وحدت نیوز(گلگت)رہنما مجلس وحدت مسلمین اوراپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ حکومت کس کی ہوگی اسکا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ وفاق کون ہوتا ہے اور کس آئین و قانون کے تحت جی بی میں آئندہ حکومت کے فیصلے کا اعلان کراتا ہے۔ جو وفاق خود فارم 47 کے تحت ناجائز بنا ہو وہ خود زمین بوس ہونے والا ہے۔ وفاق اور ریاستی اداروں کو چاہیے کہ واقعا ایسے فیصلے ہوئے ہیں تو الیکشن کا ڈرامہ ہی نہ رچایا جائے۔ ایسے فیصلے کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وفاق اور ریاستی ادارے وضاحت دیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشن کے ذریعے حکومت آنی ہے یا قابض ہونا ہے۔ ملک میں زبردستی کے فیصلے سے جو عدم استحکام آیا ہے کیا گلگت بلتستان کو بھی مستقل بحران کی طرف دھکیلنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔
گلگت بلتستان کی موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے ٹھیک ایک سال قبل ایسے فیصلے کے متعلق بات کرنا نہ صرف رولز کی خلاف ورزی ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی بھی توہین ہے۔ ایسی باتیں وہ بھی ذمہ داروں کی طرف سے آنے کا مطلب ہے کہ یہاں منتخب نہیں بلکہ چنتخب حکومت بنانا چاہتی ہے۔ عوام ایسا ہونے ہرگز نہیں دیں گے۔ گلگت بلتستان کسی جاگیردار یا وڈیرے کی جاگیر یا یہاں کے عوام کسی کے زرخرید غلام نہیں کہ جس طرف ہانکے ہانکتا جائے۔ وفاقی سیاسی جماعتوں کی جس طرح کی غیرسنجیدہ اعمال ہیں، جس طرح کے عوام دشمن فیصلے ہو رہے ہیں، جس انداز میں آئین کی تضحیک ہو رہی ہے، جس طرح پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی کروا رہی ہے یہ سلسلہ نہ رکا تو گلگت بلتستان میں وفاقی سیاسی جماعتوں کا نام لینے والا نہیں ملے گا۔
عوام بلخصوص نوجوانان خالی خولی نعروں سے تنگ آگئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے جوانان وفاقی سیاسی جماعتوں کے بہت سارے سربراہان سے زیادہ اہل ہیں۔ یہاں کے جوانوں کو نہ ملک کے دوسرے شہروں میں میںن سٹریم پارٹیوں میں اپنی صلاحیتوں کو دیکھانے کا موقع دیا جاتا ہے نہ گلگت بلتستان میں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کا کوئی نوجوان رہنما مرکز میں سیاسی سرگرمی کرے تو ان پر دہشتگردی کے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں انکے حلقے کے الیکشن کے نتائج روخے جاتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اونچے قد کا انسان گلگت بلتستان کا کسی کو تسلیم ہی نہیں۔ غذر کی بیٹی سارا میر کو جس طرح ہراساں کیا جا رہا ہے کیا اسکے بعد یہاں کی بہنوں بیٹوں سے کبھی کسی کی ثناخوانی ممکن ہوجائے گی۔ احتجاج کا حق سارے شہروں کو دیا جائے۔
گلگت بلتستان کو فلسطین نہ بنائیں۔ وفاق اپنا قبلہ درست کرے، ظلم و ستم اور جبر زیادہ دیرپا نہیں ہوتا یہ قانون قدرت بھی ہے۔ جی جی میں اہل، دیانتدار، فعال بابصیرت جوانوں کو جھنڈا اٹھانے اور تقریر کروانے کے لیے رکھا جاتا ہے اور ایسے سیاستدانوں کے پیچھے لگایا جاتا ہے جو خود کو نہیں سنبھال سکتے تو اس خطے کو کیسے سنبھالے گا۔ یہ ساری کثیف روایات وفاقی سیاسی جماعتوں نے ڈالی ہیں۔ گلگت بلتستان کے جوانوں کا گلا گھونٹا گیا تو یہاں کے جوانان انتخاب نہیں بلکہ انقلاب کی طرف چل پڑے گا۔ جمہوری روایات، جمہوری اقدار کو پنپنے دیا جائے، اسمبلی اور سیاسی اداروں کو میچور ہونے دیا جائے۔ جی بی میں بڑھتی محرومی کا ازالہ عوامی امنگوں کے مطابق فیصلوں اور سیاسی اداروں کو مستحکم کرنے سے ہی ممکن ہے۔