عوامی پریشر اور دھرنوں کے ثمرات

19 January 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن اور سنی اتحاد کونسل نے طالبان کے ساتھ مزاکرات کرنے اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو قانونی شیلٹر دینے کی پر زور مزمت کی تھی اور وزیرستان سمیت تمام علاقے جو دہشتگردوں کے قبضے میں ہیں اور وہاں پر حکومت کی رٹ نہیں ہے انہیں آزاد کرانے کی بات کی تھی۔ اور ملک کے طول و عرض میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ مزاکرات کی آڑ میں دہشتگردوں کو بچانے اور ملک سے فرار کرنے اور محفوظ مقامات پر اسلحہ منتقل کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دوسری طرف سعودی اور بحرینی وفود کی غیر متوقع پاکستان آمد اور ان کی مالی امداد کے ذریعے ملک کے اندر دہشتگردوں اور تکفیریوں کی تقویت یا بین الاقوامی تکفیری دہشت گردی میں وطن عزیز کی ساکھ کو بچانے پر بھی زور دیا گیا۔ نواز لیگ حکومت کی طرف سے ماڈل ٹاون کے نہتے اور معصوم پر امن شہریوں کے خلاف احتجاجی تحریک دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی گئی اور 70دن تک مسلسل پاکستانی عوام کو پاکستان میں قائم ظالمانہ سسٹم اور ماضی کے ڈکٹیٹر شپ جنرل ضیاء الحق کی باقیا ت کی حقیقی منحوس چہروں سے پردہ اٹھایا گیا اس تمام تر عوامی پریشر اور تاریخی دھرنوں کے بعض اثرات اب ملک پاکستان کی عوام کے سامنے آچکے ہیں ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔

 

(1)۔ دہشت گردوں کی سرپرست نواز لیگ حکومت کا کمزور ہونا
اگرچہ سیاسی مگرمچھوں نے مل کر گرتی ہوئی نواز حکومت کو سہارا دیا ہے اور حکومت اس بھر پور عوامی پریشر اور دھرنو ں سے نہیں گری لیکن اب وہ اس عوامی رائے عامہ کے سامنے حکومت کرنے کا جواز کھو چکے ہیں اور اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم امن وا مان کا مسئلہ حل کر نے سے عاجز ہیں اور دہشتگردی کو روکنا ہمارے بس میں نہیں اور اب انہوں نے اپنی کمزاوری اور بے بسی کا اظہار بار ہا کر رہے ہیں اور پاکستان آرمی کو آنکھیں دکھانے والے خود فوج سے درخواست کر رہے ہیں کہ فوجی عدالتیں قائم کریں کیونکہ سول عدالتیں ناکام ہو چکی ہیں ۔ انہوں نے ماضی میں ہزاروں دہشتگردوں کو بری کیا ہے اور اب بھی کبھی دھمکیوں اور کبھی بھاری رشوت سے عوام کے قاتلوں کو رہا کر دیتی ہیں۔ عملی طور پر اب نواز لیگ کی حکومت کے پاس آدھے اختیارات رہ چکے ہیں اور آج وزیر اعظم اور وزیر اعلی وہی بیانات دے رہے ہیں جو چند ماہ قبل مجلس وحدت مسلمین کی قیادت دیا کرتی تھی اب خود کہتے ہیں کہ کوئی اچھا اور برا طالبان نہیں بلکہ سب کے خلاف بلا تفریق کاروائی ہو گی۔
(2)۔ طالبان مخالف مظبوط سیاسی اتحاد
ابتداء میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور اس کی اتحادی جماعتیں طالبان کی مخالف تھیں اور تکفیریوں کے خلاف میدان میں آکر وطن عزیز اور پاکستانی عوام ک قاتلوں کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں لیکن اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں طالبان اور تکفیریت کے خلاف متحد ہیں اور تکفیری تنہا ہو چکے ہیں اور ان کے سر پرست کبھی ان کے خلاف بننے والے قوانین پر دستخط کر رہے ہیں اور کبھی اپنی گردن بچانے کے لئے انہی قوانین کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ آج مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر نظر آرہی ہیں کیونکہ ان دھرنوں اور احتجاجات کی بدولت سول سوسائٹی بھی سڑکوں پر نکل آئی ہے اور ان سیاسی پارٹیوں کی مجبوری ہے کہ اپنی سیاسی بقاء کے لئے وہی فیصلے کریں جو پاکستانی عوام چاہتی ہے ۔ اس عوامی پریشر نے تکفیریوں اور طالبان کے خلاف مضبوط سیاسی اتحاد بنایا ہے۔
(3)۔ اکیسویں ترمیم اور دہشت گرد تختہ دار پر
ایک طویل عرصہ سے تکفیری دہشت گردوں اور عوام کے قاتلوں کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی لیکن متواتر سیاسی حکومتوں نے بیرونی پریشر اور ملی بھگت اور خوف سے انہیں معطل کر رکھا تھا ۔ اب جب پاکستان میں بیداری کی لہر اٹھی اور احتجاجی دھرنوں نے عوامی پریشر کو مضبوط کیا تو آج قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں مل رہی ہیں اور مجرم تختہ دار پر لٹک رہے ہیں مقتولین کے وارثوں کی دعائیں بلند ہور ہی ہیں اور ان کی بے چینی اور بے قراری کم ہورہی ہے۔ اب بھی ان دہشت گردون کے سرپرست ان بزدلوں کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن مظلوم اب سڑکوں پر آچکے ہیں وہ اپنا حق لے کے رہیں گے۔ اکیسویں ترمیم کا بل منظور ہونا مظلوموں اور ان کے وارثوں کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس ترمیم کی شقیں مندرجہ ذیل ہیں۔

 

سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکے گی۔
پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے
فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والے
اغواہ برائے تاوان کے مجرم
غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والے
مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے
کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین
سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے
دھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے یا لے جانے میں ملوث افراد
دہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیداکرنے والے افراد
بیرون ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے
آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد چلایا جائے گا اور فوجی عدالت کو مقدمے کی منتقلی کے بعد مزید شہادتوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت زیر سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی۔ ایسے بھی کچھ دہشت گرد گروہ ہیں جو مذہب یا فرقے کا نام استعمال کر کے دہشت گردی کر رہے ہیں اور ان کے لوگ جب مسلح افواج یا دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ لڑائی میں پکڑا جائے گا تو ان پر بھی خصوصی عدالتوں میں کیس چلایا جائے گا۔ ۔
(4) عملی وحدت ملی و اسلامی کا قیام
عموما وحدت ملی و اسلامی کے قیام کے لئے خواص طبقہ کے افراد مختلف ہوٹلوں اور کنونشن سنٹرز میں اکٹھا ہوتے تھے اور روائتی اتحاد و وحدت پر گفتگو ہوتی تھی لیکن انقلاب مارچ اور آزادی مارچ سے ایک بے نظیر عملی اور لیڈر شپ سے نچلی سطح تک ایک عملی وحدت ملی و اسلامی سر زمین پاکستان پر دیکھنے میں نظر آئی اور مختلف ادیان و مذاہب رکھنے اور مختلف قبائل و اقوام کے ہم وطن پارلیمنٹ کے سامنے متحد ہو کر ایک ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ (گو نواز گو) یعنی وہ اب اس سیاسی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں جس میں مخصوص لوگ باری باری حکومت میں آتے ہیں اور پاکستان کی ترقی کی بجائے نئے بحران کھڑے کر تے ہیں اور انہوں نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔ پاکستان کی بدترین معاشی ، سیاسی ، امنیتی بحرانوں میں نالائق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کھڑا ہے اب اس کرپٹ سیاسی نظام کو جانا چاہیے۔ گو اس بھر پور عوامی جدوجہد اور دھرنوں سے نواز حکومت گری نہیں لیکن اس عوامی پریشر سے اس حکومت کی چولیں ہل گئی ہیں اور دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور اس کی طاقت ختم ہو چکی ہے اور اب یہ حکومت اپنی موت خود ہی مر جا ئے گی۔
(5)۔ بے مثال جشن عید میلاد النبی (ص) اور وحدت اسلامی کا روح پرور نظارہ
دشمن نے 35سال سے پاکستان کے اندر شیعہ سنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مختلف سازشیں کیں لیکن فرزندان رسالت نے عید میلاد کے موقع پر جس عملی وحدت کا ثبوت دیا وہ قابل دید ہے۔ پورے ملک کے اندر شیعہ سنی اجتماعات اور میلاد ریلیاں اس بات کا مظہر ہیں ۔ جس طرح سے لیڈر شپ نے پورے پاکستان میں اکھٹے ہو کر دشمن کے منہ پر وحدت اسلامی کا طمانچہ مارا ہے ویسے ہی عوامی حلقوں نے بھی عملی اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اور اس وحدت سے دشمن پاکستان و دشمن شیعہ و سنی کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔
(6) نئی ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی عوامی پزیرائی میں اضافہ

 

انقلاب مارچ اور دھرنوں سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان، پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کی شہرت اور عوامی حمایت میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹیاں پاکستان کو مختلف بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ اور نئے سیاسی توازن کو ایجاد کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ملت کی امیدیں ان سے وابستہ ہو چکی ہیں اور یہ سب کچھ بھر پور عوامی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں تھا انہوں نے مل کر شاہراہ دستور پر حکومتی تشدد ،شیلنگ اور فائرنگ کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور یہ سیاسی پارٹیاں مل کر ملک بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

 


تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree