وحدت نیوز (آرٹیکل) ابتداء کائنات سے ہی انسانی کمال و ترقی کے نام سے بہت ساری تحریکوں نے جنم لیا ۔ عروج و زوال دیکھا ۔ وہ تحریکیں کہ جن کی بنیاد و اساس کمزور تھی دنیا کے سینے سے مٹتی چلیں گئیں ۔ ۔۔ حتی ان کے اثرات تک باقی نہ رہے۔ مگر جیسے ہی دنیا میں کوئی بھی تحریک یا تنظیم سر اٹھاتی ہے ، اس کے ظہور کے ساتھ ہی چند بنیادی سوالات ذہن انسانی میں جنم لیتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ۔۔۔۔؟؟اس کے پیچھے کیا عوامل ، اسباب و محرکات کار فرما ہیں ۔۔۔؟؟یہ اپنے دعووں میں کس حد تک صادق ہے ۔۔۔۔ ؟؟آج ہر طرف داعش داعش کا شور سنائی دے رہا ہے ۔۔۔"داعش " آج سے چند سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک تنظیم ۔۔۔ اس کا نام و شور سنتے ہی میرے ذہن میں بھی بعینہ انہیں سوالات نے جنم لیا ۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔؟؟اس کا شعار کیا ہے ۔۔۔؟؟آیا یہ خود ذاتاً ایک مستقل نظریاتی تنظیم ہے ؟؟۔۔۔یاپھر یہ کسی اور تحریک و تنظیم کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟آیا اس کے ظاہر و باطن میں تفاوت پایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔؟؟
چند روز کی ورق گردانی و دانشمندان کے خیالات کی روشنی میں بالاخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ "داعش " نامی تنظیم بذات خود کوئی مستقل نظریاتی تحریک نہیں ۔۔۔۔۔ خود اس تنظیم کے دعوے کے مطابق یہ آج سے تقریباً 14 صدیاں پہلے جنم لینے والی تحریک کے علمبردار ہیں۔۔۔ اور ظاہری طور پر ان کا نعرہ اسی تحریک کے مقاصد کو دنیا کے کونے کونے تک پہچانا ہے ۔۔۔۔وہ تحریک کہ جسے دنیا آج اسلام کے نام سے جانتی ہے ۔۔۔۔ ان کے ادّعا کے مطابق یہ اسی اسلام کے علمبردار ہیں کہ جس کے محبت بھرے و نرم و نازک پودے کو خود رسول خدا (ص) نےکے کاشت کیا ۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔؟؟ ان کی تاریخ تو بلکل ان کے ادّعا و دعوے کی تصدیق نہیں کرتی ۔۔۔۔۔ اور چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں ۔۔۔۔ہاں جی ۔۔۔ بلکل ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔ میں خود بھی تحریک محمدیہ (ص) کا ہی فرد ہونے کی بناء پر رسول خدا(ص) کی مہربان و شفیق تحریک سے قدرےآشنا ہوں ۔۔۔۔لہذا اس بناء پر پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا اسلام محمدیہ (ص) سے دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا دم ضرور بھرا ہے ۔۔۔اگر تاریخ کا دقت سے مطالع کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ گروہ اسلام کے داخلی دشمنوں کے تسلسل کا ایک واضح نمونہ ہے ۔۔۔ کیونکہ ابتداء اسلام سے ہی جب دشمن نے یہ محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی سامنے سے آکر اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔۔۔لہذا چال بدلی ۔۔۔۔اور آگئے اسلام کا علم لےکر ۔۔۔۔یہی سبب ہے کہ ہمیشہ سے اسلام کو بیرونی دشمن سے زیادہ داخلی دشمن نے نقصان پہنچایا۔۔۔۔اور ہمیشہ سے ہی اس دشمن کا ہم و غم نابودی اسلام رہا ہے ۔۔۔۔۔یہ چند افراد نہیں بلکہ ایک منظّم فکر ہے کہ جو مختلف خطّوں میں ، مختلف افراد و گروہوں کی صورت میں مسلسل اسلام پر ضربیں لگارہی ہے ۔۔۔۔اگرچہ اس فکر کی ابتداء اوائل اسلام سے ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ مگر بعض کے نزدیک اس فکر کا بیج خوارج [1]نے بویا ۔۔۔اور یہی وہ پہلا گروہ ہے کہ جس نے عالم اسلام کو ایک بہت بڑے فتنے سے دوچار کیا ۔۔۔۔ان کے نزدیک ہر وہ شخص کہ جو ان کے نظریات کو قبول کرے وہ مسلمان ۔۔۔۔باقی سب کافر ہیں چاہے وہ خلیفۃالرسول (ص) ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔مقام فکر تو یہ ہے کہ اس گروہ کے نظریات و اعمال خود بانی اسلام حضرت محمد (ص) کے نظریات کے بلکل برعکس تھے۔۔ رسول خدا(ص) نے دنیا کو امن و اشتی کا درس دیا جبکہ انہوں نے وحشت گری ، قتل و غارت و نفرت کا پیغام دنیا تک پہنچایا ۔۔۔اور بات صرف یہاں تک ہی نہ رہی ۔۔۔۔۔بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس فکرا ور گروہ کے افراد خود رسول گرامی (ص) کی توہین سے باز نہ آئے ۔۔۔جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق وہ پہلا شخص کہ جس نے تبّرک ، توسل و زیارت پیغمبر(ص) کو حرام قرار دیا اور قبر رسول خدا (ص) کو پتھر سے تعبیر کیا وہ مروان بن حکم اموی ہے [2]۔۔۔اسی طرح حجاج بن یوسف کا شمار بھی انھیں افراد میں ہوتا ہے۔۔۔ مبرد سے روایت ہے کہ حجاج کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے یوں کہتا ہے ۔۔۔" افسوس ہے ان لوگوں پر کہ جو بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کرتے ہیں ۔۔انہیں کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ یہ امیر کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے ۔۔۔ کیا نہیں جانتے کہ کسی بھی شخص کا خلیفہ اس کے سے افضل ہوتا ہے [3] "۔ جبکہ دوسری طرف علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت نے اس فکر کی بھرپور مذمت کی اور شدید الفاظ میں اس گروہ کی مذمت کی ۔۔۔۔جیسا کہ بزرگ عالم اہل سنت ذہبی (748 ھ) حجاج کے بارے یوں کہتے ہیں " وہ ظالم ، جبار ، ناصبی ، خبیث ، و سفّاک تھا ۔ ہم اس پر سب و شتم کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے "[4]۔ اسی طرح مروان کو بھی کچھ انہیں الفاظ سے ہی یاد کیا ہے [5]۔یہی وہ فکر باطلہ تھی کہ جوچلتی چلتی مسلیمہ کذاب جیسے اشخاص سے ہوتی ہوئی ۔۔۔آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ و اس کے پیروکاروں تک پہنچی ۔۔۔یاد رہے کہ ابن تیمیہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے قلم و عمل سے دنیا اسلام میں عظیم فتنوں کو جنم دیا ۔۔۔فکر مروان کی طرح اس نے بھی توسل و شفاعت سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ توسل و شفاعت طلب کرنیوالا کافر ہے[6] ۔۔۔ جبکہ ارشاد خداوندی ہوتاہے کہ " اے رسول (ص) وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اگر تیرے پاس آجائیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اے رسول (ص)تم بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرو (یعنی تمہیں وسیلہ قرار دیں ) تو بے شک وہ اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا اور رحیم پائیں گے "[7]۔ اسی طر ح امام اہل سنت محمد بن اسماعیل البخاری نے رسول خدا(ص) کےلیے شفاعت مطلقہ کا نظریہ اختیار کیا ہے [8]۔۔۔ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا فتنہ اسقدر بڑھ گیا کہ ایک دفعہ پھر علماء کو ان کے فتنہ گر نظریات کے رد میں اپنے قلم کو حرکت میں لانا پڑا ۔۔۔اور ایک بار پھر علماء اہل سنت ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔۔۔ جیسا کہ بزرگ عالم دین تقی الدین سبکی کی ایک کتاب کا نام ہی " الدرۃ المضیۃ فی الرد علی ابن تیمیہ "ہے[9] ۔اسی طرح حصنی دمشقی ، ابن حجر ہیثمی ، ابن حجر عسقلانی ، ابن شاکر ، ملاقاری حنفی و شیخ محمود کوثری مصری کا شمار انہیں علماء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے قلم سے ان کے نظریات کو رد کیا ۔۔۔۔۔ علماء کا مسلسل مخالفت کرنا سبب بنا کہ یہ اس فکر باطلہ میں ٹھہراو تو آیا ۔۔۔۔مگر جڑ سے ختم نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔ ایک بار پھر انہیں نظریات نے سکوت توڑا اور قفس سے ایسے باہر آئے کہ دنیا کو تباہی کے کنارے پر لا کھٹرا کیا ۔۔۔۔اب کی بار تقریباً 12ویں صدی ہجری میں عبدالوہاب نامی شخص نے نہ صرف یہ کہ ان افکار کو دوربارہ زندہ کیا بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔۔۔ اس کے اصول قرآن کے اصولوں کے صریحاً مخالف تھے ۔۔۔
1۔ قرآن کہتا ہے کہ" جو شخص بھی شعائر خدا کا احترام کرے یہ اس کے دل کے تقوا کی علامت ہے"[10] ۔۔۔ جبکہ عبدالوہاب توہین شعائر اللہ سے خوش ہوتاہے ۔۔۔انبیاء و اولیاء کے مزارات کی توہین ۔۔۔ ان کو زمین بوس کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا ۔
2۔ اصول قرآن یہ ہے کہ " جس نے بلاوجہ ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی عطاکی "[11]۔ ۔۔۔۔۔جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عبدالوہاب نے آل سعود کے زیر سایہ قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ جسے سوچ کر روح انسانی کانپ اٹھتی ہے ۔
3۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ " بے شک خود اللہ اور اسکے فرشتے رسول خدا(ص) پر درود پڑھتے ہیں۔۔ اے ایمان والوں تم بھی رسول خدا(ص) کی ذات گرامی پر دورد و سلام بھیجو "[12] ۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ عبدالوہاب انحرافات کی دلدل میں اسقدر دھنس گیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ اس نے قرآنی اصول کی مخالفت کی بلکہ اس بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یوں کہتاہے کہ "کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے میں ستار بجانے میں اسقدر گناہ نہیں ہے کہ جس قدر مسجد کے میناروں سے حضور (ص) پر درود پڑھنے کا ہے "[13] ۔نعوذباللہ
4۔ قرآن کہتا ہے کہ " اللہ تک پہنچنے کےلیے وسیلہ تلاش کرو "[14]۔۔۔۔۔۔۔جبکہ عبداوہاب نے نہ صرف یہ کہ توسل و سیلے سے انکار کیا بلکہ اس کو کفر قرار دیتے ہوئے یوں لکھتاہے " اور تم کو معلوم ہو چکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں ) کا توحید کو مان لینا ۔۔۔انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتا ۔۔۔ان لوگوں کا انبیاءؑ و فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ کا قرب چاہنا ۔۔۔ہی وہ سبب ہے کہ جس نے ان کے قتل و اموال لوٹنے کو جائز کردیا ہے "[15]۔
5۔ قرآن میں متعدد مقامات پر خداوند نے اپنے محبوب (ص) کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے ۔ حتی یہاں تک کہا کہ اپنی آواز بھی رسول خدا(ص) کی آواز سے بلند نہ کرو [16]۔۔۔۔۔۔ جبکہ عبداوہاب کی نحوست اسقدر بڑھ چکی تھی کہ اس کے حلقہ احباب میں توہین رسالت عام بات تھی یہاں تک کہا جاتا کہ ۔۔۔" میری لاٹھی محمد (ص) سے بہتر ہے ۔۔۔کیونکہ یہ سانپ مارنے کے کام آتی ہے اور محمد(ص) فوت ہوچکے ہیں اب ان میں کوئی نفع نہیں ۔۔۔وہ تو محض ایک ایلچی تھے ۔۔۔۔جو دنیا سے جا چکے "[17]۔
یہ اسی کے فکر باطلہ کے نظریات کی چند مثالیں ہیں کہ جن کو عبدالوہاب نے آلسعود کے سائے میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ۔۔۔۔کیونکہ ان نظریات کا اسلام محمدیہ(ص) سے کو تعلق نہیں تھا اس لیے علماء نے ان کے خلاف بھرپور قلم اٹھایا ۔۔۔۔ان کے رد میں بڑی بڑی کتب تحریر کیں ۔۔۔ شیخ ابی حامد مرزوق نے اپنی کتاب میں تقریباً 42 ان علماء کی فہرست مہیاکی ہے کہ جنہوں نے ان افکار کے رد میں کتابیں لکھیں ۔۔۔۔کہ جن میں علماء اہل سنت کا کردار نمایا طور پر نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ علامہ ابن عابدین شامی متوفی (1251 ھ) نے کہا کہ " محمد بن عبدالوہاب کی مثال خوارج جیسی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی ؑ کے خلاف خروج کیا ۔۔۔۔یہی چیز سبب بنی کہ عبداوہاب نے عوام اہل سنت و بالخصوص علماء اہل سنت کے قتل کا فتوا جاری کیا "[18]۔ ۔۔۔۔
عبدالوہاب و اس کے پیرکار وں نے مذہب اہل سنت کی اسقدر مخالفت و توہین کی کہ ۔۔۔۔محمد بن سعود علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ " آئمہ اربعہ (امام شافعی ؒ ۔۔امام مالکؒ ۔۔ امام احمد ؒ۔۔و امام ابو حنیفہؒ) کے اقوال غیر معتبر ہیں ۔۔۔۔اور جنہوں نے مذاہب اربعہ میں کتابیں لکھیں ہیں وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا "[19] ۔
المختصر عبدالوہاب تو نہ رہا مگر آج بھی اس کے حامیوں نے اس کے افکار کو زند ہ رکھا ہے ۔۔۔۔باتدریج یہی فکر ِخوارج کبھی مروان و حجاج و سلیمہ کذاب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔کبھی ابن تیمیہ و عبدالوہاب کی شکل میں ۔۔۔پھر چلتی چلتی کبھی طالبان ، لشکر جھنگوی و سپہ صحابہ کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔کبھی بوکو حرام ، النصرہ و داعش کی صورت میں ۔۔۔۔داعش اسی فکر خوارج کے تسلسل کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ سے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کیا ۔۔۔بزبان قرآن ۔۔۔اس فکر باطلہ کے حامل اس قدر جہالت و نادانی کا شکار ہیں کہ " جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین مین فساد نہ پھیلاو ۔۔۔۔تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔خبردار یہی لوگ مفسد ہیں (مگر فساد میں اس قدر بڑھ چکے ہیں ) کہ اپنے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں "[20]۔ حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ "جب تم سیاہ پرچموں کو دیکھو (کہ وہ تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں ) تو ہرگز ان کی مددکو نہ جاؤ ۔۔۔کیونکہ وہ باطل پر ہوں گے ۔۔۔وہ پرچم ایسی قوم کے پاس ہوگے کہ جن کے دل لوہے کی طرح سخت ہوں گے ۔۔۔۔وہ حکومت کے لالچی ہوں گے ۔۔۔۔جبکہ اپنے وعدوں کو ہرگز وفا نہ کریں گے ۔۔۔۔کنیت کو اپنا نام قرار دیں گے ۔۔۔۔ان کے نام شہروں کے ناموں پر ہوں گے ۔۔۔۔اور یہاں تک کہ ان کا آپس میں اختلاف ہوگا پھر خداوندمتعال حق کو ظاہر کرے گا "[21]۔
توہین شعائر کے عنوان سے مزارات انبیاء و اولیا ء کو اڑانا۔۔۔۔بے گناہ لوگوں کا خون بہانا ۔۔۔۔۔قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا ۔۔۔۔۔فتنہ و فساد کا برپا کرنا ۔۔۔۔یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ فکر داعش فکر ۔۔۔۔فکر خوراج و ابن تیمیہ و عبدالوہاب سے ہٹ کر کوئی دوسری فکر نہیں ۔۔۔۔۔لہذا اس فکر کے حامل افراد کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت زندہ ہیں ۔۔۔۔اور تمہارے ان فتنہ گر نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اور یاد رکھو کہ ملت پاکستان بیدار ہے ۔۔۔۔۔ملت کا ہر فرد ۔۔۔۔بچہ ، بوڑھا ، جوان ، مرد و عورت۔۔۔۔ سب بیدار ہیں ۔۔۔۔یہ سر زمین پاکستان ہے ۔۔۔۔اور اس پر افواج پاکستان کا سایہ ہے ۔۔۔۔وہ فوج کہ جس کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے ۔۔۔۔۔آج دنیا تمہارے اصلی و ناپاک چہرے سے واقف ہے ۔۔۔۔۔مزارات اولیاء ۔۔۔۔۔ ہمارے بچے سکول جاتے ہیں اور ہمارے کھیل کے میدان آج بھی کھلے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم یہاں ہیں تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔۔ ؟؟
تحریر۔۔۔ ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.