یورپ میں آزادی اظہار رائے کی اصل حقیقت

19 January 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یا فتہ کہلانے والے اہل یورپ کس قدر درندہ صفت اور غیر مہذب لوگ ہیں جن میں نہ انسانیت ہے اور نہ ہی اپنی زبان اور وعدوں کا پاس و لحاظ، جب چاہیں وعدہ خلافی کریں اور جب چاہیں معاہدوں سے پھر جائیں جس کی مثال جنگ عظیم کے دوران ترکی ، جاپان ، روس او راپنے ہی اتحادی ودیگرممالک سے کئے گئے معاہدوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اور یہی روش آج تک باقی ہے اور کمال مکر و فریب اور پروپیگنڈا سے اپنے آپ کو مہذب ،زبان کا سچا اور انسانیت کے حقوق کا علمبردار مشہور کردیا ہے اپنی وحشت اور بربریت کی خاطر بیسویں صدی کے دوران کئی کروڑ لوگوں کو بے دردی سے قتل کرچکے ہیں اور لاکھوں بچے اورخواتین ان کے بہیمانہ ظلم اور جبر کا شکار ہوئے ہیں جس میں ہیروشیما ناگاساکی جیسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی دہشتگردی کہی جائے تو بجا ہوگااس کے علاوہ اہل یورپ کی ایک روش یہ بھی رہی ہے کہ وہ صرف جنگ میں جسم ہی نہیں زخمی کرتے بلکہ نیچ اور پست لوگوں کی طرح لڑتے ہوئے روح پر بھی اپنے گھٹیا پن کی وجہ سے حملہ آور ہوتے ہیں جو برطانوی ،نازی، جرمن،امریکی ، فرانسیسی فوجوں کی لڑائی میں مخالف فوج اور سولیین کے ساتھ رویوں میں دیکھی جاسکتی ہیں جس کا بیان طول کا سبب ہوگا ۔ ان کے پاس مشہور ضرب لامثل ہے \"کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے\"
is fair in love and war Everything۔ اسی جملہ سے یورپین کی سوچ کا پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ نہ تو جنگ میں فیئر ہیں نہ پیار میں سچے ہیں یہ لوگ ماں باپ سے بھی اس وقت تک پیار کرتے ہیں جب تک ان سے مطلب ہوتا ہے ورنہ انہیں بھی اولڈہاؤس روانہ کردیتے ہیں۔

 

یورپ کے عام عوام پر پہلے جنگیں مسلط کیں اور یورپ میں اندرونی لڑائیاں جاری رکھیں جو تقریبا 500پانچ سو سال تک رہیں جس کا دورانیہ1000 عیسوی سے 1499 عیسوی تک ہے ا ن جنگوں کے حالات کا مشاہدہ کرکے ان کی نفسیات کو سمجھا جا سکتا ہے جس کے بعد انہوں نے عیسائی مذہب کے خلاف تحریک چلائی اور پھر یورپین کے اخلاق بگاڑ دیئے یوں یورپین کا مذہب و اخلاق بگاڑ کر ان کو ننگی تہذیب دے کر ان کی پوری آبادی کو اپنا نظریاتی غلام اور بے وقوف صارف بنا چکے ہیں یعنی ٰ ترقی کے نام پر پورے یورپ سے ان کی اپنی پسند اور نا پسند کا حق تک چھین لیا اور مارکیٹنگ اور ایڈورٹائیزنگ کے ذریعے ان کے پسند اور نا پسند کا تعین و معیارمعین کردیادنیا کے باقی ماندہ علائقوں پر ان کی ایسی ہی ورکنگ جاری ہے۔ یوں سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے اہل یورپ سے ان کا مذہب چھیں لیا اور آزادی اور ترقی کے نام پر عریاں تہذیب دے دی اور اسی بہانے ان پر معاشرتی خرافات مسلط کی اور پورے یورپ کی آبادی کواپنا غلام اور بیوقوف صارف بنادیا حتیٰ کہ حکومتیں بھی شہریوں کو سٹیزن کے بجائے کسٹمر ز کے طور پر ٹریٹ کرنے لگیں ہیں۔

 

اسی گھٹیا اور نیچ پن کا یورپ کے ادارے مختلف اوقات میں عملی اظہار کرتے رہے ہیں جس میں گذشتہ یورپ کے دیگر ممالک میں اور حالیہ فرانس میں کی جانے والی توہیں رسالت ؐ کی مثال ثبوت ہے دیکھا جائے تو دہشتگرد بھی ان ہی کے ہیں اور ان کو اسلحہ دینے کا اعلان بھی امریکہ نے کیا ہے اور میگزین چھاپنے والا ادارہ فرانس کاہے او ر جھوٹ اور خرافات کو اظہار کی آزادی کا بہانہ بھی ان ہی نے بنایاہے۔ ورنہ ھولوکاسٹ پر بات کرنے ،تحقیق کرنے،نظر ثانی کرنے یا اظہار رائے پر یورپ کے 13 ممالک مین آج بھی پابندی ہے اورقانوناً قابل سزا جرم ہے ان تیرہ ممالک میں فرانس بھی شامل ہے پہلے فرانس اس پر تو پابندی ختم کرے پھر آزادی اظہاررائے کی بات کرے ورنہ فرانس میں آزادی اظہاررائے کے نام پر جمع ہونے والے تمام یورپین کیلئے برطانیہ کے مصنف rving David I کا آسٹریا کی جیل میں اظہاررائے کی آزادی کے حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں سزاپانا ان کے منہ پر زور دار تمانچہ ہے۔

 

دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں موسیٰ ؐ پسند یہودیوں کو قتل کرکے فرعوں پسند یہودیوں کی حکومت کا جواز فراہم کیا گیا لیکن ان نکات پر تحقیق کرنے پر پابندی ہے جوکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یورپی حکمران اور یہودی سرمائیداروں کے بیچ خفیہ معاہدے موجود ہیں ۔ اسی لئے بہت سی کتابوں پر یورپ میں پابندی لگائی گئی ہے جس میں خود فرانس کے مصنف کی کتاب The Drama Of The Europen Jews شامل ہے ۔اور بہت سے یورپی مصنف اسی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل کی بیان کردہ تعداد اور وجوہ صحیح نہیں اوران مصنفین میں یورپی اور دیگر خطوں کے مصنفین و محققین شامل ہیں جن کو Holocaust Dieniers کہا جاتا ہے اور ان کے اظہاررائے پر پابندی ہے ۔اگر یورپ کو اپنے کئے پر اتنی ہی شرمندگی تھی تو یہودیوں کو اپنے پاس یورپ میں کوئی علائقہ دیدیتے مسلم ممالک میں بھیجنا اور بے جا حمایت کرنا سازش کا کھلا ثبوت ہے۔

 

موجود ہ د ورمیں ان کے مظالم یورپ سے ایشیا ء کی طرف باقاعدہ منتقل ہو چکے ہیں جو کہ ان کا شروع ہی سے اصلی ہدف اور انتہائی گہری دلچسپی کا علائقہ رہا ہے جس کے بعد پوری دنیا پر ان کی بلا شرکت غیرے حکومت ہو جائے گی اس لئے انھوں نے ایشیائی ممالک خصوصاً مسلم ممالک کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے جس پر انھوں نے دہشتگردوں کے ذریعے جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں اور مسلمانوں کے اخلاق ونظریات کو بگاڑنے کے لئے تمام تروسائل کو بروئے کار لایا جارہاہے ،گذشتہ حالات سے یورپ نے سیکھ لیا ہے کہ خود کو براہ راست جنگوں میں ملوث کرنے کے بجائے منافقانہ طور سے بالواسطہ دنیا پر جنگ مسلط کرنا چاہئے جس سے فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہیں جس کا مطالعہ رچرڈنکسن کی کتاب Victory With out warsفتح بغیر جنگ سے کیا جا سکتا ہے اسی سوچ کے تحت انہوں نے پہلے اسلام کے نام سے نقلی اور جھوٹے مجاہد اور جہادی تیار کئے اور اپنے حریف روس کو نقصان پہنچایا اور پھر انہی کے ذریعے پوری دنیا میں جہاں چاہا وہاں اندرونی مداخلت کرنے لگے اور حکومتوں کو اپنی مرضی سے گرانے اور بنانے لگے جو کہ ان کی دیرینہ خواہش و پلاننگ تھی ۔

 

ماضی میں جس طرح انہوں نے پہلے یورپ میں جنگوں کے بعد عیسائیوں کو تحریف شدہ دین دکھا کرباقی ماندہ اصلی دیں کے اقدار بھی چھیں لیں اور مذہب سے لوگوں کو متنفرکرکے اپنی غلامی میں قید کیا اور آخرکار اسی مخصوص طبقے نے پورے یورپ پر بلا شرکت غیر ے حکومت حاصل کرلی اسی طرح اب مسلمانوں کو بھی نقلی اسلام دکھاکر اصلی اسلام سے متنفر کرکے اپنی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کی ابتداء اندرونی جنگوں سے کی اور اب اپنی اسی تاریخی پست روی کے تحت وہ کائنات کی عظیم ہستی کی مسلسل توہیں کرکے لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

 

ایک طرف وہ انہی دہشتگردوں کے مخالف بنے پھرتے ہیں تو دوسری طرف ان کو مسلح اور طاقتورکرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ مراعات ان دہشتگردوں کوحاصل ہیں جو فقط مسلم ممالک میں جہاد کے نام پر ان کے مفادات کی تکمیل کررہے ہیں ا ور جب انہی کا کیا خود ان کی طرف پلٹ کر آتاہے تو ان دہشتگردوں کے اعمال کو اسلام اصلی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور رمحسن انسانیت محمدصلے اللہ علیہ واٰلہ وسلم جنہوں نے جنگوں کے دوران بھی انسانیت اور اخلاقیات کا دامن تھامے رہنے کی تلقین اور تعلیم فرمائی ہے البتہ یورپ میڈ اسلام میں یہ تعلیمات موجود نہیں ہیں جس کی بناء پر یہ دشمن انسانیت اسی محسن انسانیت کی توہین کرنے کے بہانے گھڑنے لگتے ہیں اور اسلام کے خلاف واویلا کرنے لگتے ہیںیہ مکاری اور فریب کاری کے ذریعے دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے اور خود کو معصوم ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصلی ہدف یعنی ٰ دنیا پر حکمرانی اخلاقیات کے بغیر،کیلئے کی جارہی ہے ،جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق جس طرح کسی بیگناہ کا قتل قابل مذمت ہے اسی طرح کسی کا قتل کسی بے گناہ کے سر تھوپنا بھی قابل مذمت ہے۔اگرحقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو فرانس میں 12 لوگوں کے مرنے پر وہ لوگ بھی احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے جو فلسطین میں خود ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قاتل ہیں اوریہودیوں کے موقف کے مطابق یورپ کے حکمران خود بینجمن نیتن یاہو کی قوم یعنی ٰ یہودیوں کے سب سے بڑے قاتل رہے ہیں اور اس نفرت کے آثار اب بھی یہودیوں کے دلوں میں یورپ کے خلاف موجودہیں یہی دوہرا معیار ہے جو یورپ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا ہواہے اور نہ صرف دنیا میں یورپین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ دنیامیںیورپ کے لئے نفرت بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ ہرمعاملے میں یورپ کا دوہرامعیاراور یہودیوں کے ہرناجائزعمل کی ناجائزحمایت کرنا ہے جس کا ادراک اب عام یورپی کو ہونے لگا ہے جس کا ثبوت ہے کہ خود یورپ کے شہری اپنی ہی حکومتوں کے باقی دنیا سے رویوں اور پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

 

تحریر :عبداللہ مطہری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree