وحدت نیوز (آرٹیکل) فطرت انسانی كا تقاضا ہے كہ ہر شخص ارتقائی مراحل اس دنيا ميں طے كرتا ہے. اس پر بچپن ,لڑكپن اور جوانی اسی طرح ادھیڑ پن اور بڑھاپے كے مراحل گزرتے ہیں.جب انسان نشوونما پاتا ہے تو فطری طور پر اس کے سینےميں امنگیں وآرزوئیں اور ارمان جنم ليتے ہیں. تو جس طرح اسے پرورش ,تعليم وتربيت اور راہنمائی ملتی ہے اور جيسا اسے ماحول ميسر آتا ہے اسی طرح اس کی امنگیں, آرزوئیں ,اور ارمان اسكے سينے ميں موجزن ہوتے ہیں. اور جو بھی خواہشات جنم ليتی ہیں انكی عكاسی اسكے كردار سے ہوتی ہے اور کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ان ارتقائی مراحل کے اندر بھی خواص کے طور پر آفاقی سوچ رکھتی ہیں. اور معاشروں کو ظلمتوں کے اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لانے کے لئے اپنی تگ و دو کرتے ہیں۔ یہ لوگ زمانے کے ساتھ نہیں بلکہ زمانے کے بہت آگے چلتے ہیں . ليكن معاشرے بہت دیر بعد اس منزل پر پہنچتے ہیں جہاں یہ شخصیات بہت پہلے پہنچ چکی ہوتی ہیں اور جن حالات کا ادراک کرکے معاشرے کو اس ڈگر پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں ان حالات تک معاشرہ بہت بعد رسائی حاصل کرتا ہے جیسے بقول مفکر پاکستان علامہ اقبال کہ
عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہزندہ بازار نیست
جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ میں جس زمانے میں زندگی گزار رہا ہوں یہ زمانہ میرا ہم عصر نہیں ہے اور یوسف کو جس بازار میں فروخت کیا گیا وہ بازار بھی یوسف کے قابل نہیں تھا۔ یعنی کچھ شخصیات بظاہرا تو معاشرے کے اندر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی سوچ و فکر اس زمانے سے بہت آگے کی ہوتی ہے اور اس معاشرے کے لوگ ان کے ہم عصر نہیں ہوتے ایسی ہی شخصیات میں سے ایک شخصیت کا نام شهيد ڈاکٹر محمد علی نقوی ہے. ایسی شخصیت کہ جس کے بچپن سےشہادت کی فكر اورسوچ زمانےسےبہت آگے کی تھی۔
ایسی شخصيت كہ جس كی آنکھوں کاسرمہ خاک كربلا معلى ونجف اشرف ہو اور جسےبچپن سےپاک خاک شفاء پررينگنے اور چلنےكی سعادت نصيب ہوئی ہو اور وه علمی گھرانےكےچشم وچراغ ہوں اور متقی وپرہیزگار علماء كرام كی صحبت اور آغوش ميسر آئی هو اور انہیں کی راہنمائی وسرپرستی ميں تعليم وتربيت وسيروسلوک كے مراحل طے كئے ہوں تو پھر يہ شخص مجاہدین اسلام میں چمران پاكستان اور حوزہ ہائے علميہ قم ونجف كے فاضل اور فارغ التحصيلان كے ہوتے ہوئے بھی سفير انقلاب كا لقب پاتا ہے. اور اپنے دين ومذہب كی معرفت اور عشق كےساتھ,وه اس کےسنہری اصولوں پر عمل پيرا ہو كرسرزمين وطن كا محافظ اور وفادارفرزند اوربانی پاكستان قائد اعظم محمد على جناح (رح) كی امنگوں كا ترجمان بن كر ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی زندگی كو پاكستان بچانے والی تحريک كے لئے وقف كر ديتا ہے. اور پاكستان ميں ظلم وستم,نفرتوں اور شيعہ نسل كشی كے خاتمے ,عوامی حقوق اور قدرت كے توازن كی بحالی اور وطن كی خوشحالی اور اتحاد وحدت كےعملی قيام اور قوم كو منظم كرنے كی مسلسل جدوجہد كی وجہ سے دشمنان اسلام و پاكستان كے بغض وحسد كی گولیوں كا نشانہ بن كر 7 /3/ 1995 كودرجہ شهادت پر فائز ہوجاتا ہے.
ڈاکٹر شہید کی25 سالہ عملی زندگی كو تين مراحل ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے۔
پہلا مرحلہ : 1971 سے 1978 تک (تقريبا 8 سال)
دوسرا مرحلہ : 1979 سے 1988 تک (تقريبا 10 سال)
تيسرا مرحلہ : 1989 سے 1995 تک (تقريبا 7 سال )
پہلا مرحلہ : 1971 سے 1978 تک (تقريبا 8 سال)بطور طالب علم رہنما
شہید ڈاکٹر کا طالب علمی کا دور کہ جب وه نوجوانی میں ایک کالج کے طالب علم تھے. اس وقت نوجوان نسل كو منحرف كرنےكيلئے مختلف نظریات کو پروان چڑھا یا جا رہا تھا ایسا دور کہ جب دنيا دو بلاک ميں تقسيم ہو چکی تھی. ايک مغربی بلاک كہ جس كی سر براہی امریکہ كے پاس تهی اور دوسرا مشرقی بلاک كہ جس كی سربراہی روس كے پاس تهی. اور جہان اسلام كے اندر انقلابات آ رہے تھے. كچھ اسلامی ممالک مشرقی بلاک میں اور كچھ مغربی بلاک ميں تقسيم ہوچکےتهے. مغربی بلاک كيپٹل ازم اور ليبرل ازم اور مغربی فرہنگ وتہذ یب كی ترويج كر رہا تها اور مشرقی بلاک كيميونزم كے گن گا رہا تها اور تبليغات كر رہا تها. وطن عزيز پاكستان ميں دونوں طرف سے ثقافتی يلغار تهی. وه پاكستان كہ جس كو اسلام اور كلمہ لا اله الا الله كی بنياد بر حاصل كيا گيا تها. اور ايک طويل جدوحہد كی گئی تهی اور بيشمارقربانياں دی گئیں تھیں. اب اس ملک كےسياستدان اسےامريكہ وغرب يا روس كی گود ميں دهكيلناچاہتےتهے. مغرب اور مشرق نے ہمارے ملک ميں مضبوط لابياں بنا لی تھیں. مشرق كی ترويج ميں حكمران جماعت پاكستان پیپلز پارٹی پيش پيش تهی اور سرخ انقلاب كے نعرے لگ رہے تھے. اور دوسری طرف مغربی ترقی اور روشن خيالی كاپرچار ہو رها تها. اور اسی اثناء میں تنگ نظر گروه نظام مصطفی (ص) كے نفاذ کی تحريک چلارہےتھے,كہ جس ميں ان كےساتهـ مذہبی سياسي پارٹياں پيش پيش تهيں اور سبز انقلاب كے نعرے بلند ہورہے تهے اور نوجوان نسل كو حقيقی اسلام اور پاكستانی ثقافت وروايات سے دور كرنے كی تبليغات زوروں پر تهیں. اس پورے منظر نامےميں تشيع كاكوئی رول نہ تها . ديندارشيعہ نوجوانوں كو نام نہاد اسلامی تنظيميں جذب كر رہی تھیں اور ان کے بزرگان اور اسلامی جماعتوں كے سربراہان شيعہ نسل كشی اور اہل سنت (بريلويوں)كو كمزور كرنےكی سازش اور منصوبہ بندی ميں شريک تھے. اور آزاد خيال شيعہ نوجوانوں كوكيميونسٹ بناياجارہاتها. اورہماری ملت كا مستقبل خطرے میں تها . ضروری تهاكہ نسل نوكوبچا كر تشيع اور پاكستان كے مستقبل كوبچاياجائے. اسی غرض وغايت کے لئے ڈاکٹر شهيد اور ان کے رفقاء نے 1972 ميں اماميہ اسٹوڈنٹس آرگنائزيشن پاکستان کی بنياد ركھی. اور ملت تشيع كے نوجوانوں كی دينی اور فكری تربيت اور قومی تشخص كوابهارنےكاسلسلہ شروع كيا. انہوں نے اپنی تعليمی ذمہ داريوں كے ساتھ ساتھ قومی ذمہ دارياں بطور احسن انجام ديں. اعلى علمی مراتب بهی حاصل كئے اور چند سالوں ميں اپنا پيغام پاكستان كے طول و عرض تک پہنچانے ميں بھی كامياب ہوئے . اور الہی اقدار پر ايمان ركهنے والےيہ تنظيمی نوجوان نسل نوكےلئےايک نمونہ عمل بن گئے. اور پورےملک كے كالجز اور يونيورسٹیوں ميں انكی تنظيم (I.S.O) تيزی سےپهيل گئی. جن نیک امنگوں اور پاکیزہ جذبوں سےانہوں نے اس “شجره طيبہ “كی بنياد ركھی تھی.اسكا اثر آج ہمیں نوجوانوں كا اسلامی فرہنگ وثقافت واقدار سے آراستہ ہونا اور وطن عزيز كوبحرانوں سےنجات دلانے كا عزم اور وحدت واخوت كا پرچم سربلند كرنا اور دين مبين اسلام اور وطن عزيز كی راه ميں شہادت اور قربانی كا جذبہ موجزن ہونے ميں نظر آتا ہے. آئي ايس او كا لگایا ہوا پودا آج مضبوط , تن آور اور پرثمردرخت كی مانند بن چکا ہے كہ جس كی جڑیں حقيقی محمدی اسلام كی گہرائیوں میں پيوست ہیں اور اس تن آوردرخت كےروحانی ومعنوی سايہ اور ثمرات سےملک بهر كے نوجوان فيض ياب ہو رہے ہیں. اور يہ ايک ايسی درسگاه بن چكی ہے كہ جس كے فارغ التحصيلان وطن عزيز ہو يا سمندر پارہر جگہ دين مبين اسلام اور ہم وطنان عزيز كی خدمت پيش پيش نظر آتے ہیں.
جاری ہے۔
تحریر:علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی