وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحد ت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی اور انکی اہلیہ پر قاتلانہ حملے میں ملوث دہشتگردوں کو ایک سال گزرنے کے باوجو دگرفتار نہ کئے جانے پر حکومت اور انتظامیہ کو 5مارچ تک ڈیڈ لائن ‘ اگر دہشتگر د گرفتار نہ کئے گئے تو 5مار چ کے بعد بھرپور احتجاج ہو گا۔
مرکزی ایوان صحافت میں علامہ مفتی کفایت حسین نقوی ‘سید شبیر حسین بخاری ‘ علامہ سید فرید عباس نقوی کے ہمراہ علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پولیس انتظامیہ اور دیگر ادارے دہشتگردوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدم گرفتار ی انتظامیہ کی نااہلی ہے۔اگر 5مارچ 2018سے پہلے پہلے مجرمان کو گرفتار کر کے سامنے نہیں لایا جاتا تو پھر یہ بزرگ آگے ہوں گے ، میں ہر وقت ہر جگہ ان کے ساتھ ہوں گا، پوری قوم نکلے گی ، سڑکوں پر آئے گی، اس آنے والے شدید ردعمل کو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ میری قوم میرے ساتھ ہے ۔ تمام شیعہ ‘سنی ‘بریلوی ‘ اہل حدیث ‘ حنفی میری برادری ہے ۔
انہوں نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ آج کے دن ٹھیک سال قبل15فروری 2017ء کو مجھ اور میری اہلیہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، میں شدید زخمی ہوا ، کئی ماہ زندگی و موت کی کشمکش میں رہا، کسی کو میرے زندہ رہنے کی امید نہ تھی ، مگر بفضل خدا آج میں آپ اور قوم کی دعاؤں کی بدولت آپ کے سامنے موجود ہوں۔ میں ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں ، وکلاء برادری، سول سوسائٹی اور تاجر برادری کا بھی صمیم قلب سے شکرگزار ہوں کہ جنہوں نے اس ہولناک سانحہ کے بعد احتجاجی پروگرامات میں بھرپور شرکت کی، میری اور میری اہلیہ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں ، ہر طرح کے تعاون کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ عملی میدان میں موجود بھی رہے۔ اسی طرح میں خصوصی طور پر کمانڈنٹ ، ڈپٹی کمانڈنٹ، ڈاکٹرز و جملہ سٹاف سی ایم ایچ مظفرآباد کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بحالی صحت کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ جی او سی مری، وزیراعظم آزاد کشمیر ، سیکرٹری ہیلتھ، انتظامیہ مظفرآباد ڈویژن کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایئر ایمبولینس کے انتظامات کیے اور ازاں بعد سی ایم ایچ راولپنڈی انتظامیہ نے بھی بحالی صحت کے لیے احسن کردار ادا کیا۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس المناک سانحہ کے بعد جہاں حکومت/انتظامیہ نے علاج معالجے کا انتظام کیا وہیں بہت ساری چیزوں کو نظر انداز کیا۔ جس میں حملہ آوروں کا غائب ہوجانا اور آج تک پولیس کے ہاتھ نہ آنابڑا اہم ہے۔ یہ انوسٹی گیشن ایجنسیز کی نااہلی کو روز روشن کی طرح عیاں کرتا ہے۔ آپ سب کو حیرت ہو گی کہ ہمارے تفتیشی ادارے ایک سال تک حملہ آوروں کو میرے خاندان، میرے دوستوں ، تنظیمی ساتھیوں ، بزرگوں اور دینی اکابرین میں تلاش کرنے کی کوشش میں رہے۔اور اس کے ساتھ ہی بعض اداروں نے میری بھرپور کردار کشی کی مذموم ترین کوشش کی۔ جس طرح ریاست کے سبھی لوگ حیران ہیں اسی طرح میں بھی حیرت زدہ ہوں کہ دن دیہاڑے مین شاہراہ ایک شہری کو اہلیہ کے ہمراہ گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بیس کیمپ میں بیٹھے ریاستی اداروں کے سربراہان آج تک حملہ آوروں کا پتہ لگانے میں بری طرح ناکام ہیں حالانکہ میں نے اور میرے خاندان کے بزرگان اور ملت کے اکابرین نے تفتیش کے معاملہ میں اداروں کو ہر طرح کا فری ہینڈ دیئے رکھا، وہ جس کو بھی چاہیں شامل تفتیش کریں ۔
انہوں نے کہا کہ میرا کردار آپ کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے اس کے باوجود تفتیشی اداروں نے میرے تمام تر پرسنل ریکارڈ کو بھی کھنگالا، جس میں انہیں سوائے امن ، بھائی چارے ، اتحاد بین المسلمین اور آگے بڑھ کے مظلوم کشمیری عوام کی حمایت کے پیغامات کے علاوہ کوئی چیز دستیاب نہ سکی۔ ریاستی امن ، بھائی چارے ، اخوت ، اتحاد بین المسلمین اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کو جرم کیوں سمجھا گیا؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے بتائیں میرا خون اتنا ارزاں کیوں؟ اس کا مطلب ہے کہ انتظامیہ /پولیس یہ چاہتی ہے کہ ہم سڑکوں پر نکلیں ، احتجاج کریں ،باوجود اس کے کہ ملت کے ہر فرد، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمہ داران کے رابطوں کے عرصہ سات ماہ سے ہم نے احتجاج کو روکے رکھا ۔ لیکن نہیں اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔اگر 5مارچ 2018سے پہلے پہلے مجرمان کو گرفتار کر کے سامنے نہیں لایا جاتا تو ان بزروگوں کی موجودگی میں یہ کہہ کر جارہا ہوں کہ پھر یہ بزرگ آگے ہوں گے ، میں ہر وقت ہر جگہ ان کے ساتھ ہوں گا، پوری قوم نکلے گی ، سڑکوں پر آئے گی، اس آنے والے شدید ردعمل کو پھر کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔اس سے قبل اے پی سی بلاکر احتجاج کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اس موقع پر طالب ہمدانی ‘ حافظ کفایت نقوی ‘ معصوم سبزواری ‘ تصور موسوی ‘ حمید نقوی ‘ کرامت کاظمی ‘ علی رضا سبزواری ‘سید غفران کاظمی ‘ سید الطاف کاظمی ‘ سید غلام مرتضیٰ کاظمی ‘ سید یاسر نقوی ‘ سید وقارکاظمی ایڈووکیٹ ‘سید خادم کاظمی ‘ علی حیدر کاظمی ‘ محسن رضا سبزواری‘ واجدکاظمی ‘ اشتیاق کاظمی و دیگر بھی موجود تھے ۔