مستقبل کی خاطرحال سے سبق لو

26 December 2014

وحدت نیوز(آرٹیکل)پشاور کے واقعے کو آج آٹھ دن گذرنے کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ شاید پاکستان کے پارلیمنٹرین کو سانپ سونگھ گیاہے ہکا بکا ہوکر صرف اجلاس ہی کر رہے ہیں احقرنے گذشتہ تحریر جوکہ پشاور واقعہ کی رات کو تحریر کی تھی میں لکھا تھا کہ یہ بڑے بڑے فیصلے ان چھوٹے لوگوں سے نہیں ہو پائیں گے۔


وزیراعظم پاکستان نے بہادرپارلیمنٹرین کا فوراَ APC کا اجلاس طلب کر لیا اور دہشتگردوں کا قلع و قمع کرنے کے لئے ملک کے بڑے بڑے لیڈر اکٹھے ہوکرغور و فکر کرنے لگے آخر کار وہ تمام بہادر لیڈر اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک کمیٹی بنائی جائے اور جو فیصلے ہم نہیں کر پارہے ہیں وہ اس کمیٹی سے کروائیں اوروہ کمیٹی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ایک ایکشن پلان بنائے اور اس کمیٹی کا سربراہ ملک کا سب سے بڑا بہادر جو کہ اسلام آباد، لاہور ، فیصل آباد، جیسے بڑے بڑے معرکہ سر کرچکا ہے اور پاکستان کے نہتے عوام سے نمٹنے کا خوب تجربہ رکھتاہے کوبنایا جائے اور اس کمیٹی کی صدارت کی ذمیدار ی اسی بہادر اور ذہین چوہدری نثار کو دی گئی اس بہادر سالار نے آخر کار اچوتھے روز معاملہ ہی حل کردیا اور قوم کو دہشتگردی ختم کرنے کے سنہری اصول اور ایکشن پلان دیدیا ، \"کہ تنودور والے کو زیادہ روٹیاں خرید کرنے والے پر نظر رکھنیٍ چاہئے اور میڈیا کو چاہئے کہ وہ دہشتگردوں کو بلیک لسٹ کر دے \"۔


واہ۔۔۔۔واہ۔۔۔۔ یقیناًایسے ہی عقلمند وں اور بہادروں کی پاکستان کو ضرورت ہے او ر ان فیصلوں کے بعد تو یقیناًدہشتگرد پاکستان چھوڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہوگئے ہونگے۔دوسری طرف ہمارے ہردلعزیز بہادر وزیر اعظم کیونکر خاموش رہ سکتے تھے انہوں نے بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالا اور فوراَ دہشتگردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو روک دیا ۔ اور فرمایا کہ دہشتگردی کے خلاف کاروائی کی قیادت میں خود کروں گا ، شاید ان کو دہشتگردی کے خلاف ہونے والی کاروائیوں پر اطمینان نہیں تھا ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم صاحب نے اجلاس طلب کیا اور فرمایا \"کہ وقت آگیا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف سخت فیصلے کئے جائیں ،لولے لنگڑے فیصلے کئے گئے تو تمام بوجھ ہم پر ہی پڑے گا، اس دہشتگردی کے اس واقعے نے پوری قوم کو یکجا کردیا ہے ،اگر کمزور فیصلے کئے گئے تو قوم مطمئن نہیں ہوگی \"


ترجمہ (عوامی زبان میں) : میری حکمت عملی اور آپ کے ساتھ سے اپنے دوستوں کو بچایا جاسکتاہے، دھرنے ختم ہوگئے میری حکومت بچ گئی اب اس الزام سے بچاؤ اور قوم کو بیانات بازی سے مطمئن کرو۔
اور سب جمہوریت کی طرح اس بار بھی اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو بچانے لگے۔
اس بیان کے باوجود اگر قوم نہ سمجھے تو اس قوم کی قسمت اتنا سچ بولنے والا وزیراعظم شاید پاکستان کے مقدرمیں پھر ہو۔



وزیر اعظم صاحب اور وزیر داخلہ صاحب آج تک یہ بتانے سے بھی قاصر اور معذور ہیں کہ ملک میں آخر دہشتگردی کر کون رہاہے جبکہ ان دونوں کے ناک کے نیچے اسلام آباد کی لال مسجد میں بیٹھا ہوا ملا عبدالعز یز کھلے عام طالبان اور داعش کی حمایت میں کام کر رہا ہے اور طالبان کھلے عام دہشتگردانہ کاروائیوں کی ذمیداری قبول بھی کر رہے ہیں اور پاک آرمی ان کے خلاف آپریشن بھی کررہی ہے مگر یہ بہادر رہنما ان کا نام بھی نہیں لے پارہے ہیں جو عورتوں والے پیرہن والوں سے ڈرتے ہوں وہ ہماری حفاظت کے اقدامات کیا کریں گے بلکہ ان کے اس کردار کی وجہ سے 790 مزید اسکولوں پر دہشتگردی کی کاروائی کی دھمکی موصول ہورہی ہے اور پنجاب کے ان تعلیمی اکیڈمیز کو بند کرنے کے نوٹیفیکیشن بھی جاری کئے گئے ہیں یہ ہے ان بہادر رہنماؤں کی کارکردگی۔

ملک میں جب اتنا کچھ ہورہاہو تو ہماری عدالتیں کیسے خاموش رہ سکتی ہیں کیونکہ ماضی میں ان کا کردار دہشتگردوں کو سزائیں دینے میں ناقابل فراموش رہاہے لہٰذا عدالتیں بھی حرکت میں آئیں اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا اس کارے خیر میں ساتھ دینے لگیں اور کئی قاتلان پاکستان کی سزائے موت قانونی پچیدگیوں کی وجہ سے ایک جیل سے دوسری جیل میں پھانسی دینے جیسے احکامات اور کچھ کی سزاہی کو معطل کردیا اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب ان قاتلوں کو عدالتوں کی جانب سے دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جانا شروع ہونا تھا ۔



سیاسی جماعتیں بھی پھانسی کی سزاؤں کا سن کر اپنے اپنے کارکنوں کو بچانے میں لگ گئیں اور فوج کو چیخ چیخ کر بلانے والوں اور گھنٹوں ٹی وی پر فوج کو مشورے دینے والے اور خود کو طالبان کے سب سے بڑے مخالف کہلانے والوں نے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کردی ۔کیونکہ پوری قوم دیکھ چکی تھی کہ پھانسیاں صرف ان دہشتگردوں کو ہوئیں ہیں جن کی ڈیتھ وارنٹ پر چیف آف آرمی سٹاف نے سائن کئے تھے باقی سب دہشتگرد پھانسی کی سزا پانے کے باوجود فائیو اسٹار جیل میں عیاشی کی زندگی گذار رہے ہیں اور باہر والے دہشتگردوں کو جیل سے ہی کمانڈ کررہے ہیں دہمکیوں اور قانونی داؤپیچ سے نہ صرف جیل میں عیاشیاں کر رہے ہیں بلکہ سزائیں ختم کرواکر ضمانتوں پر آزاد بھی ہورہے ہیں ۔



ایک طرف تو ہم سب پاکستانی دہشتگردی کے ناسور میں مبتلاء ہیں تودوسری طرف ہمارے بہادر خان جو کہ ظلم کے خلاف دنیا کا طویل ترین دھرنا دیکر پاکستان میں تبدیلی کا داعی تھا پشاورمیں ان کی ہی حکومت بھی ہے نے اتنے دن گذرنے کے باوجود کوئی عملی قدم تو دور کی بات آج تک کوئی بیان یا پریس کانفرنس بھی نہیں کی ہے جس سے پشاور اور پاکستان کے عوام کے زخموں پر مرہم لگتی یا شاید ماضی کی طرح اب بھی خان صاحب طالبان کو پشاور میں دفتر اور دیگر مراعات دینے کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔ایسے میں یورپی یونین کا پھانسیوں کی سزا پر تحفظات کی کیا بات کریں جب اپنوں کی ہی یہ حالت ہو ۔



ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق حساس اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ ایک بہت بڑے ہاؤسنگ اسکیم کے اونر جس کا ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ سے قریبی تعلق ہے طالبان کو رقم فراہم کرنے میں ملوث ہے اور وہ پارٹی کے سربراہ کے قریبی دوست بھی ہے اور اسی پارٹی نے خود اپنی حکومت کے دوران پھانسی کی سزا پر پابندی بھی لگائی ہو اور وہ پارٹی بھی اس اجلاس شریک ہواور ایسے ملا جو طالبان کے دہشتگردوں کو شہید کہ کر اپنے دین اور ایمان کا اظہار کرچکے ہوں وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوں جودن رات ان دہشتگردوں کے تحفظ ، مالی معاونت اور ان کا لٹریچر اپنے ہی مدارس سے بانٹ رہے ہوں اور کچھ دیگر ایسی ہی طالبان پرست شخصیات اس اجلاس میں شریک ہیں وہ دہشتگردوں کے خلاف ایکشن پلان بنائیں گے تو اس سے بڑاقوم کے ساتھ اور کیا دھوکہ ہوگا۔



جب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف کاروائی کرنے اور سفارشات مرتب کرنے کون لوگ بیٹھے ہیں تو ہمیں نظر آرہا ہے کہ یہ تو وہی لوگ ہیں جو طالبان کے خود حامی ہیں تو اس تمام صورت حال میں اگر ایک پاکستانی یہ سوچے کہ یہ طالبان کے ساتھ ماضی والی مزاکراتی کمیٹی اور آج کے اجلاس میں ایکشن پلان اور سفارشات مرتب کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو ایک عام پاکستانی کا ان سے مایوس ہونا فطری بات ہے اور سیاستدانوں سے ایسی مایوسی کی کیفیت، پشاور اسکول کے شہداء کے والدین کے جذبات ، ہونے والے اقدامات کے بارے میں سننے کے بعد مزید مستحکم ہوگئی اور ہم تمام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ننھے معصوم بچوں کا خون ناحق بھی ان کے بکے ہوئے ضمیروں کو نہیں لوٹا سکا تو اب نہ جانے یہ خون آشام درندے اس قوم کا اورکتنا خون چوسیں گے۔



ایسے میں ایک ہی ادارے سے تمام پاکستانی امید یں وابستہ کئے ہوئے ہیں جبکہ ماضی میں اسی ادارے کے سربراہ نے جب طالبان کے
خلاف سیاستدانوں سے مایوس ہوکر پاکستان اور پاکستانیوں کے تحفظ میں کاروائی کی تھی تو اسے آج تک ان سیاستدانوں نے غداری اور دیگر مقدمات میں الجھا دیا اور اب بڑے بڑے تجزیہ کار یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ وقت نے ثابت کیا کہ آپریشن کا فیصلہ درست تھا لیکن شاید سیاستدانوں نے تو اپنے مفادات کی خاطر سبق نہ لیا ہو مگر پاکستانی قوم کے مفاد میں تو سبق سیکھ لے ۔اور جمہوریت کے نام پر دھوکہ نہ کھائے اور ان جھوٹے جمہوریت بازوں کو پہچان لے اور آئیندہ فیصلہ کرتے وقت ان کے ماضی کو نہ بھولے۔




تحریر :عبداللہ مطہری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree