وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ سید حسن ظفر نقوی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس کے فارغ التحصیل ہیں، دنیا بھر میں انقلابی مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، کراچی سے خصوصی طور پر علامہ ناصر عباس جعفری کا ساتھ دینے کیلئے اسلام آباد میں لگائے گئے ہڑتالی کیمپ میں تقریباً 70دن تک موجود رہے، تاہم عارضہ قلب کی تکلیف ہونے کے باعث تین دن اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج رہے، جہاں ان کی انجیوگرافی کی گئی اور بعد میں انہیں ڈاکٹرز کی ہدایت پر کراچی منتقل کر دیا گیا۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے 70 دن تک مظلومین کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بھوک ہڑتالی کیمپ اور کشمیر کے معاملے پر ایک اہم انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
سوال: 13 مئی سے شروع ہونیوالی اس بھوک ہڑتال سے ابتک کیا اہداف حاصل ہوئے ہیں۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں یہ کامیابی ضرور ملی ہے کہ لوہے کے کانوں پر لوہے برسانہ شروع کر دیئے ہیں، پوری دنیا میں ہماری جدوجہد کی بات ہو رہی ہے، عالمی سطح پر اس معاملے کو پذیرائی ملی ہے، مظلوموں کی بات کو اب سنا جا رہا ہے، یہ اسی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، ابھی نامعلوم کہ کتنے دن اور بیٹھنا پڑے، یہ صبر آزما تحریک ہوتی ہے، دیکھئے کہ کامیابی کے رمز کیا ہیں۔؟ جب سیلاب آتا ہے تو بڑی بڑی چیزیں بہا کر ساتھ لے جاتا ہے، لیکن پتھر اپنے مقام پر باقی رہتا ہے، لیکن جب اسی بڑے پتھر پر مسلسل تین چار مہینے پانی کا قطرہ ایک مقام پر گرتا رہے تو اس جگہ پر ایک سوراخ بن جاتا ہے۔ یہ پھوک ہڑتال بھی اس قطرے کی ماند ہے، سمندر کا پانی تو ایک بار آکر چلے جائیگا، لیکن اس بڑے پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن قطرہ اس پر ضرور اثر ڈالے گا، یہ بھوک ہڑتال کا خیمہ بھی اس قطرے کی ماند ہے، اس پتھر میں سوراخ پڑ چکا ہے، ان کے اندر دو حصے ہوگئے ہیں، یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں، ہم پوری دنیا میں اپنی مظلومیت منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
جیسے گلگت بلتستان میں زمینوں کا مسئلہ تھا وہ رک گیا ہے، اسی طرح پارا چنار کا مسئلہ تھا، وہ 90 فیصد حل ہوگیا ہے، جیسے پاراچنار کے مومنین چاہتے تھے ویسے ہی حل ہوا ہے۔ مومنین خود کہہ رہے ہیں کہ ہم مطمئن ہیں، جس طرح ہم چاہتے تھے اسی طرح جرگہ بیٹھا ہے اور مسئلہ حل کیا ہے۔ ان کی تفصیلات جلد قوم کو بتائیں گے۔ باقی جگہوں پر نوٹیفیکیشن جلد جاری ہوں گے، کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی استقامت کے ساتھ مطمئن ہیں۔ ہماری تحریک سے قوم مضبوط ہوئی ہے، اس سے اتحاد پیدا ہوا ہے، ہم جو دنیا کو عدم تشدد کی تحریک پیش کرنا چاہتے تھے، اس میں 100 فیصد کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے باور کرایا ہے کہ تشدد کے ذریعہ تشدد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کربلا نے بھی ہمیں یہی سکھایا ہے، تلوار کے اوپر خون کی فتح تھی، ہاں دفاع واجب ہے۔ جہاں پر دشمن حملہ آور ہو جائے، اس کا دفاع کریں۔ سید سجاد اور حضرت زینیب کی تحریک نے یزیدیت کو گالی بنا دیا۔ یہ خیمہ ان ظالموں پر قطرے کی ماند سوراخ کرتا رہے گا۔ ابراھہ کے لشکر کو ابابیل کی کنکیریوں نے ختم کیا تھا، اس حکومت کو مظلموم وہ سبق سکھائیں گے کہ یہ یاد رکھیں گے۔
سوال: علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا ہے کہ اب شہداء کے ورثاء بیٹھیں گے، کیا کوئی حکمت عملی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: دیکھیں! حکمت عملی پہلے نہیں بتائی جاتی، پہلے سے طے کردہ چیزیں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں، اب دوسری حکمت عملی سامنے آئی ہے، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے بہت دباو ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ سینکڑوں شہداء کے ورثاء یہاں اظہار یکجہتی کیلئے آچکے ہیں۔ یہ شہداء کے خانوادوں کی طرف سے دباو آیا ہے کہ اب ایک ہی بندہ فقط بھوک ہڑتال پر نہیں بیٹھے گا، اب شہداء کے ورثاء ایک ایک کرکے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ابھی پاکستان مارچ سمیت کئی آپشن موجود ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
سوال: حکومت کیساتھ رابطوں کی کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: جی دیکھیں رابطے کیوں نہیں ہوئے، رابطے تو ہوئے ہیں اور مسلسل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، اسی طرح ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ملاقات ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہوم سیکرٹریز، چیف سیکرٹری سب آتے ہیں اور رابطے میں ہیں، لیکن مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے کہ ہم آپ کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں، بس آپ بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ بھائی مسئلہ ماننے یا تسلیم کرنے کا تھوڑا ہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ عملی طور پر کچھ چیزیں تو جاری کریں نا۔ کوئی چیز لکھنے میں سامنے تو آئیں ناں، کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔ کچھ تو عملی ہو۔ ہم کوئی ضد پر تھوڑا اڑے ہوئے ہیں، بھائی آپ خود کہتے ہیں کہ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، بس اس پر عمل کریں۔ اتنی سی بات ہے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ کسی حکومت گرانے کی تحریک کا حصہ نہیں بن رہے۔ اس کو ہم نے بار بار کہا ہے اور زور دیکر کہا ہے۔ ہماری تحریک فقط اہل تشیع کے حقوق کیلئے ہے۔ اس کو مان لو، ہم اٹھ کر چلے جائیں گے۔ ہم صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی ایجنڈے کے تحت نہیں بیٹھے ہیں۔
سوال: اہم مطالبات کیا ہیں، جن پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو آپ لوگ اٹھ جائیں گے۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: پنجاب اور کے پی کے میں اور بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے۔ بلآخر کراچی میں آپریشن ہوا یا نہیں۔ آخر فاٹا میں آپریشن ہوا یا نہیں ہوا، چھوٹو گینگ کو پکڑنے کیلئے آرمی جاتی ہے یا نہیں۔؟ ہمارا سوال یہی ہے کہ جب فاٹا میں آپریشن ہوسکتا ہے تو ڈیرہ میں کیوں آپریشن نہیں کیا جاتا، وہاں آرمی کو کیوں نہیں اختیارات دیئے جاتے۔ ایپکس کمیٹی کا اجلاس تو وزیراعلٰی نے بلانا ہوتا ہے، ابتک اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا۔ پنجاب میں ہزاروں عزاداروں کے خلاف ایف آرز درج ہیں، ان کو واپس لیا جائے۔ گلگت بلتستان کی زمینیوں پر کیوں قبضہ کیا جا رہا ہے؟، سی پیک پر کام کرو گے تو کیا زمینوں پر قبضے کرو گے، جن لوگوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرا راج سے خطے کو آزاد کرایا اور اپنے آپ کو پاکستان کے حوالے کر دیا، تم ان کی زمینیں چھین رہے ہو، بالش خیل کی زمینیں چھین رہے ہو، جنہوں نے طالبان کے خلاف جنگ لڑی۔ آج تم انہی دہشتگردوں کو لاکر آباد کر رہے ہو۔ جو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ان کے دلوں میں نفرت ڈال رہے ہو۔ ہمارے سیدھے سیدھے مطالبات ہیں، ان عمل کرو، ہم چلے جائیں گے۔ دو تین مطالبات مان لئے ہیں، باقی بھی مان لو، ہم چلے جائیں گے۔
سوال: کشمیر کے معاملے پر ملت جعفریہ کا کیا موقف ہے۔ عجب ہے کہ تشیع کشمیر کے معاملے پر وہ جذبہ جو قدس کے معاملے پر دکھاتی ہے وہ نہیں دکھاتی، جبکہ دیوبند اور اہل سنت حضرات جتنا جذبہ کشمیر کے معاملے پر دکھاتے ہیں، وہ قدس کیلئے نہیں دکھاتے، جبکہ دونوں اطراف میں مر مسلمان ہی رہے ہیں۔ اسکی وجہ بھی بیان فرما دیں۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: ہمارا کشمیر پر اٹل فیصلہ ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ کو شیعہ سنی بنا دیا گیا ہے اور تفریق ڈال دی گئی ہے، 65ء کی جنگ کے بعد سے پوری ملت جس میں بلاتخصیص مذہب و فرقہ سب نے کشمیر کے معاملے پر ایک ہی موقف اپنایا ہے۔ ہم مسلمانوں ہونے کے ناطے اور پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیریوں کے معاملے پر جو کرسکتی تھی وہ کیا ہے، ہم نے مظاہرے بھی کئے ہیں، مشعل بردار ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ تیسری بات کہ ہمیں حکمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے جس طرح ملک کو شدت پسندی کی طرف لے جایا گیا، کشمیر افغانستان کے معاملے پر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے جوان اس میں اس طرح شامل ہوں اور ان کی لسٹیں عالمی سطح پر جائیں۔ بدقسمتی کے ساتھ اس طرح ماضی میں رہا ہے۔ بعد میں وہی جہادی دہشتگرد بن گئے۔
جن لوگوں نے افغانستان اور دیگر جگہوں پر جہاد کیا، اس پر ان کو بھی، ان کے خاندان کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔ مسئلہ ملت کا نہیں ہے، پوری ملت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، مسئلہ حکومت کا ہے کہ جس کی پالیسیاں صبح شام قلابازیاں کھاتی ہیں، اس کا مسئلہ ہے۔ ہم ان قلابازیوں کی وجہ سے اس ایکسٹریم لیول پر نہیں جانا چاہتے۔ کل ان کی پالیسی بدلے گی، یہ ان کے ساتھ تجارت شروع کر دیں گے۔ یہ وہ حکمران ہیں، جو کہتے ہیں کہ ایک لکیر کھچ گئی ورنہ ہم تو ایک ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم ان سے کشمیر کے حوالے سے کیا توقع رکھیں، یہ کیا آواز اٹھائیں گے۔ جس کے حکمران بھارت میں جاکر کہتے ہوں کہ یہ ایک لکھیر کھچ گئی تھی، ورنہ تو ہم تو ایک ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کمزوری شیعہ سنی میں نہیں ہے بلکہ یہ کمزوری حکمرانوں میں ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پوری ملت کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے، لیکن حکمرانوں کی آواز اتنی نحیف پڑ چکی ہے کہ کسی کو سنائی ہی نہیں دیتی۔
سوال : پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ بنا، ساتھ کھڑا ہوگیا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک نے بھی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کیا۔ یہ خارجہ پالیسی کی ایک اور ناکامی نہیں ہے۔؟
علامہ سید حسن ظفر نقوی: اس وقت بھی ہم نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آپ جو یہ معاہدے کر رہے ہیں، فلاں ملک پر حملہ ہوا تو آپ جائیں گے، فلاں ملک پر یہ ہوا تو ہم یہ کر دیں گے، کیا کسی ایک معاہدے کی شق میں یہ بات ڈلوائی ہے کہ اگر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا تو یہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ جنگ ہوئی تو کوئی ہماری امداد کو آئیگا؟، ابھی جو کشمیر میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے کہ ان 34 ملکوں میں سے کسی ایک ملک کا نام لے لیں اور بتائیں کہ کسی ایک ملک نے آپ کی حمایت کی ہو اور بھارت کی مذمت کی ہو۔ کوئی ایک ملک بھی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ کب یہ کہاں پھینک دیں۔ اس لئے ہمیں تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہم دانشمندی کے ساتھ آگے چلتے ہیں۔ پاکستان کی پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں کہ کب اپنی پالیسی تبدیل کر دیں۔ جس طرح ان کی سشما سوراج اور دیگر بیان دیتے ہیں، ان کا جواب تک یہ لوگ نہیں دیتے۔ یہاں تک وہ کہہ گئے ہیں کہ ہم پاکستان پر بمباری کریں گے، کیا یہاں سے کوئی جواب دیا گیا۔ کیا سارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈالنا ہے۔ اگر فوج نے ہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر آپ اپنا بوریا بستر اٹھائیں اور چلے جائیں۔ نہ خارجہ پالیسی ہے اور نہ داخلہ پالیسی ہے، کشمیر کے معاملے پر حکومت کی کوئی پالیسی ہی واضح نہیں ہے۔ قوم کو پتہ نہی نہں کہ پالیسی ہے کیا۔