قانون اور مذہب کے ساتھ کھلواڑ

11 نومبر 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) قانون اور شعور کا گہرا تعلق ہے، انسان جتنا باشعور ہوتا ہے اتنا ہی قانون پسند بھی۔ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ طالبا ن  اور داعش سے نفرت کرو، اس لئے کہ وہ قانون شکن ہیں، وہ ملک اور دین کی بدنامی کا باعث ہیں، وہ خواتین کو کوڑے مارتے ہیں ، وہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں اور وہ۔۔۔

ظاہر ہے ہر محب وطن پاکستانی ، اپنے ملک اور آئین کی بالادستی کے لئے طالبان  اور داعش کے خلاف کمر بستہ ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ قانون شکنی اگر جرم ہے تو پھر سرکاری لوگوں کے ذاتی عقوبت خانوں کو کیا نام دیا جائے!

 قانون سے کھلواڑ اگر بے شعوری کی دلیل ہے تو لوگوں کا ماورای قانون اغوا اور لاپتہ ہونا کس بات پر دلالت کر رہا ہے!

 ملک اور دین کی بدنامی اگر قبیح ہے تو پھر ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کر کے کونسی نیک نامی کمائی گئی ہے!

خواتین کو کوڑے مارنا اگر قابلِ مذمت ہے تو پھر کسی مستور کو برہنہ کر کے گلی کوچوں میں پھرانے کو کیا کہا جائے!!!

گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں  تھانہ چودہوان کی حدود میں گرہ مٹ کے کچھ مسلح افراد نے ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی 16 سالہ بچی شریفاں کو اس وقت ننگا کر کے گائوں میں گھومنے پر مجبور کر دیا جب وہ جوہڑ سے پانی بھر کے گھر واپس آ رہی تھی۔

غنڈوں نے مدد کے لئے چیختی ہوئی اس  برہنہ بچی کو کسی سے چادر تک نہ لینے دی،  شیطانیت ایک گھنٹے تک رقص کرتی رہی لیکن پولیس یا ہمارے انتہائی حساس اداروں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔

یہ سب ُاس صوبے میں ہوا جس میں غیرت اور مذہب کے نام پر قتل کرنے کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔  اور جہاں کچھ عرصہ پہلے مشال خان کو توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

اسی صوبے میں   ایک گھنٹے تک  مسلمان بچی کو برہنہ کرکے  اس پر  تشدد کیا جاتا رہا لیکن   کسی کے مذہب کی توہین نہیں ہوئی، کسی جہادی کی رگِ جہاد نہیں پھڑکی، کسی مُلّا نے ایک مسلمان بچی کی آبرو بچانے کے لئے کوئی فتوی نہیں دیا، کسی مسجد کے سپیکر سے کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، کسی تنظیم کے جیالے اپنے دیس کی بیٹی کی ناموس بچانے کے لئے میدان میں نہیں اترے، جی ہاں اور اس ایک گھنٹے میں کسی قانونی ادارے کے نزدیک ملک میں کسی قسم کی کوئی قانو ن شکنی نہیں ہوئی۔

جب بچی کے ورثاء تھانے رپوٹ درج کرانے گئے تو  وہاں پر کوئی طالبان یا داعش کے کارندے  ڈیوٹی پر نہیں تھے بلکہ ہمارے قانون کے محافظ براجمان تھے، جنہوں نے باثر ملزمان کے ساتھ مل کر لڑکی کے خاندان کو دباو میں لانے کے لئے اس کے  بھائی پر بھی ایک مقدمہ درج  کر لیا ۔

چونکہ یہ سب کچھ کرنے والے طالبان، القاعدہ یا داعش نہیں ہیں لہذا یہ سب کچھ برا بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف صحافیوں پر حملوں اور تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے تو چونکہ یہ سب کچھ طالبان ، القائدہ یا داعش کی ریاست میں نہیں ہو رہا لہذا ہمارے ہاں  اس کے ہونے میں کوئی قباحت بھی نہیں سمجھی جاتی۔

قباحت تو تب ہے کہ جب طالبان کے اذیت کدوں میں کسی پر ٹارچر کیا جائے لیکن اگر  کسی سرکاری ٹارچر سیل میں جمشید دستی جیسے کسی شخص پر بچھو چھوڑے جائیں تو یہ قانون، مذہب  اور آئین کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح اسی طرح  معروف سیاستدان ، ناصر شیرازی ایڈوکیٹ کو لاپتہ ہوئے آج کئی دن گزر چکے ہیں،  چونکہ انہیں لاپتہ کروانے میں وزیر قانون  کا ہاتھ ہے لہذا یہ گمشدگی بھی قانونی ہے اور اس میں دینی، شرعی اور قانونی اعتبار سے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ویسے بھی تو اِ س مُلک میں  ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔

آپ خود دیکھ لیجئے ! برما اور کشمیر کی بیٹیوں کی ناموس کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر رونے والے مولوی حضرات کے اپنے دیس میں ایک نوعمر مسلمان بچی کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس پر کسی مولانا کے اشک نہیں گرے، کسی مولوی نے جہاد کی بات نہیں کی کسی مفتی نے کفر کا فتوی نہیں دیا۔۔۔

اور عجب اتفاق ہے کہ سیاسی عناصر جس طرح مشال خان کے قتل میں ملوث تھے اُسی طرح ڈی آئی خان کے واقعے میں بھی غنڈوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔

اب یہ بھی خبریں ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہو رہی ہے یعنی  مولویت و جمہوریت رسمی طور پر پھر سے ایک ہو رہے ہیں۔ اچھا ہے  ایسا ہی ہونا چاہیے چونکہ ہمارے ہاں رائج مولویت اور جمہوریت کی لوح محفوظ پر  عوام کی تقدیر میں یہی کچھ لکھا ہے۔  

عوام کے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا رہے، حوا کی بیٹی گھنٹوں برہنہ پھرائی جاتی رہے یا سالوں، ٹارچر سیلوں میں بچھو چھوڑے جائیں یا سانپ، کسی وکیل پر تشدد ہو یا صحافی پر ، اس پر کبھی بھی ہمارا  مقامی مذہبی ٹھیکیدار  یا  سیاستدان  نہیں بولے گا۔

ہمارے ہاں دین اور قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ چلتا رہے گا چونکہ یہی ہمارے ہاں کی مولویت اور جمہوریت ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree