وحدت نیوز(رپورٹ :ظہیرالحسن کربلائی) اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پاکستان میں شعیان حیدر کرار کی کراچی،ڈیرہ اسماعیل خان،پشاور،پاراچنار اور ملک کے دیگر شہروں میںتسلسل سے جاری ٹارگٹ کلنگ اور سیکیورٹی اداروں و حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال کر رکھی ہے،یہ احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ 13مئی سے تاحال جاری ہے۔سخت گرمی،چلچلاتی دھوپ اور گرم لو کے تھپیڑے اس کھلے میدان میں بیٹھے ملت کے مخلص اور درد مند انسان کے ارادوں اور عزم کو کمزور نہیں کر سکے ،گذشتہ روز جب ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا تو ان کا وزن بارہ کلو کم ہو گیا تھا،اسلام آباد سے شروع ہونے والا ایک شخص کا احتجاج اب عالمی شکل اختیار کر چکا ہے ،پہلے تو اس بھوک ہڑتال کی گونج ملک کے دیگر شہروں میں سنائی دی اور مجلس وحدت سے وابستہ کئی شہروں کے ذمہ داران نے بھی اپنے شہروں میں یکجہتی کیمپ لگانا شروع کر دیئے،یہ سلسلہ لاہور،ملتان،کراچی،سکھر،خیرپور،حیدر آباد،چکوال،گلگت،سکردو،کوئٹہ،شہداد کوٹ،فیصل آباداور ملک کے کئی چھوٹے بڑے شہروں تک پھیل گیا،اس کے بعد اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے ساتھ یکجہتی کے طور پر دیگر ممالک بالخصوص،انگلینڈ،جرمنی،امریکہ ،ایران،عراق تک پھیل گیا،اب شہر شہر اور ملک ملک میں یہ صدا سنائی دے رہی ہے ،اب ہر سو قاتلوں کی گرفتاری،ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام،اور سیکیورٹی اداروں و حکمرانوں کی جانبداری کے خلاف آواز سنائی دے رہی ہے،کوئی اس آواز کو دبا نہیں سکتا،کوئی اس اندھیر نگری اور چوپٹ راج کو چھپا نہیں سکتا،کوئی قاتلوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب کو اترنے سے روک نہیں سکتا،اگرچہ میڈیا نے ا س احتجاج کو ممکنہ حد تک نظر انداز کیا ہوا ہے،پیمرا نے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو باقاعدہ نوٹس بھی جاری کیا ہے جس کے بعد دیگر چینل مزید محتاط ہو گئے ہیں، مگرمیڈیا کب تک اس کو نظر انداز کر سکتا ہے جب یہ خبر ہر جگہ موضوع گفتگو بن جائے گی تو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے،سوشل میڈیا خود ایک بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے اور بسا اوقات تو یہ الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ تیز اور موثر بھی دکھائی دیتا ہے،اس بھوک ہڑتال کیمپ کو سوشل میڈیا پر بھی بڑی شد و مد سے پیش کیاجا رہا ہے ،جس کیوجہ سے وہ آواز جسے دبانے کی سازش ہو رہی تھی،جس پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں وہ ہر سو سنائی دے رہی ہے،بھوک ہڑتال کیمپ میں اس وقت تک جتنے سیاسی ومذہبی قائدین،جماعتیں ،شخصیات اور گروہ تشریف لائے ہیں وہ ایک ریکارڈ ہے،ان سب کو بھی نظر انداز کرنا میڈیا کیلئے خاصا مشکل ہے،جبکہ اس بھوک ہرتال نے ملت تشیع کے مختلف طبقات کو بھی باہم جوڑ دیا ہے،علما و ذاکرین کا جو فرق عمومی طور پر محسوس کیا جاتا ہے اس تحریک میں وہ ختم ہو گیا ہے،راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کیلئے اب تک بشمول،ذاکراہلبیت شوکت رضا شوکت، ذاکر اہلبیت مشتاق حسین شاہ،ذاکر اہلبیت سید ضرغام حسین شاہ،معروف خطیب محمد عباس قمی ،ذاکر اہلبیت ریاض حسین شاہ رتو وال اور ذاکراہلبیت اعجاز حسین جھنڈوی اس خیمہ حسینی میں تشریف لا کر ان مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کر چکے ہیں جو یہاں پیش کیئے گئے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں(پی پی پی ،تحریک انصاف ، ایم ،کیو، ایم ،پاک سرزمین پارٹی ، اے این پی ، عوامی مسلم لیگ ، آل پاکستان مسلم لیگ ، آفتاب شیر پائو پارٹی ،کے وفود ،تمام مسالک اوراقلیتی کے نمائندوں کے علاوہ ماتمی اور نوحہ خوان انجمنوں کے اراکین نے بھی اس خیمہ میںاپنی حاضری کو یقینی بنایا ہے ،
بھوک ہڑتال کیوں ۔۔۔ ؟؟؟؟؟
عالمی استکباری صہیونی ایجنڈے کے مطابق یہ نااہل کرپٹ اور ظالم حکمران اور بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑیں مملکت خدادادِ پاکستان کو ناامنی ، تباہی و بربادی کی آخری حد تک پہنچا چکے ہیں۔ جس کے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔پاکستان میں کراچی سے پارا چنارتک شیعہ ،سنی ،عیسائی،ہندو اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے عدم تحفظ اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی۔
۲۔تکفیریوں کا نام بدل بدل کر بھارت و اسرائیلی پلان کے مطابق ملک دشمن و اسلام دشمن سرگرمیوں کی ،ریاستی سرپرستی و حوصلہ آفزائی جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی رسومات جیسے جشن میلاد،اذان میں درود و سلام ، عزاداری کی مجالس اورجلوسوں میں حکومت کی طرف سے ناروا رکاوٹیں۔
۳۔ملک کے بعض علاقوں مثلاً پاراچنار و گلگت میں لوگوں کے ہزاروں ایکڑ رقبہ پر حکومت کے قبضے اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی حکومتی سازش۔
۴۔اسرائیلی و استکباری اشاروں پر بننے والے نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے بعد، مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش ۔
۵۔کراچی ، کوئٹہ ، ڈی آئی خان، پشاور اور پارا چنار میں بے گناہ لوگوں(سیاسی و مذہبی شخصیات ، ڈاکٹرز، انجینئرز،ججز،وکلاء ، پروفیسرز، نمازیوں اور عزاداروں ) کے قتل عام روکنے میں حکومتی عسکری اداروں کی ناکامی، اور فورسسز میں موجود بعض کالی بھیڑوں( جیسے پارا چنار میں کمانڈنٹ ملک عمر) کے حکم پر بے گناہ عوام پر فائرنگ و قتل عام ریاستی و عسکری اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے سینکڑوں پریس کانفرسوں ، احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں کے بعدہم نے بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔
قارئین محترم ؛آپ گواہ ہیں کہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تعصب کی اندھی آگ میں یہ ملک جل کے راکھ ہو سکتا ہے،اگر حکمرانوں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہر سو دہشت و وحشت راج کرے گی،بد قسمتی سے ایسا ہی ہو رہا ہے ،ڈیرہ اسماعل خان میں جہاں کچھ عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی ایک بار پھر اس فتنے نے پورے زور کیساتھ سر اٹھا لیا ہے،اور اب دن دیہاڑے ،کھلے عام ،بھرے بازاروں اور پولیس چیک پوسٹس کے سامنے اہل تشیع کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،انہیں چن چن کے مارا جاتا ہے 19مارچ کے دن ایک شیعہ پولیس کانسٹیبل اظہر حسین کو شہید کیا گیا،اس کے بعد 22مارچ کو ایک امام بارگاہ کے متولی ایڈووکیٹ سید رضی الحسن کو دن دیہاڑے بھرے بازار میں راہ چلتے موٹر سائیکل سواروں نے سر میں گولیاں مارکے شہید کیا گیا،جس کی سی سی کیمرہ فوٹیج میں نمایاں طور پہ دیکھاجا سکتا ہے،معلوم ہوا ہے کہ اس واردات کے مرتکب قاتلوں کو شہر میں لگے ہوئے چالیس کیمروں میں دیکھا گیا ہے پھر بھی کسی نے زحمت نہیں کی کہ دہشت گردوں کی تصویریں جاری کرتے تاکہ ان کو پہچان کے نشاندہی کی جا سکتی،اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ 5 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی دو مختلف وارداتوں میں ایک پروفیسر اختر علی،ایک ٹیچر مختیار بلوچ اور دو ایڈووکیٹس عاطف علی اور علی مرتجز کو سرکلر روڈ پر نشانہ بنایا گیا یہ دونوں وارداتیں چند منٹوں کے وقفے سے ہوئیں،ایک ہی دن چار پروفیشنلز کا قتل کسی قومی سانحہ سے کم نہیں تھا،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں 3اپریل کو جامعہ کراچی سے فزکس میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ہاشم رضوی کو نشانہ بنایا گیا،8 اپریل کو دو مومنین شاہد حسین اور علی سجاد کو ٹارگٹ کیا گیا،8 اپریل کو ہی سول سوسائٹی کے معروف قومی کارکن خرم ذکی کو نشانہ بنایا گیا خرم ذکی نے تکفیری قوتوں کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اور ان کے خلاف توانا آواز بن چکے تھے،انہیں شدید جانی خطرہ تھا مگر سند ھ کی نااہل حکومت نے انہیں کسی قسم کی سیکیورٹی نا دی جس کا فائدہ دہشت گرد گروہ نے اٹھایا آخر انہیں ہم سے چھین لیا،خرم ذکی کو جن لوگوں سے خطرہ تھا وہ بہت ہی واضح تھے لہذا ن کیخلاف ہی ایف آئی آر کٹوائی گئی مگر نہایت افسوس کہ حکمران ان قاتلوں کو لگام ڈالنے کے بجائے انہیں کھلا چھوڑ رہے ہیں ، قاتل سرکاری گارڈز کی معیت میں پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہیں ،جلسے جلوس کرتے ہیں،للکارتے ہیں،روزانہ نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ نکالتے ہیں اور اسے پائوں میں روندتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیںپوچھتا،خرم ذکی کا غم اور دکھ ابھی تازہ تھا کہ پاراچنار میں معصوم اور بے گناہ مومنین کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،امام حسین ؑ کے جشن ولادت کے عنوان سے جانے والے علما ء کو کرم گیٹ پر روک کر بری طرح ضدوکوب کیا جاتا ہے اس پر جب قبائلی احتجاج کرتے ہیں تو ایف سی کے متعصب اہلکار سڑک پر پرامن طور پہ بیٹھے عوام کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ،تین مومنین شہید اور دس سے زائد زخمی ہوتے ہیںجنہیں ایف آئی آرز میں نامزد کیا جاتا ہے،یہ ظلم اور تشدد کسی بھی قوم و معاشرے کی تباہی کیلئے اور لوگوں کو بغاوت کیلئے تیار کرنے کیلئے کافی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو زحمت اور سختی کا شکار کیا ہے ، اگر ہم اس ملک کے وفادار نا ہوتے تو تخریب کا راستہ اختیار کرتے ،اس ملک کے دشمنوں کی طرح خود کش دھماکے کرتے،بم چلاتے،فورسز کو نشانہ بناتے ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے مگر مکتب تشیع جو آئمہ کا مکتب ہے جو اہلبیت کا مکتب ہے جو کربلا کا مکتب ہے ہمیں اس کا درس نہیں دیتا ہم نے دنیا تک اپنے آواز پہنچانے کیلئے باوقار تہذیب یافتہ اقوام کا راستہ منتخب کیا ہے،ہم اس سے قبل جلوس نکال چکے،ریلیاں نکال چکے،دھرنے دے چکے،حتیٰ کہ لانگ مارچ کا تجربہ بھی کر چکے ،اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ دنیا ہماری آواز کو دبانہ سکے،ہمیں نظر اندازنہ کر سکے۔
دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کا تسلسل؛
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شیعہ قتل عام کوئی نئی بات نہیں ،یہ گذشتہ پینتیس برسوں سے وقفے وقفے اور تسلسل سے جاری ہے،اس کے مختلف فیزز ہم نے دیکھے ہیں،اور اس کی کئی اقسام سامنے آئی ہیں،کبھی تو یہ اہدافی قاتلوں کے ذریعے کسی شخصیت ،کسی عزادار،کسی نامی گرامی شیعہ رہنما،کسی ڈاکٹر،کسی استاد ،کسی پروفیسر یا ایجوکیشنسٹ،کسی شاعر،کسی مذہبی رہنما،کسی سیاسی شخصیت،کسی متولی،کسی نوحہ خوان،کسی ذاکر،کسی عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی ان قاتلوں کے ذریعے اجتماعی قتل عام کا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے اور کسی بڑے اجتماع،کسی مجلس،کسی جلسے،کسی جلوس،کسی ریلی،کسی نماز باجماعت،کسی درگاہ،کسی دربار،کسی امام بارگاہ کو بیگناہوں کے خون سے رنگین کیا جاتا ہے، اگر ہم ملت تشیع کے مجموعی رویہ اور ری ایکشن کو دیکھیں تو بلا شک و شبہ یہ ایک پرامن قوم کے طور پہ سامنے آئے گی،سینکڑوں جنازے سامنے رکھ کے چار دن انتہائی بے ضرر احتجاج و دھرنے کی مثال کسی اور کے پاس نہیں ہماری ہی ہے جبکہ ہمارے مخالفوں کی تاریخ اور کارنامے اٹھائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک پاکستان ان کا وطن نہیں بلکہ یہ ہندوستان یا اسرائیل کے شہری ہیں جو پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں،آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر امریکہ نے کسی قبائلی ایریا میں کسی دہشت گرد گروپ کو کسی ڈرون کا شکار کیا ہے تو اس کا رد عمل پاکستان کو دیا جاتا ہے،پاکستانی عوام اور اس کے اثاثوں کو نقصان پہنچا کر فخریہ اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے ہمارے وہ مہربان مذہبی جغادری بھی قائل نظر آتے ہیں جو بظاہر سیاسی جماعتیں ہیں مگر ان کی اصل طالبانائزیشن ہی ہے،لہذا یہ پاکستان افواج کو شہید کہنے سے کتراتے ہیں جبکہ دہشت گردوں کا کوئی سرغنہ مارا جائے تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھاتے ہیں جو اس ملک کے ّآئین سے روگردانی اور انحراف کے مترادف سمجھا جانا چاہیئے،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج تک کبھی بھی کہیں بھی برے سے برے حالات میں بھی پاکستان کی سیکیورٹی اداروں اور فورسز کو نشانہ نہیں بنایا،جبکہ ہمارے مقابل دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے ہزاروں قیمتی فوجیوں و افسران کو نشانہ بنا کر فخریہ اس کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ سیکیورٹی اداروں اور متعصب حکمرانوں کا رویہ مکتب تشیع کے پیروان کے ساتھ انتہائی جانبدارانہ اور متعصبانہ رہتا ہے،کئی ایک واقعات و حادثات نے ثابت کیا ہے کہ ہمیں خواہ مخواہ رگڑا جاتا ہے،ہم سے تعصب برتا جاتاہے،ہمیں توہین آمیز سلوک کا شکار کیا جاتا ہے،ہمیں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اقلیتی شہریوں جیسے حقوق بھی حاصل نہیں ان کیلئے تو آواز بلند کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں،عالمی ادارے و میڈیا بھی ان کی زبان بن جاتا ہے مگر ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
بقول شاعر
ہر لحظہ ہے قتل عام یہاں اور کہتے ہیں کہ قاتل کوئی نہیں
نیشنل ایکشن پلان اورآن آف کا سوئچ:
پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گردی کے بد ترین حملے کے بعد قوم سوگ اور غم و غصہ میں ڈوب گئی تھی،ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بھی اس کے بعد بھرپور کاروائیوں اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت کا احساس کیا،پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر ایک اکیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان منظور کیا،کراچی میں بھی آپریشن اور رینجرز کو وسیع اختیارات دیئے گئے تاکہ دہشتگردی کا خاتمہ کیا جاسکے ،قبائلی علاقوں میں پہلے ہی آپریشن ضرب عضب کے نام سے کاروارئیاں جاری تھیں،ہم جو اس آپریشن کا مطالبہ و تقاضا کرنے والوں میں سر فہرست تھے،ہمیں یہ امید تھی کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے تو اس ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ حل ہو جائے گا اور قوم و ملک سکھ کا سانس لیں گے،ہم نے آرمی اور فورسز کو اختیارات دینے کی اس لیئے حمایت کی کہ سیاسی و حکومتی جماعتوں میں دہشت گرد گروہوں کے حامی موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی کاروائی کو اس کی روح کیساتھ ہونے سے پہلے ہی افشا کر دیتے ہیں یا پھر رکوا بھی دیتے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گرد صاف بچ نکلتے ہیں اور دہشت گردی کا طوفان کچھ عرصہ کے بعد پھر سے ہماری بنیادوں کو ہلانے کیلئے آ موجود ہوتا ہے،مگر ہم اس سے بھی مایوس ہوئے بد قسمتی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ملک کے دیگر شعبوں میں تعصب اور فرقہ واریت کا زہر سرایت کر چکا ہے ایسے ہی سیکیورٹی اداروں میں بھی ان عناصر کی موجودگی اور ان کا وجود بدرجہ اتم دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے ملت کے صاحب رائے افراد اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ دہشت گردی اور اس کا نیٹ ورک مکمل طور پہ ختم کرنا شائد اس ملک کے ذمہ دار حلقوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے،یہ ان کی ضرورت ہے جب چاہیں اس کا بٹن آن کر دیں اور جب چاہیں اس کا بٹن آف کر دیں ہے۔اگر نیشنل ایکشن پلان کی روح اور شقوں پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا تو ان کالعدم گروہوں کے سربراہان کو جیلوں میں ہونا چاہیئے جن کی دہشت گردی اور قتل غارت گری کے ہزاروں واقعات ہر تھانے کی انویسٹیگیشن فائلوں میں ثبوتوں کیساتھ موجود ہیں،مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کوئٹہ میں ایک نامی گرامی دہشت گرد کو کھلے عام چھوڑا گیا ہے،کراچی کا ایک نامزد قاتل پولیس گارڈز کی معیت میں ملک کے طول و عرض میں جلسے کرتا پھرتا ہے،جبکہ دوسری طرف ہمارے لائسنسیافتہ جلوسوں کو روکا جا رہا ہے ،ان پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اگر کسی جلوس یامجلس میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر ہو گئی ہے تو اس کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اور بہت سے ایسے نامور تنظیمی افراد کو بلاجواز فورتھ شیڈول میںڈال کے ان کا جینا حرام کر دیا گیا ہے اسی طرح بہت ہی معمولی باتوں پہ لوگوں کے خلاف توہین رسالت کے پرچے کاٹے جا رہے ہیں جبکہ اہل تشیع کی تکفیر کر کے سر عام قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے،انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیںہوتا،یہ رویے اور سلوک کسی بھی طرح ہمیں قبول نہیں ہیں ،ایسے رویوں کیساتھ ملک زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔
بھوک ہڑتال بیداری و حضوری کا ذریعہ:
اسلام آباد میں لگایا گیا احتجاجی بھوک ہڑتال کا کیمپ نہ صرف پورے پاکستان کے تشیع کو بیدار کرنے اورانہیں میدان لا کھڑا کرنے کا سبب بنا ہے بلکہ اس کیمپ نے بہت دور تک اپنے اثرات چھوڑے ہیں،اب انگلینڈ،جرمنی،امریکہ کی مختلف ریاستوں اور عراق،ایران نیز کئی دیگر ممالک میں بھی ملت کو ہم آہنگ و بیدار کرنے کا باعث بنا ہے،جن لوگوں نے بھی دوسرے شہروں میں کیمپ لگائے ہیں انہیں تنظیمی ہدایات نہیں دی گئیں بلکہ وہ خود قیادت ،علما ء کو دیکھ کے میدان میں آئے ہیں ،ان لوگوں نے جب دیکھا کہ ہمارے قائدین قوم کیلئے میدان میں اترے ہیں اور اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر رہے ہیں تو انہیں بہت تقویت ملی ،انہیں حوصلہ و ہمت ملا کہ یہ از خود میدان میں آگئے،یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ امامیہ اسٹودنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے بھی اس اقدام کی بھرپور حمایت کی اور اسے کامیاب بنانے کی اپنے تئیں کاوشیں بھی کیں،مرکزی صدر برادر علی مہدی بھی چند بار اسلام آباد کیمپ میں تشریف لے گئے اور راجہ ناصر عباس جعفری سے اظہار یکجہتی کیا،اسی طرح کئی شہروں سے عمائدین کے قافلے اسلام آباد پہنچ کر اس کیمپ کا حصہ بن رہے ہیںپاراچنار،ہنگو،پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان،کراچی سے شہدا ء کے وارثین و عمائدین نے اسلام آباد میں حاضر ہو کر احتجاج میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور راجہ ناصر عباس جعفری کے مطالبات اور عمل کو سراہاہے۔13مئی سے مسلسل جاری رہنے والے اس احتجاج کے ذریعے شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا ایشو نمایاں ہو چکا ہے کوئی اسے نظر انداز نہیں کر سکتا، ڈیرہ اسماعیل خان جیسے پر خطر اور خوف و دہشت کی فضا میں نوجوانوں نے ایک بار پھر میدان عمل میں قدم رکھے ہیں اور ایجنسیوں کی دھمکیوں و قید و بند کے خطرات کو پس پشت ڈال کے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے تاحال یہاں روزانہ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جو ملی بیداری کا بین ثبوت ہیں۔
بھوک ہڑتال ،تربیت و اصلاح کا پھلو؛
ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبائی ہیڈ کوارٹرز پر لگائے گئے بھوک ہڑتال کیمپس میں جہاں دیگر پروگرام چلتے ہیں،نعرے بازی،تقاریر،اور مطالبات دہرائے جاتے ہیں وہاں ان کیمپس میں دعا کی محافل سے روحانی ماحول نوجوانوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے،اس کیساتھ ساتھ یہاں شب شہدا ء کے پروگرام ہو رہے ہیں جن میں شہدا کے تذکرے اور ان سے اظہار عقیدت کیا جاتا ہے ،ان کی راہ پر چلنے کا عزم دہرایا جاتا ہے،ان کی جلائی گئی شمع کو روشن رکھنے کا عزم دہرایا جاتا ہے،اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ شب ہائے اعمال بالخصوص پندرہ شعبان کی رات ان کیمپس میں دعائوں و مناجات اور اعمال و سحری کا انتظام کیا گیا ،ان پروگراموں میں بلا تفریق مرد وزن اور بچے شرکتکرتے ہیں سماجی و صحافتی حلقے حیران و ششدر ہیں کہ یہ احتجاج کیسا ہے جس میں نہ تو توڑ پھوڑ ہے ،نہ ہلڑ بازی اور نہ ہی کوئی گالم گلوچ،نا کافر کافر کی صدائیں اور نا ہی کتاکتا کی آوازیں،بے شک یہ تہذیب یافتہ اور باوقار مہذب لوگوں کا احتجاج ہے۔
اہم مطالبہ اور امکانی صورتحال:
جب یہ بھوک ہرتال اور احتجاج عالمی صورت اختیار کر گئی ہے تو دنیا یہ سوال کرتی ہے کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں اور کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر مطالبات پورے نا ہوئے تو کیاہوگا، ہر ایک کو انتظار ہے کہ اس بھوک ہڑتال کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا،ان سوالوں کے جواب میں ہی کچھ سوال ہیں کہ آیا ملت تشیع کی ٹارگٹ کلنگ تسلسل سے جاری ہے یا نہیں ۔۔تو ہر ایک کہتا ہے کہ ہو رہی ہے کسی کو انکار نہیں۔ہمارے قاتلوں کو حکمرانوں کی مدد،تعاون اور سرپرستی حاصل ہے یا نہیں تو اس سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا،اس لیئے کہ ہم کہہ کہہ کے تھک گئے پنجاب حکومت نے قاتلوں کی سرپرستی کرنے والے اپنے وزیر کو نہیں ہٹایا،دہشت گردوں کے سرغنہ کو سرکاری پروٹوکول دیا گیا ہے جبکہ کسی بھی کالعدم دہشت گرد جماعت کے سربراہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیئے،اسی طرح ہم سوال کرتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز جن کو اس دہشت گرد گروہ نے ناکوں چنے چبوائے ہیں اس کے سامنے ہمارے قتل کے فتوے صادر کرتے ہیں اور وہ ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں،اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پاراچنار میں سیکورٹی فورسز بلاجواز بے گناہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتی ہیں ،ان کے خلاف اقدام کیوں نہیں اٹھایاجاتا،اگر فاروق ستار ایم کیو ایم کے لیڈر کے کوآرڈینیٹر کے دوران حراست قتل کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جا سکتا ہے تو ملت تشیع کے قاتلوں کو کیوں قانون کت کٹہرے میں نہیںلایا جا سکتا،کرم ایجنسی میں یہ دوسری بار ہمارے لوگوں کیساتھ زیادتی ہوئی ہے اس سے قبل کرنل توصیف نامی کمانڈنٹ نے جنگ کے دوران اپنی سرپرستی میں دہشت گردوں کے ذریعے بے گناہ و معصوم ٹرک درائیوز جن کی حفاظت کی ذمہ داری اس کی ڈیوٹی تھی کو جلوایا،لٹوایا اور آروں سے چروایا تھااب ایک بار پھر یہ ظلم روا رکھا گیا ہے،کوئی بتا سکتا ہے کہ ملت تشیع نے کب سیکیورٹی فورسز یا ادارے کے لوگوں کو جانی یامالی نقصان پہنچایا ہے،پھر یہ رویہ کس لیئے؟گلگت بلتستان کے بے آئین عوام کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے ،سڑسٹھ برسوں سے اس ملک سے وفاداری نبھانے والے صر ف اس وجہ سے بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھے گئے ہیں کہ ان کی غالب اکثریت اہل تشیع پر مشتمل ہے، اب ان کی زمینوں پر زبردستی قبضے کیے جا رہے ہیں انہیں ان کی آبائی زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے،کیا یہ ملک کسی ایسی بغاوت کا متحمل ہو سکتا ہے کہ ایک حساس خطے کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور زیادتیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوںاور ریاست اور اس کے ادارے بے بس ہو جائیں،اس وقت تک تو حالات یہاں کے علما کے ہاتھ میں ہیں اور کنٹرول میں ہیں مگر اس بات کا امکان ہے کہ زیادتیوں کا تسلسل یہاں کے عوام کو اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کر دے۔لہذا اس خطے کے مخلص اور وطن دوست عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیئے جائیں کجا یہ کہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں کو زبردستی چھین کر ان میں نفرتیں کاشت کی جائیں۔ایسا ہی کرم ایجنسی میں بھی ہو رہا ہے جہاں سازش کے ذریعے بہت سے علاقوں میں تکفیریوں کو لا کر آباد کیا جا رہا ہے جس پر اہل علاقہ میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔
کے پی کے حکومت سے متعلق جو معاملات تھے انہیں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کیساتھ بھوک ہرتالی کیمپ میں ان کیآمد پر سامنے لایا گیا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پی ٹی آئی کے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایم پی اے بھی تشریف لائے اور اس کے بعد مجلس وحدت کی کمیٹی کے اراکین سے وزیر اعلی پرویز خٹک اور کئی وزرا کے ساتھ ملاقات ہوئی ،مطالبات پر نا صرف غور کیا گیا بلکہ عملی اقدامات کیلئے باہمی ،مشترک کمیٹیاں بھی بن گئی ہیں پاراچنار کے معاملات چونکہ وفاق کے تحت آتے ہیں اس لیئے ان کو ایپیکس کمیٹی میں اٹھانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
عزاداری پر کسی قسم کی قدغن قابل قبول نہیں :
ایک اور ایشو جو اس بھوک ہڑتال سے متعلق ہے وہ عزاداری کو محدود کرنے اور بانیان و عزاداران پر بہت ہی معمولی باتوں پر درج ہونے والی ایف آئی آرز ہیں جو پنجاب میں گذشتہ محرم میں درج ہوئیں،اسی طرح ذاکرین و علما کرام کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جانے پر پابندی کا قانوں ایام محرم میں ظلم و زیادتی کے مترادف ہے جسے کسی بھی طور قبول نہیں کیا جا سکتا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بھوک ہرتال کے ذریعے پنجاب حکومت کو یہ پیغام دیاہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے پرہیز کرے ۔
سوال پھر یہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اتنے دن بھوک ہڑتال کر کے حاصل کیا ہوا،میرا ذاتی خیال ہے کہ اس بھوک ہڑتال پہ بہت زیادہ خرچ نہیں کیا جا رہا ،مگر اس سے جو کچھ حاصل کیا جا رہاہے وہ بہت کچھ ہے،اگر اس کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو اس مقصد کیلئے ایک دن اس تپتی ،چلچلاتی دھوپ اور سخت خطرات میں بھوک ہرتالی کیمپ میں جانا پڑے گا،آپ لوگوں کے جذبے،شوق،محبت،عقیدت،بیداری،تحرک،،خلوص،ایثار،قربانی،اور امید کو دیکھیں گے، آپ دیکھیں گے کہ ایک مرد میدان اور مخلص شخص نے اس قوم کی خاطر اپنا وظیفہ سرانجام دیا جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی سے قوم و ملت کی کامیابی کی امید لگا رکھی ہے ۔
تاحال :کیا کچھ حاصل کیا ہے۔
1۔جس طرح کوئٹہ کے واقعات میں تشیع نے اپنی مظلومیت سے پاکستان سمیت پوری دنیا کو بیدار کر دیا تھا۔ آج ایک بار پھر شہداء پارا چنار ، ڈیرہ اسماعیل خان ، پشاور اور پورے ملک پاکستان میں جاری شیعہ نسل کشی کی مظلومیت سے قوم بیدار ہو رہی ہے۔ قوم میں ایک تڑپ جذبہ اور بڑی بیداری پیدا ہو گئی۔
2۔دیگر مکاتب فکر و مسالک اور سیاسی پارٹیاں، تشیع کی مشکلات سے آگاہ نہیں تھیں۔ آج سب ہماری قوم کی مشکلات سے آگاہ ہو رہے ہیں بلکہ تمام پارٹیاں اور مسالک ہمارے کیمپ پر آ کر ہماری قوم سے اظہاریکجہتی بھی کر رہے ہیں۔اور ہمارے مطالبات کی بھی غیر مشروط حمایت کر رہے ہیں۔
3۔مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں سے متعلق جو جو مشکلات تھیں۔ تمام حکومتوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچ رہی ہیں۔
4۔خصوصاً خیبر پختونخواہ تحریک انصاف کی حکومت، عمران خان اور مسلسل اس کے وزراء کیمپ پر پہنچ رہے ہیں۔ اور پرویز خٹک کی حکومت سے تقریباً ایک دو کو چھوڑ کر تمام مطالبات پر بات ہو چکی ہے۔ اور کافی حد تک بات معاملات آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ مطالبات مان لئے گئے۔
5۔یہ عوامی اور مظلومیت کی آواز ایک چھوٹے سے کیمپ سے شروع ہوئی تھی آج ایک عالمی بیداری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
6۔شیعہ قوم کا نقطہ نگاہ تمام فیصلہ سازی کے مراکز تک پہنچ چکا ہے۔
7۔شہداء کے خون کو چھپنے نہیں دیا۔
ہمارے مطالبات
1۔پاکستان میں شیعہ نسل کشی میں ملوث تکفیر ی دہشتگروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کیا جائے۔
2۔ ریاستی اور عسکری ادارے شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث دہشتگروںکے خلاف کاروائی کریں اور مجرمانہ خاموشی ختم کریں۔
3۔کالعد م تنظیموں کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کیا جائے، نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکا جائے۔
4۔ملک میں شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں بالخصوص سانحہ شکارپور ، سانحہ جیکب آباد، سانحہ چلاس ، سانحہ بابو سر ، سانحہ حیات آباد سانحہ عاشور ہ، سانحہ راولپنڈی سمیت تمام سانحات کے مقدمات کو ملٹری کورٹس میں بھیجا جائے۔
5۔پاکستان میں موجود تمام مسالک اور مذہب کے لوگوں کو تکفیری دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
6۔پنجاب حکومت اپنی شیعہ دشمن پالیسی فوراً ختم کریں، عزاداری سیدالشہدا ء پرغیر اعلانیہ پابندیاں ، شیعہ عمائدین اور بانیاں مجالس کے خلاف ایف آئی آرز ختم کی جائیں، ذاکرین اور علماء پر پابندی کا فوری خاتمہ اور جن شیعہ عمائدین کو ناجائزطور پر شیڈول فور میں ڈالاگیا ہے۔ انھیں فوراً شیڈول فور سے نکالا جائے۔
7۔خیبر پختونخواہ حکومت شیعہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی ختم کرے اور دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی کرے۔
8۔پاراچنار کرم ایجنسی میں ایف سی کے ہاتھوں شہید ہونے والے بے گناہ مظاہرین کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ کمانڈیٹکرم ایجنسی ، پولیٹیکل ایجنٹ اکرام اللہ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ شاہد علی کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
9۔ گلگت بلتستان اور پارا چنار کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی سازش اور حکومتی سرپرستی میں شیعان حیدر کرار کی زمینوں پر قبضہ کا سلسلہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔
10۔ مسلکی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم کی سازش کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں۔
والسلام