وحدت نیوز(آرٹیکل) آل سعود کی حکومت اور برطانیہ:سلطنت برطانیہ اور آل سعود کے مابین تعلقات کافی پرانی ہیں بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ آل سعود کی حکومت قائم ہوئی ہے تو وہ وہابیت کی تبلیغ اور برطانیہ کی مددسے ہوا ہے ۔ آل سعود نے مذہب وہابیت کے زریعہ عرب کے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا ہمنوا بنایا تو دوسری طرف برطانیہ کی غلامی کے طوق کو گلے میں پہن کر سیاسی اور عسکری مدد حاصل کی۔ عرب کی سرزمین پر خصوصا مکہ و مدینہ میں جو کہ مسلمانوں کے مقدس سر زمین ہے، برطانیہ بزات خود  یا براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا تھا، لہذا برطانیہ کو ایک ایسے مسلمان نماء گروہ کی ضرورت تھی جو برطانوی ایجنڈے پر عمل پیراہوں اور عرب کی سر زمین پر برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس کام کے لے آل سعود سے بہتر کوئی نہیں تھا جو پہلے سے ہی عربوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات کا بیج بو چکا تھا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا۔ آل سعود کو بھی کسی طاقت کا سہارا چاہیے تھا تاکہ وہ عرب سے باقی سلطنتوں کا خاتمہ کر سکے اور ترکوں کو نکال کر اپنی حکومت قائم کر سیکں۔

آل سعود اور برطانیہ کے مابین پہلا معاہدہ ۲۶ دسمبر ۱۹۱۵ میں جزیرہ ڈرن میں طے پایا جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ال سعود کی حکومت کو برطانیہ مکمل تحفظ فراہم کرگا ۔ اس کے بعد ۲۰ مئی ۱۹۲۷ کو معاہدہ جدہ وجود میں آیا جو عبد العزیز اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پایا اور عبد العزیز کی حاکمیت کو سلطنت حجاز اور نجد کے نام سے تسلیم کیا گیا۔

بر طانیہ پہلی ریاست ہے جنہوں نے ۱۹۲۶ میں آل سعودکے ناجائز قبضہ کو باقاعدہ حکومتی سطح پر تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات شروع کئے، سعودی عرب نے ۱۹۳۰ میں اپنا سفارت خانہ لندن میں قائم کیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۰ معاہدات سعودیہ اور برطانیہ کے مابین طے پائے جن کی لاگت ۱۷.۵ بلین ڈالر ہے اور تیس ہزار برطانوی شہری سعودی عرب میں تجارتی اور دوسرے زرائع میں کام کر رہے ہیں۔یہ صرف برطانوی اور سعودی عرب کے تعلوقات ہیں امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ملکوں سے اس کے تعلوقات الگ ہیں۔

سعودی حکومت اور برطانوی غلامی کے انداز کو جعفر البکی اپنے ایک کالم میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:
ـ"سلطنت بر طانیہ کے دور میں سلطان نجد عبدالعزیز السعود عراق میں موجود برطانوی ہاکمشنر پرسی کاکس کے سامنے اس طرح عزت و احترام سے اپنے سر کو جھکا دیتے ہیں اورانتہائی عاجزی سے کہتے ہیں کہ آپ کا احترام میرے لئے میرے ماں باپ کی طرح ہے، میں آپ کے احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ نے مجھے اس وقت سہارا دیا اور بلندی کی طرف اٹھایا جب میں کچھ بھی نہ تھا میری کچھ حیثیت نہیں تھی، آپ اگر ایک اشارہ کریں تو میں اپنی سلطنت کا آدھا حصہ آپ کو دوں۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔نہیں اللہ کی قسم اگر آپ حکم دیں تو میں اپنی پوری سلطنت آپ کو دینے کو تیار ہوں"۔

عبد العزیز نے یہ سب باتیں اکیس نومبر ۱۹۱۲ کو" العقیر کانفرنس ـ"میں اس وقت کہا جب سلطان نجد، سلطنت عراق اور سلطنت شیخین کویت کے سر حدوں کا تعین کیا جارہا تھا۔لہذا آل سعود کی حکومت کا برطانیہ اور عالمی طاقتوں کی غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے آل سعود نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری برطانیہ اور امریکہ کو دی ہوئی ہے اور وہ اس کے بدلے ان ممالک کو تیل فراہم کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ برطانیہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے، اس وقت عالم اسلام میں جو شدت پسند گروہ اور دہشت گرد ہیں ان کو آل سعود اور مغربی طاقتیں سپورٹ کرتی ہیں۔ آل سعود نے اپنے حکومت کو پھیلانے کے لئے ہر قسم کے ظلم و ستم کو رواں رکھا یہاں تک کہ انھوں نے شرعت محمدی ؐکو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا اور اپنی حکومت کو وسعت دی اور اسلام میں شدت پسندی کو فروغ دیا۔ آل سعود کی شدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کام کافروں سے کم نہیں ہیں۔ یہود و نصای کا جو کام تھا وہ آل سعود نے عملی میدان میں کر دیکھا یا ہے۔ آل سعود نے وہابیت کے زریعہ اسلام کے دوشن چہرہ کو مسخ کیا وہابیت کے علاوہ تمام مذاہب کی توہین کی،حتاکہ اصحابہ کرام کی مزارات اور اہل بیت ؑ کے مزارات کی بھی توہین کی ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں آل سعودکی جانب سے پیغمبر اکرم(ص)، اہل بیت ؑ اور صحابہ کے مسمار شدہ مقامات کی سوسالہ قدیمی اسناد کے ساتھ ایسی تصاویر شائع ہوئی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آل سعود نے مکہ اور مدینہ میں پائے جانے والے تمام تاریخی اور اسلامی آثار کو منہدم کر دیا ہے حتیٰ کہ پیغمبر اکرم ؐ اور جناب خدیجہ کے اس گھر کو بھی مسمار کر دیا جس میں انہوں نے باہم زندگی گزاری۔ان اخباروں نے ۳ دسمبر ۱۹۲۰ میں شائع ہونے والے رسالے "الکفاح العربی" کے شمارے ۵۲۶ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس رسالے میں درج زیل تصاویر کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ آل سعود نے اس گھر کو مسمار کر دیا ہے جس میں پیغمبر ؐ دنیا میں تشریف لائے اور نیز اس گھر کو بھی منہدم کردیا جس میں انہوں نے جناب خدیجہ بن خولد کے ساتھ زندگی گزاری نیز وہ گھر جس میں جناب فاطمہ زہرا ؑ پیدا ہوئی جو مکہ کی گلی " زفاق الحجر" میں آل سعود نے منہدم کر دیا۔اس نادر سند سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آل سعود جو خود کو اصحاب پیغمبر کا واحد حامی سمجھتے ہیں ان کے شر سے صحابہ کے مقامات بھی محفظ نہیں رہ سکے یہاں تک کہ " المسلفلہ" کے علاقے میں جناب ابو بکر صدیق کا گھر بھی گرادیا گیا۔مصر کے اخباروں نے اس سند کو فاش کر کے تاکید کی ہے کہ اس سند کو فاش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آل سعود ابھی بھی تکفیری ٹولے کی حمایت میں تاریخ اسلام کے باقی ماندہ آثار کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ شام ،عراق ، لیبیا اور لبنان میں داعش کی صورت میں کر رہے ہیں۔واشنگٹن میں ایک تحقیقاتی ادارے نے بھی کچھ روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی حکومت نے گزشتہ ۲۰ سالوں میں ۱۹۵ ایسے تاریخی آثار اور مقدس مقامات کو منہدم کر دیا ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے تھے۔

مکہ مکرمہ اور آل سعود کاحملہ:مکہ مکرمہ کو روز اول سے دینی اور دنیاوی اعتبار سے مرکزیت حاصل رہی ہے اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بالعمول اور اہل اسلام کے لئے بالخصوص تاریخی کشش رکھتا ہے اس لئے اس شہر مقدس کی تاریخ کافی پورانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی مکہ کو عرب میں مرکزیت حاصل تھی ارد گرد کے تمام تجارتی قافلوں کا مرکز تھا اس کے علاوہ مذہبی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل رہی۔

دین اسلام کی اشاعت کے بعد مکہ مکرمہ کی حیثیت مزید بڑھ گئی یہاں سے پیغمبر اسلام ؐ نے دعوت اسلام کا آغاز کیا اور جہالت میں ڈوبی عربی قوم کو ایک نئی زندگی بخشی، وقت کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کا مرکز بھی مکہ ٹھہرا اور مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بنا اور تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام قرار پایا اسی لئے مسلمانوں کا سرزمین مقدس سے دلی و جذباتی لگائو ہے۔ قرآن مجید میں اس سرزمین پاک کو مکہ ، بکہ اور ام القری جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیاہے۔ سورہ آل عمران، آیت:۹۶ میں ارشاد خداوند ہے "یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لئے مقرر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لئے"۔ مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام، عرفات، مشعرالحرام اور سرزمین منیٰ اور دیگر اہم ترین مقامات مقدسہ موجود ہیں۔

ٓآل سعود نے جب عرب کے باقی علاقوں پر قبضہ کر لیا تو اس نے مکہ مکرمہ اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگا اور کسی بہانے کی تلاش میں تھاتا کہ مکہ پر حملہ کر سکیں اور آخر کار جب عبد العزیز نے دیکھا کہ شریف غالب جنگ پر آمادہ ہے تو اس نے بھی لشکر کو مکہ کی طرف بھیجا، جب شریف غالب اور عبد العزیز کے درمیان جنگ چھڑی تو یہ جنگ تقریبا نو سال تک جاری رہی ۔۔۔جاری

تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) کمروں میں ہر طرف گندگی کی سڑاند تھی،اے کاش میں پاکستان ہاوس کے گندے کمروں اور بستروں کی تصاویر بنا کرلاتایہ کہہ کر زائر نے میری طرف دیکھا اور بولا جو جتنا مجبور ہوتا ہے اس سے اتنے زیادہ رشوت وصول کی جاتی ہے۔لوگوں کو کانوائے کے نام پر محصور کیاجاتاہے تاکہ ان کے ویزے کی مدت کم ہوتی جائے اور وہ مٹھی گرم کرنے کے بارے میں سوچیں ،راستے میں گھنٹوں چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بیوی بچوں سمیت بٹھایاجاتاہے تاکہ  مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ دیں،پاکستان ہاوس کے تعفن میں حبسِ بے جا میں رکھاجاتاہے تاکہ ان سے جو رقم نچوڑی جاسکتی ہی نچوڑی جائے،کرایہ جتنا زیادہ کوئی وصول کرسکتا ہے وہ کرلیتا ہے کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے،علاقے کے ڈی سی کا لیٹر مانگا جاتا ہے تاکہ ہراسان کرکے پانچ سو یا ہزار روپیہ کمایاجائے۔۔۔

انسان کہیں شکایت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا،اُف کرے توڈانٹ پڑتی ہے،ہائے دہائی کرے تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے،جولوگ کانوائے کے بغیر آتے ہیں ،ان سے پوچھیں کہ ایف سی والوں کا کیا رویہ ہے؟ وہ سیکورٹی ریکارڈ کے نام پر اپنے شخصی موبائل سے  مستورات کی تصاویر بناتے ہیں۔۔۔

پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جولوگ اس روٹ پر کبھی  زمینی سفر ہی نہیں کرتے وہ ان مسائل کی تردید کرنے لگ جاتے ہیں۔

بعض لوریاں سنانے لگتے ہیں اور بعض “مٹی پاو  اور جہاز سے آو “کا نسخہ بتاتے ہیں۔

ایک زائر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں ہر جگہ طبقاتی کشمکش چل رہی ہے ،ہر مذہب ،مسلک ،مکتب اور پارٹی میں ایک اشرافی طبقہ موجود ہے ،وہ طبقہ نچلے طبقے کے مسائل کو لمس ہی نہیں کرتا،وہ زمینی سفر کی صعوبتوں،غربت میں زیارت کی لذّت اور خالی ہاتھ حج و عمرے کے ذائقے کو چکھتا ہی نہیں ۔۔۔

اسے پتہ ہی نہیں کہ کانوائے کے نام پر محصور ہو جانا یعنی کیا۔۔۔؟ اسے معلوم ہی نہیں کہ کرایوں کا بڑھ جانا یعنی کیا؟ وہ اس کرب سے گزرا ہی نہیں کہ بیوی بچوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر میجر صاحب کا انتظار کرنا یعنی کیا؟اسے یہ زخم لگا ہی نہیں کہ ایف سی کے اہلکاروں کا شخصی  موبائلوں سے تصاویر بنانا یعنی کیا؟

قارئین کرام !بات شیعہ کانفرنس کی نہیں بات چیک اینڈ بلینس کی ہے ،بات ایف سی اہلکاروں کی نہیں بات شہریوں کے حقوق کی ہے ،بات پاکستان ہاوس کی نہیں بات آئین کی بالادستی کی ہے بات ہزارہ برادری کی نہیں  بات اصولوں کی ہے۔

جوقانون شہریوں کو تحفظ نہ دے سکے،جوفوج بھتہ خوروں پر ہاتھ نہ دال سکے ،جو پولیس شہریوں کی شکایات کا نوٹس نہ لے اورجو خفیہ ادارے کرپٹ عناصر کی لوٹ مار سے بروقت باخبر نہ ہوسکیں  ۔۔۔وہ کس درد کی دوا ہیں؟؟؟

اس مسئلے کا فوری حل یہی ہے کہ آرمی کی زیرِ نگرانی شکایت سیل قائم کیاجائے اور خفیہ اداروں کے اہلکار زائرین کے روپ میں بھتہ خوروں اور رشوت خوروں کا تعاقب کریں۔

پاکستان کی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کا لوہا دنیا مانتی ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ ادارے کوئٹہ و تفتان کے مسئلے میں اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور یہ مسئلہ حل نہ ہو۔

ابھی محرم و صفر کی وجہ سے زائرین کی تعداد میں کئی گنا زیادہ اضافہ یقینی ہے لہذا مذکورہ اداروں کو  بھی اپنی فعالیت کو  یقینی بناتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر شخص  اپنے ملک و ملت سے  فطری طور پرمحبت کرتا ہے ،ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان کو سنوارنا،اہل پاکستان کی مشکلات کا احساس کرنا اور مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانا ایک فطری امر  ہے۔آئیے  پاکستان کو بدنما بنانے والوں،پاکستان کا امیج خراب کرنے والوں اور پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا عہد کرتے ہیں۔

ایک خوبصورت  ،باامن اور خوشحال پاکستان ہی  ہم سب کا خواب ہے۔ہمارے اجداد نے پاکستان بنایاتھا اسے سنوارنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے نام سے ہمارے اجداد کی آنکھوں میں جو نور چمکتا تھا اس نور کو ہمیشہ سلامت رہنا چاہیے۔

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی،

میری آنکھ میں ابھی نُور ہے

میرے بازؤں پہ نگاہ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو غرور تھا وہ غرور ہے

ابھی رزمگاہ کے درمیاں،

ہے میرا نشان کُھلا ہُوا

ابھی تازہ دم ہے میرا فرس،

نئے معرکوں پہ تُلا ہُوا

مجھے دیکھ قبضہِ تیغ پر،

ابھی میرے کف کی گرفت ہے

بڑا منتقم ہے میرا لہو ۔۔۔

یہ میرے نسب کی سرشت ہے

میں اسی قبیلے کا فرد ہُوں،

جو حریفِ سیلِ بلا رہا

اُسے مرگزار کا خوف کیا،

جو کفن بدوش سدا رہا

وہ جو دشتِ جاں کو چمن کرے،

یہ شرف تو میرے لہو کا ہے

مجھے زندگی سے عزیز تر ہے،

یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے

سو میرے غنیم نہ بُھول تُو ،

کہ ستم کی شب کو زوال ہے

تيرا جور و ظلم بلا سہی ۔۔۔۔۔۔۔

میرا حوصلہ بھی کمال ہے

تجھے مان جوش و گُرز پر،

مجھے ناز زخمِ بدن پہ ہے

یہی نامہ بر ہے بہار کا ۔۔۔۔

جو گلاب میرے کفن پہ ہے


تحریر۔۔۔۔۔نذرحافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہیں اور اپنے علمی و معنوی ارث کو ہاتھوں ہاتھ وصول کرتی ہیں۔۲۹ اگست ۱۹۸۳؁ئ کو  قبلہ مفتی جعفر حسین  نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا  انتخاب کریں تا کہ ہم  مفتی صاحب سے اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔

یوں تو مفتی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن میں اس وقت  ان کی زندگی کے صرف ایک ورق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہاہوں۔زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔

بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔

 ۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان "محمد حسین شاد" سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔

پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔

یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں"شاد" کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر "شاد" کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔

۶جولائی کو تین بجے صبح "شاد" کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔

 مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ  آج بھی مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔

ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب "حساس ادارے" کا مطالعہ کر لیجئے۔

 آج  بھی جب سرکاری ادارے ،زائرین کو لوٹتے ہیں،دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں،ملک کے اائین کو پامال کرتے ہیں، تو مفتی جعفرحسین قبلہ  کی اقدار کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مفتی صاحب والا کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۳؁ئ کو  قبلہ مفتی جعفر حسین  اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا قومی و تنظیمی  راستہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا  انتخاب کریں تا کہ ہم اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)ننھا سا بچہ گرم ریت میں جھلس رہاہے،ماں سرکاری اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندہ کر دو بوند پانی مانگ رہی ہے۔۔۔

سورج دہک رہا ہے،آسمان سے آگ برس رہی ہے،ہر طرف لق و دق صحرا ہے،قیامت کی پیاس اورغضب کی  گرمی ہے۔ایک ماں اپنے نومولود بچے کے ہمراہ جان کنی کی حالت میں ہے ،باپ تنگ ہو کر احتجاجاً اپنے گلی پر چھری چلا دیتا ہے۔۔۔

تاریک بیابان ہے ،آدھی رات کو مسافروں کے قافلے شاہراہِ عام پر لوٹ لئے جاتے ہیں۔۔۔

دن دیہاڑے ،وسطِ بیابان میں چالیس کے لگ بھگ مسافروں کو گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔۔۔

کوئی سننے والا نہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں،لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر کانوائی کے نام پر محاصرہ کر کے  کئی کئی ہفتوں تک لوٹا جاتا ہے۔

ایک ہزار کے بجائے پانچ ،پانچ ہزار کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔۔۔۔

یہ سینکڑوں سال پرانے کسی صحرا کی داستان نہیں  بلکہ یہ کوئٹہ سے تفتان کی روداد ہے،یہ کسی یہودی عورت کی پازیب چھننے کا غم نہیں بلکہ دخترِ اسلام کی حالت زار ہے۔یہ مغرب کے عشرت کدوں میں رقص کرنے والی کسی لیڈی کا غم نہیں بلکہ دخترِ مشرق کی بے حرمتی ہے۔

جی ہاں ! یوں  اگرکسی سرمایہ دار ،سیاستدان ، قومی و ملی لیڈر یا کسی ویسٹرن فیملی کا بچہ پیاس سے تڑپتا تو میڈیا چیخ اٹھتا،انسانی حقوق کی تنطیمیں سینہ کوبی کرتیں،عالمی برادری اشک بہاتی،لیڈر چیختے اور چلاتے ۔۔۔

جی ہاں ! یوں اگر   سرکاری اہلکاروں کے مظالم سے تنگ آکر یورپ کا کوئی شہری احتجاجا خود کشی کی کوشش کرتا تو ہمارے صدر مملکت اور وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھی افسوس کا پیغام بھیجاجاتا۔۔۔

جی ہاں! اگر اس طرح کسی دوسرے مکتب کے زائرین کو گولیوں سے بھونا جاتا تو اُن کی یادگار بنائی جاتی،بین الاقوامی برادری کی طرف سے تعزیتی وفود آتے،تفتیشی ٹیمیں آتیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاجاتا۔۔۔

جی ہاں!یوں اگر اس طرح کسی اور فرقے کے افراد کو کانوائے کے نام پر محاصرہ کرکے لوٹاجاتا،پانچ گنا زیادہ کرایہ وصول کیاجاتا،لوگوں کو گھنٹوں لائنوں میں کھڑا کیاجاتا،بیوی بچوں کے سامنے مردوں کو بے عزت کیاجاتا تو  اینٹی کرپشن کی فائلیں کھل جاتیں،مختلف شخصیات کی طرف سے از خود نوٹس لئے جاتے،عدالتیں حرکت میں آجاتیں۔۔۔

سرکاری اہلکاروں کی طرف سےشہریوں کی بے عزتی کرنا یہ نظریہ پاکستان،آئین پاکستان  اور انسانی اقدار کی توہین ہے۔قوم کی ماوں ،بہنوں ،بیٹیوں   اور بچوں کی توہین اور اہانت کرنا  یہ سراسر ہماری ملکی اور معاشرتی روایات کے خلاف ہے۔لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس درد کو محسوس نہیں کررہا،کوئی بھی اس ظلم کا نوٹس نہیں لے رہا،کوئی ادارہ بھی حرکت میں نہیں آرہا۔۔۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قوم ظلم سہنے  اور انصاف کی بھیک مانگنے کی عادی ہوجائے،دوسرے بھی اس پر رحم کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

تاریخ کے کسی موڑ پر عالمِ بشریت کے سب سے بڑے بہادر نے ہم جیسوں کو ہی پکار کر کہاتھا کہ  اے مردوں کی شکلوں میں نامردو تمہاری آبادیوں اور عزت و ناموس پرحملے ہو رہے ہیں اور تم۔۔۔


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) 13مئی سے اسلام آبادپریس کلب کے سامنے شروع ہونے والی بھوک ہڑتال اس وقت ایک بڑی احتجاجی تحریک کی شکل میں سامنے آ چکی ہے،22 جولائی کو اس قومی پلیٹ فارم سے ملک بھر میں بیشتر شہروں میں کامیاب احتجاجی دھرنوں کے باوقار پروگرام سے ایک سنگ میل طے کیا ہے ،مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داران کو ان دھرنوں کے حوالے سے توقع تھی کہ ستر کے قریب مقامات پر یہ منعقد ہو سکیں گے مگر میڈیا ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ 103مقامات پر روڈ بلاک دھرنے بڑی خوش اسلوبی اور پر امن طور پر دیئے گئے،ضلع قصور اور اوکاڑہ کے مشترکہ دھرنے پر ڈی پی او کی طرف سے خصوصی ذاتی دلچسپی کے باعث نامزد ایف آئی آر کاٹی گئی اور کئی ذمہ داران کو گرفتار بھی کیا گیا ،جو یقینی طور پر پنجاب حکومت اور اس میں شامل تکفیری عناصر کو خوش کرنے کی بھونڈی کوشش ہے،ایک احتجاجی تحریک جس کا دائرہ پورا ملک ہے جو بالکل پر امن ہے ایک پتا بھی نہیں ہلایا گیا،کسی سرکاری یا نجی املاک کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا اور شہریوں کیلئے ایمرجنسی راستے بھی کھول کے رکھے گئے ہیں اس پر امن تحریک کو مشتعل کرنے کی سازش ہے تاکہ تشدد شامل ہو اور عوامی رائے خلاف ہو جائے بہرحال مجلس کی قیادت نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسیران سے فوری ملاقاتیں کیں اور ان کی ضمانتوں کا اہتمام کیا ،ان کے ورثا و لواحقین سے بھی ملاقاتیں کی گئیں اور انہیں حوصلہ دیا گیا،کراچی سے لیکر گلگت بلتستان اور کوئٹہ سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان تک شہر شہر میں ہونے والے احتجاجی دھرنوں نے بہت سوں کی آنکھیں کھول دی ہیں ،مجلس وحدت نے ثابت کی اہے کہ اس کے پاس سٹریٹ پاور ہے،جسے وہ کسی بھی محاذ پر استعمال کر سکتے ہیں،سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ احتجاج کوئی لاش سامنے رکھ کے نہیں ہو رہا تھا یہ ایک سلجھے ہوئے لوگوں کا شعوری احتجاج تھا جس کے شرکا ء اس ہدف و مقصد سے ہم آہنگ تھے جو قیادت کی طرف سے بیان کیا گیا تھا،22 جولائی کے احتجاج سے قبل 17جولائی کو اس احتجاجی تحریک نے پورے پاکستان میں کامیابی سیخواتین کی ریلیاں نکال کے اپنی طاقت کا لوہا منوایا،پہلے سے طے شدہ خواتین کا احتجاج بلا شبہ ایک کامیاب اور پر شکوہ سلسلہ تھا جس کیلئے یقیناًمجلس کی قیادت اور اس کے ذمہ دران بالخصوص شعبہ خواتین تحسین کے مستحق ہیں،تمام تر نامساعد حالات،وسائل کی عدم دستیابی اور مجموعی طور پر قوم کی تقسیم و تفریق کے باوجود پاکستان بھر میں بلاشبہ جو احتجاج شعبہ خواتین کی طرف سے ہوا ہے اس نے بہت سو کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ یہ جماعت خواتین کا اتنا بڑا سیٹ اپ رکھتی ہے کہ ایک ہی وقت میں اتنے شہروں میں تظاہرات اور ریلیاں نکال لیں۔میرا خیال ہے ان احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال تحریک کو مزید پذیرائی اور تقویت حاصل ہو ئی اور مقاصد کو حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔

پاکستان میں تشیع کے حقوق کی پائمالی،مکتب کے پیروان پر آنے والی آفات اور حکمرانوں کی متعصبانہ پالیسیوں،سیکیورٹی اداروں کی مجرمانہ غفلت ،آئے روز شیعان علی ؑ کا قتل،قاتلوں کو کھلی آزادی اور مظلوموں کی بے بسی کا المناک منظر گذشتہ تین دہائیوں سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے ،اس منظر میں کچھ تبدیل نہیں ہو رہا ،یہ ایک جیسا منظر ہے،ایک جیسے واقعات جو مختلف انداز میں مختلف ایریاز میں ،مختلف ناموں سے واقع ہوتے ہیں ،ان کا سب سے نمایاں پہلو یہ رہا ہے کہ اس کے متاثرین اہل تشیع ہیں،یا کچھ عرصہ سے محبان اہلبیت سنی برادران بھی اس کا شکار ہوئے ہیں،پہلے صرف اہل تشیع کے جلوسوں پر حملے ہوتے تھے اب میلاد النبی کے جلوسوں اور محافل کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے،پہلے صرف مجالس اما م حسین ؑ اور امام بارگاہیں نشانہ بنتی تھیں اب مساجد و دربار بھی نشانہ بنتے ہیں،پہلے صرف ذاکرین و شیعہ علما ٹارگٹ ہوتے تھے اب پیر،نعت خوان اور سنی علما کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے،ایک بات جو قابل دقت و غور ہے وہ یہ ہے کہ دونوں(شیعہ و سنی) کو مارنے والے ایک ہی فکر و مکتب کے پیرو ہیں،جن کی نظر میں یہ دونوں فرقے گمراہ اور بدعتی ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ،اس وقت ملک پر حکمرانی کرنے وال اخاندان اور اس کے قریبی و بااعتماد لوگ ان ممالک کے ساتھ وابستگی نبھا رہے ہیں جن کے ان پر ذاتی احسانات ہیں اور وہ اس ملک میں عالمی استعمار کے بنائے گئے نقشہ کے مطابق حالات کا رخ موڑنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں،شیعہ سنی کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنا اگرچہ استعمار کا منصوبہ ہی ہے مگر اس کیلئے جو ہاتھ استعمال ہو رہے ہیں وہ مقامی ہیں جنہیں حکمرانوں اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ مدد اور حمایت حاصل ہے،قرائن یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں میں تعصب اور متشدد نظریات و سوچ کے حاملان کا غلبہ ہے جو جب چاہتے ہیں یہ آگ بھڑکا دیتے ہیں ،فرقہ پرست اشاروں کے منتظر ہوتے ہیں،ادھر سے اشارہ ملا ادھر آگ و خون کا مکروہ کھیل شروع اور ملک مخلص،ذہین،خدمت گار،سرمایہ ملت افراد سے خالی ہونا شروع ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ چل رہا ہے اور اسے چلانے والے ہاتھ ہی اس ملک کی سلامتی کے ذمہ دار ہیں پھر کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے،ہم گذشتہ پینتیس برس سے مسلسل ا س ہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور چیخ چیخ کے حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ظلم کا شکار ہیں،ہم بے گناہ مارے جارہے ہیں،یہ آگ جو ہمارے اوپر مسلط کی گئی ہے یہ اس ملک و ملت کیلئے بھی سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے،یہ آگ اگر آج ہمیں جلا رہی ہے تو کل اس کا شکار وہ بھی ہونگے جو اس کو لگانے والے ہیںیا ان کی پشتبانی کرر ہے ہیں یا جو اسے بجھانے کے ذمہ دار ہیں مگرحکمران اس سب کو شائد تماشا سمجھ کے دیکھتے رہے ہیں،ایک آتا ہے اور پھر دوسرا اپنی باری کیلئے جت جاتا ہے بس یہی کچھ ہے،جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ہمارے یہ مطالبات انہیں بہت بھلے محسوس ہوتے ہیں ان سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا مگر اقتدار کی سیڑھی پر چڑھتے ہی یہ سب کچھ انہیں کسی اور اینگل سے دکھتا ہے پھر ہم جو دکھانا چاہتے ہیں وہ نہیں دکھتاا ور ہمارے دن پھر ویسے ہی گذرتے ہیں،ہمارا ماتم و نوحہ یونہی چلتا ہے ہمارے بین اسی شد ومد سے جاری رہتے ہیں۔
ہم صلیبوں پہ چڑھے!

آپ دیکھیں کہ ایک گروہ بلکہ ایک مائند سیٹ کی طرف سے پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو جلا کے راکھ بنا دیا گیا،دنیا کے سامنے ہم جن سیکیورٹی اداروں کی اہلیت پر فخر کرر ہے تھے ان سیکیورٹی اداروں کی اہلیت سوالیہ نشان بن گئی،یہاں تک کہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت زیر سوال آ گئی،ہمارے چیخنے چلانے کا اثر ہوا یا نہیں یہ ضرور ہوا کہ عارضی ہی سہی کچھ وقت کیلئے ،کسی نا کسی مخصوص ایریا میں ان ملک دشمنوں کے خلاف کچھ اقدامات بھی سامنے آئے،پھر بات بڑھتی گئی اور جیلوں سے دہشت گردوں کو چھڑوایاگیا اور انہیں ملک بھر میں پھیلا یاگیا انہوں نے ایک بار پھرا س ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہم تو ہر دور میں اس ظلم کا شکار ہوئے، ہمارے قیمتی ترین افراد ہم سے چھین لیئے گئے،ہمیں بسوں سے اتار کے شناختی کارڈ چیک کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا، ہمیں چاروں صوبوں میں نشانہ بنایاگیا،ہمیں بلوچستان میں ہجرتوں پر مجبور کر دیا گیا،ہمیں سرحدکے پی کے میں گھر بار چھوڑنے اور خاندانی جائیدادوں کو اونے پونے داموں8 فروخت کرنے پر مجبور کر دیا گیا،ہمیں کراچی اور اندرون سندھ میں ٹارگٹ کیا گیا،ہمیں پنجاب میں چن چن کے مارا گیا،ہمیں گلگت بلتستان میں اس سرزمین پاک سے وفاداری کی سزا دی گئی ،ہمیں مسجدوں میں قتل کیا گیا،ہماری مسجدیں اور امام بارگاہیں اللہ کے مہمانوں کے خون سے رنگین ہوتی رہیں، ہم عبادت کیلئے گھر سے نکلتے تو ہماری لاشیں واپس آ تیں،ہم کاروبار کیلئے بازار کا رخ کرتے تو ہمیں راستے میں گولیوں سے بھون دیا جاتا،ہم کار پیغمبری کرنے کالج،اسکول،یونیورسٹیز جاتے تو ہمیں دن دیہاڑے خون میں لت پت کر دیا جاتا،ہم لوگوں کی مسیحائی کیلئے اسپتال پہنچتے تو سفاک گروہ ہمیں ادھر ہی مسیحائی کر نے کی سزا دیتے پہنچ جاتے ہم مسیحائی کرتے مارے جاتے رہے،ہم علم کی خیرات بانٹتے مارے گئے ،ہم ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے مارے گئے ،ہم مارشلا ؤں میں ظلم کا شکار ہوتے رہے،ہمیں جمہوریت کے دعویداروں نے ایک ووت کے بدلے میں سولیوں پر لٹکوایا،ہمیں ذبح کیا گیا،ہمیں جلایا گیا ، ہمیں خون میں نہلایا گیا،ہمیں جیلوں میں مروایا گیا،ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے،ہم نے ریاست کے سامنے نہیںآئے،ہم نے فورسز پر اسلحہ نہیں تانا،ہم نے ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کی،ہم استحکام پاکستان اور پاک وطن کی سلامتی کے پیامبر بنے رہے،ہم امن کے گیت گاتے رہے،ہم سلامتی کے بیج اگاتے رہے،ہم محبت کے چراغ جلاتے رہے اورخوشبوؤں کے سفیر بناتے رہے مگر ہمیں نفرتوں کا شکار کیا گیا،ہمیں تعصب کی بدبو سے جواب دیا گیا،ہماری وطن سے محبت کو مشکوک دیکھا گیا،ہماری امن کی کواہش کو کمزوری سمجھا گیا،ہماری اتحاد و وحدت کی پالیسی کو مجبوری گردانا گیا ،ہم کیا کرتے،کسی ملک دشمن کے ہاتھ لگ جاتے،کسی دوسرے کے ایجنڈے پر چل پڑتے،کسی کی لگائی آگ میں کھیل کا حصہ بن جاتے ،نہیں ہم نے ایسا نہیں کیا،ہم نے لاشوں کے درمیاں کھڑے ہو کے بھی ملک کا پتہ تک نہیں توڑا،ہم نے ایک سگنل تک کو نقصان نہیں پہنچایا،ہم نے امنکا راستہ اختیار کیا اور 13 مئی کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے آ کر بیٹھ گئے،ہم نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی اور خاموشی سے ایک طرف آ کے بیٹھ گئے اپنے مطالبات اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا شکوہ کیا،ہم نے متعلقین کو آگاہ کیا،ہم نے اسٹیک ہولڈرز تک اپنی پر امن تحریک کا مقصد پہنچایا مگر ہماری بات نہیں سنی گئی،ہمیں نظر انداز کیا گیا،ہم نے دیکھا حکمران بے حس ہیں،سیکیورٹی ادارء تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہیں،ہم نے اپنی آواز پہنچائی،اپنا نوحہ سنایا،اپنے طالبات کی فہرست پیش کی مگرکسی کے کان پہ جوں تک نا رینگی۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال!
بد قسمتی سے جب ہم نے یہ احتجاجی تحریک شروع کی اس وقت سے پاکستان عجیب صورتحال سے دوچارچلا آ رہا تھا ،ایک طرف دنیا بھر میں پانامہ لیکس کا چرچا اور اس میں شامل حکمران و سیاستدانوں پر سب کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں اورہمارے حکمران،اپوزیشن،اور آج کے دور کا سب سے موثر ہتھیار میڈیا بھی اس کو فوکس کیئے ہوے تھا،دوسری طرف وزیر اعظم کی بیماری کے چرچے اور پھر لندن روانگی کے بعد تمام ملکی معاملات لندن سے چلائے جا رہے تھے ۔ملک پر حکمران خاندان کے افراد اپنے سٹاف سمیت لندن میں وزیر اعظم کی ہمراہی میں پہنچے ہوئے تھے اعتماد کا یہ عالم کہ حکومت کوتین سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود وزیر خارجہ کی جگہ مشیر خارجہ سے کام چلایا جا رہا تھا۔ایسے میں شیعہ نسل کشی پر حکومتی بے حسی اور انصاف کے حصول کیلئے جاری بھوک ہڑتال تحریک تقریباً اتنے زیادہ دن گذر جانے کے باوجودحکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی بے حسی کا شکار رہی ،یاد رہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس نے 13مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے بے گناہ شیعہ قتل عام اور سیکیورٹی اداروں کی زیادتیوں و حکومتی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی تھی جس کا پاکستان بھر میں دنیا بھر میں اثر ہوا، یہ احتجاج پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکل کے امریکہ،یورپ،انگلینڈ اور مغربی ممالک تک جا پہنچا ہے،پاکستانی میڈیا اس طویل ترین بھوک ہڑتال کو نظر انداز کیئے ہوئے ہے ،یہ بھوک ہڑتال اب ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے جہان روزانہ ان بھوک ہڑتالی کیمپوں میں مختلف قسم کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں،بھوک ہڑتال کیمپس میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہے،یہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا ہے،ان بھوک ہڑتالی کیمپس میں رمضان المبارک میں سحر و افطار کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، یہاں دعائیں اور مناجات اور عزاداری کے پروگرام ہوتے ہیں،اسلام آباد کے علاوہ پریس کلب لاہور،ملتان،کراچی،حیدر آباد،سکردو،گلگت،کوئٹہ،اور بیسیوں چھوٹے بڑے شہروں میں بھوک ہڑتال کیمپوں اور جلوسوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ان بھوک ہڑتالی کیمپوں میں شہدا کی فیملیز بھی تشریف لاتی ہیں جن کے آنے سے لوگوں کے جذبات و احساسات قابل دیدنی ہو جاتے ہیں۔

یہ بھوک ہڑتال اب ایک بڑی قومی احتجاجی تحریک کی شکل میں سامنے آ چکی ہے اس کا اگلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ،جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ذمہ دار اداروں اورحکمرانوں کو اس اہم مسئلہ کی جانب متوجہ کیاہے،اور بعض اطلاعات کیمطابق مطالبات منوانے کیلئے شائد کچھ چینل فعال ہو چکے ہیں۔یاد رہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے چوبیس شیعہ جماعتوں اور بعد میں ذاکرین کی ایک ملک گیر کانفرنس میں مطالبات کی منظوری کیلئے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا جسے قومی حلقوں نے بڑی شد و مد سے خوش آمدید کہا سوشل میڈیا پر قوم کے جوانوں میں اس لانگ مارچ کے حوالے سے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے جس کا علان علامہ راجہ ناصر عباس نے کر رکھا ہے اور وہ اس کو کامیاب بنانے کیلئے ابھی سے آمادہ و تیار نظر آتے ہیں۔17 جولائی کو ملک بھر میں خواتین کے احتجاج کی کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ ملک کی اہم شاہراہیں 22جولائی کو بند کر نے کا امتحان کامیابی ہمکنار ہوا ہے اگلا مرحلہ اور راؤنڈ میں اسلام آبادمیں 7اگست کو برسی شہید حسینی کے عنوان سے ہونے والا ملک گیر اجتماع ہوگا جو ان تمام مرحلوں میں عوامی شرکت کا پہلا پروگرام ہو گا۔
عالمی سطح پر بازگشت!

شیعہ نسل کشی اور پاکستانی ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی و غفلت کیخلاف علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی حمایت و یکجہتی میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرکے سامنے المصطفی فاؤنڈیشن کے تحت مولانا سید ظہیر الحسن نقوی کی زیر قیادت تین روزہ علامتی بھوک ہڑتال کی گئی۔اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بھوک ہڑتال میں امریکہ کی تنظیمیں الخوئی فاؤنڈیشن، جعفریہ کونسل یو ایس اے ۔المہدی فاؤنڈیشن،جے۔اے۔این۔اے،مسلم کانگریس،البقیع،خاتون جنت عزاداری،غلامان مہدی بھی شریک بھی شریک ہوئیں مومنین کی بڑی تعداد بھوک ہڑتال میں شریک رہی۔یو این ہیڈ کوارٹرکے سامنے بھوک ہڑتال کرنے والے مومنین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مکتب تشیع کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ،حکمرانوں کو اقتدار کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں،ریاستی ادارے بھی اس مکتب کے پیروکاران کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ ان کی طرف سے ایسے عناصر کی سرپرستی کی دل دکھا دینے والی خبریں مل رہی ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ بے حس حکمرانوں اور متعصبانہ کردار کے حامل ریاستی اداروں کے خلاف عالمی برادری کے سامنے احتجاج سے اپنی آواز کو پہنچایا جائے۔یاد رہے کہ قبل ازیں کچھ لوگ اس سے پہلیاقوام متحدہ کے دفتر جنیوامیں بھی احتجاج کر چکے تھے،جبکہ کویت میں پاکستانی سفیر سے کمیونٹی ممبران نے اپنی طرف سے علامہ راجہ ناصر کے مطالبات منظور کیئے جانے کے حوالے سے یاد داشت پیش کی ۔تہران میں مقیم پاکستانی سفیر کو بھی مجلس قم کے ذمہ داران اور خارجہ امور کے مسؤلین نے ملاقات کی اور بھوک ہڑتال کے حوالے سے حکومتی رویہ پر احتجاج کیا اور ملت جعفریہ کو دیوار سے لگانے ،انصاف فراہم نہ کرنے کے خلاف یاد داشت پیش کی اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا۔انگلینڈ میں میاں نواز شریف کے مشہور زمانہ فلیٹس رہائش گاہ کے سامنے لنڈن میں مقیم مومنین نے علامہ علی رضا رضوی کی قیادت میں ایک مظاہرہ بھی کیا جس کا مقصد حکمرانوں پر واضح کرنا تھا کہ علامہ راجہ ناصر اکیلے نہیں بلکہ اس کاز کیلئے پوری قوم ان کیساتھ ہے اور اس کے بھی یہی مطالبات ہیں۔ایک اور بات جو پاکستان میں اہل تشیع کی کسی بھی تحریک میں پہلی بار ہم نے دیکھے ہیں وہ مراجع عظام اور نمائندگان ولی فقیہ و بزرگ علماء کا اس بھوک ہڑتال کی حمایت میں سامنے آنا اور پاکستان کے ذمہ دار اداروں وحکمرانوں کو تاکید کرنا ہے کہ اس پر امن تحریک کے مطالبات کو تسلیم کریں اور تکفیریت کے آسیب سے ملک و ملت کو محفوظ رکھیں۔

ہمارے ملک میں حکمران کتنے آزاد ہوتے ہیں اس کا اہل پاکستان کو خوب اندازہ ہے بالخصوص سیکورٹی معاملات،خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے بہت سے ایشوز سلامتی کے ضامن ادارو ں کے پاس ہی رہتے ہیں ،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کئی مواقع پر واضح طور پہ سامنے آنے والی اسٹیبلشمنٹ اور ذمہ داران ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہے جو کسی زمانہ میں بہت معمولی باتوں پر از خود نوٹس لینے والے افتخار چوہدھری آئے روز سینکڑوں شیعیان حیدر کرار کی بے گناہ شہادتوں پر آنکھوں پہ کالی پٹی اور کانوں میں روئی ٹھونسے ہوئے تھا،اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا اور نا ہی سنائی دیتا تھا جبکہ طالبان اور شدت پسندوں کے حقوق پر اس کا قلم بہت جلد چل جاتا تھا بلکہ اس نے شدت پسندوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے افواج پاکستان کے سربراہان کو عدالت اور پارلیمنٹ میں بھی بلوایا اور انہیں یہ احساس کروایا کہ وہ جواب دہ ہیں،آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص کو کچھ مطالبات کے ساتھ بھوک ہڑتال کیئے ستر دن ہوگئے ہیں مگر ان کو ابھی ایک بیان دینے کی بھی توفیق نہیں ہوئی،کم ا ز کم شفاف انکوائری کا حکم تو دے سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا،جبکہ اخبارات میں یہ بیان نشر ہو رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے،لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جن کی کمر توڑی گئی ہے ان کا ایکسرے تو دکھائیں،ٹوٹی کمر کیساتھ دہشت گرد ہم سے خرم ذکی چھین لیتے ہیں،ٹوٹی کمر کیساتھ دہشت گرد ہم سے امجد صابری لے جاتے ہیں،ٹوٹی کمر والے دہشت گردوں کا اتنا رعب و دبدبہ ہے کہ بلوچستان میں ان کے ڈر سے زائرین کو کئی کئی دن رسوا کرتے ہیں اور جگہ جگہ ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،رشوت کا ایک بازار گرم ہے،کمائی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے،ایسا نہیں کہ عوام لا علم ہیں ہر ایک جانتا ہے کہ اس صوبے میں سیکیورٹی اداروں کی اجازت بنا پتا بھی حرکت نہیں کرتا پھر کس طرح کالعدم گروہ کے سرغنے ملکی سلامتی کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور شہر کے چوراہوں میں آ کر آئین پاکستان کی نفی کرتے ہیں ،نیشنل ایکشن پلان کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ بے گناہ اور پر امن لوگوں کو شیڈول فورتھ میں ڈال کے ان سے آذادی کا حق چھینا جاتا ہے۔مجالس و عزاداری پر ناجائز و ناقابل قبول قدغن لگائی جاتی ہیں۔
بھوک ہڑتال ،قومی احتجای تحریک؛

13 مئی سے اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال جسے انہوں نے مطالبات کی منظوری اور عمل درآمد تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے آج جب ستر دن ہوگئے ہیں ابھی تک جاری ہے اور اس بھوک ہڑتال کیمپ میں ملک کے تما م اہم سیاسی رہنما دینی قائدین بشمول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب ،کرسچئین کمیونٹی،ہندو اور سکھ برادری،، پارلیمنٹیرینز،ملی یکجہتی کونسل ،اہل سنت برادران کی نامور شخصیات،مشائخ و علما ء اور جماعتیں،تشیع سے تعلق رکھنے والی تمام اہم قیادتیں ،ذاکرین،ماتمی انجمنیں ،طلبا ء،الغرض ہر ایک اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں اور راجہ صاحب کے پیش کردہ دس نکاتی مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے ان پر عملی اقدامات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں،اب یہ بات واضح ہو چکی کہ ان مطالبات میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں،یہوہی مطالبات ہیں جن کی آڑ میں پارلیمنٹ نے آڑ لے کر نیشنل ایکشن پلان منظور کیا ہے اور اس ملک اور یہاں بسنے والے شہریان کا حق ہے مگر یہ کیا کہ ان جائز مطالبات کو منظور کروانے کیلئے اتنے دن کی بھوک ہڑتال بھی ناکافی ثابت ہو رہی ہے ،راجہ صاحب کو یقیناًاس کا اندازہ ہو گا اسی لیئے بعض احباب نے بتایا کہ راجہ صاحب پورے سو دن کی بھوک ہڑتال کا پروگرام بنا کے بیٹھے تھے ویسے بھی اس سے پہلے شہدا ماڈل ٹاؤن کے چودہ قتلوں کی FIRکٹوانے کیلئے ایک لمبے عرصے کا لانگ مارچ اور دھرنا دینا پڑا تھا اور ملکی افواج کے سپہ سالار کو معاملے میں دخیل ہونا پڑا تھا،جہاں حکمران بے حس ،گونگے ،بہرے ہوں ،سیکیورٹی ادارے تعصب ذدہ ہوں اور ملک کی مقتدر قوتوں کو ملک دشمنوں سے پیار ہو وہاں اپنے حقوق کے حصول کیلئے بھوک ہڑتال اور لانگ مارچ لرنے لازم ہو جاتے ہیں،انصاف کے طلبگاروں کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں،راجہ ناصر عباس جعفری نے بھی اپنی احتجاجی تحریک میں تمام آپشن استعمال کرنے اور ہر جائز و آئینی راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے ،انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس امر کا اعلان کیا کہ حکمران بے حس ہیں،پاکستانی قوم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ان پر حکمرانی کرنے والے بے حس ہیں، یہ اندھے اور بہرے ہیں انہیں اس چیز سے غرض نہیں کہ آپ بھوکے ہیں،لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ ہے،رہنے کو گھر ہے یا نہیں ،مجھے یہاں اسلام آباد میں بیٹھے اتنے دن ہو گئے ان کو کوئی فکر نہیں ،ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ پر امن طور پر احتجاج کر رہے ہیں ،ہم نے ایک پتابھی نہیں توڑا،ہم نے ٹریفک کو نہیں روکا،ہم نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی ،حکمران اور مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ ہم امن کا راستہ چھوڑ کے تشدد کا راستہ اختیار کریں،انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان ہمارا وطن ہے اس کی ہر ایک چیز ہماری ہے ہم اس کی توڑ پھوڑ او تخریب کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر ہمیں جان بوجھ کی اس طرف دھکیلا جا رہا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم پر امن احتجاج جاری رکھیں گے، احتجاجی تحریک بھوک ہڑتال سے شروع ہوئی اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے،مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میں کئی ایک مشکلات بھی سامنے آئیں گی،سب سے اہم مشکل تو یہ سامنے آ رہی ہے کہ یہ جدوجہد خالص اپنے مطالبات سے متعلق شروع کی گئی ہے اس کا مقصد کسی کو گرانا یا کرسی پہ بٹھانا نہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں بھی تحریک چلانے کیلئے پر تول رہی ہیں،مجلس وحدت مسلمین کیساتھ سیاسی و دینی جماعتوں کے تعلقات بالخصوص ان جماعتوں سے جن کا ارادہ تحریک چلانے کا ہے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،مجلس وحدت کے مطالبات خالصتاً اہل تشیع سے متعلق ہیں اور ان کا تعلق آئندہ آنے والے محرم سے بھی ہے جس کے آغاز سے پہلے ہی عزاداری پر پابندیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں،علما و ذاکرین پر ضلع بندیاں اور زبان بندیوں کے سلسلے چل پڑتے ہیں ،اسیطرح ملک بھر میں ہونے والے قتل و غارت کے سلسلے اور فرقہ پرستوں کے متجاوز اقدامات،کالعدم گروہوں کی کھلی سرگرمیاں اور پاکستان کے اہم ایریاز میں شیعہ آبادیوں کے تناسب کو خراب کرنے کی سازش اور شیعہ ملکیتی زمینوں پر قبضے ،یہ سب جائز مطالبات ہیں مجلس کی قیادت انہی مطالبات کو لیکر عوام کو میدان میں اتار رہی ہے جبکہ سیاسی لوگوں کے اپنے مقاصد ہیں جہاں بڑی پارٹیاں ویسے ہی چھوٹے گروہوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں اور فائدہ اٹھا کر مڑ کے اپنے اتحادیوں کو دیکھتے بھی نہیں ،ظاہر ہے راجہ صاحب کی بھوک ہڑتال اور احتجاجی تحریک کا تعلق اس صوبے سے بھی ہے جہاں اہل تشیع کو مسلسل ظلم کا شکار کیا جا رہاہے، ایک اور مشکل یہ ہے کہ اسٹیبلشمنت کے اشاروں پر ناچنے والے بعض مداری ڈگڈگی بجنے کے منتظر تھے انہیں بھی اشارہ مل چکا ہے ،یہ لوگ ایک بار پھر دفاع پاکستان کونسل کے نام کو استعمال کرتے ہوئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں ،ان کے ساتھ ملک کے دشمن تکفیری گروہ کثیر تعداد میں موجود ہیں ان کی ڈوریاں پاکستان کے ایک برادر اسلامی ملک سے ہلائی جا رہی ہیں ،بہ ظاہر ان کو میدان میں لانا مجلس وحدت کی تحریک کو سبوتاژ کرنا ہی لگتا ہے ورنہ ان کے پاس کوئی نیا ایشو نہیں ہے،اس کے باوجود یہ لوگ ایک ڈرون حملے کی آڑ میں جلسے کر رہے ہیں ،بعض حضرات اس کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ مجلس کی فعالیت سے شیعہ مخالف بلاک یا ایران مخالف لابی بھی فعال ہو گئی ہے اور انہیں میدان
میں اتارا گیاہے تاکہ ان کے ذریعے یہ تاثر دیا جا سکے کہ فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آ رہا ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں جب کبھی شیعہ پلیت فارم کسی بڑے کام میں سامنے آیا اور اس نے عمومی عوام میں پذیرائی کا کوئی کام کیا تو ایک پالیسی کے طور پر فرقہ پرستوں اور تکفیری گروہوں کی رسیاں ڈھیلی کر دی گئیں ،اور انتظامیہ نے بھی ہمیشہ حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کے اشاروں پر بیلنس پالیسی کو ہی اختیار کیا ،یعنی قاتل اور مقتول کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا،اگر کسی شہر میں ایک شیعہ راہنما قتل ہو گیا تو اس شہر میں قاتل گروہ کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقتول گروہ کے لوگ بھی زیر حراست آئے،یہ ظلم اب بھی ہونے کا اندیشہ ہے،بعض ایریاز میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جہاں مجلس وحدت کے فعال اراکین اور تنظیمی افراد کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے ،بعض شرفا ء کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کی ذد میں لایا گیا ہے،بھوک ہڑتال تحریک اور لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکمرانوں بالخصوص پنجاب کے حکمرانوں کی جانب سے بہت زیادہ سختیاں سامنے آنے کا اندیشہ ہے،اس کیلئے مجلس کے کارکنان کو تیار رہنا ہو گا،یہ سختیاں بہرحال انہیں برداشت کرنا ہونگی ،کچھ سختیاں اپنوں کی طرف سے بھی ممکن ہیں،ایسے مواقع کیلئے ہر قوم میں مفاد پرست اور موقعہ پرست موجود ہوتے ہیں جنہیں اس طرح کے تحریکوں کو ناکام کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،یہ موقعہ پرست وہ گدھیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے حالات کیلئے انتظار کرتی ہیں،اگرچہ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملت کے تمام طبقات نے خود ادھر جا کے اظہار یکجہتی کیا ہے اور اس کاز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ خطرہ بہرحال موجود ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں عید کے ایام میں شہید ہونے والے سید شاہد شیرازی ایڈووکیٹ کی نماز جنازہ پر پیش آنے والے بعض واقعات اسی جانب اشارہ ہیں کہ مفاد پرست موقعہ کو تلاش کر کے آپ کی تحریک جس میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں کو ناکام و نامراد ٹھہرایا جائے مجلس وحدت اگرچہ تشیع کی سب سے فعال اور ہر دم تیار قومی تنظیم اور پلیٹ فارم ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس کی تنظیمی وسعت اس قدر نہیں جس قدر ضرورت ہے یا جہاں جہاں تشیع اپنا وجود رکھتی ہے اور انہیں بے شمار مسائل بھی در پیش ہیں،اس کے یونٹس کو بہت فعالیت دکھانا ہوگی،بالخصوص ان ایریاز مین جہاں شیعہ آبادیوں کی کثرت ہے وہاں سے عوام کو تحریک کیلئے باہر نکالنا ہوگا ،ان مقامی انجمنوں اور قائدین کو بھی رابطے میں لانا ہوگا جنہیں کسی بھی وجہ سے ساتھ نہیں ملایا جا سکا۔سب سے بڑا چیلنج داخلی ہے اگر ہم داخلی محاذ پر کامیاب ہو گئے اور داخلی مسائل پر قابو پالیا تو بیرونی و خارجی محاذ ہمارے لیئے بڑی رکاوٹ ثابت نہیں ہو سکے گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مجلس کے پیش کردہ مطالبات میں سے بیشتر کا تعلق اس ملک کی سلامتی سے ہے اور ان کے حل کا اختیاربھی ہماری حکومت کو کم اور سلامتی کے ضامن اداروں و مقتدر قوتوں کو زیادہ ہے،اس عنوان سے یہ کہنا خاصا مشکل نظر آتا ہے کہ سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی ظاہر کریں گے ،اس لحاظ سے اس تحریک کی کامیابی کا عنوان ان مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد نہیں سمجھنا چاہیئے ،یہ ایک آئیڈیل صورت کہی جائیگی اگر ایسا ہو جائے بصورت دیگر میری نگاہ میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وہ کام کر دکھایا ہے جو آج تک نہیں ہو سکا یہ احتجاجی تحریک ایک عزم ،ایک استقلال،ایک استقامت ،ایک تعہد کی بہترین مثال ہے ،ایک مخلص دردمند شخص نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے ،انہیں احساس دلایا ہے،انہیں گھروں سے باہر نکالا ہے،انہیں متوجہ کیا ہے،انہیں بیدار کیا ہے،انہیں میدان میں کھڑے ہو کے پکارا ہے،ان کے اعتماد پر پورا اترا ہے ، انہیں مایوسیوں کے گھیرے سے نکالا ہے ،انہیں منزل کا رستہ دکھایا ہے یہ بہت بڑی کامیابی سمجھی جائیگی،تاریخ تشیع پاکستان میں اس کی مثال کم ہی ملے گی،ہماری قیادتوں نے گذشتہ دو اڑھائی عشروں میں وہ کام نہیں کیا جو چند برسوں میں مجلس وحدت مسلمین نے کیئے ہیں، اس لیئے کامیابی کا معیار اور مثال یہی فعالیت اور تحرک ہے،گھروں سے باہر آنا ہے،میدان میں خود کو حاضر کرنا ہے ۔انشا اللہ یہ امید خداوند کریم و مہربان سے ہی ہے کہ وہ اس تحریک اور اس سے مخلص احباب کو مزید کامیابیوں سے نوازے اور ان مطالبات کو منوانے اور عمل کروانے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے ،انشا اللہ دنیا کے بیشتر ممالک عراق،شام،یمن لبنان کی طرح یہاں بھی تشیع ہی سرخرو ہو گی اور فتح مند ہو کے شکر کے نوافل پڑھے گی ، نا جانے کیوں میرے کانوں میں یہ آواز آ رہی ہے کہ وہ وقت قریب آن پہنچا ہے۔۔!

تحریر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) کشمیر کی تاریخ  کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی  موجودہ غلامی مسلمانوں کی  باہی فرقہ واریت کا نتیجہ ہے۔یہ ۱۵۸۳ ؁  کی بات ہے کہ جب  کچھ  نادانوں  نے  پہلی مرتبہ کشمیر کو اکبر بادشاہ کی گود میں اس لئے  ڈالا تھا کہ انہیں کشمیر پر شیعہ حکمرانوں کی حکومت قبول نہیں تھی،انہوں نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوسف شاہ چک کے خلاف سازش تو کی لیکن اس کے بعد  کشمیر آج تک  غلامی کی زنجیروں میں جھکڑاہوا چلاآرہاہے۔

پھر۱۷۵۳ میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا  اوریوں کشمیری ،مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے پھر ۱۸۱۸ میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ  افغانیوں سے چھینااور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔

۱۸۱۸ء سے ۱۸۴۶ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔9 مارچ 1846؁ء کو عہد نامہ لاہورکی دفعہ چہارکے تحت  جنگی  خراجات کی مد میں سکھوں نے  کشمیر انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کردی۔

کشمیر کی غلامی کی  ابتدا فرقہ واریت کے باعث ۱۵۸۳؁ سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان ۱۹۴۷ سے  رقم ہوتی ہے۔اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔

 راقم الحروف کی ناقص معلومات کے ۱۸۴۶ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے  ریاستِ کشمیر معائدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔تاریخی اعتبار سے  اس وقت شمالی عالاقہ جات  کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ  متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں  مثلانگر‘ ہنزہ‘ کھرمنگ‘ خپلو‘ شگر‘ دیامر‘ خذر‘ سکردو‘ استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔۱۸۴۶ میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔ اس طرح ۱۸۴۶ء  کے بعد ۱۹۴۷ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل  اور باقیات ہی  حکمران رہی۔

۱۹۴۷  میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے  برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی  فوجی بغاوت متوقع تھی۔یعنی  برطانہ کے خلاف ہندوستان میں سوسال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی ،اس سے پہلے  بھی برطانوی حکومت ۱۸۵۷ کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی لہذا حکومت کوشش کررہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس متوقع  فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ کو  لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔

 18 مئی 1947ء  کو لارڈبیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی جس کے بعد انہیں  ۳۰مئی ۱۹۴۷ء کو  پھر ہندوستان بھیج دیاگیا۔

2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک  اجلاس منعقد ہوا جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔۳جون کولارڈ ماونٹ بیٹن نے  آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔

 اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ  مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔۳جون کی شام کو ہی  برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو  پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیاگیا۔

’’جون تھری پلان‘‘ کی رو سے  ہندوستان میں واقع  برطانیہ کے زیر انتظام تمام ریاستیں  ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے  کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔[1]

تقسیم ہند کے وقت  حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے  کالج کے ساتھی ریڈ کلف  کو مسٹر نہرو کی  منصوبہ بندی کے مطابق  مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔

یاد رہے کہ ریڈکلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔

اگرچہ لارڈمائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے البتہ  انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈکے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہو گئی ۔

بلاشبہ  اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت ، پاکستان کےخلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ مسٹر نہرو ،لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

اسی طرح  ریڈکلف کی طرف سے ضلع مالدہ,مرشدآباد,کریم گنج  اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو  ہدئیے میں دے دئیے گئے۔

24 اکتوبر ۱۹۴۷کو  مہاراجہ نے بھارت سے فوج منگوائی اور ۲۷ اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی ۔اس صورتحال میں  کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کردیا۔اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ  مہاراجےکے تسلط سے آزاد ہوگیا جسے ہم آزاد کشمیرکے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔

 دسمبر 1947ء کے آخرمیں  ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔

بھارت نے 3جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جارہی ہیں،چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔

پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔یہ ہے کشمیر کی غلامی کی ابتدا سے لے کر موجود تحریک ِ آزادی کا مختصر پسِ منظر ،اس پسِ منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت راہِ حل کے طور پر چند نکات پیشِ خدمت ہیں ۔:

۱۔کشمیر در اصل  مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے ،اگر ابتدا میں اہلیان کشمیر میں سے کچھ لوگ  یوسف شاہ چک کو شیعہ کہہ کر اکبر بادشاہ کو حملے کی دعوت نہ دیتے تو نوبت یہانتک نہ پہنچتی۔آج بھی اگر کشمیری ،غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں  فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔

۲۔کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔آزادی ہر انسان کافطری اور جمہوری حق ہے ،دنیا کی تمام مقتدر اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں،لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں  کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیے۔

۳۔اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی  کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں ۔اب اہلیانِ کشمیرکو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں،یہ جمہوری دور ہے ،عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے،مسئلہ کشمیر کو میڈیا کے ذریعے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیے۔ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں  انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایاجائے۔یعنی عالمی سطح پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

۴۔مسئلہ کشمیر ایک قانونی  اور سیاسی مسئلہ ہے جو ریڈکلف سمیت چند خواص کی خیانت کی وجہ سے پیش آیا لہذا اسے قانونی اور سیاسی  طور پر ہی حل ہونا چاہیے۔دہشت گردی اور خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتاہے۔لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیے۔

۵۔دنیا میں ہر جگہ شدت پسند وہابی اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔مثلا عراق ،پاکستان اور افغانستان کو ہی لے لیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پورے ملک کو ہی وہابی قرار دے دیاجائے اور  امت مسلمہ کو وہابی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے۔اسی طرح کشمیر میں بھی یہ لوگ پائے جاتے ہیں۔لہذا  ہمیں بھی  سارے اہلیانِ کشمیر کو وہابی  یا داعشی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ملت کشمیر کو  ان عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا چاہیے۔

۶۔جو قوم فکری طور پر شکست قبول کرلیتی ہے اسی عملی میدان میں شکست دینا آسان ہوجاتاہے۔کشمیر کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت کشمیر کو عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات  سے مربوط رکھیں۔خصوصا انقلاب اسلامی ایران کی جدوجہد ،حزب اللہ کی تاریخ اور فعالیت ،نظام ولایت فقیہ  ، اور تحریک آزادی قدس  کے مختلف ابواب سے لوگوں آگاہ کریں تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔

۷۔کشمیری تاریخ کے کسی بھی دور میں غلامی پر رضامند نہیں ہوئے سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کوکشمیریوں کے  نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔تاکہ کشمیر کی نسلِ نو اس مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو فراموش نہ کرے۔اگر نصابِ تعلیم میں شامل نہ ہوسکے تو دیگر ذرائع مثلا فنون لطیفہ ،شعرو شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے ہی اس مسئلے کو آگے منتقل کیاجائے۔

ہمیشہ کی طرح آخر میں اپنے قارئین کے لئے  تاریخ کا عرق نچوڑ کر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ  “جو ملت غلامی پر رضامند نہ ہو اسے غلام نہیں رکھا جاسکتا”۔

استفادہ:۔

۱۔تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد

۲۔کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیاڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن

۳۔ششماہی سنگر مال تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور

۴۔مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد

۵۔تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ[آن لائن] https://archive.org/stream/tarikhikashmir00khas#page/n0/mode/2up

۶۔A brief history of the Kashmir conflict

http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html

۷۔Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace

by Sumantra Bose

۸۔The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace

by Sumantra Bose

۹۔مشن ودماؤنٹ بیٹن از کیمل جانسن


تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree