وحدت نیوز (آرٹیکل) مجرم پروری بھی ایک ہنر ہے۔مجرم لوگ ہی مجرموں کی سرپرستی کرتے ہیں،انہیں پناہ دیتے ہیں،خطرات میں محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔
مجرمانہ زہنیت رکھنے والے افراد کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی،وہ کسی بھی مذہب ،مکتب یا نظریے کے ہمدرد نہیں ہوتے بلکہ وہ مذہب اور نظریے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷میں جب پاکستان بنا تو سولہ سو کلومیٹر فاصلے کے باوجود مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہو کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ جنہیں نظریہ آپ میں ملا دے انہیں زمینی فاصلے ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔
اس کے بعد ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں نے بنگالیوں کو فکری طور پر اتنا تبدیل کیا کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو مشرقی پاکستان کے باسی ہم سے جدا ہوگئے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی،بیوروکریسی کی من مانی اور ہمارے مسئولین کے رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں عوام ہمیشہ پریشان حال اور مختلف اداروں کےمسئولین مست رہتے ہیں۔
۱۶دسمبر ۲۰۱۴ کو ہی طالبان نے حملہ کرکےپشاور کے آرمی پبلک سکول میں تقریبا ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو شہید کیاتھا۔یہ بدترین سانحہ بھی کبھی پیش نہ آتا اگر ہمارے ہاں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو حقیقی معنوں میں ختم کیاجاتا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کاصفایاکیاجاتا۔
حکمرانوں کی بے حسی ،بیوروکریٹوں کی من مانی اور مسئولین کے منفی رویے ہی مجرموں کو پلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔
ابھی مسئلہ تفتان ہم سب کے سامنے ہے۔لوگ سخت سردی میں ننگے آسمان تلے ٹھٹھرتے ہیں،ان کے ساتھ بدتمیزی ہوتی ہے اور ان سے رشوت لی جاتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت اور کوئی ادارہ ہی نہیں جو ان کے مسائل کو حل کرے۔
اب آئیے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کی طرف چلتے ہیں،جہاں پاسپورٹ کا عملہ تو ماشاللہ اچھی طرح اپنی ذمہ داری انجام دے رہاہے لیکن شناختی کارڈ بنوانے والے لوگوں کو خون کے آنسو رلایا جاتاہے۔
لوگوں سے فیس وصول کرکے کہاجاتاہے کہ پاکستان سے نادرا والے آپ کا شناختی کارڈ نہیں بھیج رہے ۔لوگ چکر پر چکر لگاتے ہیں،فون کرتے ہیں،درخواستیں لکھتے ہیں لیکن بے حسی کی انتہا ہے کہ آگے سےصرف ایک ہی جواب دیا جاتاہے کہ ہم کیا کریں یہ تو پاکستان سے نادرا والے نہیں بھیج رہے۔
بطور ثبوت اس وقت صرف دو رسید نمبر پیش کررہاہوں کہ جنہیں ایک سال ہوگیا ہے اور ابھی تک وہ شناختی کارڈ وصول کرنے کے لئےدھکے کھا رہے ہیں۔ایک رسید نمبر ۱۴۴۴۸۷۳ہے اس کی فیس ۱۳جولائی ۲۰۱۵ کو جمع کروائی گئی اور دوسری رسیدکا نمبر ۱۴۴۹۴۳ہے اور اس کی فیس ۲۸ جنوری ۲۰۱۶ کو جمع کروائی گئی ہے۔
بے حسی،من مانی اور منفی رویوں نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ شریف آدمی قانون اور انصاف کے نام سے ہی ڈرتا ہے۔ہر جگہ عام آدمی کو یہ یقین ہوگیاہے کہ کسی بھی ادارے کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف اس کے درخواست دینے اور واویلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ابھی گزشتہ روز ہی چترال ائیرپورٹ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والا ایک طیارہ حادثے کا شکارہوگیا جس میں سینتالیس کے لگ بھگ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔
یہ حادثہ کیوں پیش آیا !؟اس کے بارے میں مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ یہ یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا۔۔۔
جب یہ طیارہ اڑنے کے قابل ہی نہیں تھا توپھر کس کی بے حسی اور من مانی نے اس طیارے کو اڑنے کی جازت دی۔
جب تک ہمارے ملک کے اداروں میں من مانی کرنے والے،بے حس اور منفی رویہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں اس وقت تک عوام سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔
عوامی بھلائی،فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بے حسی کو ترک کرے،من مانی کرنے والے اہلکاروں کو نشان عبرت بنایاجائے اور کسی بھی ادارے کے اہلکاروں کے منفی رویوں کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.