وحدت نیوز (آرٹیکل) مجرم پروری بھی ایک ہنر ہے۔مجرم لوگ ہی  مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں،انہیں پناہ دیتے ہیں،خطرات میں محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے  مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

مجرمانہ زہنیت رکھنے والے افراد کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی،وہ کسی بھی مذہب ،مکتب یا نظریے کے ہمدرد نہیں ہوتے بلکہ وہ مذہب اور نظریے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہوتے ہیں۔

۱۴ اگست ۱۹۴۷میں جب پاکستان بنا تو سولہ سو کلومیٹر فاصلے کے باوجود مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہو کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ جنہیں نظریہ آپ میں ملا دے انہیں زمینی فاصلے ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔

اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں نے بنگالیوں کو فکری طور پر اتنا تبدیل کیا کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو مشرقی پاکستان کے باسی ہم سے جدا ہوگئے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں عوام ہمیشہ پریشان حال اور مختلف اداروں کےمسئولین مست رہتے ہیں۔

۱۶دسمبر ۲۰۱۴ کو ہی طالبان نے حملہ کرکےپشاور کے آرمی پبلک سکول میں تقریبا ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو شہید کیاتھا۔یہ بدترین سانحہ بھی کبھی پیش نہ آتا اگر ہمارے ہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجاتا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کاصفایاکیاجاتا۔

حکمرانوں کی بے حسی ،بیوروکریٹوں کی من مانی اور مسئولین کے منفی رویے ہی مجرموں کو پلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔

ابھی مسئلہ تفتان ہم سب کے سامنے ہے۔لوگ سخت سردی میں ننگے آسمان تلے ٹھٹھرتے ہیں،ان کے ساتھ بدتمیزی ہوتی  ہے اور ان سے رشوت لی جاتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت اور کوئی ادارہ  ہی نہیں جو ان کے مسائل کو حل کرے۔

اب آئیے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کی طرف چلتے ہیں،جہاں پاسپورٹ کا عملہ تو ماشاللہ اچھی طرح اپنی ذمہ داری انجام دے رہاہے لیکن شناختی کارڈ  بنوانے والے لوگوں کو خون کے آنسو رلایا جاتاہے۔

لوگوں سے فیس وصول کرکے کہاجاتاہے کہ پاکستان سے نادرا والے آپ کا شناختی کارڈ نہیں بھیج رہے ۔لوگ چکر پر چکر لگاتے ہیں،فون کرتے ہیں،درخواستیں لکھتے ہیں لیکن بے حسی کی انتہا ہے کہ آگے  سےصرف ایک ہی جواب دیا جاتاہے کہ ہم کیا کریں یہ تو پاکستان سے نادرا والے نہیں بھیج رہے۔

بطور ثبوت اس وقت صرف دو رسید نمبر پیش کررہاہوں کہ جنہیں ایک سال ہوگیا ہے اور ابھی تک وہ شناختی کارڈ وصول کرنے کے لئےدھکے کھا رہے ہیں۔ایک رسید نمبر ۱۴۴۴۸۷۳ہے اس کی فیس ۱۳جولائی ۲۰۱۵ کو جمع کروائی گئی اور دوسری رسیدکا نمبر ۱۴۴۹۴۳ہے اور اس کی فیس ۲۸ جنوری ۲۰۱۶ کو جمع کروائی گئی ہے۔

بے حسی،من مانی اور منفی رویوں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ شریف آدمی قانون  اور انصاف کے نام سے ہی ڈرتا ہے۔ہر جگہ عام آدمی کو یہ یقین ہوگیاہے کہ  کسی بھی ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف اس کے درخواست دینے اور واویلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ابھی گزشتہ روز ہی چترال ائیرپورٹ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والا  ایک طیارہ حادثے کا شکارہوگیا جس میں سینتالیس کے لگ بھگ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

یہ حادثہ کیوں پیش آیا !؟اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ یہ  یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا۔۔۔

جب یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا توپھر کس کی بے حسی اور من مانی نے اس طیارے کو اڑنے کی جازت دی۔

جب تک ہمارے ملک کے اداروں میں من مانی کرنے والے،بے حس اور منفی رویہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں اس وقت تک عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔

عوامی بھلائی،فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بے حسی کو ترک کرے،من مانی کرنے والے اہلکاروں کو نشان عبرت بنایاجائے اور کسی بھی ادارے کے اہلکاروں کے منفی رویوں کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔باشعوراقوام اپنے بہادر جرنیلوں کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں،استعمار جب بھی کسی ملک کو توڑنا چاہتاہے تو سب سے پہلے اس کی فوج کو کمزور کرتاہے،چونکہ صرف کمزور فوج ہی استعمار کی آلہ کار بنتی ہے۔جب تک کسی ملک کی ملی فوج مضبوط رہتی ہے ،اس ملک  کا پرچم سربلند رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک و اقوام کی طرح ملت پاکستان بھی اپنی فوج سے والہانہ عشق  اور لگاو رکھتی ہے۔

ہمارے ہاں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا تقرر بنیادی طور پرجی ایچ کیو کی جانب سے ہی کیا  جاتاہے۔ابتدائی طور پر جی ایچ کیو کی طرف سے سینئر ترین فوجی افیسرز کی فہرست وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم کو بھیجی جاتی ہے۔فہرست کا مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم ریٹائرمنٹ کے دہانے پر کھڑے آرمی چیف سے اس بارے میں مشورہ کرتے ہیں۔

جب وزیرا عظم کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو صدر مملکت کو اعلان کرنے کے لئے مجوزہ نام بھیج دیتے ہیں۔یوں وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے ہیں۔چنانچہ صدر مملکت کو کمانڈر انچیف بھی کہاجاتاہے۔

مذکورہ مرحلے سے گزرنے کے بعد پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پرلیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقررکردیاہے۔یہ دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھا لیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف  بھی ریٹائرڈ ہوں گے۔

جنرل قمر باجوہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج (ٹورنٹو)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹیری (کیلی فورنیا)، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے گریجویشن کے  علاوہ  کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرنے کے علاوہ انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف  کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے۔

اسی طرح لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو بھی پروفیشنل اعتبار سے ایک مثالی افیسر سمجھا جاتاہے۔ وہ فورٹ سل اوکلوہوما (امریکا)، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کیمبرلے (برطانیہ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے گریجویٹ  ہونے کے ساتھ ساتھ  حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل  اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ۔

یہاں پر ہم یہ نکتہ بیان کرتے چلییں کہ کوئی بھی شخص جتنا باصلاحیت اور لائق ہوتا ہے ،اس سے توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔  مملکت پاکستان ہمارے پاس ایک الٰہی نعمت ہے اورہمارے مسئولین کے پاس  اس کی اہم پوسٹیں ایک خدائی امانت ہیں۔چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں مملکت خداداد میں  دین اور ملک و قوم کی خدمت کا شرف حاصل ہوتاہے۔

اس وقت ہمارا ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان  کے حل کی اصلی کلید پاکستان آرمی کے پاس ہی ہے۔لہذا ملت پاکستان اپنے  سپہ سالاروں سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ  اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاس ملت کو مسائل سے نجات دلائیں۔

اس وقت ہمارے اہم مسائل کی فہرست ہم پیش کئے دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے نئے سپہ سالار ،ان مسائل کو حل کرنے میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔

۱۔مسئلہ کشمیر اور پاکستانی فوج کا کردار

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج کبھی بھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتی لیکن اس مسئلے کو کشمیری عوام کی منشا  اور رضایت کے بغیر حل بھی نہیں کیاجاسکتا۔دشمنوں کی چالوں اور اپنوں کی نااہلی کے باعث گزشتہ چند سالوں سے اس مسئلے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس وقت کنٹرول لائن پر پائی جانے والی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود یہ جان لیجئے کہ موجودہ کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کو اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کا براہِ راست اثر اہلیانِ کشمیر پر پڑا ہے۔کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کو اپنا جزوِایمان سمجھنے والے کشمیری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں تو کسی ہندو کی گولی کے بجائے کسی تکفیری کے فتوے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

پاکستان کو اپنی آخری اور اصلی منزل سمجھنے والے کشمیریوں کی نئی نسل اپنے ابا و اجداد کے فیصلے پر نظر ثانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس وقت پاکستان میں پائے جانے والے تکفیری عناصر کے حوالے سے پاکستانی فوج کو فیصل کن کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلہ کشمیر کے سلسلےمیں پاکستان سے تکفیریت کا خاتمہ ضروری ہے۔

دشمن پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے،لہذا پاکستانی فوج کو بھی  تکفیریت کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۲۔جہادی گروہ ضرورت یا مصیبت

بلاشبہ پاکستان نے کسی دور میں روس اور ہندوستان سے نمٹنے کے لئے جہادی گروپوں کو تشکیل دیا تھا۔اب یہ گروپس اپنے اصلی خطوط سے منحرف ہوچکے ہیں اور اپنے اصلی محازوں کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں نہتے عوام کا خون بہارہے ہیں۔

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جو گروپس آئین پاکستان  اور افواج پاکستان کی تابعداری کرتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہیں انہیں باقی رہنا چاہیے لیکن جو قائد اعظم کو کافر اعظم ،پاکستان کو کافرستان، ملت پاکستان کو کافر و مشرک ،آئین پاکستان کو شرک اور پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ،ایسے گروپوں کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔

ایسے گروپ، ہماری نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کے خلاف  ابھارتے ہیں،اپنے ہی ملک کے خلاف اکساتے ہیں اور خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔

ایسے گروہوں  کو فعالیت کی اجازت دینا در اصل پاکستان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔لہذا افواج پاکستان کو سب سے پہلے اپنے ان اندرونی دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

۳۔ملکی اثاثوں کی حفاظت

ملکی اثاثوں میں صرف ایٹمی اثاثہ جات نہیں آتے بلکہ ہمارے ملک کے اصلی اثاثہ جات وہ دانشور ،پولیس آفیسر اور آرمی کے جوان ہیں جو اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں شعرا،ادبا،دانشمندوں اور پولیس و فوج کی قیمتی شخصیات اس کے علاوہ سکول کے بچوں کو شہید کیا جارہاہے۔

موجودہ صورتحال پاکستان آرمی کے سامنے ہے،اب فوج کو چاہیے کہ ایٹمی اثاثوں کی طرح اہم شخصیات اور مراکز کی حفاظت کو بھی اپنی اولین ترجیح قرار دے۔

۴۔دوسرے ممالک کے نفوز کا خاتمہ

پاکستان میں دہشت گردوں کی مدد اور سرپرستی کے حوالے سے،افغانستان ،ہندوستان اور سعودی عرب کا نفوز کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔دہشت گرد گروہ جہاں اندرونی طور پر ہمیں کمزور کرتے ہیں وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو دھچکا لگتاہے۔پاکستان کی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے مفاد کے خلاف  دیگر ممالک کے اشاروں پر چلنے والے تمام  نیٹ ورکس کو توڑا جائے اور ایسے اداروں کو سیل کیاجائے۔ یہ کام پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کو بروئے کار لائے بغیر نہیں ہوسکتا۔

۵۔پاکستان آرمی سے فرقہ واریت کا خاتمہ

اگرچہ پاکستان آرمی بظاہر ہرقسم کی فرقہ واریت سے پاک ادارہ ہے لیکن یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ  جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کو آرمی میں رائج کیاگیا۔اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا،لہذا پاکستان آرمی سے فرقہ وارانہ سوچ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے اور فرقہ واریت کی جگہ بھائی چارے،اخوت اور مواخات کی عملی ٹریننگ کے لحاظ سے اقدامات کئے جانے چاہیے۔

۶۔کرپشن کا خاتمہ

پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی ملک ہے۔جولوگ اس ملک میں کرپشن کرتے ہیں وہ در اصل ملک و قوم کے غدار ہیں۔ان غداروں سے نمٹنے کے لئے پاکستان آرمی کے پاس شفاف اور بااختیار مانیٹرنگ سیل ہونا چاہیے۔

یاد رکھئے !کرپشن صرف بڑی سطح پر نہیں ہوتی بلکہ میڈیسن کمپنیوں،پلاٹوں کی خریدوفروخت، تھانے، کچہری ،نادرا ،برقیات اور دیگر اداروں میں میں چپراسی اور اردلی  کی سطح سے شروع ہوتی ہے اور اوپر کی سطح تک جاتی ہے۔

لوگ پریشان حال ہیں،کہیں میرٹ نہیں کہیں شنوائی نہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔برقیات والے بغیر میٹر ریڈنگ کے بل دیتے ہیں،واٹر سپلائی والے  کئی ہفتوں تک پانی ہی نہیں دیتے،دہشت گرد دندناتے ہیں،عدل بکتا ہے،انصاف سسکتاہے،مخلوق خدا بے بس ہے۔

آرمی کے ایسے شکایات سیل ہونے چاہیے جہاں لوگ اپنی چھوٹی موٹی شکایات سے لے کر بڑے  بڑےمسائل تک سب کچھ لے کر جائیں اور آرمی کے دیانتدار ادارے کی زیر نگرانی  عوامی مسائل حل کئے جائیں۔اس طرح سے ریاست پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا اور جذبہ حب الوطنی میں بھی  اضافہ ہوگا۔

۷۔قبائلی علاقہ جات

قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔جب تک قبائلی علاقہ جات قومی ٓارمی کے وجود کے قائل نہیں ہوتے اس وقت تک ملکی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ قبائلی علاقوںمیں نصاب تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اجتماعی اور قومی شعور کو پروان چڑھایاجائے۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات کی تعمیروترقی میں بھی مسلح افواج کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور وہاں کےعوام کے ساتھ مکالمے کی فضا کو بہتر بنانا چاہیے۔

۸۔شمالی علاقہ جات کے آئینی حقوق

پورے ملک خصوصا شمالی علاقہ جات کے عوام اور پاک فوج یک جان دو قالب ہیں۔پاک فوج کو شمالی علاقہ جات کے عوام کے آئینی حقوق کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چونکہ   جنرل باجوہ کو کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے لہذا شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنے آئینی حقوق کے حوالے سے ان سے امیدیں لگانے میں حق بجانب بھی ہیں۔

۹۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد

نیشنل ایکشن پلان کو اس کے حقیقی اہداف کی طرف پلٹانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ملکی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔فوج کی سب سے اہم ذمہ داری ملکی تحفظ ہے اور یہ تحفظ نیشنل ایکشن  پلان پر عملدرآمد کے بغیر ممکن نہیں۔

یاد رہے کہ افواج ،ممالک کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں۔جو جرنیل اس امتحان میں پورے اترتے ہیں آئندہ نسلیں ان کی عظمت کے گن گاتی ہیں اور جو اس امتحان میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) سی پیک ایک معمہ ہے جس پر حکومت کی پوزیشن روز بروز الجھتی جارہی ہے،اپوزیشن جماعتوں اور ناقدین سی پیک میں صوبے کو محروم رکھے جانے کا واویلا کررہے ہیں لیکن صوبائی وزراء اس میگا پراجیکٹ سے خاطر خواہ فائدے سمیٹنے اور خطے میں خوشحالی کی منادی کرتے نہیں تھکتے۔صرف یہی نہیں بلکہ حکمران جماعت اور ان کے حامی اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں حزب اختلاف اور ناقدین کے اعتراضات کو مخالفین کی مایوسی پھیلانے اور حتیٰ کہ اس منصوبے کے خلاف سازش کرنے کی انتہائی سنگین الزام عائد کرنے سے بھی نہیں چوکتے ،لیکن کیا کہا جائے کہ اب یہ باتیں صرف مخالفین ہی نہیں بلکہ انتہائی ذمہ دار حلقے بھی ببانگ دھل اقتصادی راہداری منصوبے میں حصہ نہ ملنے پر صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔اس سلسلے میں چیئرمین اقتصادی راہداری کونسل سنیٹر طلحہ محمود نے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے " صوبائی حکومت سی پیک میں اپنا حصہ نہیں مانگ رہی ہے" انہوں نے اس سیاق و سباق میں بہت کچھ کہا ہے جس کی تفصیلات اخبارات میں موجود ہیں (بحوالہ روزنامہ بادشمال مورخہ 26 نومبر 2016) ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں وہ یہ کہ موصوف کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ دوسرے صوبے سے ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں کاروباری اور سماجی شعبے میں ایک عرصے سے خدمات انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔اسی کو کہتے ہیں جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے۔
گلگت بلتستان جو اقتصادی راہداری منصوبے کا گیٹ وے ہے لیکن بظاہر تمام حکومتی دعوئوں کے برعکس ابھی تک گلگت بلتستان میں کوئی بڑا منصوبہ سی پیک میں شامل ہونے کے مستند ثبوت سامنے نہ آسکے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے جو سنیٹر سید مشاہد حسین نے گلگت بلتستان سی پیک میں شامل نہ ہونے کا انکشاف کیا اور اس حوالے سے سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اقتصادی راہداری منصوبے نے بھی خطہ گلگت بلتستان میں کوئی منصوبہ اس حوالے سے نہ رکھے جانے کا آن ریکارڈ آبزرویشن دی چنانچہ اتنے زیادہ معتبر ذرائع سے آنے والی خبروں اور اطلاعات کو مخالفین کی ریشہ دوانیاں قرار دیکر عوام کو بیوقوف بنانا سی پیک کی قطعاً کوئی خدمت نہیں بلکہ افسوناک اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ یہ بات بھی قابل ملاحظہ رہے کہ صوبائی وزراء اکثر ایسی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں ۔کبھی گلگت سکردو روڈ،کبھی گلگت میں میڈیکل کالج،کبھی دیامر باشہ ڈیم اور نہ جانے کون کونسے منصوبے سی پیک کا حصہ قرار دئیے جاتے ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبہ ایک عظیم ترقیاتی منصوبہ ہے جو دنیا بھر میں زیر بحث ہے،دوست اور دشمن سب اس میگا پراجیکٹ پر اپنے تاثرات اور رد عمل دے رہے ہیں۔دوست اس منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کررہے ہیں،روس،ایران اور ترکمانستان اور دیگرکئی ممالک نے اس منصوبے میں اپنی شمولیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے اور مستقبل قریب میں کئی اور ممالک بھی ان کے پیچھے پیچھے اس عظیم منصوبے کا حصہ بننے کی تیاری کررہے ہیں۔ہندوستان اور دیگر کئی طاقتیں اس منصوبے سے ناخوش ہیں ،ان حالات میں اس منصوبے کو بہترین حکمت عملی اور شفاف طریقے سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے اربوں ڈالر کا یہ عالمی سطح کا منصوبہ زبانی کلامی خرچ سے تو نہیں چل سکتا بلکہ اس حوالے سے سالوں پہلے تخمینے، تجزیئے اور پورا پورا حساب کتاب کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے اگر صوبائی حکومت اور وفاق نے گلگت بلتستان کو اس کے حصے کا کوئی منصوبہ دیا ہوتا تو لامحالہ اس پراجیکٹ کے کسی بھی مرحلے میں مرتب نقشوں اور بجٹ میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا لیکن ابھی تک اس کی تصدیق کسی بھی فورم پر تاحال سامنے نہیں آئی۔چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو طفل تسلیوں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے اس اہم ترین خطے کو سب سے پہلے اس میگا پراجیکٹ کی اکائی تسلیم کرتے ہوئے قابل عمل منصوبے بنائے اور حقائق تسلیم کرے ورنہ صوبائی حکومت کے دعوئوں اور اعلانات کی حیثیت کوکوئی تسلیم نہیں کرے گا۔
گلگت بلتستان فطری اور جغرافیائی طور پر پاک چین دوستی اور تجارت کا بلا شرکت غیرگیٹ وے ہے۔یہ رشتہ دونوں خطوں کے مابین قیام پاکستان سے صدیوںقبل سے قائم ہے،اس دوستی اور تعلق میں کسی خاص پارٹی یا جماعت سے زیادہ ان تہذیبی، جغرافیائی قربت اور تاریخی قدروں کا عمل دخل رہا ہے۔ صدیوں قبل چینی سیاح اور بدھ مت کے پیروکار مذہبی دوروں اور سیاحت کیلئے اس علاقے سے گزرتے رہے ہیں جس کے شواہد آج بھی گلگت بلتستان کی مختلف وادیوں میں پتھروں اور چٹانوں پر کندہ ہیں،لہٰذا کوئی سازش یا طاقت ان خطوں کی آپس کے رشتوں اور تعلق کو خراب نہیں کرسکتی، چنانچہ اس حوالے سے حکومت کو چندان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان اسباب کی روک تھام پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے جو عوام میں اس حوالے سے بد گمانیاں پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام اور یہاں کا بچہ بچہ اپنی تاریخ اور روایات کا امین ہے آج ہمارے بھائی نہ صرف سیاچن اور کارگل میں پانی مادر وطن کا دفاع کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ہیں بلکہ پاکستان کے ایک ایک چپے کے دفاع کیلئے اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔انشاء اللہ گلگت بلتستان کے عوام بیرونی دشمنوں کی ہر سازش کے سامنے قراقرم اور ہمالیہ کی چٹانوں کی مانند سربلند اور سربکف دفاع کیلئے آمادہ و تیار ہیں تاہم گلگت بلتستان کے عوام کی خلوص اور سادگی کا جواب بھی ویسا ہی ملنا چاہئے۔یہ بھی یاد رہے کہ گلگت بلتستان معاشی افلاس، بیروزگاری اور دیگر گوناگوں مسائل کے دلدل میں ہے خطے کو اس کیفیت سے نکالنے اورآنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے صوبائی حکومت کووفاق سے اپنا حصہ لینے کیلئے دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئے اور اختلاف اور مثبت تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی کیونکہ تاریخ میں وہی کردار امر ہوتے ہیں جو سچائی اور حقیقت کیلئے قیام کرتے ہیں،چل چلائو کے خوگر تاریخ کے صفحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔


تحریر: عالمگیر حسین

ای میل:This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان مسلسل سیکھتا ہے،اپنے استادوں،ماں باپ،کتابوں،معاشرے اور دوستوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی سیکھتاہے۔جانوروں میں سے ایک شہد کی مکھی بھی ہے۔شہد کی مکھیاں سارا دن پھولوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں۔ایک پھول سے دوسرے پھول کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں۔لیکن اگر ان کے چھتے پر حملہ ہوجائے تو سب متحد ہوکر دفاع کرتی ہیں۔شہد کی مکھیوں میں بھی اتنا شعور ہے کہ وہ دفاع کے وقت متحد ہوجاتی ہیں لیکن ہم انسان ہونے کے باوجود یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ دفاع کے وقت متحد ہوجانا چاہیے۔

جب ہمارے مقدسات پر حملہ ہوتا ہے،ہماری محترم شخصیات کی آبرو خاک میں ملائی جاتی ہے،ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی اہانت کی جاتی ہے تو ہم متحد ہوکر دفاع کرنے کے بجائے گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،خصوصاً زائرین کے مسائل کو پارٹیوں کی عینک لگاکر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ایسے میں زائرین بے چارے اپنی مشکلات کے حل کے لئے کبھی ایک پارٹی اور ایک شخصیت سے امیدیں باندھتے ہیں اور کبھی دوسری پارٹی اوردوسری شخصیت سے۔

اس وقت مجھے یہ فرضی واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک صاحب عمرہ ادا کرنے گئے ،جب طوافِ کعبہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر والوں کو فون کیا کہ فلاں پیر صاحب کی قبرپر جاکر میرے لئے دعا کریں۔

ہمارے ہاں زائرین امام حسینؑ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہے کہ وہ جاتو امام حسینؑ کی زیارت کے لئے رہے ہیں جبکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے پارٹیوں اور شخصیات کی قبروں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔

زائرین کو چاہیے کہ اس سفر زیارت میں جہاں اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعاکریں وہیں حضرت امام حسینؑ سےخصوصی طور پر یہ دعا بھی کریں کہ زائرین کوستانے والے لوگ اگر قابل ہدایت ہیں تو خدا انہیں ہدایت عطاکرے اور قابل ہدایت نہیں ہیں تو خدا جلد از جلد انہیں ہلاک کرے اور ان کے شر سے زائرین کو نجات عطاکرے۔

زائرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر زائرین مسلسل یہ دعا کریں تو میرا ایمان ہے کہ واپسی پر مطلع صاف ہوگا۔میں یہاں پرزائرین کے لئے  یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ چہلم امام حسینؑ کا ایک عملی پہلو ہے اور دوسرا نظریاتی پہلو ہے۔

عملی اعتبار سے چہلم امام حسینؑ میں شرکت ایک سنت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی جارہی ہے اور نظریاتی اعتبار سے یہ چہلم کی سنت ایک نظریاتی جنگ ہے جسے نظریاتی محازوں پر لڑے جانے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی نظریے کے دفع اور پرچار کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں:

۱۔عمق ۲۔تحلیل ۳۔استدلال

چہلم امام حسینؑ کے حوالے سے نظریاتی طورپر ہمارا مطالعہ عمیق ہونا چاہیے۔ہمیں اس سلسلے میں اٹھنے والے سوالات اور شبھات کاعلم ہونا چاہیے اور ان کے جوابات علماکرام اور مستند کتابوں سے معلوم کرنے چاہیے،دوسرے مرحلے میں ہمیں ان عمیق معلومات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کرنا آنا چاہیے۔چہلم امام حسینؑ کے سفر میں ہماری معلومات میں جو اضافہ ہو اور ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھیں ،ہمیں اس کی صحیح تحلیل کرنی چاہیے۔تیسرے مرحلے میں ہمیں واپسی کے وقت عمیق مطالعے اور تحلیل کے ہمراہ استدلال بھی کرنا آنا چاہیے۔

یعنی ہم اس سفر کے معنوی و رواحانی مشاہدات و تجربات اور اپنے عملی مطالعات کو احسن استدلال کے ذریعے دوسروں تک پہنچائیں بھی۔

یاد رکھنے کے قابل بات یہ ہے کہ فقط چہلم کے سفر میں پیادل شرکت کرلینے سے یہ سنت ادانہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ واپسی کے دوران ہم اس سفر کے ثمرات اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں۔تاکہ جو کسی بھی وجہ سے اس سفر میں شریک نہیں ہوسکے وہ بھی اس سفر کی معنوی لذت کو چکھیں۔

واپسی کے دوران بھی جہاں دعا و مناجات کرتے رہنے کی ضرورت ہے وہیں زائرین ِ امام حسین ؑ کو ستانے والوں کے لئے بھی ہدایت یا ہلاکت کی دعا کرتے رہیں۔

اس ملک کو سدھارنے کے لئے جہاں اور بہت ساری محنت اور کاوش کی ضرورت ہے وہیں ہماری دعاوں کی بھی ضرورت ہے اور دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا۔

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین حسنین ؑکے نانا محبوب خدا خاتم المرسلین نے اپنی زندگی میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا تعارف خود صحابہ کو کرایاکبھی مسجد نبوی کے منبر پر بیٹھ کر اور کبھی منبر چھوڑ کر کبھی سجدے کو طول دے کر ، کبھی کندھوں پہ بٹھا کر ، اور کبھی اپنا تعلق بیان کرکے مثلاً کبھی آپ نے ارشاد فرمایا حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوںتو کبھی آپ نے ارشاد فرمایا حسن ؑ وحسین ؑ جوانان جنت کے سردار ہیں گویا حضور کی حیات مبارکہ میں بے شمار واقعات ملتے ہیں جہاں امام عالی مقام کی عظمت بیان کی گئی لیکن کربلا کا برپا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اُمت نے امام حسینؑ کی قدرومنزلت کے ساتھ انصاف نہیں کیا یزید کا رویہ اور مقصد آپ سب جانتے ہیں اور امام حسین ؑ کا انکار بھی۔
    
میں نے آج واقعات کی بجائے ارشادات نبوی ﷺتحریر کئے ہیں کیونکہ واقعات آپ نے پڑھے بھی ہوئے ہیں اور سنے بھی آج میں آپ کو ایک اور واقعہ سنانا چاہتا ہوں !جو میرے ساتھ کل پیش آیا۔
    
اس وقت سے کچھ سوالات بار بار میرے ذہن میں ابھررہے ہیں اور مجھے کوئی جواب نہیں مل رہا اس لئے میں نے سوچا آپ سب سے شئیر کروں شاید کوئی پڑھا لکھا میری اس مشکل کو حل کردے اور میری ذہنی اذیت ختم ہو جائے ۔
    
ہوا یوں کہ کل نماز عصر کے وقت میرا گزر فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم سے ہوا میں نے دیکھا وہاں کچھ لوگ نماز پڑھنے کی تیاری میں مصروف ہیں اور آپس میں کچھ باتیں کررہے ہیں وہاں مجھے پانی کا ایک نل نظر آیا میں وہاں پہنچا اور اپنے ہاتھ دھونے شروع کئے یہاں مجھے نمازیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی اور چہرے بھی نظرآرہے تھے ان میں کچھ نمازی دھاڑی والے تھے اور کچھ داڑھی کے بغیر اور کچھ کی چھوٹی چھوٹی دھاڑی تھی یہ نمازی بڑی خوش مزاجی سے کہہ رہے تھے ۔
    
یار نماز کا وقت ہوگیا ہے جبکہ سٹیڈیم میں تیز آواز میں ڈھول بج رہا ہے لیکن اس پر کسی نمازی نے پریشانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہنسی ہنسی میں جماعت کا وقت ہو گیامولانا صاحب تشریف لے آئے اور نماز شروع ہو گئی اس ڈھول کے شور میں نماز ادا کردی گئی نہ کسی نے یہ کہا جاﺅ ان کو کہو نماز پڑھنی ہے ڈھول بند کردو ،نہ کسی نے 15 پر کال کی نہ کسی نے متعلقہ تھانے میں درخواست دی نہ کوئی مذہبی جماعت وہاں آئی نہ آئندہ ڈھول کو روکنے کی منصوبہ بندی ہوئی غرض ڈھول والا ڈھول بجاتا رہا اور نمازی اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور اپنا فرض ادا کیا لیکن میں وہیں کھڑا کھڑا نجانے کہاں کہاں پہنچ گیا میں نے محرم پر کئی سالوں سے عجیب مناظر دیکھے ہیں کہیں مسجد میں نماز ہو اور باہر ذکر حسینؑ ہو تو وہاں قیامت برپا ہوجاتی ہے پتہ نہیں وہ کون لوگ ہیں جو جنت میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ذکر حسینؑ کے خلاف درخواستیں بھی دیتے ہیں کالیں بھی کرتے ہیں اور زور بازو پر اسے روکنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اگر ان سے کوئی بچ جائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رینجر اورپولیس آڑھے ہاتھوں لیتی ہے۔
    
بس میرے دماغ میں ایک ہی الجھن ہے کہ میرے مولا میرے آقا آپؑ آج بھی کتنے مظلوم ہیں آپؑ کا ذکر عبادت ہے آپؑ سے وفاداری دین اسلام سے وفاداری ہے لیکن پھر بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آپؑ کا ذکر روکنے کے لئے لوگوں کو قتل تک کردیا جاتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مجھے اس کا جواب نہیں ملتا اگر آپ لوگوں کو سمجھ آجائے تو مجھے جواب ضرور دینا۔۔۔۔۔۔

تحریر۔۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب امریکہ نے 9/11 بعد افغانستان پر حملہ کیا اور دنیا بھر کے وہابی اور تکفیری جو جہاد افغانستان کے لئے جمع ہوئے تھے انکی مرکزیت توڑ کر اور حکومت ختم کرکے انہیں جہاں اسلام میں بکھیر دیا گیااور اگلے مرحلے میں انہیں لیبیا ، تیونس ، مصر ، عراق ، شام اور یمن میں اپنے مفادات کے لئے استعمال کیااور جنرل پرویز مشرف نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر پاکستان میں انکے خلاف آپریشن کا آغاز کیا.  "سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ اینڈ سلک روڈ سٹڈیز پروگرام " کی تحقیقاتی رپورٹ میں بیان ہوا ہے کہ " طالبان کے وجود کو بچانے اور انکی مالی امداد ، افرادی قوت کی فراہمی  اور لوجسٹک خدمات  کے لئے متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ قائم کیا گیا." جس نے مشرف دور میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا. اور دوسری طرف عدلیہ کے سربراہ افتخار چوہدری کے ذریعے حکومتی گاڑی کے پہیوں میں لکڑیاں ڈالی جاتی رہیں اور ان دونوں کی پشت میں تکفیریت اور وھابیت کے مرکز سعودی عرب کا ہاتھ تھا. افتخار چودھری کی سعودی سفیر سے ملاقاتیں اور ایم ایم اے کے بعض مرکزی قائدین کے سعودیہ سے رابطے کسی سے چھپے نھیں. سعودیہ نے لمبا عرصہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی خطے پر تسلط اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے اب اسے پہلے سے زیادہ انکی تکفیری دہشتگردوں کی  ضرورت تھی. اسی اثناء میں دارالحکومت اسلام آباد میں میں قائم دھشتگردی اور تکفیریت کے سب سے بڑے مرکز  لال مسجد پر ملک میں امن کی بحالی کی بنیاد پر  آپریشن کیا گیا. اس مرکز  کے  فقط پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ اس  کے عراق و شام اور دیگر ممالک تک مسلح تکفیری گروہوں سے روابط تھے۔

 اب ایک طرف سعودیہ پاکستان کے بشری  اور ایٹمی بموں پر کنٹرول چاہتا تھا اور دوسری طرف پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور .مسلم لیگ نوں بھی ملٹری انقلابوں سے جان چھڑوانا اور سول ڈکٹیٹرشپ کو لانا چاھتی تھیں. اور امریکا ، اسرائیل اور انڈیا کو بھی مضبوط آرمی اور طاقتور پاکستان قابل قبول نہ تھا. اس لئے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ان سب کی آپس میں قربتیں بڑھیں . ایک طرف امریکہ اور مغرب نے جمہوریت اور ڈیموکریسی اور آزادی کا نعرہ لگا کر خطے میں قائم حکومتیں گرانا شروع کر دیں اور سعودی عرب اور قطر جیسی  وہ پولیس اسٹیٹس اور بادشاہتیں جنکے اپنے ممالک میں نہ عوام آزاد ہیں اور نہ وہاں الیکشن ہوتے ہیں نے بھی خطے میں نام نہاد  جمہوری حکومتیں قائم کرنے کی خاطر امریکی اور صہیونی جنگ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا.پاکستان میں بھی مذکورہ دونوں بڑی پارٹیوں نے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور اپنے اقتدار کی خاطر جمہوریت کا ڈھول پیٹنا شروع کیا اور سعودی عرب جو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ  کا منشی تھا پاکستان جیسے ایٹمی طاقت  اور  اسٹرٹیجک مقام رکھنے والے ملک کی بڑی پارٹیوں کے سربراہان اس امریکی منشی کے بھی منشی بن گئے نون لیگ تو سب جانتے ہیں کہ ضیاء الحق کی سیاسی میراث ہے  اور تکفیریوں کے مرکز سے لیکر پاکستان میں موجود تکفیری قوتوں کے پہلے ہی قریب تھی. لیکن پیپلز پارٹی جوکہ ایک سیکولر جماعت تھی اس سعودی قربت سے اس میں تکفیری اثر ورسوخ بڑھا جس کاعملی مظاہرہ کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی چہرے پاکستان راہ حق پارٹی اور پی پی پی کے کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے مشترکہ الائنس بننے کے موقع پر ہوا
 اب جب نیشنل ایکشن پلان بنتا ہے یا دھشتگردی اور تنگ نظری کے خاتمے کے لئے قانون سازی ہوتی ہے یا آئین وقانون پر عمل درآمد کا مرحلہ آتا ہے تو دھشتگردی اور تکفیریت کے مراکز سے منسلک یہ لوگ فقط اپنے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں . کیونکہ اگر وطن کے وسیع تر مفادات اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر پھانسی کے پھندے لگائے جائیں تو بہت سارے  حکمرانوں ، جرنیلوں ، مذھبی وسیاسی لیڈروں اور دیگر با اثر افراد کی گردنیں ان پھندوں میں آتی ہیں اور یہ لوگ جب تک اقتدار میں رھیں گے اس وقت تک دھشتگردی ، تنگ نظری اور تکفیریت باقی رھے گی۔

پاکستان جیسے ملک میں خلیجی ممالک جیسی ایک خاندان کی بادشاہت لانا ممکن نہیں البتہ خطے میں بغیر داڑھی والا سلطان اور خلیفہ موجود ہے کہ جس کا نعرہ جمہوریت ہے،جو ایک طرف تو امت مسلمہ کا درد مند اور جہان اسلام کا ہیرو ہے اور دوسری طرف  اسرائیل سے تعلقات استوار رکھتا ہے اور داعش کو وجود میں لانے اور انکے ساتھ ملکر عراق وشام کے پٹرول کا کاروبار کرنے کا تجربہ رکھتا ہے. خطے میں امریکی اور مغربی مفادات اور نیٹو اتحاد کے تباہ کن حملوں میں بھی شریک ہے. اور  ساتھ ساتھ جمہوریت کا علمبردار بھی ہے. جس کا نام رجب طیب اردوغان ہے. جب سے اسکا اسرائیل اور امریکا سےگٹھ جوڑ ہوا ہے. اور طے ہوا ہے کہ وہ وفاداری کرے گا. اس وقت سے ترکی کی آرمی جو کئی ایک فوجی انقلابات لا چکی تھی اسکے سامنے رام ہو چکی ہے. اور جو عناصر ممکنہ خطرہ بن سکتے تھے انھیں کچھ عرصہ پہلے فوجی انقلاب کا ڈھونگ رچا کر صفایا کر دیا ہے جن میں ہزاروں فوجی جوان ،اعلی افسران ،ججز اور سیاستدان شامل ہیں۔

اردگان کی حمایت میں ترکی کی عوام نہیں بلکہ داعشی وتکفیری گروہ نکلے تھے. جنھوں نے بیدردی سے فوجی جوانوں اور افسران کے گلے کاٹے جسے انٹرنیشنل میڈیا نے ایک حد تک دکھایا تھا۔آج یوں لگتا جیسے  پاکستان میں نواز شریف  صاحب بھی بغیر داڑھی کے خلیفہ اور سلطان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں. اخباری رپورٹ کے مطابق انکے پر امن کہلانے والے حامیوں کو اسلحہ کے ٹرک وصول ہو چکے ہیں. حالانکہ ان کے پاس پہلے بھی اسلحہ کی کوئی کمی نہیں تھی دو سال سے جاری آپریشن ضرب عضب جنھیں ختم نہ کر سکا وہ آج بھی پاکستانی عوام اور حکومتی مراکز پر حملے کر رھے ہیں. اور وہ اس ملک کے با اثر بزرگ سیاسی و مذہبی راہنمائوں اور افسران  کے زیر سایہ محفوظ ہیں.
ملک ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ضیاء الحق کے فوجی انقلاب جیسی نازک صورتحال سے گزر رھا ہےاور اس کے اثرات بیس پچیس سال تک قائم رہ سکتے ہیں. اس لئے اس مادر وطن کے وفادارں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا وگرنہ ایک عرصہ تک پوری قوم پچھتائے گی .اور  ملک میں لا قانونیت، ظلم و نانصافی و  عدم احتساب اور آئین کی پامالی سے مزید بحران جنم لیں گے۔


تحریر۔۔۔۔علامہ  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree