وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے بیروت اور پیرس میں بم دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے، یقیناًیہ دنوں واقعات انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،کیونکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے،۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات اپنے بھی غیر وں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ اپنوں کی خاموشی دشمن کی تیر سے ذیادہ سخت ہوتا ہے، پیرس کے واقع پر ساری دنیا نے افسوس اور دکھ کا احساس کیا اور سب نے اپنے اپنے حساب سے اہلیان پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیے،کسی نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تو کسی نے بڑی بڑی بلڈنگوں پر فرانس کا پرچم لہرایا ،تو فیس بک پر سب نے پروفائل پیکس پر فرانس کا جھنڈا لگایا۔میں ان اظہار ہمدردیوں کا مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی ظالم اور ظلم کے حق میں ہوں میں یاں پر بس صرف ان عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لیجانا چاہتا ہوں، جہاں روزانہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے، خواتین کو سر عام گولیاں مار دیا جاتا ہے، پر امن مسلمانوں کو مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے، غریب مسلمانوں کا جو اپنے آباو اجداد سے فلسطن میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سر زمین میں مدفون ہیں ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت یاخیموں تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تواُس پر دھشت گرد ، انتہاپسند کا ٹھپہ لگا کر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بیج دیا جاتا ہے، حتاکہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتا کیا جاتا ہے۔
جی ہاں فلسطین میںیہ کوئی نئی بات نہیں جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے آج تک فلسطن پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے، کچھ مہینہ پہلے اقوام متحدہ کے عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرایا گیا جس سے مسلمان ممالک کافی خوش ہوئے، کہ شاید اب مسلۂ فلسطن کی کوئی راہ حل سامنے آجائے،لیکن میرے نزدیک اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرانے سے مراد فلسطن کے مظلومین کا ساتھ دینا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو گرین سگنل دے رہا تھا کہ اب فلسطین پر جتنا ہو سکے تیزی سے ظلم و ستم کو بڑھا دو ، اقوام متحدہ نے فلسطین کے جھنڈے کو تو تسلیم کیا ہے مگر فلسطین کے حقوق اور اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے نظریں چرالی۔اور اگر ہم دیکھیں تو فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے بعد اسرائیلی ظلم و بر بریت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ساری دنیا خاموش ہے جیسے کہ وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ، بین الا اقوامی ادارہ(Red Crescent) ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینہ میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ہیں جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اسرائیلی بر بریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہد ہوئی۔ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے جوکھولے عام انسانی حقوق کی پالی ہے۔حال ہی میں فلسطینی ادارے، فلسطینی پریزینرز سوسائٹی(Palestinian Prisoners Society) کی جانب سے ایک رپورٹ شایع ہوا ہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں ۴۰۰ فلسطینی بچے موجود ہے جن کی عمریں ۱۳ سے ۱۷ سے تک کے ہے اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔
اب ذراامریکہ کی طرف دیکھیں جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چیمپین ،اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی مظالم کا برابر کے شریک ہے، بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان دس سال کا معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین ڈالر فوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا، جو ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۷ تک تھا، ابھی ہال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر عظم کے دورہ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین سے بڑھ کر ۵ بلین ڈالر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا جو ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۸ تک ہوگا،میرا امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کومشرق وسطی میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بیچنے کے بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسا لے، امریکہ میں ایک اورا سٹیٹ کا اضافہ ہوگا ااور اسرائیل وہاں خوش بھی ہونگے اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطنی حماس اور لبنانی حزب اللہ کے حملے ہونگے، اسرئیلی وہاں خوشی سے رہنگے امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی،ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہنگے بلکہ مشر ق اسطٰی کی امن و سلامتی بھی بحال ہونگے کیونکہ مشرق وسطی کے تمام دہشت گردوں کو اسرائیل کی سر پرستی حاصل ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے، اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کریں لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ان کی مفاد میں نہیں ہے۔
افسوس ہے اُن انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اور اُن مسلم ممالک خصوصا عرب ممالک پر جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا مگر کبھی فلسطین کے شہیدا کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پر چم لہرایا سوائے کچھ ممالک کے ،بلکہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین کا جنگ ہو تو میں اسرائیل کا ساتھ دونگاجب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر تاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کر رہنگے تو دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کرینگے ۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کو یہ جرات بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی جو اپنے اقتدار ااور مفاد کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو گلے سے لگا یا اور ان کو بسا نے میں اور طاقتور ہونے میں مدد فراہم کی، افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقہ اور قبلہ اول کو دشمنوں کی شر سے نہیں بچا سکا اور اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر ، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہو جائے تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہو جائے مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ انسانیت اور دین و ایمان کو بھی فروع کیا سوائے کچھ لو گوں کے جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے سوچ نا چاہیے کہ آج ہم مظلومین کی حمایت نہیں کرینگے تو کل ہماری باری پر کون ہماری مدد کرے گا،نہج البلاغہ میں اما علی ؑ کے بارے میں ایک واقع ملتا ہے کہ ایک دفعہ امام کو یہ خبر ملی کی شہر امبار میں دشمنوں نے حملہ کر کے ایک کافر زمی عورت کے گھر میں داخل ہو کر اس کے گلے سے گلہ بند یا ہار چھین لیا ہے حضرت علی ؑ یہ سن کر غصے میں لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر یہ واقعہ سنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو علی کہ کہو نگایہ اس کی غیر ت کا تقاضہ تھا کہ اس کے حکومت کے حدود میں دشمن حملہ کریں اور وہ اس کی مدد نہ کر سکیں،اور وہ بھی کافرزمی عورت لیکن یاں تو معاملہ ہی الگ ہے اسرائیل جیسا غاصب فلسطین میں داخل ہو کر مسلمان فلسطینی نوجوان لڑکی کو بناء کسی جرم کے سر عام گولی مار تے ہیں، اور معصوم بچوں کوگرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے مگر ساری انسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟؟
تحریر : ناصر رینگچن