٹ کی مٹی کے اندر ہی جانا ہے۔ یہ تمام باتیں ہم دہرانے کے بعد ہم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہی ہم میں سے ہر ایک کے روزانہ کا معمول ہے۔ لہذا نہ ہمیں کسی پولیس کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی۔ کیونکہ ہم سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھاتے ہیں۔
کاش آج ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہوتا! نفرت کی جگہ محبت ہوتی۔ دوری کی جگہ قربت آجاتی۔ ایک دوسرے کا احترام روز کا معمول بن جاتا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے حالت رشد میں ہوتے۔ 25،30 سال عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے نہ پڑتے۔ لاکھوں کروڑوں روپے انصاف کے حصول کے نام پر تلف نہ ہوجاتے۔طبقاتی نظام کو روز بہ روز فروغ نہ ملتا اور اشرافیت کی زیر سلطہ ہماری عمریں نہ کٹ جاتیں۔ نہ کوئی فقیردکھائی دیتا نہ کوئی بھیکاری،نہ کوئی قاتل دکھائی دیتا نہ کوئی غاصب،نہ کوئی ظالم دکھائی دےدیتا نہ کوئی مظلوم،نہ کوئی چوردکھائی دیتانہ کوئی ڈاکو،نہ کہیں دہشتگردی ہوتی اورنہ کہیں قتل وغارت کابازارگرم ہوتا،نہ جھگڑافسادہوتااورنہ نفرت وکدورت،نہ جھوٹ روزمرہ کامعمول ہوتااورناہی چغلخوری ایک عام سی بات بن جاتی،نہ بھائی بھائی کاگلاگھونٹنےکادرپےہوتا۔ ہماری اکثر غلطیوں کا بنیادی سبب موت کو فراموش کرنا ہے ورنہ اولیائے الہی تو موت کو گلے لگانے کے آرزومند ہوتے  ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی  کے ہر موڑ پر خدا کی اطاعت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ ہم سب ابدی بن بیٹھے ہیں۔ حضرت بلال حبشی کا یہ واقعہ بھی کتنا دل انگیز ہے۔ بلال حبشی پیغمبر کے مؤذن تھے۔ جب آپ بیمار ہوکے بستر بیماری پر پڑ گئے۔ تب آپ کی  بیوی سراہنے آکر کہنے لگی: افسوس میں مشکلات میں پھنس گئی!حضرت بلال نے کہا: یہ وقت تو خوش و خرم ہونے کا ہے نہ کہ پریشانی کا۔ ابھی تک میں پریشانی میں مبتلا تھا۔ تجھے کیا معلوم کہ موت ہی حقیقی زندگی کی شروعات ہیں۔ بیوی کہنے لگی: اب جدائی کا وقت آگیا۔ بلال کہنے لگے: فراق نہیں اب وصال کا وقت آپہنچا ہے۔ بیوی کہنے لگی: آج آپ دیار غیر کی طرف عازم سفر ہو۔ بلال کہنے لگے: میں اپنے اصلی وطن کی طرف جارہا ہوں۔ بیوی کہنے لگی: اس کے بعد میں تمہیں کہاں دیکھ پاؤں گی۔ بلال نے کہا: خاصان الہی کے زمرے میں۔ بیوی کہنے لگی: ہائے افسوس تیرے جانے کے بعد گھربار سب اجڑ جائیں گے۔بلال کہنے لگے: یہ ڈھانچہ مختصر وقت کے لیے بادل کی مانند آپس میں جڑے رہتے ہیں پھر جدا ہوجاتے ہیں۔ کاش آج ہمارے درمیان میں بھی بلال و بوذر و قمبر کے صفات رکھنے والے افراد موجود ہوتے تو ہمارا معاشرہ کتنا بہترین ہوتا۔ آج ان ہستیوں کی صفات سے آراستہ پیراستہ  افراد کی تربیت کی ضرورت ہے۔

اسی طرح رحمت عالم کے شب معراج کا واقعہ کتنا سبق آموز ہے۔ رسول اللہ ص نے فرمایا: شب معراج مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی۔ وہاں میں نے ایک فرشتے کو دیکھا کہ نور کی ایک تختی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فرشتہ اس تختی کی طر ف ایسے دھیان سے دیکھ رہے تھے کہ دائیں بائیں کی طرف بھی اس کی توجہ نہیں جاتی تھی۔ ایک غمگین شخص کی مانند وہ اپنی دنیا میں غرق تھا۔ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ اس نے جواب میں کہا: یہ موت کا فرشتہ عزرائیل ہے۔ یہ روحوں کو قبض کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے تقاضا کیا کہ مجھے اس کے پاس لے چلیں تاکہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں! جبرئیل نے مجھے اس کے پاس لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے اس سے  یہ سوال کیا: اے موت کا فرشتہ کیا جتنے انسان مرتے ہیں یا آئندہ جو مریں گے ان  کی روح تم ہی نکالتے ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ پھر کہنے لگا: اللہ تعالی نے پوری کائنات کو میرے ہاتھ میں ایسے قرار دیا ہے جیسے کوئی پیسا ہاتھ میں ہو۔ جس طرح وہ شخص اپنی مرضی سے پیسوں کو آگے پیچھے کر سکتا ہے  ویسے ہی  لوگوں کی قبض روح  میرے لیے ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مکان نہیں جس میں، میں پانچ مرتبہ روزانہ نہ جاتا ہو۔ جب کسی کی فوتگی پر اس کے رشتے دار اس  پررونے لگ جاتے ہیں تب میں ان سے کہتا ہوں کہ رونا نہیں میں  پھر تمہارے پاس حاضری دیتا رہوں گا یہاں تک کہ تم سب کی قبض روح  مکمل ہوجائے۔ علامہ مجلسی کا  واقعہ صاحبان عقل کے لیے کتنا سبق آموز ہے۔آپ کے قریبی شاگرد نعمت اللہ جزائری نقل کرتے ہیں کہ میں اور میرے استاد علامہ مجلسی کے درمیان یہ وعدہ ہوا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے اس دنیا سے چلا جائے تو وہ خواب میں آکر دوسرے کو وہاں کی بعض حال احوال  بیان کرے گا۔ اتفاق سے مجھ سے پہلے میرے استاد کی رحلت ہوئی۔ سات دن تک فاتحہ خوانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ یکایک میرے ذہن میں وہی وعدہ یاد آیا۔ میں ان کی قبر پر گیا۔ قرآن کی تلاوت کی۔ ان پر گریہ کیا۔ اتنے میں مجھے وہاں نیند آگئی۔ خواب میں نے اپنے استاد کو خوبصورت لباس میں ملبوس پایا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ قبر سے باہر آگئے ہیں۔ان کی جدائی کا داغ میرے دل پر تھا۔ میں نے ان کےداہنے ہاتھ کا انگوٹھا تھام کرعرض کیا  کہ جو مجھ سے وعدہ کیا تھا اسے نبھا لیجیے!علامہ کہنے لگے: میں بیمار تھا۔ آہستہ آہستہ بیماری اتنی شدت اختیار کرگئی کہ میری برداشت سے باہر ہوگئی۔ اس وقت میں نے خدا کو پکارا۔ اے اللہ!اب میرے اندر اسے مزید سہنے کی طاقت باقی نہ رہی ۔ تو ہی اپنی رحمت واسعہ سے میرے لیے کوئی راستہ نکال لیجیے! اتنے میں ایک نورانی بزرگوار میرے سرہانے سے نمودار ہوکر  میرے پاؤں کی جانب بیٹھ گئے۔ اس نے میری احوال پرسی کی۔ میں نے  انھیں اپنے حالات سے آگاہ کیا۔ اس ہستی نے اپنا ہاتھ میرے پاؤں کی انگلی پر رکھ کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا درد میں کچھ افاقہ ہوگیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھوں کو ملتے ہوئے میرے سینے کی طرف لایا۔ ساتھ ہی درد بھی ٹھیک ہوتا گیا۔ جونہی سینے تک اس کا ہاتھ پہنچ گیامیرا جسم وہاں پڑا رہا اور میری روح اس سے  الگ ہوگئی۔ مکان کے کنارے سے  وہ اس  جسم کی طرف دیکھتی رہی۔ میرے رشتے دار، دوست احباب اور ہمسائے آکر رونے  اور آہ و فغان کرنے لگے۔ میری روح ان سے کہہ رہی تھی کہ میری حالت ٹھیک ہے، میں پریشان نہیں ہوں، کیوں تم مجھ پر رو رہے ہو؟  لیکن کوئی میری باتوں کو سن نہیں پاتا تھا۔ پھر انھوں نے آکر میرے جنازے کو اٹھایا، غسل و کفن دیا، نماز جنازہ ادا کردی اور میرے جسم کو  قبر میں اتارا گیا۔ اتنے میں منادی ندا دینےلگا!اے میرا بندہ محمد باقر!آج کے لیے تم کیا چیز تیار کرکے لائے ہو؟ میں نے جتنا بھی نماز ، روزہ، کتاب کی تالیف  وغیرہ کو گنا لیکن ان میں سے کوئی بھی مورد قبول قرار نہیں پایا۔ اتنے میں ایک اور عمل میرے ذہن میں آیا۔ ایک دن بازار میں قرض ادا نہ کرپانے کے جرم میں کسی مؤمن کی پٹائی ہورہی تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے خود اس کا قرض ادا کرکے قرض خواہ  کے چنگل سے اسے نجات دلا دی۔ میں نے جونہی اس کاتذکرہ کیا۔ تب اللہ تعالی نے میرے اس کام کی بدولت میرے دوسرے اعمال کو بھی مورد قبول قرار دیا۔ جنت کا پروانہ دیکر  مجھے جنت (بہشت برزخی) کی طرف روانہ کردیا۔  کاش آج ہمارے درمیان بھی قرض خواہوں کے قرض کو ادا کرنے والے ،دکھیاروں کا دکھ بانٹنے والے اور غریبوں کی مدد کرنے والے افراد ہوتے تو کتنا خوبصورت معاشرہ ہوتا۔غریبوں کی زندگی بھی سنور جاتی۔ ان کی مدد کرنے والے بھی دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے۔موت  اور قبر کی تاریکی کو یاد کرکے خود سدھر جائیے معاشرہ اور ملک خودبخود سدھر جائے گا۔
(یکصد موضوع پانصد داستان،صفحات:720-723)


تحریر۔۔۔۔۔۔ ایس ایم شاہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین کا ملک گیر سالانہ تنظیمی کنونشن اس اعتبارسے خاصی اہمیت کا حامل رہاکہ تین سال بعدمرکزی سیکرٹری جنرل کی نشست پر انتخاب کا مرحلہ بھی اسی دوران طے کیا جانا تھا۔جماعت کے منشور کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کو مرکزی سیکرٹری جنرل کہا جاتا ہے۔انتخابی عمل سے قبل مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اپنی آئینی مدت کے اختتام پر عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔علامہ ناصر اس سے قبل دو بار منتخب ہو چکے ہیں۔کنونشن کی آخری نشست میں شیعہ سنی علما کی موجودگی نے باہمی احترام اور رواداری کی پر رشک فضا قائم کی ہوئی تھی۔میڈیا کے دوستوں اور مبصرین کی موجودگی میں رائے شماری کا عمل شروع ہوا۔ ووٹنگ کے اختتام کے بعد شوری عالی کے اراکین جو کہ انتخابی عمل کے نگران بھی تھے نے گنتی شروع کی۔بزرگ عالم دین علامہ شیخ صلاح الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھاری اکثریت سے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے ہیں۔اس اعلان پر حاضرین کھڑے ہو کر نومنتخب سیکرٹری جنرل کو بھرپور نعروں کی صورت میں خراج تحسین پیش کیا۔

علامہ ناصر عباس جعفری ایم ڈبلیو ایم کے بانیان میں سے ہیں۔پارہ چنار،گلگت بلتستان، کراچی ،کوئٹہ اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے نہ تھمنے والے واقعات پر مذہبی جماعتوں کے سکوت کے ردعمل میں مجلس وحدت مسلمین کا قیام عمل میں آیا۔اس جماعت کے اولین اہداف میں ملکی ترقی و استحکام کے لیے مشترکہ کاوشیں،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی طرف سے موثر حکمت عملی طے نہ ہونے تک آئینی جدوجہد اور اتحاد بین المسالک کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہے۔علامہ ناصر عباس نے روز اول سے یہ واضح کر رکھا تھا کہ ہم ظالم کے مخالف ہیں چاہے وہ کوئی ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو اور مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کوئی غیر مذہب ہی ہو۔ یہ نعرہ علامہ نا صر عباس کی مقبولیت کا باعث بنا۔مجلس وحدت مسلمین نے مختلف قومی اور عالمی ایشوز پر جوٹھوس موقف اختیار کیا اسے اگر اس وقت حکومت کی طرف سے پذیرائی نہیں بھی ملی تو بھی بعد کے حالات اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ اس سیاسی و مذہبی جماعت کی پالیسی قوم و ملک کے حقیقی مفاد میں تھی۔طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے قبل مجلس وحدت مسلمین کے علاوہ ملک کی تقریباََ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حامی تھیں ۔ایم ڈبلیو ایم نے واضح طور پر حکومت سے مطالبہ کیا یہ مذموم عناصر پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں۔ان کے ہاتھ ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ان کے ساتھ رعایت برتنا اپنوں کے خون کے ساتھ غداری ہو گی۔مذاکرات کا طویل راگ الاپنے کے بعد بھی طالبان کو رام نہ کیا جا سکا تو پھر ان کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا گیا۔اگر اس آپریشن کی راہ میں مصلحت اور سیاسی دباو اثر انداز نہ ہوتا پاکستان کی بہت ساری قد آور شخصیات اور دیگر افراد دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھتے۔

اسی طرح یمن اور سعودی عرب کے مختلف تنازعات میں پاکستانی فوج کومدد کی غرض سے بھیجنے کے فیصلے کے خلاف ایم ڈبلیو ایم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کی موجودہ داخلی صورتحال اس کی قطعی متحمل نہیں۔ ہماری افواج اس وقت لاتعداداندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ہمیں بہت سارے دیگر محاذوں پر دشمن کی سازشوں کا سامنا ہے۔ایسی صورتحال میں پاک فوج کوکسی دوسرے کی لڑائی میں دھکیلنا دانشمندی نہیں۔بعد ازاں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسی موقف کو دہرایا۔وطن کی داخلی صورتحال کی ابتری میں ان قوتوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے جو دین کے نام پر تفرقہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔یہی قوتیں طے شدہ ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین نے ان عناصر کو شکست دینے کے لیے ملک میں شیعہ سنی اتحاد کی عملی بنیاد ڈالی۔دہشت گردی اور حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کے خلاف سنی جماعتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاون لاہور میں پاکستانی عوامی تحریک کے بے گناہ کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں شہادت پر ایف آئی آرنہ کرنے کے خلاف جب دھرنے کا اعلان ہو تو علامہ ناصر عباس نے مظلوم کی حمایت کی پالیسی کو مقدم رکھا اور علامہ طاہر القادری کے ہم قدم رہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط طویل ترین دھرنے میں مجلس وحدت مسلمین کی نمائندگی نے شیعہ سنی اتحاد کی ایک انمٹ تاریخ رقم کی۔2013محرم الحرام کے دوران راولپنڈی میں پیش آنے والا سانحہ راجہ بازار میں کچھ شر پسند کی جانب سے پنڈی میں تفرقہ بازی کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔جسے اس وقت ایم ڈبلیو ایم کی مدبر قیادت نے سنی علما کے ساتھ مل کر ناکام بنا دیا۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے میڈیا کے ہر فورم پر یہ آوازبلند کی کہ ملت تشیع ایک پر امن قوم ہے۔کچھ منفی عناصر ہمیں آپس میں دست گریبان کرنا چاہتے ہیں۔شیعہ سنی وحدت کے ہتھیار سے راولپنڈی میں بدامنی پیدا کرنے والوں کے عزائم خاک میں ملا دیے گئے۔علامہ ناصر عباس ہر سال ربیع الاول کے موقعہ پر تمام صوبائی و ضلع عہدیدران کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ وہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر اپنے اپنے علاقوں میں سٹیج بنوائیں اور نعتیہ مقابلوں کا انعقاد کریں۔گزشتہ سال ماہ ربیع الاول کو مذہبی جوش و ولولے سے منانے کے لیے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے ملک بھر میں تیس سو سے زائد سٹیج سجائے گا۔ شیعہ سنی وحدت کی یہ عمدہ مثال اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔علامہ ناصر عباس نے سہ بارہ سیکرٹری جنرل منتخب ہونے کے بعد خطاب میں پاکستان کی حفاظت کو واجب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس وطن کے باوفا بیٹے ہیں۔ہم اس پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ قوم و ملت کی سربلندی اور وطن کے استحکام کے لیے میری جدوجہد بلا خوف خطر جاری رہے گی۔کوئی بھی حکمران ہمیں ہمارے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔انہوں نے کہاپاکستان سمیت دنیا بھر میں بلا تخصیص مسلک و مذہب دو گروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔ایک گروہ مظلومین کا اور دوسرا ظالمین کا۔ہمیں آپ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا دیکھیں گے۔پاکستان کے پاک وجود کو داعش سمیت کسی بھی دہشت گرد طاقت کے نجس وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وطن عزیز کو اس وقت لاتعداد چینلجز کا سامنا ہے۔نفرتیں پھیلا کر قوم کو تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان قوم متحد نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے اتحاد و اخوت کے عملی اظہار سے ان ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانا ہو گا۔

حکمران عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بجائے آئے روز گرتی ہوئی لاشوں کے تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز ،ہونہار طلبہ اور علم کی روشنیاں بکھیرنے والوں سے زندگیاں چھینی جا رہی ہیں۔ہمارے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے اور دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ہمارے ہی لوگوں کے خلاف مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ قانون انصاف کو طاقت کے زور پر پامال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جتنا بڑا مجرم ہے اتنا ہی بڑا مجرم اس کا سہولت کار بھی ہے۔ دونوں ملک کے امن و سکون اور انسانیت کے دشمن ہیں۔وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ان مذموم عناصر کے سختی سے کچلنا ہو گا۔عالمی استکباری قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں۔ان کے حلقہ اثر سے آزادی ہی حقیقی آزادی سمجھی جائے گی۔یہ طاقتیں قائد و اقبال کے اسلامی پاکستان کو مسلکی پاکستان کی شکل دینا چاہتے ہیں تاکہ تصادم کی راہ ہموار ہو ۔اس ملک میں بسنے والے سنی ، شیعہ ،عیسائی، ہندو اور دیگر تمام مکاتب فکر کو مذہب و مسلک کی بنیاد سے آزاد ہو کر برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ملک میں موجود سیاستدانوں، فوج، بیورکریسی اور عدلیہ سمیت سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے قومی ترقی و خوشحالی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جہادی گروہوں کو پالنے کی ضرورت نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو تو عوام کو آواز دی جائے ۔ملک کے باوفابیٹے ایک آواز پر میدان میں موجود ہوں گے۔پاک ایران مضبوط تعلقات کے سٹریٹجک کونسل تشکیل دی جائے جسے میں دونوں ممالک کے لوگ شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کو تقویت نہ مل سکے اورمتنازعہ معاملات کا احسن انداز میں حل نکالا جا سکے۔پاک ایران کے مضبوط تعلقات خطے کے استحکام میں بہترین کر دار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوامی حقوق کے حصول کے لیے آئینی جدوجہد جاری رہے گی۔جو لوگ ریاست میں مسلح جدوجہد کے قائل ہیں وہ غدار ہیں۔مقاصد کے حصول کے لیے آئین و قانون کی پابندی ہمارا طرہ امتیا ز رہا ہے۔پاکستان میں مہذب احتجاج کی روایت ہم نے ڈالی ہے۔پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حکمران صرف کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی قدروں سے بھی عاری ہیں۔ہم اس کرپشن کے خلاف پورے عزم اور نئے ولولے سے آگے بڑھیں گے۔


تحریر۔۔۔۔۔سید نادِعلی کاظمی

وحدت نیوز (آرٹیکل) را کے ایجنٹ کی گرفتاری اور سانحہ لاہور اس وقت یہ سارے واقعات انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اور ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے جوڑے نظر آتے ہیں ،ان سب باتوں میں جو بات حقیقت ہے دشمنان پاکستان کی سر گرمیاں اور وطن عزیز پاکستان کو کمزور اور بدنام کرنے کی سازش ہے۔

سانحہ اقبال پاک لاہور ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتے تھے کہ پنچاب میں آپریشن کی ضرورت نہیں درحقیقت دہشت گردوں کہ جڑ پنچاب میں موجود ہے جہاں سے ملک بھر میں ان کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔

اس افسوس ناک اور دل خراش سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے معصوم بچوں کے چہرہ اور بکھرے انسانی اعضاء دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ آخر ان نہتے معصوموں نے کیا جرم کیا تھا جس کی ان کو یہ سزا دی گئی ہے؟؟اور یہ درندہ صف انسان نما حیوان کون تھے جنہوں نے اس قیامت کو بر پا کیا؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ہم سب کی نا اہلی ہے عوام کی نااہلی یہ ہے کہ انہوں نے ایسے حکمرانوں کو منتخب کیا جن کو وطن عزیز کی سالمیت سے زیادہ زاتی مفادات کا خیال ہوتا ہے،عوام نے کبھی سیاسی شعور اور آگاہی سے اپنے نمائندوں کو منتخب نہیں کیا اسی لئے ان منتخب شدہ نمائندوں کو عوام کی جان و مال کی فکر نہیں ہوتی اور تمام تر سیکورٹی انتظامات زاتی مفادات کی خاطر ہوتی ہے۔

جب سے را کا آفیسر پکڑا گیا ہے انگنت انکشافات ہوئے ہیں کہ بلوچستان،کراچی سمیت ملک بھر میں بدامنی پھیلانے اور قتل و غارت گری میں را ملوث ہے،جن کا مقصد وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے، ہمسایہ ممالک سے تعلوقات کو خراب کرنا ، پاکستان کو اندورونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنا اور محب وطن پاکستانیوں کے دلوں میں مایوسی پھیلانا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کو متاثر کیا جا سکے۔اگر ہم حقیقت میں دیکھیں تو دشمنوں کی یہ کوئی پہلی سازش نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری ہے جب سے وطن عزیز پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے پاکستان کے خلاف مختلف سازشیں ہوتی رہی ہے اور دشمن کہ تو ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے پاکستان ایک ایٹمی مسلم ملک دنیا کو برداشت نہیں، عالمی طاقتوں کو خصوصا انڈیا اور عالم اسلام کے دشمنوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کی پاکستان ترقی کرے اور پاور فل ملک بنے، الحمد اللہ پاکستان اس وقت خطے میں ایک پاور فل ملک ہے جغرافیائی طور پر بھی اور دفاعی طور پر بھی اور تمام اسلامی ممالک کو وطن عزیز کی ایٹمی طاقت پر فخر ہے ۔

را کے ایجنٹ کے لئے ضروری نہیں کی وہ انڈیا سے ہی آیا ہو اور اس کی شناختی کارڈ انڈیا کا ہی ہو، ہر وہ شخص یا ادارہ را کا ایجنٹ ہے جس کو پاکستان کی سلامتی کا خیال نہ ہو وطن عزیز سے محب نہ ہو۔ افسوس کہ کچھ عناصر جن کا تعلق کلعدم جماعتوں اور دہشت گرد گروہوں سے ہے ظاہری طور پر وہ مسلمان بھی ہے اور پاکستانی بھی مگر حقیقت میں یہ لوگ را کے ایجنٹ سے زیادہ خطرناک ہے، را کے ایجنٹ تو ہے ہی ازل سے پاکستان کے دشمن مگر را اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والوں سے پاکستان کو زیادہ خطرہ ہے، چاہے وہ سیاسی ہویا مذہبی جس پیٹ فارم پر بھی وطن عزیز پاکستان کی سالمیت اور امن و سلامتی کے خلاف سازش ہوتی ہو وہ را کے ایجنٹ ہے ۔ را کے بھی یہی مقاصد ہوتے ہیں کی پاکستان میں سیاسی،مذہبی ،لسانی ،معاشی اور معاشرتی طور پر افراتفری رہے اور ان دہشت گرد گروہوں کا بھی یہ مقصد ہے کہ پاکستان غیر مستحکم ہوں اور کبھی متحد نہ ہوں۔میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ پڑھ رہا تھا جس میں تحریر تھا "جو دین وضو کرتے بلا ضرورت پانی بہانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کسی کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے" حقیقت بھی یہی ہے کہ بم دھماکہ، ٹارگٹ کلنگ ،قتل کا فتوی ان دہشت گردوں کو کس نے دی؟؟ اسلام تو امن و سلامتی کا درس دیتی ہے اسلام تو کبھی کسی بے گناہ کے قتل کا فتوی نہیں دے سکتا،اسلام بچوں،خواتین پر ظلم کا درس تو نہیں دیتا حتاکہ اسلام کسی جانور پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام امن و سلامتی اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتا ہے مظلم کی حمایت ظالم سے نفرت کا درس دیتا ہے، تو پھر یہ کون لوگ ہے جو کفر کا فتوی دیتے ہیں اور پُر امن جگہ کو قتل گاہ بنادیتا ہے؟ اخر وہ کون لوگ ہے جو بچوں خواتین بزرگ،نسل، مذہب کی تمیز نہیں کرتے اور سب کو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیتے ہیں، حقیقت میں یہ گروہ اسلام اور پاکستان کے دشمن اور را کے ایجنٹ ہیں، قتل و غارت گری کرنے والا اور اس میں معاونت کرنے والا اور اس واقعہ پر خوش ہونے والا تینوں طبقہ اس ظلم میں شریک ہیں ا ور یہ سب کے سب غیر ملکی ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں،ظاہری طور پر یہ اسلام کے ٹھیکہدار ہیں حقیقت میں ان کو ٹھیکہ اسلام اور پاکستان دشمن عناصر نے دی ہے۔

لاہور سانحہ کے بعد جنرل راحیل شریف کے حکم پر پنجاب میں آپریشن قابل تعریف ہے ان دہشت گردوں کو ان کے سرپرستوں کو ملک کے جس کونے میں بھی ہوں ان کے خلاف آپریشن شروع کرنا چاہے، پاکستان کے سیکورٹی اداروں سے امید ہے کہ وہ پنچاب آپریشن کے دائرے کو اسلام آباد ، سندھ سمیت ملک کے دوسرے حصوں تک وسیع کریں گے تاکہ جہاں کہی بھی اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کے ٹھکانے اور سہولت کار موجود ہوں ان کو ختم کیا جاسکے، زمینی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کاروائی بھی ہونی چاہے اور ان دہشت گردوں کو سیاسی یا مذہبی طور پر پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے تاکہ وطن عزیز پاکستان کی سیاسی فضاء بھی پاک صاف ہوں،اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے درمیان بھی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ سادہ لوح عوام کو ان دشمنوں کے حربوں کا علم ہو اور وہ ان کے نرغے میں نہ آسکے۔ ہمیں وطن عزیز کے سیکورٹی اداروں پر فخر ہے اور امید بھی ہے کہ وہ وطن عزیز کے دشمنوں کا پردہ چاک کریں گے اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) آسمان فضیلت کی مدحت سرائی  ممکن نہیں۔کس کی کیا مجال ہے  جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر  بلبل   کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔  ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں  اپنی بساط کے مطابق اس  صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید  کو اپنا  وطیرہ بنا کر اس کی مدح  وستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی  ایک خاصہ رہا ہے۔

 بسا اوقات وہ  مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کےبیان کا  حق بھی کافی حد تک  ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہو نے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کے بھی حامل ہوں لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گااور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔

آپ کا حسب بھی بے مثال ہے اور نسب بھی بے نظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو  آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کے دو شہزادے جنت  کےجوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی  ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا  رشک کرتی ہے۔آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود  آج تک کوئی  رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ  تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں  کے نئے دریچے کھلتے چلے جارہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح  عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے  بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے  حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذاآپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی  نمونہ عمل ہے۔

آپ کی  عظمت کے اظہارلیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے  کی کوشش کرتے ہیں:

1.     روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف  اہل سنت محدث بخاری نے  صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔  ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾

2.     مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾

3.     حاکم نیشاپوری مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں  کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا: میری بیٹی!کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کے خواتین  کی شہزادی  بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾

4.     فاطمہ زہرا ؑ عبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں:

رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع  سے زیادہ اور  غیرمعمولی  احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے  فرمایا: یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔

جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو  حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے  تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔

یہ کوئی  من گھڑت احادیث میں سے نہیں  بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا: جس نے انھیں  اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں  ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے  وجود کا حصہ ہے۔ جو  ان کے﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بے چین کردیا ہے۔ ﴿۴ ﴾

5.      فخر رازی :معروف مفسر فخر رازی  سورہ کوثر  کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت  یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو  طعنہ دینا ہے۔دشمنوں کا کہنا تھا:محمدابتر ﴿ مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا  نہ چھوڑنے والا﴾ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعدادمیں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیالیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی  ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء  اور دانشوروں سے پر ہیں۔باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵ ﴾

6.     سیوطی:  ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے  سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔

7.     آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔

8.     سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے: میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔

9.     ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

10.  شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔

11.  توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلند ی  کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی ،علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی  ہیں جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی  عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے  والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ  آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾

12.  زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ  کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم  سے  افضل ہیں۔

13.  سفارینی:  لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی  افضل ہونا ثابت ہے۔

14.  شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔

15.  ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔البتہ یہ احادیث سرور جہان﴿حضرت فاطمہ ؑ﴾ کی تمام  خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ بقیہ تین خواتین﴿ مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا  کے خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾

ان تمام علماء کے آراء کو جمع کرنے پر ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ  حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔آپ کی خوشنودی  مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف  ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا   کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی  طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے  اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی  جہنمی ہیں۔آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ  کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔جہاں رسول اکرم(ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل وبرتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!

تحریر۔۔۔۔۔محمد علی شاہ حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) مایوسی سرطان کی مانند ہے۔ اگر ایک بچے کو شروع سے یہ باور کردیا جائے کہ تم کو ایک مزدور کےعلاوہ کچھ بننا ہی نہیں تب آہستہ آہستہ اس کی ذہنیت ہی کچھ ایسی بن جائے گی  یہاں تک کہ وہ اس سے آگے  کی طرف سوچنے  کا تصور بھی کھو دے گا۔ اگر اسی نہج پر بہت سارے افراد کی تربیت کی جائے  تو احساس کمتری کا  شکار ایک  گروہ پیدا ہوگا اور اسی گروہ سے معاشرہ تشکیل پائے گا۔ جب پورا معاشرہ ہی محرومی کا شکار ہوجائے تب حقوق کا حصول خواب بن کر رہ جائے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ۶۸ سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ آئینی حقوق تمہاری تقدیر میں ہی نہیں لہذا اس کے لیے قدم اٹھانا تمہاری بھول ہے۔ درمیان میں بعض چھوٹے گروہوں نے سراٹھانے کی کوشش کی تو ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ بعض افراد کو زندانوں  کی زینت بنادیا گیا تو بعض دوسرے افراد کو مختلف طریقوں سے سرکوب کیا گیا۔ یوں آئینی حقوق کا حصول  ناممکن سا دکھائی دینے لگا اوراحساس محرومی ہمارے پورے معاشرے پر حاکم ہوگیا۔اس بے حسی سے فائدہ اٹھاکر  حکمران  یکے بعد دیگرے سبز باغ دکھاکر اس علاقے کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔

 اچانک  ہمارے ہمسایہ ملک چین سے ایک بڑے پیمانے پر "اقتصادی راہداری"کے عنوان سے ایک جامع معاہدہ ہوا۔ یہاں آکر چین نے اس طویل المدت اور کثیر المقاصد پروگرام کو گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔﴿۱﴾اب آکر ایوان اقتدار پر براجمان حکمران تحیر کی وادی میں سرگرداں ہوگئے۔گلگت بلتستان کو آئینی حق دیں گے تو ان کو دوسرے صوبوں کی مانند پارلیمنٹ اور سینیٹ سمیت تمام قومی اداروں میں نمائندگی دینا پڑے گا۔ یوں یہ لوگ دوسرے پاکستانیوں کی مانند اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگر ان کو سابقہ حالت پر باقی رکھا جائے تو ۴۶ارب ڈالر کا معاہدہ بے ثمر ہوجائے گا۔ اس  طرح اس بحث نے ایک نیا سمت اختیار کیا۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس کمیٹی میں بھی گلگت بلتستان کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی اور نہ ہی اقتصادی راہداری میں ان کا کوئی حصہ معین ہوا۔ بعدازاں  کافی بحث و تمحیص کے بعد آئینی حقوق سے متعلق کچھ  امید افزا باتیں بھی سامنے آنے لگیں۔ یکایک مظفر آباد اسمبلی سے اجماعی طور پر اس علاقے کو صوبہ بنانے کی بھرپور مخالفت سامنے آگئی اور اس کوشش کو کشمیر ایشو کی کمزوری کا سبب ہونے سے تعبیر کرنے لگا﴿۲﴾۔ ادھر سرحد پار  ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے حریت لیڈر سید علی گیلانی نے واویلا کرنا شروع کیا۔اس نے برملا کہا کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مصمم ارادہ کرچکی تھی لیکن ہم نے اس کی سختی سے مخالفت کی لہذا اب  یہ علاقہ صوبہ نہیں بنے گا۔علاوہ ازیں اس نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بناکر کشمیر کو متنازعہ نہ بنایا جارہا ہے۔ ﴿۳﴾ میری دانست میں کشمیریوں کو حقوق دینے کے حوالے سے دسیوں سال گزرنے کے باوجود آج تک گلگت بلتستان کے کسی لیڈر نے کوئی مخالفت نہیں کی لیکن گلگت بلتستان کے حقوق کی جب بھی کوئی بات چلتی ہے اس وقت کشمیری لابی آڑے آجاری ہے۔ گیلانی صاحب کو اتنا بھی علم نہیں تھا کہ ۶۷سال ہوگئے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق نہیں دئیے گئے کیا کشمیر کی متنازعہ حیثیت اس سے ختم ہوگئی ؟کیا عرصہ دراز سے اس علاقے کو  اپنے آئینی حقوق سے محروم رکھنے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت مل گئی ہے؟  کیا کشمیر ہمیشہ کے لیے متنازعہ رہے تو گلگت بلتستان کو بھی تاابد اسی حالت میں رکھنا ممکن ہے؟ کیا اس وقت  گلگت بلتستان کے  حقوق پر ڈاکہ مارنے والے  کشمیری بھائیوں نے گزشتہ ۶۷سالوں میں کسی بھی ایوان میں ان کے  حق میں ایک بات بھی کرنے کی زحمت اٹھائی ہے؟  کیا ابھی تک کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کے خلاف ایک بل پیش کرنے کی توفیق آپ لوگوں کو ہوئی ہے؟پاکستانی فیصلے ہمارے پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ہوتے ہیں یا بیروں ملک علی گیلانی جیسوں کے خیالات پر مبتنی ہے؟ یہ الگ بحث ہے کہ ایسی باتیں کشمیریوں نے خود سے کی ہیں یا ایک پالیسی کے تحت ان سے کہلوائی  گئی  ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ آزاد کشمیر میں انتخابات کے دن قریب آتے گئے۔ یوں حکمران وقت نے سوچا کہ اگر ان کی باتوں پر کان  دھرے  بغیر گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا تعین کیا جائے تواس انتخابات میں ہم خاطر خواہ سیٹیں لینے سے رہ جائیں گے۔یوں ذاتی مصلحت  غالب آگئی اور مدت مدید گزرجانے کے باوجود ابھی تک  حکومتی ایوانوں میں سکوت کی فضا غالب ہے۔علاوہ ازیں بعض حکومتی اہلکاروں کے بیانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ حکومت اب پھر سے ایک مختصر سیٹ اپ کے ذریعے یہاں کے عوام کو  دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ ﴿۴﴾ دوسری طرفسے آئینی  مسئلے کو سلجھانے کی بجائے یہاں کے عوام کو الجھانے اور لوگوں کے رد عمل کا اندازہ لگانے کی خاطر ٹیکس کے نفاذ کی بات کو پروان چڑھایا گیا  اور ساتھ ہی جلال آباد اور بعض دوسرے علاقوں کے افراد کے ذریعے  مقپون داس  پر چڑھائی کی گئی ۔جہاں عرصہ ڈیڑھ سال سے ہراموش کے عوام فیملی سمیت زندگی گزار رہے تھے۔ساتھ ہی عدالت کا فیصلہ بھی ان کے حق میں ہے۔ چند دنوں کے بعد وہاں سے پولیس کے ذریعے  جلال آباد اور دوسرے علاقوں کے افراد کو  ہراموش کے  بعض افراد سمیت  وہاں سے نکال  دیا گیا۔ مختصر مدت گزرجانے کے بعد راتوں رات فوج اور پولیس سمیت سرکاری انتظامیہ نے وہاں پر شب خوں مار کر لوگوں کے مکانات کو ملیامیٹ کرکے  ہراموش  کے عوام  کو بے دخل کردیا گیا۔ یوں ایک اور صبر آزما مسئلے کا اضافہ ہوا۔    

اب گلگت بلتستان کے عوام نے دیکھا کہ حقوق دینے کی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی بلکہ حکومت مختلف وسیلوں سے ہمیں سرکوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا  چاہتی ہے۔ یوں  اس آئینی مسئلے کے مطرح ہونے کے بعد تشکیل پانے والی "عوامی ایکشن کمیٹی " کا ایجنڈا عوامی امنگوں کے عین مطابق ہونے کے باعث یہاں کے عوام  میں ان کو کافی پذیرائی مل گئی۔ اس کمیٹی نے بروقت اقدام کرتے ہوئے گلگت بلتستان  کے آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری میں یہاں کے حصے کا تعین کی خاطر  احتجاج کی کال دی۔ جس پر تمام پارٹیوں کے سربراہ سمیت عوام کی کثیر تعداد نے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے  میدان میں اتر آئی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم کٹ مریں گے لیکن آئینی حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔﴿5﴾صوبائی حکومت کی طرف سے غیرذمہ دارانہ اور زمینی حقائق سے کوسوں دور بیانات سامنے آئے۔ جس سے عوام  میں ان کی مقبولیت کی بجائے نفرت میں مزید اضافہ ہوااور ان کا حقیقی  چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔تعصب کی عینک سے انھیں ہزاروں کا مجمع دسیوں اور سب کے اجماعی چارٹر آف ڈیمانڈ ناقابل مطالعہ دکھائی دینے لگے۔﴿6﴾در حقیقت ان کے اپنے اختیارات بھی اخباری بیانات سے زیادہ نہیں۔لہذا وہ اپنی بے بسی کو چھپانے کی خاطر ایسے فاترالعقل بیان بازیوں کا سہارا لیتے ہیں۔

اب لوگوں میں ایسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جس کو روکنا کسی کی بس میں نہیں۔ حکومت اور ایوان اقتدار پر براجمان دوسرے عہدے داروں کو اس حقیقت کا اعتراف ہونا چاہیے کہ گلگت بلتستان کی قوم نے دوسرے صوبوں سے زیادہ پاکستان کی سالمیت اور اس کے دفاع کے لیے بھرپور قربانیاں دی ہیں۔ فوج، پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں میں ہزاروں جوان  اب بھی اپنی جان  جوکھوں میں ڈال کر اپنے کو ملکی سالمیت کے لیے سپر بنائے ہوئے ہیں۔ذرا تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے۔۶۵ کی پاک بھارت جنگ ہو یا ۷۱ کا وار ہر مرحلے پر یہاں کے جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے  کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔۱۹۹۹ء کی کارگل وار میں بیٹوں کی شہادت پر ان کے والدین نے سجدہ شکر بجا لاکر ملکی دفاع میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔یہاں کے عوام  ۶۸ سالوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستانی باسی اور وفادار ہیں لیکن ابھی تک حکمرانوں کو ان کی  وفاداری پر اعتماد نہیں آیا جبکہ مقبوضہ کشمیری اتنے ہی عرصے سے علم بغاوت بلند کرکے  ہندوستانی فوج کے گلے میں خار بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی بھارتی حکومت ان کو اپنا ہی مانتی ہےاور ان کو ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ حقوق دے رکھی ہے۔ اب ظاہر حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کسی مختصر سیٹ اپ پر اکتفا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ لہذا  حکومت وقت کو یا   آئین  میں ترمیم کے ذریعے گلگت بلتستان کو  مستقل صوبہ بنانا ہوگا یا اقوام متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈکو قابل عمل بناکر یہاں کے عوام کو محرومیت سے نجات دلاکر ان کے  مستقبل کا تعین کرنا ہوگا۔کیونکہ کسی کو اس کے حق سے محروم رکھنا ظلم کا بارز مصداق ہے۔ یاد رکھیے حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے  لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔


تحریر۔۔۔۔۔سید محمدعلی شاہ حسینی


حوالہ جات:

1.      Dawn News>tv<News

2.      12.12.2015 com.taingbDaily

3.      اردو پوائٹ۔15جنوری 2016

4.      ایضا

5.      ڈیلی کےٹو، 19مارچ2016

6.      ایضا

وحدت نیوز (آرٹیکل) تعلیم اور تربیت ناقابل تقسیم اکائی ہے ۔ یہ دو ایسے اہم مرکب ہے جو قابل انفکاک ہی نہیں  لیکن اگر کوئی قوم ان دونوں کو الگ الگ  کردےاور تعلیم کو اس دور کی ضرورت اور تربیت کو غیر اہم سمجھےتو یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے اس قوم کازوال شروع ہوجائے گا ۔ آج کے دور میں بعض ماڈرن ذہنیت کے لوگ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ماڈرن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ تعلیم وقت کی ضرورت ہے جبکہ تربیت مذہبی لوگوں کی باتیں ہیں ۔ در حقیقت ان نام نہاد ماڈرن لوگوں نے ابھی تک تربیت کا اصل مفہوم سمجھا ہی نہیں ،تربیت بنیادی طور پر دو طرح کی ہے ،ایک اخلاقی و دینی اور دوسری فنی و ہنری۔

اخلاقی و دینی تربیت کے بغیر انسان علم یا فن و ہنر میں جتنی بھی ترقی کرجائے وہ  فقط نام کا انسان ہوتاہے۔ہمارا  سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں  دونوں طرح کی تربیت کا فقدان چلا آرہاہے ۔ آداب اسلامی اور عقائد اسلامی کے مطابق تربیت نہ ہونے   کی وجہ سے ہم آج مغرب پرست بنے ہوئے ہیں ہم مغرب کی ہر حرکت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آج  اہلِ مغرب ہمارے مربّی ہیں  اور ہم ان کی تقلید کرنے کو فخر سمجھتے ہیں جبکہ مسلم تہذیب ہزار برس تک دنیا پر اس طرح حکومت کرتی رہی ہے کہ افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا اور یورپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی متمدن دنیا میں کوئی اس کی ہم سری اور برابری کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔صرف سیاست ہی نہیں  بلکہ تہذیب، تمدن، علم، فن، زبان، معاشرت اور تجارت میں کوئی اس سے آگے نہ تھا۔ایسا دور بھی گزرا ہے کہ یورپ مسلمانوں کی تہذیب و تمدن سے مرغوب تھے  مگر جب سے مسلمانوں نے اپنی اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر یورپی تہذیب کو اپنائے ہیں اس وقت سے ہمارے معاشرے کی اچھی خاصی تعداد میں مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنی دینی حیثیت کھو بیٹھے ہیں ۔ تربیت کی جانب کم توجہی  کہ وجہ سے مسلمان اخلاقی طور پر کمزور ہوئے تو انھیں بغداد کی تباہی اور اسپین سے نکالے جانے کا سانحہ دیکھنا پڑا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی اور تہذیبی غلبے کے لیے تعمیری سوچ اور اصلاحی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دوسروں کو الزام دینے اور ان کی سازشیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی غلطیاں تلاش کرنا اور علم و اخلاق میں پستی کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کسی بھی قوم کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پاس اچھے، اہل ، قابل اور ا صلاح و تربیت یافتہ افراد  میسرہوں جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوں ، شخصی اقتدار کیلئے دوسروں  کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں ۔

جب معاشرے میں تربیت یافتہ اور شعور دینی و آداب اسلامی سے واقف افراد ہونگے تو انہی میں سے ہی بعض افراد اس سماج کے باگ ڈور  سنبھالیں گے تو ایک اچھا حکمران نہ صرف قومی مفاد اورمصالح کی مد نظر رکھتاہے بلکہ قوم کے افراد کی صلاحیتوں کو بھی چمکاتااور صیقل کر تاہے ۔لیکن جب حکمران تربیت یافتہ نہ ہوں فہم و ادراک دینی سے نا بلد ہوں تو وہ  عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں پڑیں گے  ، اشرافیہ ان کے ساتھ زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے  تو لازمی بات ہے عوام پر بدترین  وقت آئے گا طرح طرح کی مشکلات سے عوام کو دوچار ہونا پڑے گا یہاں تک کہ یہ لڑاو اور حکومت کرو کے اصولوں پر عمل کرتا  رہےگا۔ یوں انسانیت کا محترم خون حکمرانوں کی ہوس کی خاطر گلی کوچوں میں بہتا رہے گا نہ صرف یہی بلکہ ابن آدم کو انسان کی بجائے جانور اور کولہو کابیل سمجھا جاتارہے گا  ۔

دیگر مناطق کی طرح آج ہمارا گلگت  بلتستان بھی علمی لحاظ سے عروج پر ہے  لیکن تربیتی عنوان سے زوال کا شکار ہے،ڈاکٹر ہمارے اپنے ہیں، انجئینرز بھی مقامی ہیں،پروفیسرز بھی ہیں اور یوں   ہم ایک تعلیم یافتہ لوگ کہلواتے ہیں لیکن  باوجود  اس کے  ہم نہ اخلاقی برائیوں سے بچ سکے، نہ اپنے اسلاف کی اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر علاقے میں ترقی لا سکے ۔

 ترقی یافتہ بننے، فیشن ایبل بننے کی کوشش میں ہم نے یورپ کی تقلید شروع کی  خواتین بازارون میں ننگے سر پھرنا شروع ہوئیں ،منشیات کو عام کردیا  گیا، فحاشی ،عریانی یعنی وہ تمام چیزیں جو ایک غیر اسلامی ملک میں ہوتا ہے ہم کر گزرے  لیکن دوسری طرف  ، بنیادی  انسانی حقوق  اور آئینی حقوق لینے کی نہ ہماری اسمبلی میں طاقت ہے نہ ہمارے نمائندوں  کی کوئی حیثیت  ہے  اورنہ ہمارے صحافیوں میں دم خم ہے ۔ ہمارا سی پیک میں کوئی حصہ نہیں ،حکومت ہماری زمنیوں پر زبردستی قبضہ کرتی چلا جارہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے لڑتے مرتے جارہے ہیں۔ہمیں ابھی تک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہونا بھی نہیں آتا۔

 اگر ہم علاقائیت ،لسانیت ،فرقہ واریت سے بالاتر ہو کراپنی نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی تربیت  پر آج بھی توجہ دیں تو اگلے کچھ عرصے میں ہم  سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ آج ہمارے جوانوں کے پاس  ڈگریاں اور پیسے تو ہیں لیکن اجتماعی اور قومی شعور نہیں ہے اور یہی چیز ہماری ملی وحدت اور قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔


تحریر۔۔۔۔۔قمرعباس حسینی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree