وحدت نیوز (آرٹیکل) ویسے میرا عراق کا یہ دوسرا اور اربعین کے حوالے سے پہلا سفر تھا، اربعین کے حوالے سے بہت کچھ سوشل میڈیا پر دیکھ رکھا تھا اور ایک خواہش تھی کہ اربعین کے موقع پر حاظری دیکر چیزوں کا خود مشاہدہ کروں۔ مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز کو دیکھ کر میرا بھی یہی نظریہ تھا کہ عراقی عوام فقط نجف سے لیکر کربلا تک مہمان نوازی کرتی ہے، لیکن 17 نومبر کو جونہی بغداد ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی، جب ہم نے دیکھا کہ بغداد سے ہی مہمان نوازی کا سلسلہ جاری ہے، ائیرپورٹ سے باہر آکر دیگر پاکستانیوں کے ساتھ ملکر 10 سیٹر گاڑی بک کرائی اور نجف اشرف کی طرف عازم سفر ہوئے تو راستہ میں جگہ جگہ، ہر چوک پر عراقی عوام نے زائرین کیلئے کھانے پینے کے مختلف اسٹالز لگا رکھے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ عراقی عوام نے سب کچھ چھور چھاڑ کر ایک کام اپنے ذمے لیا ہوا ہے اور وہ ہے زائرین کی خدمت۔ عراقی عوام اپنے بچوں کے ہمراہ کھانے پینے کی اشیاء لیکر سڑکوں پر زائرین کی خدمت کر رہے تھے اور ہر آنے والے شخص اور گاڑیوں کو روک کر کہہ رہے تھے کہ آئیں زائر امام ہمارے ہاں سے کچھ لے لو، ہمیں خدمت کا موقع عنایت کر دو، کسی کے ہاتھ میں پانی، تو کسی کے ہاتھ میں شربت، کوئی دال چاول کے ذریعے خدمت کر رہا تھا تو کوئی چکن دال مکس سالن لیکر راستے میں زائرین کا منتظر دکھائی دیا، ہر بندہ اپنی بساط کے مطابق زائرین کی خدمت کیلئے حاضر تھا۔ بلامبالغہ بغداد سے نجف تک جہاں جہاں انسانی آبادی تھی، وہاں عراقی عوام خدمت کیلئے موجود دکھائی دی۔
عام حالات میں بغداد سے نجف تقریباً تین گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے، لیکن گاڑیوں کے شدید رش کے باعث ہم نے یہ سفر تقریباً 5 سے 6 گھنٹے میں طے کیا، نجف پہنچے تو تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، ہر طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُمڈ آیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ پوری دنیا نجف کی طرف عازم سفر ہے، جو کربلا معلٰی جانے کیلئے مضطرب ہے، جس طرف نگاہ دوڑائیں ہر جانب زائر ہی زائر نظر آ رہے تھے، اربعین کے موقع پر یکم صفر سے ہی نجف سے کربلا کیلئے مشی کا آغاز کر دیا جاتا ہے، مشی سے مراد نجف سے کربلا تک پیادہ سفر کرنا ہے اور کربلا والوں کی مشکلات کو یاد کرنا ہے۔ راقم کیونکہ 16 صفر کی شام کو نجف اشرف پہنچا تھا، اس لئے مغرب کی نماز کے بعد ہی امام حضرت علی علیہ السلام کے روضے کے باہر سلامی کرکے منزل کربلا کی جانب چل پڑا، یوں جیسے ہی روضہ حضرت علی (ع) سے کربلا کی جانب روانہ ہوا تو ایک سمندر تھا جو کربلا کی جانب عازم سفر تھا، اشکوں بھری ہر آنکھ کربلا پہنچنے کیلئے بےتاب دکھائی دے رہی تھی، جوں جوں آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ نجف سے لیکر کربلا تک جگہ جگہ موکب لگے ہوئے ہیں اور ہر موکب کے باہر عراقیوں کی جانب سے کھانے پینے کی اشیاء کے مختلف اسٹالز لگے ہوئے ہیں، ان اسٹالز پر شوارما تک دستیاب تھا۔
موکب سے مراد خیمے ہیں، جہاں سفر کے تھکے زائرین آکر آرام کرتے ہیں، سڑک کنارے لگے موکب میں نماز کا اہتمام اور سونے کیلئے بستر تک دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی موکب میں بغیر کسی جھجک کے ٹھہر سکتے ہیں، متنظمین آپ کو ملک، شہریت، قومیت اور مسلک سے بالاتر ہوکر آپ کو بلامعاوضہ رہنے سے لیکر کھانے پینے کی ہر چیز مہیا کرتے ہیں۔ عراقیوں کی جانب سے خواتین کیلئے موکب کا مکمل طور پر الگ انتظام کیا جاتا ہے، بندہ حقیر کی پہلی رات اس موکب میں گزری، جہاں بصرہ کے لوگ زیادہ تعداد میں موجود تھے، صبح اٹھے، نماز پڑھی اور ناشتہ کرنے کے بعد منزل کی جانب چل دیئے، اس روز تقریباً 20 کلو میٹر پیدل سفر طے کیا، راستے میں ناقابل یقین مناظر دیکھنے کو ملے، چھوٹے بچے پانی کی بوتلیں اور کھانے پینے کی اشیاء اٹھائے التجا کر رہے تھے کہ ان سے کوئی ایک چیز لے لیں، کوئی گھٹنوں کے بل بیٹھا، خوانچہ اٹھائے دال چاول لئے زائرین کو دعوت دے رہا تھا کہ اے زائر کوئی ایک چیز کھانے کیلئے اٹھا لو اور ہمیں مہمان نوازی کا شرف بخش دو، پھلوں سے لیکر بسکٹ اور دودھ تک زائرین کو پیش کیا جا رہا تھا، متعدد جگہوں پر جوتے پالش کرنے والے موجود تھے، جو زائرین سے درخواست کر رہے تھے کہ چند منٹ ٹھہر جائیں، آپ کے جوتے فری پالش کر دیتے ہیں، بعض افراد تھکے ہارے زائرین کی تھکن دور کرنے کیلئے ان کے پاوں تک دبا دیتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کروڑوں زائرین کی مہمان نوازی حکومت نہیں بلکہ عراقی عوام کرتی ہے، یکم صفر سے لیکر 20 صفر تک کسی زائر کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا، جو چیز کھانے کو چاہیں، مل جاتی ہے۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ عراقی عوام سال بھر پیسے جمع کرتے ہیں اور اربعین کے موقع پر وہ یہ پیسے زائرین پر صرف کرتے ہیں۔
نجف اشرف یعنی امام علی ؑ کے روضے سے لیکر امام حسین علیہ السلام کے حرم تک تقریباً 85 کلو میٹر کا سفر بنتا ہے، زائرین یکم صفر سے لیکر 20 کی شام تک پیدل سفر کرتے ہیں، اس دوران نجف سے کربلا تک کے راستے پر ایک منٹ کا بھی وقفہ نہیں پڑتا۔ دنیا بھر سے لوگ براہ راست نجف پہنچتے ہیں اور پیدل سفر کا آغاز کرتے ہیں، جو کربلا یعنی بین الحرمین پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ بین الحرمین امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علمدار کے حرموں کے درمیان موجود جگہ کو کہتے ہیں۔ بین الحرمین پہنچ کر زائرین زیارت امام حسین (ع) اور دیگر شہداء کربلا کی زیارت پڑھتے ہیں اور سلام عشق کرتے ہیں۔ عراقیوں کی بڑی تعداد بھی اربعین کے موقع پر مشی یعنی پیدل سفر میں شریک ہوتی ہے، اس بار سننے کو ملا کہ کئی مجتہدین بھی پیادہ سفر میں شریک رہے، عراقی زائرین کیلئے آیت اللہ سیستانی کی طرف سے حکم ہے کہ وہ 19 صفر تک کربلا کی زیارات کرکے واپس آجائیں، تاکہ دنیا بھر سے آنے والے زائرین کو 20 صفر کے موقع پر کربلا کی زیارات نصیب ہوں، یوں دیکھنے میں آیا کہ 19 صفر کو عراقیوں کی بڑی تعداد کربلا سے واپس نجف اشرف جا رہی تھی۔ زائرین کیلئے جگہ جگہ میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے تھے، اس حوالے سے جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے بھی کئی میڈیکل کیمپ اور موکب لگائے لگائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ عراق کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ تھی، جہاں ڈاکٹرز اور نرسیں ہمہ وقت زائرین کے علاج کیلئے موجود تھیں۔ 18 صفر کو بندہ حقیر کی بھی طبیعت خراب ہوگئی، یوں دو میڈیکل کیمپ اور دو اسپتالوں میں جانا پڑ گیا، بھلا ہو نجف اشرف میں پڑھنے والے طالب علم مولانا سید محمد حسین اور مولانا شاہد علی بلوچ کا جنہوں نے بیماری کی حالت میں بھرپور تعاون کیا۔ شاہد علی خان صاحب ہمارے فیس بک کے دوست ہیں، جنہوں نے نجف اشرف پہنچنے پر اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازا۔
(جاری ہے)
تحریر: نادر بلوچ