وحدت نیوز (آرٹیکل) آج قلم میں سکت نہیں،دل میں حوصلہ نہیں اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیسے اپنے استادِ بزرگوار کو “شہید” لکھوں۔شہادت یقیناً عطیہ خداوندی ہے اور ایک مسلمان کے لئے بہت بڑی سعادت اور خوشبختی ہے ۔لیکن جیسے شہادت بہت بڑی سعادت ہے اسی طرح ایک کریم استاد،شفیق دوست ،باعمل عالم اور مردِ مومن کی جدائی کا دکھ بھی عظیم دکھ ہے۔
مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا ،بلکہ یوں سمجھئے کہ میں یقین نہیں کرنا چاہتا چونکہ میں جانتا ہوں کہ میری قوم اور میرا ملک اتنے بڑے نقصان کا متحمل نہیں،یہ صرف میرا ہی خیال نہیں بلکہ شہید کو جاننے والے ہر شخص کا یہی کہناہے۔
استادِ بزرگوارعلامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ہند و پاک کی معروف علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ ۔آپ کا تعلق پاکستان کی سر زمین بے آئین گلگت بلتستان کے قمراہ گاوں سے تھا۔ موصوف پاکستان میں کالج کے دور میں آئی ایس او کےڈویژنل صدر رہ چکے تھے اور دینی تعلیم کے میدان میں آنے کے بعد جہاں آپ نے متعدد خدمات انجام دیں وہیں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آج کل آپ قم، ایران میں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ تھے ۔
چونکہ آپ علمی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی فعال تھ چنانچہ گلگت بلتستان کے گزشتہ قانون ساز انتخابات میں جب سکردو حلقہ نمبر دو کے لئے آپ کو الیکشن میں لانے کے لئے دوستوں نے کوششیں شروع کیں تو آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں فی الحال علمی حوالے سے کام کرنا چاہتا ہوں ۔آپ المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے ممتاز طالب علم تھے اور حال ہی میں آپ نے المصطفیٰ یونیورسٹی سے قرآنیات میں اپنےتھیسز کا کامیاب دفاع کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔موصوف کو اس مقالے کی نہایت عالمانہ تکمیل پر ساڑھے اٹھانوے فیصد نمبر دیئے گئے۔
جب میں چھوٹا تھا تب سے میں نے مختلف لوگوں سے ان کی تعریفیں سن رکھی تھیں اور جب میں نے آئی ایس او میں کام کرنا شروع کیا تو بہت سارے برادران مجھے نصیحت کرتے ہوئے یہی کہتے تھے کہ عالم بننا ہے تو آغا فخرالدین کی طرح بنو ۔
مجھے موصوف سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال اچھی طرح یاد ہے۔میں نے جب ایران آنے کا ارادہ کیا اور اسی حوالے سے جب میری ملاقات مجلس وحدت کے اسلام آباد آفس میں آغا اعجاز بہشتی سے ہوئی تو انہوں نے بھی مجھے آغا شہید کا حوالہ دیا تو میں بہت خوش ہوا۔
یہ بدھ کا دن تھا کہ جب حسینیہ بلتستانیہ قم ایران میں ایک مجلس کے دوران میں نے پہلی مرتبہ استادِ محترم کی زیارت کی۔ پھر ان سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ جتنا بڑھتا گیا میں ان کااتنا ہی گرویدہ ہوتا گیا۔
استادِ محترم کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ آپ عالمِ اسلام کے مسائل کے بارے میں خود بھی فکر مند رہتے تھے اور دوسروں کو بھی سوچنے کی دعوت دیتے تھے۔
پچھلے سال حج سے واپسی پر جب میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے ان کے سفر کے بارے میں پوچھا توکہنے لگے کہ مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ دنیا نے مسلمانوں کے بارے میں کتنے ہی غلط پروپیگنڈے پھیلارکھے ہیں لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
ناصر ملت اور آغا شہیدی کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ شہید قائد کے بعد راجہ ناصر عباس اور آغاامین شہید قردت کی طرف سے ہمارے لئے ایک بہترین تحفہ ہیں ۔ ہمیں ان کی قدر اور حفاظت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
وہ تکفیریوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ا سلام کو ان تکفیریوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک علمی اور تنظیمی شخصیت ہونے کے علاوہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے بھی شہید ایک منکسرالمزاج اور خلوص کے مجسّمے تھے۔
پچھلے سال رمضان میں جب سارے دوست تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے تو یہاں دفتر امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھے سونپ گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن میں جب دفتر پہنچا تو بلکل دفترکی صفائی ہوچکی ۔
تھی اگلے روز مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ کل جب میں دفتر آیا تھا تو آغا شہید خود اپنی فیملی کے ساتھ دفتر کی صفائی کررہے تھے ۔
آخری مرتبہ جب آغا شہید نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو آغا شہید سے ملنے کے لئے جانے والوں میں ایک میں بھی تھا۔ اس مرتبہ میں نے خلافِ عادت آغا صاحب سے شکوہ کیا کہ آغاجان جب میرا نکاح ہوا تھا تو آپ کربلا گئے ہوئے اب اگر میری شادی میں بھی آب نے شرکت نہیں کی تو میں بہت ناراض ہوجاوں گا ،اس وقت آغا شہید نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر زندہ رہا تو ان شااللہ میں تمہاری شادی میں ضرور آو ں گا۔مجھے کیا پتہ تھا کہ آغا شہید اس سفر سے کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے اور یہ ملاقات ہماری آخری ملاقات ہے ۔
بلآخر یہ نو ذی الحجہ کی رات تھی کہ جب میں دوستوں کے ساتھ واٹس اپ پر چیٹ کر رہا تھا کہ اچانک ایک انجانے نمبر سے میسج آیا”سلام آقای ابراہیم میں فخرالدین مکہ مکرمہ سے ہوں۔ “ جب میں نےاستادِ گرامی کا یہ میسج دیکھا تو میں اتنا خوش ہو ا کہ میں بیان نہیں کر سکتا ۔
جب میں نے شکایت کی کہ آپ کے پاس اگر واٹس اپ تھا تو پہلے میسج کیوں نہیں کیا شاید آپ ہمیں بھول گئے ہیں تواپنے اسی مخصوص انداز میں بلتی میں میں کہا کہ ”یری فونو لا ببجدوگا“یعنی آپ کا چھوٹا بھائی آپ کو کیسے بھول سکتا ہے !
آغا صاحب نے اس گفتگو میں بھی مجلس وحدت مسلمین قم کے حوالے سے بھی پوچھا ،سارے دوستوں کا نام لے کر فرداََ فرداََ ان کے بارے میں پوچھا اور ساتھ ہی مختار مطہری جو کہ مجلس وحدت قم کے آفس سیکرٹری ہیں ان کا نمبر بھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ شہید اس وقت بھی دینی و تنظیموں دوستوں کے لئے اور ن کی فعالیت کے بارے میں فکرمند تھے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ
استادِ بزرگوار۔۔۔تیری یادوں کے زخم دل میں ہیں
تحریر۔۔۔ابراہیم بلتی