مائنس نون لیگ فارمولے کو تسلیم نہ کرنا ہی گلگت بلتستان میں نون لیگ کی بقاء کا ضامن بنا، ناصر عباس شیرازی

30 June 2015

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو اپنے خصوصی انٹرویو میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری امور سیاسیات سید ناصرعباس شیرازی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کا نون لیگ سمیت بیک وقت کئی جماعتوں سے مقابلہ تھا، ایم ڈبلیو ایم اس الیکشن میں ووٹوں کے حساب سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، پاکستان میں سیاسی کردار ادا کئے بغیر ریاستی امور سے متعلق کئے جانے والے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوا جاسکتا، گلگت بلتستان میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے دلوں پر حکمرانی کریں گے۔ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا، جو انہوں نے استعمال کیا۔
 

سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کو خاطر خواہ نشستیں نہ ملنے، آغا راحت کے الیکشن فارمولے کی ناکامی، مسلکی سیاست اور ملی حقوق کی بازیابی سے متعلق اہم اور تلخ سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو کیا گیا ہے، اسلام ٹائمز کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ عام افراد کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کو انٹرویو کا حصہ بنایا جائے، اس حوالے سے مخصوص فورم پر اٹھائے گئے سوالات کو بھی انٹرویو میں شامل کیا گیا ہے، جو پیش خدمت ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان انتخابات سے پہلے اور الیکشن کمپیئن کے دوران میں آپکو حاصل شدہ نتائج کی توقع تھی۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ جانتے ہوئے کہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقے ہے، جہاں عوام کو آئینی حقوق نہیں ملے اور پاکستان میں بھی انہیں مین اسٹریم میں شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں پر عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ کشمیر کی طرح جو بھی وفاق میں حاکم ہوتا ہے، وہی گلگت بلتستان میں بھی حکومت کرتا ہے اور وہی کشمیر میں بھی حاکم ہوتا ہے، طول تاریخ میں کسی حد تک یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے، یہ نظریہ کسی حد تک ابھی موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اس نظریہ کے مقابلے میں بھی اسٹینڈ لینا تھا، ظاہر ہے ہم یہاں کبھی حکومت میں نہیں رہے، حکومت میں نہ رہنے کی وجہ سے جو حکومت میں رہتے ہوئے لنکس بنتے ہیں، وسائل دستیاب ہوتے ہیں تو یہ ساری چیزیں ہمارے پاس نہیں تھیں، کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو کہتا کہ مجلس وحدت مسلمین نے انہیں نوکریاں دی ہیں جبکہ جو حکومتیں کرچکی ہیں وہ جماعتیں یہ کہتی ہوئی نظر آئیں، یہ جماعتیں نوکریوں سے لیکر احسانات کی لمبی لسٹ گنواتی تھیں، یہ علاقہ مذہبی علاقہ ہے، لیکن ہم بنام مذہب اور مسلک چیزوں کو آگے نہیں بڑھانا چاہ رہے تھے، ہم ایسی کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہے تھے کہ فلاں کو ووٹ دینا حرام ہے فلاں کو مستحب ہے، مذہب نے جو اقدار متعارف کرائی ہیں، جن میں ڈیلور کرنا، لیاقت، قابلیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور ہماری پوری الیکشن کمپیئن اس بات کی غماز ہے۔

ہم اپنے امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ان کا سابقہ کردار اور علاقے میں ان کی نیک نامی، اپنے منشور اور اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور آگے بڑھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک چیلنج تھا، کیونکہ اس سے پہلے مذہبی اور سیکولر دونوں جماعتوں کے تجربات ہوچکے ہیں اور دونوں نے عوام کو ڈیلور نہیں کیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جماعت نے پہلے آٹھ نشستیں حاصل کی تھیں، بعد میں چار پر آگئی اور اس بار ان کی سیاسی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور آج اس الیکشن میں عوام نے انہیں ٹھکرا دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ گذشتہ دو الیکشنز کے دوران کوئی مذہبی جماعت براہ راست گلگت بلتستان کے الیکشن میں وارد نہیں تھی، جو تقریباً پندرہ سال کا وقفہ بنتا ہے تو اس بار ہم پہلی دفعہ مذہبی جماعت کے ٹائٹل سے داخل ہوئے، تاہم ہماری تمام تر کوشش اپنی لیاقت، استعداد، پڑھے لکھے بے عیب امیدواروں اور اپنے منشور کی بنیاد پر جانا تھا۔ ہمیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا، اس لئے جب ہم کامیابی اور ناکامی کی بات کریں گے تو ان چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے کریں گے۔ ہمیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ ہم جس جماعت کیخلاف الیکشن لڑنے جا رہے ہیں وہ مسلم لیگ نون ہے، یعنی وفاق میں موجود جماعت کے پنجاب میں پنتیس پنکچر کے تجربات موجود ہیں، وہ ٹیکنکل دھاندلی کرنے کی ماہر ہے، یہ جماعت ٹھپوں سے زیادہ ٹیکنکل اندازہ میں دھاندلی کراتی ہے اور اس میں مہارت رکھتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ نون لیگ نے بارہ نگران وزراء تعینات کئے جو ایک تاریخ رقم کی گئی، آج تک اتنے وزراء مقرر نہیں کئے گئے، لیکن نون لیگ نے الیکشن جیتنے کیلئے تمام تر ریکارڈ توڑ ڈالے، آئینی لحاظ سے جہاں دس سیٹیں ہوں وہاں ایک وزیر تعینات کیا جاسکتا ہے، اس لئے گلگت بلتستان میں چوبیس سیٹیں تھیں تو یہاں تین وزراء کی گنجائش بنتی ہے، لیکن انہوں نے تمام جماعتوں کے تحفظات کے باوجود ان کی تعداد ہر حال میں بارہ رکھی۔ ایک وزیر کو دو حلقے دیئے گئے، تاکہ وہ وزیر نون لیگ کیلئے سیاسی اہداف حاصل کرسکے۔ اسی طرح نگران وزیراعلٰی نون لیگ کا تھا، جس پر تمام جماعتیں اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کرچکی تھیں۔ اسی طرح نون لیگ نے ایک غیر مقامی شخص کو گورنر تعینات کیا، جو اس کیلئے کام کرسکے اور ہر حال میں حکومت سازی کیلئے الیکشن پر اثر انداز ہوسکے۔ چیف سیکرٹری جس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، اسے تبدیل کر دیا گیا۔ لہٰذا ہمیں اندازہ تھا کہ ہمارا حکومتی وسائل اور نون لیگ کی دھاندلی کیخلاف الیکشن ہے، سب جانتے ہیں کہ الیکشن سے چند دن پہلے وزیراعظم نے وہاں کا دورہ کیا اور اربوں روپے کے پروجیکٹس کا اعلان کیا، یہ بنیادی طور پر ایک رشوت تھی جس کا اعلان کیا گیا، یہ فقط الیکشن کی تاریخ سے دو دن پہلے اعلان کیا گیا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ اس سارے منظر نامے میں مجلس وحدت مسلمین ایک نئی سیاسی مذہبی جماعت تھی، جس نے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی حساب سے ہم نے توقعات رکھی ہوئی تھیں، ہم نے نون لیگ کے مقابلے میں اپنے پیغام، خدمات اور اپنے منشور کے حساب سے توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں، ہمیں معلوم تھا کہ جتنی اچھی ٹیم متعارف کرائیں گے، اتنا ہی اچھا رزلٹ ملے گا۔ ہماری توقعات تھیں کہ ہمیں چار سے چھ سیٹیں مل جائیں گی۔

جب ہماری الیکشن کمپیئن اپنے عروج پر پہنچی تو اس کا غیروں نے بھی اعتراف کیا کہ اگر کسی کی الیکشن کمپئین منظم انداز میں چلی ہے تو وہ مجلس وحدت کی ہے۔ جس انداز میں ہم نے اپنی ٹیم اتاری، جس انداز میں اپنے منشور کو بیان کیا، جس انداز میں اپنے پیغام کو لوگوں تک منتقل کیا، انٹرویوز ہوئے اس سے ہماری اور قوم کی توقعات بڑھیں، یہ یاد رکھیں کہ جب میڈیا میں جنگ چل رہی ہوتی ہے تو کہیں بھی یہ بیان نہیں کیا جاتا ہمیں چار یا چھے سیٹیں ملیں گے، کیونکہ ہم خطے کی جنگ لڑ رہے تھے، اس لئے ہم نے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہم اتنی سیٹیں لے لیں گے۔ نہ ہی اس طرح کی چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری توقعات مشروط تھیں، بعض جماعتوں نے جس انداز میں اپنی الیکشن کمپین چلائی ہے، وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ ہیلی کاپٹرز استعمال میں لائے گئے، میڈیا کی لائیو کوریج والی ڈی ایس جیز منگوائی گئیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں میں پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، یہ چیزیں ہمارے لئے ممکن نہیں تھا۔ اپنی گلگت بلتستان الیکشن میں پہلی انٹری کی بنیاد پر ہم دوسری بڑی جماعت ٹھہرے ہیں، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، ہم گلگت بلتستان کے طول عرض میں چلے گئے ہیں، ہر جگہ پر ہمارا نیٹ ورک بن گیا ہے، اسٹرکچر کھڑا ہوگیا ہے، پیغام چلا گیا ہے، جن پانچ سیٹوں کی امید تھی ان میں سے ایک سیٹ پر ہمیں فقط نو ووٹوں سے ہرایا گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ روندو کی سیٹ پر دوبارہ گنتی نہیں ہونے دی گئی جبکہ کئی حلقوں میں ایک نہیں چار چار بار گنتی کرائی گئی۔ خود تحریک انصاف کے امیدوار کو دوبارہ گنتی کرکے ایک ووٹ سے ہرایا گیا اور اکبر تابان کو جتوایا گیا۔ ہمارا اس طرح کی ریاستی مشینری سے مقابلہ تھا، حتٰی حلقہ 3 میں بھی ہمارے ساتھ یہی صورتحال کی گئی۔ میری توقعات کے مطابق ہمیں دو سیٹیں مزید ملنی چاہیے تھیں، جو ریاستی مشینری استعمال کرکے نہیں جیتنے دی گئیں۔ ایک سیٹ پر ہمیں نو ووٹوں سے اور ایک پر ہمیں دو یا اڑھائی سو ووٹوں سے ہرایا گیا ہے، لیکن ہمارے دوبارے گنتی کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا، ہم نے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کمپین پر کتنی رقم خرچ کی گئی، کیا اس خرچ کی گئی رقم کے مطابق اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈے کئے گئے ہیں، لیکن میں آپ کو بتاوں کہ اگر کسی جماعت نے سب سے کم انویسٹمنٹ کی ہے تو وہ مجلس وحدت مسلمین ہے۔ چند مثالیں دوں گا، نون لیگ نے پوری ریاستی مشینری کا استعمال کیا ہے، جس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلزپارٹی نے دو ہیلی کاپٹر استعمال کئے، مرکز کی سطح پر پیپلزپارٹی کی بڑی ٹیم اس الیکشن میں اتاری گئی اور مرکز کی طرف سے تمام الیکشن کمپین کو آرگنائز کیا گیا، مرکزی ٹیم میں پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ نئیر حسین بخاری، قمر زمان کائرہ، سید خورشید شاہ، سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا، ندیم افضل چن سمیت کئی دیگر افراد کو مرکز کی طرف سے بھجوایا گیا، جنہوں نے بھرپور انداز میں الیکشن کمپین چلائی۔ آپ دیکھیں کہ ایک ہیلی کاپٹر فی گھنٹہ چار سے پانچ لاکھ روپے چارج کرتا ہے اور دو ہیلی کاپٹر چوبیس گھنٹے کئی دنوں تک پی پی پی کی الیکشن کمپین ٹیم کے پاس رہے۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی سابقہ حکومت میں رہی ہے اور ان کے سابقہ تجربات بھی رہے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان تحریک انصاف کی بات کریں تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے پاس بھی ہیلی کاپٹر رہا، جتنے اجتماعات ہوئے ان میں ہیلیز کے ذریعے شرکت کی گئی، حتٰی تحریک انصاف میڈیا کی ٹیمیں لیکر آئی، ان کی لائیو نشریات نشر کرنے والی ڈی ایس این جی تک الیکشن میں اتاری گئیں اور تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا کو رہائش سے لیکر ہر طرح کی سہولت دی گئی۔ اس طرح ایک مذہبی جماعت نے گلگت بلتستان میں جی بی کے نام سے ٹی وی چینل نکالا۔ آپ کو پتہ ہے ٹی وی چینل ایک بہترین ٹول ہے جس کے ذریعے سے آپ پروپیگنڈہ کرسکتے ہیں اور اپنی بات لوگوں تک باآسانی منتقل کرسکتے ہیں، ہماری طرف سے چند سیکنڈز پر مشتمل فقط اشتہارات دیئے گئے، یا اخبارات میں اشتہارات چھپوائے گئے جبکہ دوسری طرف مذکورہ باتوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ ٹی وی چینل فقط اسی سیاسی اہداف کے لئے لگایا گیا، اس کے مقابل میں مجلس وحدت کا فنانشنل تقابل بنتا ہی نہیں ہے، ہمارے کیخلاف پروپیگنڈہ اس لئے زیادہ کیا گیا ہے کیونکہ ہمارا ہیومن ریسورس زیادہ استعمال ہوا ہے، اس لئے نون لیگ یا سابقہ حکومت کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی کیلئے مسئلہ مجلس وحدت تھی، سب کو چیلنج دیا ہوا تھا اور سب کی توپوں کا رخ بھی مجلس وحدت مسلمین ہی کی طرف تھا، اور ظاہر ہے کہ ہم نے ان سب کو چیلنج کیا ہوا تھا، اس لئے یہ پروپیگنڈا فطری تھا۔ آپ دیکھیں کہ مجلس وحدت مسلمین واحد جماعت تھی جس کی تمام لیڈرشپ بائی روڈ گئی ہے اور آئی ہے۔ علامہ ناصر عباس اور علامہ امین شہیدی تک لوگ بائی روڈ واپس آئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اتحادی صاحبزادہ حامد رضا بھی بائی روڈ آئے ہیں اور گئے ہیں، انہیں بائی ائیر سفر نہیں کرایا گیا۔ اسی طرح ہم نے جو ٹیم پولیٹکل ایجنٹس کی تربیت کیلئے منگوائی تھی، وہ بھی بائی روڈ آئی اور گئی ہے۔ مرکزی کابینہ سے لیکر مہمانان گرامی تک تقریباً 99 فی صد لوگ بائی روڈ آئے اور گئے ہیں، اِکا دُکا افراد کو چھوڑ کر۔ ہماری پوری ٹیم سوائے مہمانان گرامی کے سب کسی نہ کسی تنظیمی دوست کے گھر ٹھہرے ہیں یا انہیں ایک مکان مینیج کرکے رہائش کا بندہ بست کیا گیا ہے، ہماری ٹیم کے لوگ فرشوں پر سوتے رہے ہیں، سوائے چند مہمانان کہ جیسے حامد رضا اور تربیتی ٹیم کے سب دوستوں کے، ہمارے دفاتر اور دوستوں کے گھر رہائش کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، جس کی گواہی وہاں کے لوگ بھی دیں گے، اس حوالے سے کوئی لگژری اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔

ہمارے جتنے بھی دوست باہر سے آئے تھے، انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اپنی گاڑیاں ہمراہ لائیں گے۔ ہم نے اس طرح سے چیزوں کو مینج کیا ہے، کیونکہ ہماری موومنٹ بڑی تھی، اس کا سکیل بڑا تھا، موومنٹ کا انداز اچھا تھا، اس کے والیم کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی عوامی موومنٹ تھی۔ لیکن یہاں واضح کر دوں کہ یہ ساری موومنٹ رضاکارانہ تھی، لوگ اپنی گاڑیاں لیکر شریک ہوئے۔ ایک مثال دوں گا کہ اسکردو میں علامہ ناصر عباس جعفری کے استقبال میں آنے والی ریلی میں کسی ایک بندے کو ایک لیٹر تک پیٹرول نہیں دیا گیا، نہ ہی کسی کو گاڑی فراہم کی گئی، یہ عوام کی محبت تھی، ان کا جذبہ تھا اور مجلس کی قیادت کیساتھ والہانہ عشق تھا۔ لہٰذا اس سائز کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ پیسوں کی بنیاد پر ایسا تھا تو ایسا نہیں تھا۔ ہم نے تمام صوبوں کے دفاتر کے فنڈز کو منجمد کرکے اور تمام سرگرمیوں کو ترک کرکے الیکشن کمپین چلائی، ہم نے واجبی چیزیں کی تھی جس میں عوام کی شرکت بہت زیادہ تھی، عوام کا جوش بہت زیادہ تھا، اس لئے لوگوں کو یہ تاثر ملا جیسے یہ سب پیسے کی بنیاد پر ہو رہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پانچ پانچ ہزار روپے کے عوض ووٹ کی بولی لگائی، جس کے ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔ ظاہر ہے ہمارے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے، اگر ہوتے بھی تو ہم ایسا کام کبھی نہ کرتے، کیونکہ ہماری جنگ ہی اس چیز کیخلاف تھی۔ مجلس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے پیسے اور وسائل کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا، اس کے باوجود مجلس وحدت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ معجزہ ہے، اس لئے یہ تقابل نہیں بنتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے عوامی خدمات جاری رکھیں تو عوام پر اپنا اعتماد بحال رکھیں گے اور آئندہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھریں گے۔ اس وقت ووٹوں کی تعداد کو سامنے کر رکھا جائے تو مجلس وحدت گلگت بلتستان میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ پچھلے سوال کے جواب میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخراجات کے تناظر میں کامیابی کا سائز بہت بڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات سے کیا نتائج اخذ ہوئے، یعنی عوام کی فکری سطح، مذہبی جماعتوں کا عوام میں رسوخ، آئندہ کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار وغیرہ۔ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ جسے ہم مفروضہ سمجھتے تھے وہ حقیقت ثابت ہوا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان کے الیکشن میں عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، یہ عمل دخل کم ہوجائیگا اگر کبھی گلگت بلتستان الیکشن بھی پاکستان میں ہونے والے عام الیکشن کے دنوں میں ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے مذہب کو رد کیا ہے، گذشتہ دس پندرہ سال سے شیعہ جماعتیں گلگت بلتسان میں ایکٹو نہیں رہیں، اس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا تو ان سیاسی جماعتوں نے اس خلا کو پُر کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے آکر دوبارہ لوگوں کو مذہب اور مذہبی جماعت کے طرف رجوع کرایا ہے اور یہ ایک تبدیلی لائی ہے۔ اگر گذشتہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے پاس ایک بھی سیٹ نہیں تھی اور اس الیکشن میں ان کے پاس چار سیٹیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں واپس اپنے مقام کی طرف آرہی ہیں اور لوگوں نے مذہب کی طرف اپنے لگاو کا اظہار کیا ہے۔ اگر منتخب افراد نے خدمت کی تو یہ عامل مزید پختہ ہوگا اور لوگ مذہبی جماعتوں سے انس رکھیں گے اور ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے یہ دیکھا ہے کہ خدمت کی یا نہیں، اگر خدمات نہیں کی تو لوگوں نے پیپلزپارٹی کو بھی رد کر دیا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھیں کہ مذہب کا عنصر اتنا گہرا ہے کہ مسلم لیگ نون کے امیدوار بھی اپنے انتخابی پوسٹرز پر رہبر معظم کی تصاویر لگانے پر مجبور ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں نے مذہب کو رد نہیں کیا۔ مذہبی عنصر اپنی جگہ قائم ہے، اگر مذہبی جماعتیں وہاں اچھا اور بہتر رول ادا کریں گی تو اس سے نہ صرف ان کا اپنا چہرہ اچھا ہوگا بلکہ مذہب کی خوبصورت تصویر سامنے آئیگی۔ لوگوں کو پتہ چلے گا کہ مذہبی لوگ ڈیلور کرسکتے ہیں، جس طرح بلوچستان اسمبلی میں ہمارے آغا رضا نے ایک ممبر ہونے کے باوجود کئی ایسے کام کئے ہیں جس پر وہ لائق تحسین ہیں۔ ایوان میں بہت ساری تبدیلی لیکر آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں 2013ء اور اب گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کو کیا بنیادی اقدامات کرنے چاہیں کہ وہ مین اسٹریم جماعتوں میں وارد ہوسکے اور عوام کا اعتماد حاصل کرسکے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں پہلے تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی جماعت جب ایک پراسس میں جاتی ہے تو اس سے کچھ نہ کچھ غلطیاں، کوتاہیاں اور کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اچھی مینجمنٹ کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ کوتاہیوں کو کم کرکے جو اچھے اقدامات ہوئے ہوتے ہیں انہیں آگے بڑھایا جائے۔ دو ہزارہ تیرہ کے الیکشن میں ہم سے پہلے عمومی تاثر یہ پیدا کر دیا گیا تھا کہ پاکستان میں فقہ جعفریہ کا سروائیول یا تو نون لیگ میں ہے یا پھر پیپلزپارٹی کے اندر، یا دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر، اس کے نتیجے میں لوگ اپنی شناخت اور حمیت کھو بیٹھے تھے۔ ایسے میں ہم نے لوگوں کو شناخت بھی دی اور حمیت کا حساس بھی دلایا۔ ایک ایسی فضا میں جب مذہبی شناخت والی جماعتیں لوگوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف رجوع کرا رہی تھیں، ایسی صورت میں مجلس وحدت نے پرچم بلند کرکے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، ہم اپنے سیاسی سفر کے نتیجے میں سیاسی اہداف حاصل کریں گے۔ اگر تقابل کریں کہ عمران خان جس کی ایک کرکٹر کے شناخت تھی وہ سیاست میں آتا ہے، اچھے خاصے وسائل صرف کرتا ہے لیکن اسے پہلے الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں ملتی، پانچ سال بعد دوسرا الیکشن لڑے تو وہ بھی فقط ذاتی سیٹ لینے میں کامیاب ہوئے، اب 20سال بعد وہ اس سفر پر پہنچے ہیں۔

مجلس وحدت کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ پہلی بار کھڑی ہوئی تو ایک سیٹ حاصل کی، بعض سیٹوں پر رنر اپ رہی رہی اور بعض پر اچھا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح گلگت بلتستان الیکشن میں ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ تھا جن کے پاس سرکاری وسائل تھے، جن کی صوبوں اور مرکز میں حکومتیں تھیں، اوپر مذکورہ تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سیٹیں نکالنا بھی ایک کامیابی ہے اور ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں جن کوتاہیوں کا احساس ہوا ہے، اگر ہم نے انہیں دور کرلیا تو انشاءاللہ پاکستان میں فیصلہ کرنے والی جگہوں پر ہمارا رول نظر آئیگا اور ہمارا وہاں نقش موجود ہوگا۔ جب ہم نے شروع میں الیکشن میں وارد ہوئے تھے تو ہم اچھے الکٹیبلز نہیں دے پائے تھے، اب اچھی تعداد سامنے لیکر آئے ہیں، ان علاقوں میں اب ہمیں یونین کونسل کی سطح تک تنظیم کو لیکر جانا پڑیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یونین کونسل سطح سے لیکر اوپر تک تنظیمی ڈھانچہ ہوگا تو ہم ملکی سطح پر کوئی سیاسی کردار ادا کرسکیں گے۔ اب ہمیں سیاسی انداز بھی اختیار کرنا ہوگا، میرا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات مذہبی جماعتیں فقط مذہبی امور پر اسٹینڈ لیتی ہیں، لہٰذا اب ہم معاشرے میں ہونے والے ہر ظلم پر  آواز اٹھائیں گے، ہر معاشرتی معاملے پر آواز اٹھائیں گے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ہم نے یمن کے معاملے پر میڈیا سے لیکر ہر محاذ پر سیاسی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فوج کو یمن جنگ کا حصہ بننے سے روک دیا گیا، یہ ایک فیصلہ کن کردار ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مذہبی یا مسلکی عنوان سے سیاست کرنے میں کیا دشواریاں حائل ہیں، ان کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے، مذہبی یا مسلکی گروہ ملکی سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس کو عمومی کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان جس کی اساس مذہب ہے اور مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ملک حاصل کیا گیا، شروع سے لیکر اب تک پاکستان میں مذہبی جماعتیں اسٹیک ہولڈر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں عوام تک کچھ ڈیلور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، جیسے جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کا ایک بڑا رول رہا ہے، جب وہ اپنا رول ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہیں تو اس خلا کو دیگر جماعتوں نے پر کیا ہے، لیکن پھر بھی ان کا رول اور نقش نظر آتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے کہ ہمیں کیوں مسلکی سیاسی رول ادا کرنا چاہیے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے گذشتہ پندرہ بیس سال میں کوئی مذہبی و مکتبی سیاست نہیں کی اور یہ میدان خالی چھوڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران ہمارا سیاسی کردار نہیں رہا، ہم کسی نہ کسی سیاسی جماعت کیساتھ ملکر سیاسی کردار ادا کر رہے تھے، حتٰی تشیع سے مربوط امور تھے یا ملک سے متعلق امور وہ تشنہ تھے، ہمارا استحصال بڑھتا جا رہا تھا۔ میں مثالیں پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومتی سرپرستی میں طالبان کو پالا گیا، فارن پالیسی میں واضح تبدیلیاں کی گئیں، دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کا عنصر غالب آنا شروع ہوگیا، پھر یہی عنصر پاکستان کو لگنا شروع ہوگیا، ریاست پر حملے ہونا شروع ہوگئے، اس دوران دو چیزوں کو خطرہ لاحق ہوگیا، پاکستان بطور وطن اور دوسرا مکتب اہل بیت ؑ کے لوگوں کو خطرہ درپیش ہوگیا، ان لوگوں کو ایک خاص سوچ کے تحت پالا گیا تھا اور وہ سوچ تکفیر پر مرتکز ہوئی، اس چیز کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست میں حصہ لیا جائے اور ان چیزوں کو وہاں سے روکا جائے، جہاں تکفیری بنانے اور طالبان بنانے کے فیصلے کئے جاتے ہیں، وہاں پر ہونے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جائے، اب ظاہر ہے یہ سارا عمل سیاسی عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ جب آپ سیاست میں جاتے ہیں تو پھر براہ راست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے مجلس وحدت مسلمین کو کرنا پڑ رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم جہاں اپنے مکتب کا استحصال نہ ہونے دیں وہی دیگر مکاتب فکر کا استحصال بھی نہ ہونے دیں، یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہوگی، لیکن جب آپ کی کوئی سیاسی شناخت ہی نہیں ہوگی تو آپ کیسے کسی دوسرے مظلوم کے سر پر دست شفقت رکھ سکیں گے۔

سیاسی طاقت بنے بغیر کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں، خاص طور پر وہاں، جہاں ریاست سے متعلق فیصلے ہوتے ہوں۔ لہٰذا یہ کام کرنا ہوگا، سیاسی طاقت بننا ہوگا، یہ قائد شہید کی دلی آرزو تھی کہ ہم اتنے طاقتور ہوں کہ ریاستی فیصلے ہماری مرضی و منشا کے بغیر نہ ہوسکیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں تو آپ کے راستے میں مخالف جماعت کھڑی کر دی جاتی ہے جو تکفیر کی قائل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ہم امت کی وحدت کے قائل ہیں، تمام سنی جماعتوں کو جمع کیا ہے، اکٹھے اجتماعات کئے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا کا خود ہماری الیکشن کمپین میں آنا ثابت کرتا ہے کہ کس حد تک کام ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فرقہ پرست نہیں ہیں، اسی لئے سیاسی سطح پر شیعہ سنی وحدت کیلئے کام کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم نے سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں، جیسے طالبان کیخلاف ایک محاذ بنانا، یمن کا معاملہ اور دیگر امور۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی پنجاب میں ایک سیٹ سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر پاتی، مولانا فضل الرحمان کی جماعت پنجاب میں ایک سیٹ تک حاصل نہیں کرسکتی، لیکن وہ اہم فیصلہ جات میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا اپنا ایریا ڈیلوپ ہے، خاص جگہوں پر کام کیا ہے، آج وہ سیاسی قوت ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی حَب بنا لیا ہے، لیکن افسوس کہ ابھی تک ہم نے کوئی اپنا سیاسی حَب نہیں بنایا۔ جب ہم ایسا کرلیں گے تو ہم بھی اس طرح مین اسٹریم پولیٹکس میں آجائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی پورے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، خواہ کم ووٹ ہی کیوں نہ پڑیں، ان کا سیاسی کردار پورے ملک میں ہوتا ہے۔ ہم نے دو صوبوں میں اپنی سیاسی شناخت بنا لی ہے، انشاءاللہ آئندہ دیگر صوبوں میں بھی آپ کو سیاسی رول ہوتا نظر آئیگا۔ اگر ہم ہر صوبے میں اپنا سیاسی حَب بنا لیں تو ہم بھی اہم فیصلوں میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہر راستے میں دشواریاں ضرور ہیں، لیکن ہر مشکل کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پاکستان کے دوستوں کا خیال ہے کہ گلگت کی تین سیٹیں نون لیگ کو مجلس وحدت مسلمین کی وجہ سے ملی ہیں، آغا راحت کے فیصلے یا فارمولے کو مان لیا جاتا تو نون لیگ گلگت سے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکتی تھی۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلی بات یہ ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہماری وجہ سے یہ سیٹیں نون لیگ کو ملی ہیں، وہ لوگ تو مائنس نون لیگ کے فارمولے کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اس کے تمام شواہد موجود ہیں۔ وہ ملاقات جس میں آغا راحت موجود تھے، علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ ناصر عباس جعفری، پیپلزپارٹی کی جانب سے ندیم افضل چن، فیصل رضا عابدی، صاحبزادہ حامد رضا بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس ملاقات میں مائنس نون لیگ کو تسلیم نہ کرنا ہی ہے نون لیگ کی گلگت بلتستان میں بقاء کا ضامن بنا ہے۔ اس ملاقات میں بندہ حقیر بھی موجود تھا، وہاں حلقہ نمبر 2 کے لئے باقاعدہ طور پر طے پایا اور مجلس وحدت مسلمین آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوگئی۔ ہم نے واضح کہا ہے کہ ہم کسی جماعت کے حق میں نہیں بلکہ آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوئے ہیں۔ آغا راحت کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد جب آپ باہر نکلیں گے تو یہ بات کہیں گے کہ ابھی معاملات چل رہے ہیں اور گفت شنید کا سلسلہ جاری ہے، تاکہ دشمن کو پیغام جائے کہ یہ حلقہ دو کے حوالے سے متحد نہیں ہوئے، ورنہ خود دشمن متحد ہو جائیگا۔ لہذا اس حکمت عملی کے تحت یہ اختیار آغا راحت کو دے دیا گیا تھا کہ وہ جب چاہئیں اس کا اعلان کر دیں۔ آغا راحت بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کے اختیار میں تھا کہ وہ جب چاہیں گئے مناسب وقت پر اس کا اعلان کردیں گے، لیکن یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ حلقہ 2 میں سب کے دستبردار ہونے کے باوجود سیٹ نون لیگ لے گئی ہے۔

حلقہ نمبر 1 میں ہم نے پہلے دن سے نشاندہی کی تھی کہ نومل سے کھڑا ہونے والا امیدوار بنیادی طور پر مسلم لیگ نون نے کھڑا کیا ہے، وہ آزاد حیثیت سے کھڑا تھا اس لئے ہمیں مل کر اس کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تھا اور اس پر اگر اچھا رول پلے کیا جاتا تو نومل کے ان صاحب کو ووٹ نہیں ملتے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی الیکشن ختم ہوا تو اس کے فوراً بعد حفیظ الرحمن پہلے وہاں گئے اور اس کے بعد جعفراللہ نومل آئے اور باقاعدہ طور پر سید نظام الدین نے نون لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ یہ آزاد میدوار تھے جسے نون لیگ نے کھڑا کیا ہوا تھا، اگر نظام الدین کھڑا نہ ہوتا تو یہ سیٹ ہر حال میں مکتب اہل بیت کے پاس جانی تھی۔ اس نشست پر شکست کا سبب نظام الدین بنے۔ نظام الدین کو آغا راحت نے کہا تھا لیکن وہ ان کے کہنے پر دستبردار نہیں ہوئے۔ آغا راحت نے حلقہ نمبر 2 میں مجلس وحدت مسلمین کے مضبوط امیدوار کے دستبردار ہونے کے بعد حلقہ نمبر 1 سے امجد ایڈووکیٹ جو کہ پی پی پی کے امیدوار تھے ان کے گھر گئے، یہ بات خود آغا راحت سے کنفرم کی جاسکتی ہے، لیکن امجد ایڈووکیٹ نے آغا راحت کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حتٰی آغا راحت نے امجد ایڈووکیٹ کو ٹیکنو کریٹ کی سیٹ تک دینے کی آفر کی لیکن وہ نہیں مانے۔ دوسرا ایک بنیادی اصول بھی ہے کہ اگر ایک سیٹ پر آپ کو فیور مل گئی ہے تو دوسری سیٹ پر آپ نے فیور دینی ہے، اگر مجلس کو فیور مل جاتی تو یہ سیٹ نکل آتی۔ حلقہ دو میں نظام الدین اور حلقہ ون میں امجد ایڈووکیٹ رکاوٹ کا باعث بنے۔

اسلام ٹائمز: آغا راحت الحسینی نے کیا فارمولا دیا تھا؟
ناصر عباس شیرازی: آغا راحت الحسینی نے جو فارمولا دیا تھا، وہ یہ ہے کہ حلقہ نمبر 1 سے صرف پیپلز پارٹی دستبردار ہو، حلقہ نمبر 2 سے MWM دستبردار ہو اور حلقہ نمبر 3 سے اسلامی تحریک کے امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ عملی طور پر پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے کسی امیدوار کو بیٹھا دے۔ یوں اس فارمولے کی ناکامی میں پیپلزپارٹی کا بھی ہاتھ تھا۔ اس طرح حلقہ نمبر 3 کی بھی میں بات کرنا چاہوں گا کہ اس حلقہ کی شخصیت کپٹن ریٹائرڈ شفیع اسلامی تحریک کے امیدوار تھے، وہ آخری لمحے تک مجلس وحدت کے امیدوار بننا چاہ رہے تھے، آخری لمحہ میں خود ان کی ٹیم میرے پاس موجود تھی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں ٹکٹ دے دیں تو ہم ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کرلیں گے، لیکن چونکہ مشکل یہ تھی کہ انہوں نے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر اپنی موومنٹ کا آغاز کیا تھا، جو دین کے اوپر ایک کاری ضرب تھی اور وہ اس روش کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت پسندانہ طور پر ان چیزوں کا جائزہ لینا چاہیئے، بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی ہٹ دھرمی اور نون لیگ کی اس پلاننگ کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے شیعہ قلب کے اندر اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے، ہماری حکمت عملی کی ناکامی کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب ملکر بھی نظام الدین جیسے بندے کو نہ بٹھا سکے، مجلس وحدت مسلمین کو اس کا سبب قرار دینا سراسر زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جی بی پر شیعہ جماعتوں کا اگر آڈٹ کرایا جائے تو کیا آپ تعاون کریں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلے تو میں عرض کروں گا کہ مجلس وحدت مسلمین کے تمام شعبوں کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی شعبے کا ماہانہ آڈٹ ہوتا ہے، سہہ ماہی اور سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے، پروجیکٹ بیس آڈٹ بھی ہوتا ہے اور وہ ماہر آڈیٹر کی نگرانی میں ہوتا ہے، جس کی باقاعدہ رپورٹ مرتب ہوتی ہے۔ ایک چیز واضح کر دوں کہ ایم ڈبلیو ایم کا فنانس ڈیپارٹمنٹ اس وقت تک حرکت میں نہیں آتا جب تک اسے گذشہ ماہ کی رپورٹ جمع نہ کرائی جائے۔ الحمدللہ احتساب کا نظام موجود ہے اور شفافیت کے بنیاد پر آڈٹ کیا جاتا ہے۔ تمام ادارے اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر مجلس وحدت مسلمیں کے ادارے مناسب سمجھیں تو آڈٹ رپورٹ بھی پبلک کی جاسکتی ہیں، اگر کسی نے آڈٹ کرنا ہے یا چیک کرنا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی کے ضمنی الیکشن میں آپکی جماعت نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا، بدلے میں آپکو گلگت بلتستان میں بھی کوئی حمایت ملی۔؟
ناصر عباس شیرازی: کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ وہاں کے رہنماوں نے کیا تھا، یہ فیصلہ کراچی کے پانچوں اضلاع کا متفقہ فیصلہ تھا، اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، اس میں سیاسی شعبے نے اضلاع اور صوبوں کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی صورتحال دیکھ کر فیصلہ کریں، اگر کہیں کوئی مشکل ہو تو اضلاع یا صوبے کو اس فیصلے سے متعلق تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے لوکل فیصلے کی ہم نے توثیق کی تھی، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ اس سیاسی جماعت کیخلاف تھا، جس کے ہاتھ مکتب اہل بیت کے بیٹوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ دراصل ان کیخلاف اظہار برات تھا۔ کراچی کے فیصلے کا گلگت بلتستان کے الیکشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تحریک انصاف کیساتھ ہماری کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں تھی، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے دو سے تین امیدوار ہمارے حق میں دستبردار ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے جی بی الیکشن کیلئے اپنے کام کا آغاز کب کیا، دوسرا وہ کیا فلاحی و سیاسی اقدامات تھے جنکی بنیاد پر اس الیکشن میں آپ کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، اس موضوع پر کلیئر ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کبھی خطے میں حاکم جماعت نہیں رہی اور یہ بھی کلیئر ہے کہ پورے پاکستان کے کسی علاقے میں حکومت ہمارے پاس نہیں رہی۔ لٰہذا مجلس وحدت مسلمین کے پاس وہ وسائل اور ساری چیزیں اس خطے کے اندر موجود نہیں تھیں، جس کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت اپنی انٹری ڈالتی ہے، لیکن ہماری جماعت کے پاس اپنی خدمات کی ایک لسٹ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی سفر کو مکمل طور پر دو سال اور کچھ ماہ ہوئے ہیں، جبکہ عملی طور پر الیکشن 2013ء کے الیکشن میں ہم پہلی بار آئے تھے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں گلگت بلتستان کے ہر اہم مسئلہ پر ہم وہاں کے عوام کی آواز بنے ہیں، لالوسر کا مسئلہ ہو یا چلاس کا سانحہ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوں یا گندم سبسڈی کا مسئلہ، آپ کو ایم ڈبلیو ایم کی موجودگی نظر آئیگی، ہم نے عوامی مسائل پر اسٹینڈ لیا اور مظلوموں کی آواز کو میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ حتٰی پورے ملک سمیت پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتہ تک دھرنے دیئے بیٹھے رہے اور احتجاجی کیمپ لگائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو پیغام دیا کہ آپ کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے، اس آواز کو ہم نے دنیا بھر تک پہنچایا۔ انہیں ہم نے احساس تنہائی سے نکالا، ہمارے یہ وہ کام تھے جس کی بنیاد پر ہم گلگت بلتستان میں وارد ہوئے اور وہاں کے عوام نے ہم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ووٹوں کے لحاظ سے ہم دوسری بڑی جماعت ہیں۔ یہ ہماری ہی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، جس کے بعد باقی جماعتیں بھی اس ایشو پر بولی ہیں۔ ہم نے گلگت بلتستان کی آئینی شناخت کیلئے مشترکہ منشور پر دستخط کرائے ہیں، جس میں پاکستان مسلم لیگ قاف، پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور بعض دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

جمیعت علماء پاکستان کیساتھ اتحاد ہو یا ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت یا عمران خان کیساتھ بیٹھے ہیں، ہر جگہ گلگت بلتستان کے عوام کو یاد کیا ہے اور ان جماعتوں سے ان کے لئے آواز بلند کرائی ہے۔ ہم ان کیلئے پارلیمنٹ میں نمائندگی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، آپ ہمارے ماضی کے مشترکہ جلسوں کی تقاریر اٹھا کر دیکھیں کہ ہم نے کہاں کہاں اور کیسے آواز بلند کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ طالبانائزیشن اور طالبان سے مذاکرات کے خلاف گلگت میں سب سے پہلا جو بڑا عوامی پروگرام کرایا، جس کے مقابلے میں آج تک کوئی مذہبی و سیاسی جماعت نہیں کرسکی، عوام میں شعور بیدار کیا، اسی طرح بلتستان میں تاریخی پروگرام کرایا، ہم سمجھتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کی صحیح خدمت ہماری جماعت کرسکتی ہے، ہم ان کے مسائل سے خوب آشناء ہیں، ہماری جماعت کی ہی قیادت ایک ماہ سے زائد گلگت بلتستان میں موجود رہی، ہم سے بڑھ کو ان کے مسائل کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے پورے پاکستان میں ملت کے مسائل کے حق کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور انشاءاللہ کرتے رہیں گے۔ شکارپور سے لیکر کوئٹہ اور کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک ہر مشکل کی گھڑی میں اگر کوئی جماعت اپنی ملت کسیاتھ کھڑی رہی ہے تو وہ مجلس وحدت ہے۔ اس وقت بھی ہمارے کئی برادران جیل میں قید ہیں، جنہیں گلت میں فقط مظلوموں کے حق میں ریلی نکالنے پر سیاسی کیسز بنا دیئے گئے، برادر عارف قمبری ابھی بھی جیل میں ہیں۔ ان کیسز کا مقصد فقط ہماری فعالیت کو روکنا تھا۔ ہمارے فلاحی شعبے نے فلاحی میدان میں اپنی توان سے بڑھ کر کام کیا ہے، تقریباً ان دو برسوں میں ہم گلگت بلتستان میں پانچ کروڑ روپے سے زائد کے منصوبے مکمل کرچکے ہیں، جن میں ایتام، پانی کے مسائل، ڈسپنسری اور اسپتال کے قیام اور مساجد کا قیام شامل ہے۔ حتٰی عطا آباد جھیل کے متاثرین کیلئے رہائشی کالونی تک بنائی ہے۔ اس کے علاوہ کئی پروجیکٹ ہیں جو چل رہے ہیں، اسکردو میں بچوں کا اسپتال بنوا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بغیر حکومت میں رہتے ہوئے کئے ہیں، ہم خدمت کو اپنا شعار سمجھتے ہیں اور یہ کام کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: سیاسی محاذ آرائی میں آپ لوگوں کی توجہ ان معاملات سے کیوں ہٹ گئی، جس کی وجہ سے آپ نے شہرت پائی تھی۔ جیسے دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کرنا۔؟
ناصر عباس شیرازی: وہ مسائل جن پر مجلس وحدت مسلمین نے شہرت حاصل کی اور عوام میں مقبول ہوئی، اس پر ہماری جماعت نے شہرت کی خاطر نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی رضا اور عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے اپنا شرعی وظفیہ انجام دیا۔ ہماری طرف سے ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انہی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور عوام کے ایشوز سے غافل نہ رہیں، ممکن ہے کہ کہیں سہواً کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو۔ ایک چیز پر غور کریں جب گلگت بلتستان الیکشن کا بھی اعلان کر دیا گیا ہو، بلدیاتی الیکشن بھی سر پر ہوں، اس کے باوجود گذشتہ چند ماہ میں جتنے بھی اہم واقعات ہوئے ہیں، اس میں ایم ڈبلیو ایم صف اول میں رہی ہے۔ اب اگر آپ نے تقابل کرنا ہے تو پھر چارٹ بنائیں اور ان واقعات کی روشنی میں مجلس وحدت کا کردار دیکھیں اور دوسروں سے تقابل کریں۔ سانحہ شکار پر مجلس وحدت کا کردار، اسی طرح دیگر واقعات ہیں۔ شکارپور واقعہ پر پہلی بار تمام جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی شٹرڈوان ہڑتال کی کال کی حمایت کی اور پورا سندھ بند ہوگیا، ہم نے تاریخی لانگ مارچ کیا، جس میں تمام جماعتوں نے حمایت کی اور مظلوموں کی آواز کو بلند کیا۔ شہداء کمیٹی بنائی، جس نے شہداء کے خاندانوں کے دکھوں کا مدوا کیا۔ شکار سانحہ کیخلاف احتجاج میں ایم ڈبلیو ایم کی پوری قیادت شامل ہوئی ہے، اس کو عوامی سطح پر لیکر آئی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کے واقعات ہوئے، اس میں مجلس وحدت کا کردار واضح ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیئے کہ جس بھی ایشو پر آپ سیٹنڈ لیتے ہیں، اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح اس وقت ہمیں اسراء کا چیلنج درپیش ہے، اکثر اضلاع میں ہمارے دوست جیلوں میں ہیں، کئیوں کے نام شیڈول فور میں ڈال دیئے گئے، اسی طرح بھکر میں اس وقت اسیروں کی رہائی کیلئے معاملات چل رہے ہیں، ہمارے دوست اس ایشو کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ چیزیں بذات خود قیمت ہیں جسے ہم ادا کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی فلاحی امور میں آپکی کارکردگی اسلامی تحریک سے مختلف نظر نہیں آتی۔ کیا یہ آپکی ترجیحات میں نہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اسلامی تحریک پاکستان کیساتھ تقابل نہیں کرنا چاہوں گا، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی فلاحی امور میں کیا خدمات چل رہی ہیں، اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔ قوم کی جانب سے ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ کالجز بن رہے ہوں گے، اسکولز کا قیام ہو رہا ہوگا، ادارے بن رہے ہوں گے، فلاحی امور چل رہے ہونگے اور یہ توقعات بےجا نہیں ہیں۔ ہر معاملہ کا تعلق دستیاب وسائل ہیں، ان وسائل میں ہیومن ریسورس، مالی وسائل اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ میں ایک مثال دوں گا کہ اگر اس وقت گھر کے فرنٹ پر آگ لگی ہوئی ہے تو پہلے کام آگ بجھانا ہے، اگر ملت کا مورال ڈاون ہے، دہشتگردی جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، تو ہمارا فرض ہے کہ پہلے ان امور سے نمٹیں۔ فلاحی شعبہ کی خدمات گنوا چکا ہوں، جن میں اسپتال، ڈسپنسریاں، مساجد کا قیام، ایتام سے متعلق امور سمیت دیگر امور شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی ہر ناکامی کے ذمہ دار علامہ ساجد علی نقوِی ہیں؟ کیا خود احتسابی کا بھی کوئی کلچر فروغ دینگے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ہم ناکام ہوئے ہیں، کامیابی کے ہمارے معیارات کچھ اور ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کہ ہم نے چیلنجز کی درست تشخیص کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ آیا اس تشخیص کے بعد اپنا وظیفہ انجام دیا یا نہیں۔ کیا ہم نے درپیش چیلنجز کو مواقعوں میں بدلنے کی کوشش کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ ہم نے اپنا وظیفہ ادا کیا ہے، اس لئے ہماری نگاہ میں اپنے وظیفے کی انجام دہی ہے، ہمیں ہماری کوششوں کے نتائج کتنے ملے یا نہیں ملے یہ الگ بحث ہے۔ جہاں تک آپ نے علامہ ساجد نقوی صاحب کی بات کی ہے تو اس پر اتنا کہوں گا کہ وہ ایک جماعت کے سربراہ ہیں، ان کی جماعت کی ایک حکمت عملی ہے اور ان کا مسائل کے حل کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے، جس کا انہیں پورا پورا حق ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی حکمت عملی کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ہمیں نقصان ہوتا ہو، لیکن انہیں مکمل طور پر حق ہے کہ وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق چلیں اور کام کریں۔ اسی طرح ہمیں بھی حق حاصل ہے۔ آپ کی بات اگر گلگت بلتستان الیکشن کے تناظر میں ہے تو میں اتنا کہوں گا کہ اگر ان کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا، اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ وہ اپنے فیصلوں کا خود کا دفاع کریں گے، اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے ابھی ہم نے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا اور الیکشن سے متعلق تمام امور پر غور کیا ہے اور اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیا ہے، جس پر آپ کو اگلے چند ماہ میں وہاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree