وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پرگلگت بلتستان کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے کبھی بھی دریغ سے کام نہیں لیا۔
اس کے باوجود ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے وزیر اعظم نے (جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں کے پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انھیں کشمیری مجاہدین قرار دے دیا۔
بعد ازاں جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انھیں کے دور میں گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی ملا۔
البتہ پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے ، بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ بلند کیا۔آخر کار 9/ اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں کوئی نمائندگی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟
جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جیتنے کی صورت میں ہم آپ کو مکمل آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی حکومت نے اس معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح آئینی حیثیت کا تعین موجودہ حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی ہے" ﴿6﴾ اب یہاں پر چند سوالات جنم لیتے ہیں:
کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟ کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا ایجنٹ بن کر ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾ اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟
اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں: کیا یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چین اور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ پڑے ۔ دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اب اتنے حقائق سامنے آنے کے بعد وزیر اعلی خود سے ان کی تائید کریں یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہر صورت میں اتنا تو ضرور واضح ہوگیا کہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کا وزیر اعلی قرار پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور قومی و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔ پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے تو اگلے مرحلے میں عوام ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں گے۔
حوالہ جات:1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔
8:ایضا
تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی