وطن عزیز میں بحرانی کیفیت کے اصل محرکات

03 March 2015

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) اقوام عالم كی تاريخ كا مطالعہ كرنے سے ہمیشہ ایک مشترک حقيقت سامنے آتی ہے كہ تاريخ کے ہر دور ميں كچھ قوتيں اپنے تسلط اور اقتدار كی خاطر ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال كرتی رہی ہیں، اپنے حوس اقتدار کی راه ميں آنے والے عزيز ترين رشتے، مقدس ترين اقدار اور اصولوں كو پامال و برباد كرتی رہی ہیں، البتہ ظلم کی راتيں لمبی نہیں ہوتیں، بالخصوص اس وقت جب محروم اور مظلوم طبقے حكمت و بصيرت اور حق كی طاقت پر مكمل ايمان كيساتھ ميدان عمل ميں اترتے ہیں، ظلم و ناانصافی کے خلاف قيام كرتے ہیں تو پهر تاريخ گواه ہے كہ پسی ہوئی انسانیت کا درد اور الله تبارک وتعالٰى كی نصرت و مدد پر توكل اور ايمان ركهنے والے ان بندگان خدا كے سامنے قيصر و كسرىٰ اور شہنشاہوں كے فرعونی اقتدار سرنگوں ہوتے دكھائی ديتے ہیں۔ اسی قسم كا ايک انقلاب 1979ء كو ہمارے ہمسایہ ملک ايران میں بهی آیا۔ ہزاروں سالہ شہنشایت جو كہ زمانے كی سپر پاور امريكہ كی سب سے زيادہ منظور نظر اور وفادار بهی تهی، اس كا خاتمہ ہوا۔ يہ انقلاب استعماری و استكباری ايوانوں ميں ايک زلزلہ بھی تها اور دوسری طرف مستضعفين جہاں كے لئے ايک اميد كی كرن نمودار ہوئی۔ اس لئے استعماری و استكباری قوتوں نے اسے كبھی انتہا پسندی، دہشت گردی سے تعبير كيا اور كبھی اسے عرب اقوام، كبھی عالم اسلام اور كبھی يورپی عوام كيلئے بہت بڑی خطرے كی علامت اور وہمی و خيالی دشمن كی طور پر پيش كيا۔

 

دوسری طرف اقتصادی پابندياں، سوشل بائیکاٹ جيسے حربے استعمال کئے، فقط یہاں تک اكتفاء نہیں كيا بلكہ عرب اور مسلم ممالک كو اكسايا كہ تمہارا دشمن اسرائيل نہیں بلکہ ايران اور مذہب تشيع ہے اور ابھی يہ نئی حكومت بنی ہے، اس پر حملہ كردو اور اس انقلاب كو فوراً دفن كر دو۔ عرب مسلم ممالک بالخصوص خليجی ممالک نے عراقی ڈکٹیٹر صدام حسين كے ذريعے مسلسل 8 سال ايران پر جنگ مسلط كی۔ امريكہ، يورپ اور خليجی عرب ممالک نے صدام حسين كی مكمل پشت پناہی كی،ليكن يہ انقلاب ختم نہیں ہوا بلكہ طاقتور ہوتا گیا۔ پاكستان جو كہ ترقی کی راه پر گامزن تھا اور خطے ميں علمی و ثقافتی، صنعتی اور تجارتی لحاظ سے نماياں حيثيت ركهتا تها، جس كے مشرق و مغرب كی اقوام كيساتھ اچھے اور متوازن تعلقات تھے اور عالم اسلام كی ابهرتی ہوئی قوت شمار ہوتا تها، وه بهی مخصوص معروضی حالات كے پيش نظر بين الاقوامی سازش كا شكار ہوا۔ جنرل ضياءالحق كے مارشل لا كے بعد ايسا مائنڈ سیٹ پاكستان پر مسلط ہوا كہ جس كی ناقص پاليسيوں اور ناعاقبت اندیشی كی بدولت آج ہم امنیتی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی بحرانوں كا شكار ہيں، جس كے کئی ايک اسباب ہیں، جن میں سے چند ایک مندرجہ ذيل بہت اہم ہیں۔

 

1۔ امريکی مداخلت اور غلامی:
امريكہ ايک طرف افغانستان تک بڑھتی ہوئی روسی پيش قدمی كو روكنے، دوسری طرف ايرانی انقلاب اسلامی كا محاصره كرنے اور مقاومت و اسلامی بيداری كی اس لہر كو دبانے كے لئے اپنے مغربی حليفوں كيساتھ ملكر وارد ہوا اور حكمرانوں نے اسے كهل كر سازشوں اور منصوبوں كے لئے زمين فراہم كی۔ آج امریکن ڈائریکٹ پاكستان ميں بیٹھ كر مانیٹرنگ كر رہے ہیں اور پاكستان کے ہر چھوٹے بڑے امور ميں مداخلت كرتے ہیں، حكومت اور عوام كے اندر نفوذ ركهتے ہیں۔ پاكستان كی سياست ہو يا صحافت، تعليمی ادارے ہوں يا اسٹیبلشمنٹ، ملكی پالیسیاں ہوں يا اہم فيصلے ہر جگہ رسائی رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں كی سرپرستی بھی كرتے ہیں اور جب چاہیں ڈرون حملے بهی كرتے ہیں۔ امريكہ كی نگاه ميں ايران اور شيعہ مذہب كے پيروكار پاكستان كے دشمن ہیں، تو امريكہ نواز حكمران اور سياستدان بھی ايران اور اہل تشیع كو پاكستان كا دشمن سمجهتے ہیں، حالانكہ پاكستان كو بنانے سے بچانے تک قربانياں بهی شيعہ مذہب كی دوسروں سے نسبتاً زياده ہيں۔ بقول وزارت داخلہ پاكستان كے طالبان اور لشكر جهنگوی كے دہشت گرد حكومت پر پريشر ڈالنے كے لئے تشيع كا قتل عام كرتے ہیں، كيونکہ دشمن وطن اور دہشت گرد يہ جانتے ہيں كہ مذہب تشيع پاكستان كی فطری ڈيفنس لائن ہے اور پاكستان کی سلامتی كے ضامن ہیں۔

2۔ سعودی عرب كا اسٹریٹجک دفاعی شريک اور بلا حدود نفوذ ہونا:
جس طرح امریکہ نے روسی پيش قدمی سے بهرپور فائدہ اٹهايا, اسی طرح سعودی عرب نے بهی حكومتی اور عوامی سطح پر اپنا اثر و نفوذ بہت بڑهايا اور مذہب وہابيت اور تكفيری سوچ كی ترويج كی۔ سعودی عرب كی نگاه ميں ايران اور مكتب تشيع اسرائيل سے زيادہ خطرناک دشمن ہے، اس لئے سعودی عرب نے پاكستان میں جہاد افغانستان سے بهرپور فائده اٹهايا۔ صديوں سے مختلف مكاتب فكر كے لوگ اس سرزمين پر ره رہے تهے، ليكن كبهی نوبت قتل و غارت تک نہیں آئی تهی۔ سعودی اور ضيائی اسٹيبلشمنٹ كی سرپرستی ميں پاكستان ميں تكفيری سوچ كو پروان چڑهايا گيا۔

3۔ شيعہ نسل كشی:
تكفير كے بعد دوسرا مرحلہ شيعہ نسل كشی كا شروع كيا گيا، جو ابهی تک جاری ہے۔ شيعہ علاقوں پر تكفيريوں نے لشكر كشی كی، مكانوں اور زمينوں پر قبضے ہوئے اور نقل مكانی كروائی گئی۔ دنيا بهر ميں تشيع اور ايران سے لڑنے كے لئے لشكر تيار كئے گئے۔ الغرض ايک طرف تو سپاه صحابہ، لشکر جھنگوی، طالبان وغيره کو منظم كيا گيا اور دوسری طرف اہل تشیع اور سنيوں كا قتل عام ہوا۔ بہت سے بريلوی اور بعض ديوبندی مكتب فكر كے علماء كو انہی گروہوں نے قتل كيا۔ سعودی ايماء پر پاكستان آرمی میں اور مختلف حكومتی اداروں ميں سعودی نواز مائنڈ سيٹ كے نفوذ كو بڑهايا گیا۔ انكے لئے فقط ہزاروں مدارس ہی نہيں كالجز و يونيورسٹیاں اور ديگر مراكز بنائے گئے۔ انہیں سياسی، اقتصادی، تعليمی اور عسكری طور پر بہت مضبوط كيا گيا۔ آج يہ تكفيری مائنڈسيٹ ملک كی سالميت اور ترقی كی راه ميں ركاوٹ ہیں اور حكومت كی رٹ كو على الاعلان چيلنج كرتے ہیں اور مزيد ظلم يہ ہوا كہ اس تكفيری سعودی يلغار كو شيعہ سنی جنگ يا فرقہ ورانہ فسادات كا نام ديا گيا، كبهی تكفيری يلغار نہیں كہا گيا۔ حالانكہ آج بهی پاكستان كے شيعہ اور سنی ايک دوسرے كا احترام كرتے ہیں اور مختلف پليٹ فارم پر مشتركہ جدوجہد كر رہے ہیں، جسكی ايک مثال ملى يكجہتی كونسل ہے كہ جس ميں مسلمانوں كے تمام مكاتب فكر موجود ہیں۔ ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول كو دونوں كو قصور وار ٹھرايا جاتا ہے۔

4۔ ايران دشمنی كی پالیسی:
سعودی عرب جن بنيادوں پر ايران كو اپنا دشمن سمجهتا ہے اور جس پاليسی پر گامزن ہے، پاكستان كو كسی ملک كا تابع نہیں ہونا چاہیے بلكہ اسے پاكستان اور پاكستانی عوام كی فلاح وبہبود كی خاطر مستقل پاليسی بنانی چاہیے۔ اگر سعودی عرب ايران كو اپنا دشمن تصور كرتا ہے تو يہ اسكا مسئلہ ہے نہ كہ پاكستان کی دشمنی ہے۔ 2006ء سے ليكر اب تک انڈیا كے ساتھ سعودی عرب كے تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں، ہميں پاكستان كی مصلحت كو مدنظر ركهنا ہوگا، كيونكہ سعودی عرب شايد مندرجہ ذيل اسباب كی وجہ سے ايران سے دشمنی كرتا ہے۔
• ايران كے اسلامی انقلاب نے بادشاہت كو سرنگوں كيا اور سعودی عرب ميں بهی بادشاہت ہے، اس لئے آل سعود اپنی بادشاہت كے لئے انقلاب کو خطره سمجهتے ہیں۔
• عربی اور عجمی تعصب جو تاريخی طور پر چلا آرہا ہے وه بھی دشمنی كا سبب ہوسكتا ہے۔
• وہابی اسٹیٹ ہونا: سعودی عرب چونكہ ايک وہابی اسٹیٹ ہے، وہابی مذہب كو پروموٹ كرتی ہے اور ايرانی انقلاب ميں تشيع كا عنصر پايا جاتا ہے۔
• عالم اسلام کی زعامت و سربراہی: شايد سعودی عرب جو اپنے آپ كو جہان اسلام كا ليڈر تصور كرتا ہے، اس ابهرتی ہوئی اسلامی حكومت کو اپنی زعامت و سربراہی كے لئے خطره تصور كرتا ہے۔

•ايران اور عرب امارات كے مابين بعض جزيروں اور سرحدوں كا مسئلہ بھی دشمنی كا سبب ہوسكتا ہے۔

 

اسی طرح سعودی عرب كے كئی مسائل اور بهی ہوسكتے ہیں جيسے تجارت، پٹرول اور عالمی منڈیاں وغيره، ليكن كبهی بهی ايران پاكستان كا دشمن نہیں رہا ہے بلكہ ہميشہ پاكستان كا ساتھ ديا ہے اور دونوں ہمسایہ برادر ممالک كی مصلحت بھی یہی كہ انكے مابين اچھے تعلقات ہونے چاہیں نہ كہ اس موضوع پر اسٹیٹ پراكسی وار لڑے اور عوام پر الزام لگائیں۔ خلاصہ يہ ہے كہ پاكستان كی ايٹمی صلاحيت فقط پاكستان كی ملكيت ہونی چاہیے، كيونكہ اسكی خاطر اقتصادی پابندیاں اور مشكلات پاكستانی عوام نے برداشت كی ہیں اور یہ پاكستانی سائنسدانوں كی ہی محنت ہے، اسے كچھ مالی مدد كے عوض دنيا ميں سعودی ايٹمی اثاثوں کے طور پر متعارف نہیں ہونا چاہیے۔ پاكستان كو سعوديہ كی نہ ذيلی حكومت اور نہ ہی سعودی شہزادوں کی من مانی کرنے والی سرزمین کے طور پر پیش ہونا چاہیے۔ ہمارے دنيا كے تمام ممالک بالخصوص ہمسايہ ممالک سے برابری اور قومی مصلحت كی بنياد پر، نہ کہ سياستدانوں كی ذاتی مصلحت اور احسان منديوں كی بنياد پر تعلقات ہونے چاہیے۔


تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree