انسانی حقوق سے آئینی حقوق تک کا سفر

20 فروری 2016

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسانی حقوق سے مراد  وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔بین الاقوامی دستاویزات کے مطابق انسانی حقوق [ [Human Rights کے لسٹ میں دیگر تمام حقوق کے ساتھ حق مساوات، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق،یہاں تک کہ جنگلات ،جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق موجود ہیں ۔لیکن آج ۶۸ سال گزرنے کے باوجود آئینی حقوق تو دور کی بات گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق دینے سے بھی انکار کیا جارہا ہے ۔جب بھی یہاں کے عوام  آئینی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں گنی چنی انسانی حقوق سے بھی محروم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے اور اصل مسئلے سے لوگوں کے اذہان کو ہٹانے کے لیے کبھی گندم کا بحران پیدا کیا جاتا ہے تاکہ یہاں کے لوگ بنیادی انسانی حق کے لیے بھیگ مانگتے رہے اور آئینی حقوق سے توجہ ہٹ جائے تو کبھی نفاذ ٹیکس کے معاملوں کو بڑھا چڑھا کر لوگوں کو پریشان رکھا جاتا ہے۔اور کبھی اکنامک کوریڈور سے  محرومی اور کبھی  زندگی کے دیگر سہولیات سے محرومی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اس سے زیادہ انسانی حقوق سے محرومی اور کیا ہوگی کہ جو شاہراہ گلگت بلتستان کے نصف سے زیادہ عوام کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہو اسے بنوانے کے لیے عوام کو کئی سال  احتجاج کرنا پڑے  اور پھر بھی  لیت و لعل کرتے ہوئےوقت گزار ے ۔ہسپتالوں اور صحت کے سہولت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد علاج کے لیے آنے کی ضرورت پڑنا   اوربے روزگاری سے تنگ نوجوانوں کا منشیات ،فحاشی اور دیگر اخلاقی برائیوں میں مرتکب ہونا،  انسانی حقوق   کے تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ نہیں تو اور کیا ہے؟

ایوان اقتدار میں تخت حکومت پر متمکن حضرات وعدے بہت کرتے ہیں وعدہ وفائی ہوئی یا نہیں اس پر کچھ کہنا سعی لاحاصل ہے کیونکہ تاریخ کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے ۔گلگت بلتستان کے غیور عوام نصف صدی سے خالی مصیبتیں اور حقوق کی پامالیوں کی المناک گھڑیاں دیکھتی چلی آئی ہے۔یہ قوم اپنے آئینی حق کے لیے لڑ مر رہی ہے اور بدلے میں اس کی آرزووں اور خواہشات کی تکمیل تو دور اسے انسانی اور بنیادی حقوق [فنڈامنٹل رائٹس]سے بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔اور ارباب اختیار لوگوں کے جائز مطالبات پر آنکھیں بند کرنے لگتے ہیں .یہاں تک کہ  ۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں  حبیب وہاب الخیری کی جانب سے ایک  پٹیشن  داخل ہوئی جس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کو فریق بنایا  گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نےاس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیےا قدامات کیے جائیں۔لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو ا۔ یہاں کے عوام کو کیسے انصاف ملے گا جب کہ یہاں کے منتخب نمائندے ذاتی مفادات کو ہمیشہ عوامی مفادات پر ترجیح دیتے رہے ہیں ۔ایوان میں قدم رکھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے قدم جمانے کی سوچ میں مگن نمائندے کہاں عوامی حقوق کی بات کرینگے ؟

انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے انسانی اور بنیادی حقوق حاصل کریں اور پھر آئینی حقوق کی جنگ لڑیں کیونکہ ہم ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگوں کو اس ماڈرن دور میں جدید سہولیات زندگی تو دور کی بات فنڈامنٹل رائٹس بھی میسر نہیں ہیں اس عالم میں گلگت بلتستان کے عوام کو انسانی حقوق کی حصول کے سفر کو طے کر کے آئینی حقوق تک رسائی حاصل کرنے میں بڑا ہی وقت لگے گا۔

تحریر۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree