وحدت نیوز (آرٹیکل) نظم و ضبط و ضبط ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے کائنات کا ذرہ ذرہ باقی ہے، نظم و ضبط و ضبط کی برکات اگر آپ قرآن کی روح سے دیکھنا چاہیں تو سورہ نباء کا مطالعہ کریں کہ جس میں جگہ جگہ پر نظم و ضبط کے دلائل ملتے ہیں مثلا ً زمین کو بچھایا اس کی ضرورت کے مطابق اس پر آسمان کو بطور سائباں قرار دیا ۔ سورج کا اپنے وقت پر طلوع غروب ہونا ،بارشوں کا آنا فصلوں کا اگنا یہ سب نظم و ضبط کی مثالیں ہیں ۔ حضرت علی ؑ کی وصیت کے آخری جملے ہیں کہ اصیکم بتقوی اللہ و نظم امرکم[1] میں تم کو تقوی الہی کے ساتھ ساتھ اپنے امور کو منظم کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔
دیگر موجوداتِ کائنات کی طرح انسان بھی اپنے امور کو بطریقِ احسن چلانے کے لئے نظم و ضبط کا محتاج ہے۔یعنی اگر قوموں اور افراد میں نظم و ضبط ہو تو وہ آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پروردگار نے اس کائنات کو تو نظم و ضبط و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے تو آیا اس کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق انسان کہ جس کے متعلق خود خدا وند نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے کیا اس کے امور زندگی میں زبردستی نظم و ضبط کو کیوں نہیں رکھا؟
جب ہم انسانی زندگی پر تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ اللہ نے زبردستی کے بجائے نہایت احسن طریقے سے انسانی زندگی میں بھی نظم و ضبط کا انتظام کیاہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی خدا نے اس کے لئے نظام ہدایت کا انتظام کیا ہے اور اس انتظام میں بھی ایک خاص قسم کا نظم و ضبط ہے۔ مثلا حضرت آدم ؑ کو پہلا ہادی و رہبر بنا کر بھیجا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ کی صورت میں خدا نے اس نظام ہدایت کو لوگوں تک پہنچایا ہے آخر میں رسول خداﷺ کہ جو سید الانبیاء ہیں انہوں نے خدا کے اس م نظم و ضبط نظام ہدایت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی زندگی نبوت و رسالت رسول گرامی ﷺ کے بعد ختم ہو گئی ؟ اور اگر باقی ہے تو آیا خدا وند نے اپنے نظام ہدایت کو جاری رکھا؟ اگر رکھا تو وہ نظام الہی کیا ہے ؟ اور اس نظام کا بھی نظام نبوت کی طرح تعارف کرایا یا پھر اسے مجہول ہی چھوڑ دیا ؟ جیسا کہ خدا نے اپنے اس نظام کی ابتداء میں اپنے پہلے خلیفہ حضرت آدم ؑ کا فرشتوں کے سامنے تعارف کرایا تھا ۔ جو صاحبان تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں یقیناً ان کی نظروں سے اس سلسلہ ہدایت کی ایک کڑی یعنی واقعہ خم غدیر ضرور گزرا ہوگا یہی وہ میدان ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سے اس میدان میں موجود تمام اصحاب کہ جو حج کر کے واپس آرہے تھے کے سامنے نظام ولایت متعارف کرایا اور مولا علیؑ کو اس نظام ہدایت کا ہادی مقرر کیا جبکہ نظام ولایت کوئی نیا نظام نہیں بلکہ نظام نبوت کے تسلسل کا نام ہے جو آدم ؑسے لے کر حضرت خاتمﷺ تک چلا آ رہا تھا ۔کیونکہ یہ واقعہ روزروشن کی طرح واضح ہے یہاں تک کہ کسی بھی مورخ نے اس کا انکار نہیں کیا لہذا میں اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن یہاں پر ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ اس واقعے اور نظام کی اہمیت کا اندازہ ہم قرآن مجید کی ان آیات سے لگا سکتے ہیں کہ جن میں پروردگار اپنے پیار نبی ﷺ کو ان کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے رسولﷺ اگر تم نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا تم نےرسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا[2] اور پھر یہ کہنا کہ آج تمہارا دین کامل ہو گیا ہے آج کے دن نعمت تمام ہو گئی ہے اور تمام کفار مایوس ہو گئے ہیں[3] یہ تمام باتیں اس نظام کے قیامت تک باقی رہنے اور اس کی اہمیت کو بیان کرتیں ہیں ۔ آج اس نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ نظام ہدایت کہ جس سے انسان کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو خالی نہیں ہے چاہے وہ انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی اس نظام ولایت میں انسان کی زندگی کو م نظم و ضبط کرنے کے لیے اصول و ضوابط موجود ہیں آج عالم اسلام کی یہ حالت اس نظام الہی سے دوری کی وجہ سے ہے اگر شروع سے ہی اس نظام کو تسلیم کرلیا ہوتا تو آج عالم اسلام کی یہ حالت نہ ہوتی ،آج مسلمان مسلمان کو قتل نہ کرتا ،آج مسلم کی زندگی اتنی سستی نہ ہوتی ،مسلمانوں کےساتھ ایسا سلوک نہ کیا جاتا جو اس نظام ولایت و ہدایت سے ناآشنا خادمین حرمین کے پردے میں چھپے ہوئے منافق سعودی حکمران کررہے ہیں خاص کر حجاج کرام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کررہے ہیں ۔
مہمان خداکی توہین و بےحرمتی اس نظام سے دوری کا نتیجہ ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی زندگی میں الٰہی ہدایت کے نظام کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجائے اور فلسفہ غدیر کی لوگوں کو باقاعدہ تعلیم دی جائے تاکہ امت مسلمہ الٰہی ہدایت کو سمجھتےہوئے آل یہود و آل سعود کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتارنے پر تیار ہوجائے۔
آپ ایران اور حزب اللہ لبنان کو دیکھ لیں ،جنہوں نے پیغامِ غدیر کو سمجھ لیا ہے وہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر میدانِ مِنیٰ تک ہر میدان میں سرُخرو ہیں۔
تحریر۔۔۔۔سجادا حمد مستوئی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[1]وصیت امیرالمومنین ؑ در نہج البلاغہ
[2] سورہ مائدہ آیت 67
[3] ایضاً آیت 3