شیعہ ووٹ پاکستان کی انتخابی سیاست پر کتنا اثر انداز ہوسکتاہے؟

29 جنوری 2024

وحدت نیوز(آرٹیکل)2018کے قومی انتخابات میں شیعہ ووٹرز نے "تبدیلی "کو ووٹ دیا تھا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلم لیگ ن پر کالعدم تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات ہیں اس لئے شیعہ ووٹ اس بار بھی ن لیگ کے حصہ میں نہیں آئے گا۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک بڑا شہر کراچی ہے جہاں تیس فیصد شیعہ آباد ی ہے مگر ایم کیو ایم نے شیعہ امید واروں کو سیاسی منظر نامہ سے مکمل نظر انداز کیا ہے۔ اس سے ماضی میں ایم کیو ایم اور کالعدم جماعتوں کا تعلق کے شبہ کا تاثر بھی زیادہ گہرا ہوا ہے۔

حالیہ الیکشن میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد پاکستان تحریک انصاف کے نئے نشان اور آزاد امیدواروں کو اپنا سیاسی مسیحا سمجھتے ہیں، شیعہ ووٹرز بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کے شکار شیعہ مکتب فکر نے انتخابی عمل کی سرگرمی میں اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لے کر اُن سیاسی قوتوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے جو فرقہ واریت اور شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کیا واقعی شیعہ مکتب فکر کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثر ڈال سکتے ہیں؟ بعض مبصرین کے مطابق شیعہ مسلک کا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے لہذا الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔

سیاسی مبصرین کی رائے اپنی جگہ لیکن یہ تو یہ طے ہے کہ شیعہ نسل کشی، متنازعہ بل نے شیعہ مکتب فکر کو یکجا کر دیا ہے اور اب اپنی الگ شناخت کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنے کا سیاسی شعور پہلے سے زیادہ بڑھادیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی جنرل سیکرٹر ی ناصر عباس شیرازی کہتے ہیں ملک کی آبادی کا چوتھا حصہ فقہ جعفریہ سے منسلک عوام کا ہے اگر یہ حصہ منظم اور متحد ہوجائے تو پاکستان کی سب سے بڑی پولیٹکل فورس بن سکتی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں دیگر مکاتب فکر کا جائزہ لیں تو سیاسی تقسیم بھی ہے اور غیر منظم بھی ہیں

ان مکاتب فکر میں سب سے بڑی تعداد نوجوان کی ہے،پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت زیادہ سے زیادہ جتنے ووٹ لیتے ہیں وہ تعداد پاکستان کی شیعہ کمیونٹی کے پاس ہیں۔

 پاکستان میں شیعہ ووٹ کا نتائج پر مختلف انداز سے ہوتا ہے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات تمام سیاسی جماعتوں میں ہیں اس لئے ان کی الگ شناخت ممکن نہیں ہوتی

 لیکن مجلس وحدت مسلمین واحد جماعت ہے جس نے اپنے نام اور شناخت کے ساتھ الگ سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے جبکہ 1988میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد اب تک کسی بھی شیعہ سیاسی جماعت نے ابھی تک نہیں لڑا۔ اسی باعث پاکستان میں ملت تشیع کی سیاسی شناخت نہیں بن سکی۔


بڑے پاور کوری ڈورز میں پارہ چنار،گلگت بلتستان،کوئٹہ میں شیعہ قومی جماعت اپنی شناخت کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں صف اول میں موجود ہے اور سٹیک ہولڈرز میں سے ایک ہے۔گلگت کے الیکشنز، 2013,2018 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔

 پاکستان کے شیعہ ووٹرز میں اب یہ شعور پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے کہ ہمارے مسائل اور مفادات سیاسی میدان کو خالی چھوڑ دینے سے حل نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں سیاسی اور مذہبی معاملات آپس میں جڑے ہوئے ہیں شعور کی بیداری کیلئے اور شعور کے سیاسی سفر کو آگے لیکر چلنے کیلئے واحد امیدمجلس وحدت مسلمین کی شکل میں نظر آتی ہے  اس سیاسی جدوجہد میں چونکہ علمائے کرام کی بڑی تعداد شامل ہے تو قومی منظر نامہ پہ ایم ڈیبلیو ایم بڑی قومی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں انتخابات میں حصہ لینا کتنا موثر ہوسکتا ہے؟
پاکستان کے شیعہ ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کچھ سیاست دان جب دوسری پارٹیوں میں شامل ہوجاتے ہیں تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں مخالف فیصلوں پر اس طرح سے اثر انداز نہیں ہوسکتے اس لیے ان کی الگ شناخت ہونا بھی ضرور ی ہے۔

چند ماہ پہلے جب ایک متنازعہ بل سینٹ سے پاس ہوا تو کوئی بھی سیاسی جماعت آگے بڑھ کر شیعہ موقف کو پیش کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اور ایک مسلک کی مرضی کے خلاف بل کو منظو رکیا جارہا تھا جس کو آگے پڑھ کر شیعہ علمائے کرام نے متحد ہوکر روکا اس لئے شیعہ نسل کشی،جبری گمشدگیوں،متنازعہ نصاب تعلیم اور متنازعہ بل جیسے گھمبیر مسائل کے حل کے دوران یہ شعور پہلے سے زیادہ زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کی الگ سیاسی قومی جماعت کا ہونا ضروری ہے۔

حالیہ انتخابات کا جائزہ لیں تو کئی حلقوں میں کالعدم جماعتوں نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود کو سیاسی طاقت کے طو رپر مضبوط کیا ہے۔یہ وہ تمام عوامل ہیں جس امر کو یقینی بنانے رہے ہیں تاکہ مخالف سیاسی گروہ کی موجود گی میں اپنی شناخت کے ساتھ بھی میدان سیاست میں رہیں۔

پاکستان کے کونسے علاقوں میں شیعہ ووٹ زیادہ  پُر اثر ہوسکتا ہے؟

ایک جائزہ کے مطابق پنجاب اور سندھ وہ علاقے ہیں جہاں شیعہ ووٹ پاکستان کی انتخابی سیاست پہ اثر جما جاسکتا ہے کئی حلقوں میں بڑی تعداد میں فیصلہ سازی اور رائے سازی میں بھی پر اثر نظر آتے ہیں۔خیبر اور بلوچستان کے کچھ مخصوص علاقوں میں بھی شیعہ کمیونٹی بااثر سیاسی طاقت دکھائی دیتی ہے لیکن سب سے زیادہ پنجاب میں ملت تشیع کا سیاسی کردار اہم ترین ہوسکتا ہے۔

 اگر ہم پنجاب میں مخصوص حصہ پر مرکوز کریں تو اندرون پنجاب تک کے علاقوں کو شامل کریں تو یہاں پہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سے دو کروڑ شیعہ آبادی موجود ہے جو سیاسی عمل میں اپنے گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔اگر ہم سندھ کی طرف نظر دوڑائیں تو اندرون سندھ میں میں بھی بڑی تعداد موجود ہے اس لحاظ سے اہم ترین ہیں۔کوئٹہ میں پشتون اور بلوچ کے بعد شیعہ ہزارہ کی آبادی سب سے زیادہ تھی مگر شیعہ شناخت پر قتل اور نسل کشی کے بعد وہاں سے لوگوں نے ہجرت کی اور بیرون ملک منتقل ہوگئے۔

۔پاکستان میں پہلی بار ملت تشیع بھرپور انداز سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے،اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے بانی چئیرمین عمران خان نے بھی اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین سے سیاسی اتحاد ہوگا۔

ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ شیعہ سیاسی جماعت کسی بڑی سیاسی جماعت کی سیاسی اتحادی ہے اور نہ صرف اتحادی ہے بلکہ ہر مشکل میں ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔

گزشتہ دنوں جب تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھن کے بعد پلان بی اور سی کا ذکر ہورہا تھا تو اس میں یہ بھی زیر بحث تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ وہ قابل اعتبار سیاسی پارٹی مجلس وحدت مسلمین کے انتخابی نشان خیمہ کو بھی امیدواروں کیلئے استعمال کرسکتی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین نے پہلی بار پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنے میدان سیاست میں اتارے ہیں.

 اگرچہ مجھے کوئی زیادہ کامیابی کی توقع نہیں ہے لیکن قیام پاکستان سے اب تک یہ پہلا موقع ہے جب شیعہ سیاسی جماعت منظم انداز میں سیاسی عمل میں شامل ہے اگر8فروری کو مجلس وحدت مسلمین اپنی شناخت کے ساتھ کامیابی حاصل نہ بھی کرسکے تو زیادہ مایوس کن نہیں ہوگا کیونکہ سیاسی عمل میں اترنا ہی کامیابی ہے جس کی کمی کئی سالوں سے محسوس کی جارہی تھی۔

تحریر: توقیر کھرل



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree