وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور دراز علاقہ میں ایک میاں بیوی رہا کرتے تھے۔ یہ عورت بڑی چالاک اور مکار تھی ہوا یہ کہ ایک دفعہ اس کے شوہر نے ایک مرغا خریدا اور اسے گھر لے آیا جب بیوی نے شوہر کے ہاتھ میں مرغا دیکھا تو اس نے فوراََدوپٹہ سر پہ رکھا اور اپنے چہرے کا رُخ دوسری جانب کر لیاشوہر نے جب یہ دیکھا تو حیرت سے پوچھا کہ کیا ہو اہے؟ تمہیں یہ مرغا پسند نہیں آیا؟ یا مجھ سے ناراض ہو؟ عورت نے شرماتے ہوئے جواب دیا آپ مرغے کو گھر کے اندر لے آئیں ہیں، میں اس نامحرم کی طرف کس طرح دیکھ سکتی ہوں آپ اس نا محرم مرغے کو گھر سے باہر چھوڑ آئیں۔۔۔ شوہر نے جب اپنے بیوی کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو خوشی کے مارے پاگل ہوگیا اور انتہائی شفقت اور پیار محبت سے اس کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اپنی بیوی کی پاکدامنی پر رشک کرنے لگا۔ اس شخص نے خوشی کے مارے سب کو اپنی بیوی کی پاکدامنی اور پاکیزگی کا قصہ سنانا شروع کر دیا۔ ایک دن اس شخص کے دوست نے کہا کہ آج فلانا جگہ پر پروگرام ہے لہذا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا نہایت اسرار کے بعد دوست کے کہنے پر وہ شخص راضی ہو ا اور چل پڑا جب وہاں پہنچا تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی کیوں کہ اس کی بیوی بھری محفل میں ناچ گانے میں مشغول تھی۔
اس واقعہ کا یہاں ذکر تو نہیں کرنا چاہیے تھا مگر میں نے مجبوراََاسی مثال کو پیش کیا کیونکہ اس وقت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور حکومتی دعویٰ بلکل اسی طرح کی کہانی ہے جس کی حقیقت دیکھ کر سر شرم سے جھوک جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور اسٹبلیشمنٹ جنہوں نے بے غیرتی اور خیانت کی انتہا کر دی ہے۔ جب یہ لوگ میڈیا اور عوام کے سامنے آتے ہیں تو ایسے شریف، معصوم اور عوام کے غم خوار بنتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کی مکر و فریب کے شیشے میں اتر جاتے ہیں لیکن ان کا باطن ان کے ظاہر سے بلکل مختلف ہے۔ یہ عوام کے سامنے اتنے غریب بنتے ہیں کہ جیسے دنیا میں ان سے زیادہ غریب کوئی ہے ہی نہیں اور معصوم اتنے کہ پاناما لیکس، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، لندن اور امریکہ میں موجود ان کے اثاثے اور لوٹے ہوئے اکاؤنٹ کا تزکرہ آتے ہیں تو یہ لوگ اسکرین کے سامنے رونے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
یہ تمام تر چیزیں ایک طرف کچھ عرصہ امن قائم رہنے کے بعدملک میں بد امنی کی گھٹائیں پر سے چھانے لگی ہیں اور ملک دشمن عناصر پھر سے سر گرم ہو رہے ہیں۔ ابھی ایک سماجی کارکن خرم زکی کی شہادت کو کچھ دن ہی نہیں گزرے تھے کہ کراچی میں ایک اور ہر دل عزیز امن و سلامتی کے پیامبر ذکر محمد و آل محمد کرنے والے مشہور قوال امجد صابری کو شہید کر دیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ عام شہریوں کو الگ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان واحد ایٹمی مسلم ملک اور دنیا کی بہترین فوج رکھنے والا ملک دہشت گردی کا شکار ملکوں میں سر فہرست کیوں؟ اسامہ بن لادن ہو یا ملا منصور یہ سب پاکستان سے ہی کیوں بر آمد ہوتے ہیں؟کیا یہ ہماری حکمرانوں، اسٹبلیشمنٹ اور سیکورٹی اداروں کی نالائقی نہیں؟ تمام تر بڑے بڑے سانحات، سانحہ پشاور، سیکورٹی اداروں پر حملہ، جی ایچ کیو حملہ، بڑی بڑی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ اس کے بعد آپریشن ضرب عضب، کراچی آپریشن، پنجاب آپریشن، چھوٹو گینگ آپریشن، ان سب کے باوجود پھر بھی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار آزاد؟؟
آخر ہم اپنے ملک سے مخلص کیوں نہیں ہیں، کیوں ہم وطن عزیز کو شام اور عراق بنانے پر تلے ہوئے ہیں، کیا پاکستان میں رہنے والوں کو امن و سکون اور بھائی چارگی کے ساتھ بیٹھنے کا حق نہیں؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ میرے خیال سے ہمارے حکمران، اسٹبلیشمنٹ اور ذمہ داران عوام کے ساتھ اسی مکار عورت کی طرح کھیل کھیل رہے ہیں۔ ظاہری طور پر تو دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کی کمر توڑ دی ہے مگر حقیقت میں یہ دکھاوے اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک طرح سے یہ ان کی مجبوری بھی ہے کہ 1980 سے لگائی گئی فیکٹریوں کی تعداد میں دن بہ دن اظافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب ان جہادی فیکٹریوں کی تعداد اور ورائٹیوں کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔ افغان کشمیر جہاد سے لیکر مسجد و امام بارگاہوں میں خوکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سب کا لنکز زیادہ تر انہی مدارس سے جا ملتے ہیں جہاں سے کفر اور جہاد کا فتویٰ صادر ہو تا ہے۔
ان تمام چیزوں کو کنٹرول کر نے کے لئے یا مرغے سے پر دے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے پردے کا ہتمام کیا گیا جس میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بیس نکاتی پلان تشکیل دیا گا تاکہ وطن عزیز سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس پلان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا جائے گا، مدارس کو ریگولر اور ان میں ریفارمز لائے جائنگے، کلعدم دہشت گردوں کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ نام بدل بدل کر میدان میں آجائیں، دہشت گردوں کے مالی وسائل کو ختم کیا جائے گا، مدارس کو حاصل ہونے والے فنڈز کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی اور نہ جانے کیا کیا وعدہ لکھے گئے تھے۔
مگر افسوس کی اس نیشنل ایکشن پلان کو صرف کاغذی حد تک ہی محدود کر دیا گیا اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت غریبوں، محتاجوں اور محب وطن بے گناہ پاکستانیوں کے خلاف تو کاروئی ہو رہی ہے مگر مجرم آزاد اور دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ اس پلان کے تحت ان کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور کلعدم جماعتیں نئے نئے ناموں کے ساتھ جلسہ جلوس کرتے نظر آرہے ہیں۔
نیشنل ایکشن پر عمل در آمد ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ پچھلے دنوں کے پی کے حکومت نے جہادی یونی ورسٹی کو تیس کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے عین مطابق تھا۔ اس جہادی یونی ورسٹی یعنی دارولعلوم حقانیہ (جو کہ طالبان کی اصل فیکڑی اور اس کے مالک کو طالبان کا باپ کہا جا تاہے، کے پی کے کی حکومت اتنی جلد یہ بھی بھول گئی کہ آرمی اسکول پر حملہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی)کے کچھ معصوم بچوں یا فارغ تحصیل شاگردوں کے نام کچھ یوں ہیں، محمد عمر جو کہ طالبان کے بانیوں میں سے ہیں، جلال الدین حقانی جو کہ حقانی نیٹ ورک کا سربراہ، عاصم عثمان القائدہ کا اہم رہنما اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا تعلق بھی اسی مدرسہ سے بتا یا جاتا ہے یہ وہ مدرسہ ہے جس کو تحریک انصاف کی روشن خیال اور نیا پاکستان بنانے والی حکومت نے تیس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے تاکہ نئے پاکستان کے لئے نئے مجاہدین کو تیار کر سکیں، اور یہ نیشنل ایکشن پلان کی جیتی جاگتی تصویر ہے یہ حکومتی اداروں کی ظاہر باطن نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
اب ہم ان سے یہ امید رکھیں گے کہ یہ خرم زکی، سبط جعفر، امجد صابری اور دیگر شہداء کے قاتلوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائینگے۔ ٹھیک ہے آپ پہاڑوں پر ضرب عضب اور جنگل بیابانوں میں چھوٹو گینگ کے خلاف کاروائی کریں مگر یہ کاروائی اسی طرح ہے جیسے ایک کارخانہ پر پابندی ہو کہ وہ کوئی چیز نہیں بنائے گا اور نہ ہی بیچے گا لیکن یہ کارخانہ کسی نہ کسی کی سرپرستی یا پشت پناہی میں چل رہا ہے اور مارکیٹ میں اپنے پرڈکس بیچ بھی رہا ہے۔ اب قانون نافظ کرنے والے نیشن ایکشن پلان کے تحت دکانوں پر کاروائی کرتی ہیں اور اس کی پروڈکس کو ضبظ کر لیتے ہیں لیکن شہرو کنار میں موجود اس کے اصل مرکز کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اوران کے سرپرستوں کو پروٹوکول میں محفوظ رکھتے ہیں تاکہ اس کی نسل جاری رہے اور کاروبار چلتا رہے اور پھر میڈیا پر کامیابی سے عوام کو بیوقوف بنا دیا جاتا ہے اور عوام بھی میڈیا کی چمک میں انھیں سلوٹ پیش کر کے کل سے پھر گلی کوچوں میں مرنے، لٹنے اور احتجاج، جلسے اور جلوسوں کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ناصر رینگچن