وحدت نیوز (آرٹیکل) میڈیا نے شور مچا رکھا تھا، شام اور عراق سے دہشت گرد بھاگ کر پاکستان میں جمع ہو رہے ہیں ،طوفان دستک دے رہا تھا لیکن ہمارے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ملک میں شانتی ہی شانتی ہے، پھر پانچ دنوں میں آٹھ دھماکے ہوئے ، دھماکے اتنے زوردار تھے کہ لوگ پانامہ کیس کو بھول ہی گئے ، اب پتہ نہیں کہ یہ دھماکےہو گئے یا کروا دئیے گئے !خیر جانے دیجئے یہ سیاسی باتیں ویسے بھی آج کل لوگ بہت اداس ہیں، حکمرانوں سے تو انہیں کوئی امید ہی نہیں رہی، آخر قلندر کا مزار لہو لہان ہوا ہے، مزار میں بکھری ہوئی لاشوں پر رونے والوں کو کیا پتہ تھا کہ ان کے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ملیں گے۔ ایسا کیوں ہوا !؟ خیر ہونے دیجئے ،ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن ہمیں کبھی کبھار پتہ چلتا ہے۔
البتہ حکومت نے ایک اچھا کام بھی کیا ہے، اس دھماکے کے سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے، اب مزے کی بات یہ ہے کہ سہولت کاروں کے نام منیر خان جمالی اور عبدالعزیز جمالی ہیں، دونوں بلدیاتی نمائندے ہیں، خیر سے دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، آخر ملکی تعمیر و ترقی میں اپوزیشن کا بھی کوئی رول تو ہونا چاہیے۔
جی ہاں ملکی تعمیر و ترقی کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے، اسی لئے اگر حکومت دہشت گردوں کے وجود سے انکار کرتی ہے تو اپوزیشن ان کی سہولت کار بنتی ہے۔ اب پاکستان میں خوشحالی ضرور آئے گی چونکہ یہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن کے مطابق دہشت گردی کے بغیر پاکستان کبھی خوشحال نہیں ہوسکتا، یہ غریب لوگ جب تک مارے نہیں جائیں گے تب تک غربت کیسے ختم ہوگی!؟ جب تک تجزیہ و تحلیل کرنے والے دانشوروں کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک سیاسی حالات کیسے ٹھیک ہو نگے!؟ جب تک مزاروں اور مساجد میں دھماکے نہیں ہونگے اور زخمیوں اور شہیدوں کو معاوضہ دینے کا اعلان نہیں کیا جائے گاتب تک لوگوں کو حکمرانوں کی ہمدردی کا یقین کیسے آئے گا!؟ اگر دیانتدار پولیس آ فیسرز اور فرض شناس فوجی جوانوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا تو لوگوں کو ہمارے مجاہد بھائیوں کی طاقت کا اندازہ کیسے ہوگا۱؟۔۔۔
لہذا ملک کی خوشحالی اور غربت کے خاتمے کے لئےدہشت گردی ضروری ہے ،ہماری حکومت جانتی ہے کہ سی پیک منصوبے کی طرح دہشت گردی کا دائرہ کار بھی جتنا وسیع ہوگا خوشحالی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، لہذا دہشت گردی کا روٹ بھی سی پیک کے روٹ کی طرح پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔ہماری حکومت اور اپوزیشن کی جدوجہد سے جلد ہی آزاد کشمیر سے لے کر کراچی تک اور کراچی سے لے کر خیبر تک نہ کوئی غریب رہے گا اور نہ غربت۔ جو زندہ بچ جائیں گے وہ اپنا اگائیں گے اور اپنا کھائیں گے۔
یا پھر گھاس کھائیں گے اور ایٹم بنائیں گے، ویسے اب مزید ایٹم بم بنانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، حکومت اور اپوزیشن کو اب چھوٹے چھوٹے دھماکوں کے ذریعے غربت ختم کرنے کے بجائے پورے ملک میں ایک دو ایٹم بم پھینکوا دینے چائیے تاکہ یہ روز روز کی ٹھک ٹھک سے جان چھوٹے، ٹھک ٹھک سے یاد آیا کہ یہ پولیس والے بھی بہت نالائق ہیں ، ویسے ہی دھماکے کے سہولت کاروں یعنی جمالی برادران کو پکڑ لائے ہیں، انہیں کھلا چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ غریب مکاو سکیم کو تیزی سے آگے بڑھاتے رہیں، گلو بٹ بھی تو گرفتار ہوا تھا، یہ پولیس والے بھی عجیب ہیں کیسے کیسے شریف لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں، خیر پولیس والوں کے پکڑنے سے کچھ نہیں ہوتا ، شریف لوگ چھوٹ بھی تو جاتے ہیں، آخر شریف برادران کی حکومت بھی تو ہے اس ملک میں، شریف شریفوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا۔۔۔
اب مرنا چاہیے اس بیرسٹر کو بھی جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتا ہے، جس نے چند دن پہلے دوبارہ ایمل کانسی کیس کی وجہ سے ملک کی معزز شخصیات کے عدالت سے دوبارہ نوٹس جاری کروائے ہیں، اس بیرسٹر کو بھی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے، بے چارہ کہتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلی شہباز شریف، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان نے امریکہ سے بھاری رقم لے کر ایمل کانسی کوامریکہ کے حوالے کیا اور اس رقم سے دوسرے ممالک میں جائیداد خریدی، اب اس بیرسٹر کو کون سمجھائے کہ اگر چار بندوں کو پیسے مل گئے ہیں تو اس میں جلنے کی کیا بات ہے، پیسے آئیں گے تو خوشحالی آئے گی، لہذا اگر آپ ملکی و قومی خوشحالی چاہتے ہیں تو ایمل کانسی کو جانے دیجئے اور پیسے آنے دیجئے۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے بھی کچھ نادانوں نے شور مچایا تھا کہ فلاں صاحب کے گھوڑے سیب کا مربہ کھاتے ہیں، یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان زمین پر گر جائے گا، بھئی اس میں شور کی کیا بات ہے، گھوڑوں کا مربہ کھانا علامت ہے خوشحال گھرانے کی، آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس گھر کے گھوڑے مربہ کھاتے ہوں اس گھر والے خود کتنے خوشحال ہونگے اور جس ملک میں ایسے خوشحال گھرانے ہوں اس ملک کی خوشحالی کے کیا کہنے، سندھ کے لوگ خوشحالی میں دھمال بہت ڈالتے ہیں، البتہ دھمال تو سیاسی لوگوں کے جلسے جلوسوں میں ڈالنا چاہیے، قلندر کے مزار پر دھمال ڈالنا تو پرانے لوگوں کی رسم ہے، نئے دور میں اور سی پیک کی دنیا میں تو دھمال ڈالنے کا حق صرف اسی کو ہے جس کے پاس اپنا سوئس اکاونٹ ہو یا منی لانڈرنگ سے آشنا ہو۔ سوئس اکاونٹ یا منی لانڈرنگ کے بغیر دھمال جچتا ہی نہیں اور جو زبردستی ڈالے گا اس کی لاش کے ٹکڑے گندگی کے ڈھیر سے ہی ملیں گے۔
چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ آزاد کشمیر میں ایک شیعہ عالم دین کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے ابھی اس خبر کے زخم ہرے ہی ہیں کہ یہ خبر بھی آ گئی ہے کہ چارسدہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مقامی امیر مولانا کلیم اللہ کو بھی نامعلوم دہشت گردوں نے گولی مار دی ہے ، اب کون ڈھونڈے گا دہشت گردوں کو اور پھر کون پکڑے گا ان کے سہولت کا روں کو صبح پھر چند مذمتی بیانات آجائیں گے اور یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ کام بھارت اور افغانستان کا ہے۔
بہر حال ہم جانتے ہیں کہ بھارت اور افغانستان کو خواہ مخواہ میں کریڈٹ دیا جارہاہے ، ان حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈروں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی بھارت یا افغانستان کی ضرورت ہی نہیں۔لوگ تیزی سےمر رہے ہیں تو کیا ملک بھی تو تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.