وحدت نیوز(آرٹیکل) اسلام میں شہید کا بہت بڑا مقام ہے اور قرآن کریم نے فرمایا تم ہر گز شہید کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے-اور پھر ختمی مرتبت ص نے فرمایا ہر نیکی سے بالا تر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ ایک شخص اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے کہ اس سے بالا تر کوئی نیکی نہیں-سر زمین پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس مملکت کی بنیاد رکھنے کی خاطر اپنی قربانیاں دیں اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اس کی بقا کے لئے اپنی جانیں فدا کیں-ایک اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ بہت سے مسلمان اس ملک و ملت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکےہیں-
پھر ایک ایسا دور آیا جس میں استعماری طاقتوں نے اس ملک پر جنگیں مسلط کیں تو سرحدوں کی حفاظت میں کتنے جیالوں نے جانوں کو اس ملک و ملت کے دفاع کے لئے قربان کیا اور اپنے ملک کی سرحدوں کی اپنے خون سے آبیاری کی، ہماری ملت میں شہید کا ایک عظیم مرتبہ تھا اور ان کی میت کو قومی ترانوں اور ان کی راہ کو زندہ رکھنے کے عہد کے ساتھ آنکھوں میں آنسؤوں اور ماؤں اور بہنوں کی سسکیوں کے ہمراہ، علماء دین کی موجودگی میں سراپا قومی و ملی افتخار کو دفن کیا جاتا رہا- پھر ایک ایسا دور بھی آیا جہاں گھر گھر سے جنازے اٹھنے لگے،بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، گھروں میں گھس کر ماؤ ں بہنوں کے سامنے دن دھاڑے جوانوں کو قتل کیا جانے لگااور آہستہ آہستہ ہمارے جنازے شہر شہر قریہ قریہ سے اٹھنے لگے اور فرقوںاور لسانیت و قومیت کی بنیادوں پر، سیاسی بنیادوں پرقتل و غارت کا رواج نکلا- مسجدیں خون سے رنگین ہونے لگیں - لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر دن دھاڑےکھڑے کھڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا-کچھ کو اغوا کر کے ذبح کیا گیا اور ذبح کرنے والا ایسے ذبح کرتا تھا جیسےکسی حیوان کو ذبح کیا جارہاہو-
ذبح کرتے ہوئے اللہ کبر بھی کہا جانے لگا!!
کبھی جوانوں کے اعضاء کاٹ کر ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر دئیے گئے -آج کتنی بیوائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کتنے بچے یتیم ہو گئے- کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہوئیں- سکولوں پہ حملے کئے گئے -بچوں کے منہ میں گولیاں ماریں گئیں اور کچھ کے گلے دوسرے بچوں کے سامنے کاٹ دئیے گئے-
کتنے گمنام شہید ہیں جن کی خبر تک نہیں ۔۔۔
ان گذشتہ دو دہائیوں میں جہاں ہر مذہب اور مسلک اور ہر قوم کے افراد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا وہاں سب سے زیادہ قربانی شیعہ قوم نے دی - آج ہمارے مومنین کے قبرستان بھر گئےہیں اور کئی علاقوں میں جب شہدا کے قبرستان میں جائیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے دو ملکوں کی جنگ میں مارے گئے ہوں-
جس قدر بے رحم سلوک ہماری قوم کے ساتھ ان گذشتہ دو دہائیوں میں کیا گیا وہ ہمارے ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس کی شاید بنی امیہ کے دور میں بھی مثال نہیں ملتی ہو گی-
ہماری قوم کے ہر شعبے کے آدمی اور ہر پیشے کے فرد کو قتل کیا گیا اور اس کا آغاز ہمارے قائد شہید سے ہوا اور بر صغیر کی تاریخ میں ایک عالم دین، فرزند قوم و ملت اور قومی قیادت کو قتل کردیا گیا اور کسمپرسی کا عالم یہ کہ وہ جس نے پوری ملت کی رہبری کا بوجھ اپنے کندھے پہ اٹھا رکھا تھا اس زمانے کے ذمہ دار افرادنے ان کی حفاظت میں اس قدر غفلت برتی کہ قاتل بڑی آسانی سے کئی بار ملاقات کرنے کے بعد ایک دن صبح فجر کے وقت آپ کے ذاتی کمرے سے آتے ہی ٹھیک سیڑھیوں پر قتل کرکے چلاگیا
-اور اس المناک واقعے بعد بھی سلسلہ تھم نہیں گیا بلکہ آج بھی سلسلہ جاری ہے کبھی پروفیشنلز مسلسل قتل ہورہے ،کبھی ڈاکٹر تو کبھی وکیل اور کبھی کاروباری آدمی کو نشانہ بنایا جاتاہے ، اور کبھی مسافروں کو تو کبھی نمازیوں کو قتل کیا جاتا ہے-کبھی مجالس عزا اور جلوس عزا پہ بمب دھماکے کئے جاتے ہیں-
قائد محبوب علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے وقت امام امت رہبر فقید امام خمینی رح نے اپنے پیغام میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایاتھا-’’آج اگر مدارس دینیہ ، حوزہ ہای علمیہ اور علماء پاکستان اپنے فرائض کو صحیح انجام دے رہے ہوتے تو یہ سید بزرگوار ہمارے درمیان موجود ہوتے‘‘
یہ تو اس ایک قتل سے متعلق امام راحل کی رائے تھی-نہ جانے آج اگر امام زندہ ہوتے اور شہدا کے قبرستانوں کو دیکھ کرکس کو ذمہ دار ٹھراتے-؟؟
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ایک دو قتل تو کوئی محسوس تک نہیں کرتااور اسے سنجیدہ لیتا ہےیہاں تک کہ کئی ذمہ دار لو گوں سے یہ تک سننے کو ملتاہے کہ ایک دو قتل تو نارمل اور عام سی بات ہے -
جبکہ اب تو صورتحال ایسی ہے کہ بعض علاقوں میںکوئی فرد قتل ہو جائے تو لاش پڑی رہ جاتی ہے!!
دیر تک کوئی اٹھاتا ہی نہیں- کئی علاقوں میں لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی جبکہ حکمران ہیں کہ جن کے کانوں میں جو ں تک نہیں رینگتی- علما ء اپنے مدارس چھوڑ کر جنازوں میں جانے کی زحمت گورانہیں کرتےیہاں تک کہ مدارس میں سوگ تک نہیں منایا جاتا-
میڈیا میں کسی قسم کی کوئی ہلچل نظر نہیں آتی ٹی وی اپنے معمول کے راگ الاپ رہے ہوتے ہیں -
خبر دینے والے کے چہرے پہ ملال کے آثار تک نہیں ہوتے بلکہ نغمے اور گانے ٹھٹھہ مذاق بھی چلتا رہتا ہے ۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ مذہبی پیشہ ور، شہیدوں کے ناموں پہ سیاست چمکاتے ہیں اور مذہبی بیانات دیتے ہیں -ہمیں مجبور نہ کیا جائے!! ہماری قوم قربانی دینا جانتی ہے!! ہم شہید پرور قوم ہیں!! بہت ہو چکا اب ہم برداشت نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ
لیکن پھر وہ برداشت بھی کر لیتے کچھ دنوں بعد سوئم اور چہلم اور پھر کسی نئے جنازےکا انتظار
یہ سلسلہ دن بدن بڑہتا چلا جارہاہے اب صورتحال یہ ہے کہ قاتل حکمران اور مقتول مجرم بن گئےہیں-قاتلوں کو انعام و اکرام اور پروٹوکولز ملنے لگےہیں اور مقتول کو کمزور سے کمزور کر دیا جارہاہے- قاتلوں نے اپنی پارٹیاں بنا لیں اور وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور مقتول کے وارث قیادتوں کے بانٹنے میں اور سیاستیں چمکانے اور اپنا اپنا بازار گرم کرنے میں مصروف ہو گئے-اب ایک ایک گھر میں تین تین جماعتیں ہیں-
لیکن اس گھمبیر صورتحال میں آج ایک مرد مجاہد نے ملت کی اس ناگفتہ بہ حالت کے پیش نظر قومی اور ملی بے حسی اور حکومتی بھیمانہ خاموشی پہ اپنے آپ کو صدائے احتجاج بنا دیاہے ، مظلوموں کی حمایت میں گذشتہ تقریبا دو ماہ سے مسلسل اپنے گھر بار ،مسجد و مدرسے حتی کہ کھانا چھوڑ کر بھوک ہڑتال کر کے شہداء کے خون کی وراثت کا سچاثبوت دیا ہے ۔
آج وہ ملت کی بیداری کے لئے اپنی پوری توانائی کے ساتھ دن رات جدوجہد کر رہا ہے لیکن متاسفانہ آج بھی سیاستیں کھیلنے والے اپنا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں- اس سے بڑی قومی بد نصیبی کیا ہو گی کہ قدس کی آزادی کے لئے نکلنے والی ریلیاں کئی جگہوں سے ٹکڑیوں کی شکل میں نکلتی ہیں- جو لوگ خود آزاد نہیں وہ قدس کو کیسے آزاد کروائیں گے!!؟
آج کچھ علماء میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی روا داری نہیں لیکن قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا درس دیتے ہیں اور جب بات کرتے ہیں تو ولایت فقیہ اور امام امت کی بات کرتےہیں، رہبر عظیم الشان فرماتے ہیں امت اسلامیہ کا اس زمانے کا سب سے بڑا فریضہ وحدت کی حفاظت ہے لیکن ہمارے ملک میں ہر فرد خود ہی رہبر بھی ہے اور بانی انقلاب بھی اور ہر ایک قوم کی قیادت کی توقع بھی رکھتا ہے- اگرچہ خود اپنی قیادت نہیں کر سکتے-
نہ جانے کتنے خون مزید بھائے جائیں گے اور کتنے بچے مزید یتیم ہونگے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور کتنے ملت کے آسمان کے ستارے زمین میں دفن کر دئیے جائیں گے تا کہ ہماری ملت کے ذمہ دار لوگ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی قوم کے دفاع کے لئے کمر بستہ ہونگے-
اے خدا ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامیاب فرما- اور ہماری قوم کو بیداری اور ہمارے ذمہ دار
افراد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے۔آمین
تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ غلام حر شبیری(لندن)