وحدت نیوز: ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ’’وحدت نیوز‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80 کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں، بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔
آغا سید رضا نقوی کا تعلق کراچی سے ہے، ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں مصروف کار ہیں۔ بچپن سے کراچی کے ایک مدرسے سے وابستہ رہے اور کالج سے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت سے کیا اور 1988ء میں آئی ایس او گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کے صدر رہے۔ بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملت کے اجتماعی امور میں مشغول رہے اور مجلس وحدت مسلمین کراچی کے اساسی رکن ہونے کے ساتھ اس وقت ڈپٹی سیکرٹری جنرل کراچی ڈویژن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔وحدت نیوزنے آغا سید رضا نقوی کیساتھ این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت اور غیر جانبدار نہ رہنے کی وجوہات، کراچی آپریشن، یمن پر سعودی جارحیت میں نواز حکومت کے اقدامات سمیت دیگر موضوعات پر انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ
وحدت نیوز: کراچی کے حلقے این اے 246 میں ہونیوالے ضمنی الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، ایم کیو ایم اس حلقے سے کامیاب ہوچکی ہے، کیا آپ ضمنی الیکشن کے شفاف ہونے کے حوالے سے مطمئن ہیں۔؟
آغا سید رضا نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 2013ء کے عام انتخابات میں جب اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی ایم ڈبلیو ایم کا مؤقف یہی تھا کہ پاکستانی عوام کو کسی بھی قسم کی دھونس، زور اور زبردستی کی سیاست سے بالا ہوکر اپنے آئینی حق کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے، حق رائے دہی کی آزادی اور انتخابی عمل کی شفافیت کے بعد جو بھی نتیجہ آئے، اس کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہئے۔ مجلس وحدت مسلمین NA246 کے ضمنی انتخابات میں بھی اپنے اس مؤقف پر قائم تھی کہ عوام کو انکی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس کے بعد نتیجہ جو بھی ہو، اس کو تمام فریقوں کو قبول کرنا چاہئے۔ جہاں تک ضمنی انتخابات میں حکومتی اور الیکشن کمیشن کے اقدامات کا سوال ہے، تو اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی عمل کو شفاف سے شفاف تر بنایا جاسکتا ہے۔
وحدت نیوز: ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے این اے 246 میں بجائے ایم کیو ایم کے، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، کیا وجوہات تھیں، جبکہ ایم کیو ایم کی اس حلقے سے فتح یقینی تھی اور خود ایم ڈبلیو ایم گذشتہ عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف اور اسکے چیئرمین عمران خان کو کالعدم تحریک طالبان اور اسکے ساتھ حکومتی مذاکرات کے حوالے سے انتہائی سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔؟
آغا سید رضا نقوی: تحریک انصاف کی حمایت کے فیصلے میں کوئی راکٹ سائنس کار فرما نہیں ہے، عرصہ دراز سے مجلس وحدت مسلمین اپنے بیانات اور ملاقاتوں میں ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت کو یہ باور کرا چکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں اور تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر سے پاک کرنا چاہئے اور ایم ڈبلیو ایم کے اس مؤقف سے ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت بھی متفق رہی ہے، جس کا برملا اظہار ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت اپنے خطابات میں بارہا کرچکی ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار کردہ دہشت گردوں کا اس بات کا برملا اعتراف کے وہ شیعہ عمائدین اور ملت تشیع کے افراد کی کلنگ میں ملوث رہے ہیں، کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ملت تشیع پاکستان جہاں شہادت کے جذبے سے سرشار ہے، وہیں اپنے شہیدوں کے لہو کی پاسداری پر بھی کمر بستہ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ ملت تشیع ایسے لوگوں کی حمایت کرے، جنکی صفوں میں ہمارے قاتل چھپے ہوں؟ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف اور عمران خان کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تو سب سے پہلی بات کہ طالبان سے مذاکرات کی حمایت تو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کی تھی، ماسوائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے، آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان سے مذاکرات کے موضوع پر نواز حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی، جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا۔
جیسا میں نے کہا کہ ماسوائے ایم ڈبلیو ایم کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور ایم ڈبلیو ایم نے ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات کا بارہا اعتراف کرچکی ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر انکی پارٹی کا مؤقف غلط تھا، جس کا خود انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں ہونے والی ملاقات میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور کراچی سے رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے ایک بار پھر اپنے اس مؤقف کو دہرایا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے یمن پر ہونے والی سعودی جارحیت کے حوالے سے دوٹوک اور فیصلہ کن مؤقف بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جس کا برملا اظہار پارلیمنٹ میں بھی ہوچکا ہے اور ہمارے لئے ایسے وقت میں کہ جب سعودی عرب اور اسکی نمک خوار نواز حکومت پاکستانی فوج کو کرائے پر یمنی مسلمانوں کے قتل کے لئے یمن بھیجنے پر تلی بیٹھی تھی، ایسے وقت میں تحریک انصاف کا ایم ڈبلیو ایم کی مشاورت سے سامنے آنے والا دو ٹوک مؤقف اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف تھا، لہذا مجلس وحدت مسلمین کی اولین کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سعودی نواز تکفیریوں کے خلاف ایک جگہ پر اکٹھا کریں اور اس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔
وحدت نیوز: کچھ شیعہ حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی بجائے این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں شیعہ علماء کونسل کی طرح غیر جانبدار رہنا چاہیئے تھا، کیا کہیں گے اس رائے کے حوالے سے۔؟
آغا سید رضا نقوی: غیر جانبداری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، غیر جانبداری کا مطلب ہوتا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کون جیتے گا اور کون ہارے گا، کسی کی جیت اور ہار سے زیادہ اہم یہ بات تھی کہ ملت تشیع کہاں کھڑی ہوگی؟ ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کی واحد نمائندہ سیاسی و مذہبی ملک گیر تنظیم ہے، ہمارا مؤقف بھی اسی طرح واضح ہونا چاہئے تھا اور ہمارے لئے اہم تھا کہ ہم ان قوتوں کو پیغام دیں کہ جو کراچی میں ہونے والی شیعہ کلنگ میں ملوث رہے ہیں، صرف ضلع وسطی میں پچھلے دو سالوں میں 140 سے زائد شیعہ عمائدین اور مومنین کو شہید کیا جاچکا ہے، جس میں استاد پروفیسر سید سبط جعفر زیدی، سید سعید حیدر زیدی، پروفیسر تقی ہادی، علامہ علی اکبر کمیلی، پروفیسر انیس، عدیل عباس وغیرہ شامل ہیں، کیا ایم ڈبلیو ایم کی غیر جانبداری ان شہیدوں کے لہو پر خاموشی کے زمرے میں نہیں آتی؟ تشیع میں غیر جانبداری کی گنجائش نہیں ہے۔ ملت تشیع کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہونا چاہئے، شہیدوں کے لہو کا قرض ہے ہم پر، ہم کیسے اپنے شہیدوں کے لہو سے پہلو تہی کرسکتے ہیں۔؟
وحدت نیوز: کراچی میں رینجرز کیمطابق انکے ہاتھوں متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار کارکنان اور عہدیداران نے شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کا بھی اعتراف کیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور سیاسی عناصر کا گٹھ جوڑ ہے، سیاسی عناصر بھی ملوث ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو حقائق عوام کے سامنے نہ لانے کی آپ کیا وجوہات سمجھتے ہیں۔؟
آغا سید رضا نقوی: ملت تشیع کے کسی بچے سے بھی پوچھیں گے تو وہ بھی آپ کو بتا دے گا کہ ملت تشیع کا کراچی میں کون قاتل ہے، تو یہ تاثر تو غلط ہے کہ حقائق عوام سے پوشیدہ ہیں۔ جہاں تک بات ہے کالعدم و دہشت گرد تنظیموں کی سیاسی عناصر سے گٹھ جوڑ کی تو یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم ڈبلیو ایم بارہا اس بات کی نشاندہی کرچکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر کو باہر نکالنا ہوگا، کیونکہ یہ تکفیری عناصر خود سیاسی جماعت کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80ء کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں، ایم کیو ایم میں گاہے بگاہے اعلٰی سطح پر تبدیلیاں اس بات کی علامت ہے کہ کلیدی عہدوں تک رسائی میں اگر کسی قسم کا کوئی فلٹر تھا تو اب وہ کمزور ہوچکا ہے۔ ہم آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وجود باقی رہے، لیکن سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنے اندر سے جرائم پیشہ افراد کو باہر نکالنا ہوگا اور بالخصوص وہ عناصر کہ جو شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں۔
وحدت نیوز: کراچی میں دہشتگرد اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے مطمئن ہیں۔؟
آغا سید رضا نقوی: کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک مطمئن ہیں، کراچی کے لئے امن ناگزیر ہے، یہ بات صحیح ہے کہ کراچی کا امن پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، لیکن پاکستانی عوام پر ہونے والی نظریاتی دہشت گردی کا سدباب بھی انتہائی ضروری ہے۔ نظریاتی دہشت گردی میں معاشرے میں ایسے افراد پروان چڑھتے ہیں جو معاشرے کی تعمیر کے بجائے، معاشرے کو فرقہ پرستی و لسانیت کی دلدل میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ طالبان اور طالبان جیسی فکر رکھنے والے چھوٹے یا بڑے تکفیری گروہوں کا خاتمہ پاکستان کی بقاء اور ترقی کا بھی اتنا ہی ضامن ہے جتنا کراچی کا امن۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کو دہشت گردی و جرائم سے پاک ہونا چاہئے، جس کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کوشاں ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ضروری ہے کہ نظریاتی دہشت گردی کا سدباب کیا جائے۔ کراچی میں درجنوں ایسے قلعہ نما مدارس ہیں جن کے بارے میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہ مدارس دین کی آڑ میں دہشت گردی کے اڈے ہیں، جہاں نہ صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ وہاں اس بات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے کہ دوسروں کو دہشت گرد کیسے بنایا جائے، یعنی نظریاتی دہشت گردی کی تربیت۔ ہمارے خیال میں دہشت گردی کے ایسے مراکز کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری کارروائی کرنی چاہئے اور دہشت گردی کے ان مراکز کو فی الفور بند کر دینا چاہئے، تاکہ بچوں اور نوجوان نسل کو اس نظریاتی دہشت گردی سے بچایا جاسکے۔
وحدت نیوز: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان اعلان کرچکا ہے کہ وہ یمن کے مسئلے میں غیر جابندار رہتے ہوئے یمن اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریگا، لیکن پھر بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں، اور تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت عوامی رائے عامہ اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردار کے برعکس افواج پاکستان پر سعودی حمایت میں یمن جنگ میں کودنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے، کیا کہیں ان سب کے حوالے سے۔؟
آغا سید رضا نقوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی گئی وہ قابل ستائش ہے اور یہ قرارداد نواز حکومت کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی، شاید نواز شریف صاحب سمجھ رہے تھے کہ جس طرح گذشتہ سال تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے انکی حکومت بچانے کیلئے آنکھیں بند کرکے انکا ساتھ دیا تھا، شاید یمن کے مسئلہ پر بھی انکا ساتھ دیں گی۔ جہاں تک بات ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دباؤ کی تو یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی صرف فضاء سے ہی نہتے اور بے گناہوں پر بم برسا سکتے ہیں، زمینی جنگ لڑنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انکے پاس وہ حوصلہ و بہادری و جذبہ بھی نہیں، جس کی زمینی جنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب سمجھ رہا تھا کہ مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر حملے کا ڈرامہ کرکے وہ باآسانی پاکستانی فوج کرائے پر حاصل کرلے گا، لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو پایا تو سعودی وزیر کے دورے، اچانک امام کعبہ کا پاکستان آجانا اور پاکستان میں سعودی ریالوں پر پلنے اور چلنے والے مدارس کے ساتھ ساتھ تکفیری تنظیوں سے ملاقاتیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب جنہیں دہایوں سے پال رہا تھا، اب ان سے نمک حلال کرنے کا تقاضا کر رہا ہے، جس کا اندازہ آپ نے گذشتہ دنوں مدارس کے طلبہ کی جانب سے نکالی جانیوالی ریلی سے لگا لیا ہوگا۔
دوسری طرف پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ہوشمندی و عقل مندی بھی نواز شریف کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن سعودی عرب جا کر نواز شریف کا سعودی بادشاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا اور تکفیری دہشتگرد تنظیموں سے سعودی عرب کے حق میں بیانات دلوانا میرے خیال میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ ادھر یمن پر سعودی جارحیت کو 30 دن سے زائد ہوچکے ہیں، سعودی عرب نے سوائے معصوم اور بے گناہوں کو خون میں غلطاں کرنے کے علاوہ کیا کیا؟ کیا یمن سے کسی نے سعودی عرب پر کوئی ایک پتھر بھی مارا؟ میرے خیال میں سعودی عرب کے جارحانہ عزائم اب سب کے سامنے کھل کر آچکے ہیں، یعنی اب تو کسی قسم کا ابہام بھی باقی نہیں رہ گیا کہ سعودی عرب نے یمن پر یک طرفہ جارحیت کی ہے اور ایسی صورت میں سعودی عرب فوج بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف شریف خاندان نے جو اتنے سال سعودی بادشاہ کے مہمان بن کر شاہی محل میں گزاریں ہیں، تو اس کی نمک حلالی کا سعودی تقاضا تو ہوگا اور شخصی احسانات و مفادات کی خاطر پاکستانی فوج کو جنگ کی آگ میں دھکیلنا، کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔