وحدت نیوز(آرٹیکل)امریکا و ایران تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا دور انقلاب سے پہلے اور دوسرا انقلاب کے بعد کا ہے، پہلا دور 1979 iran-usجنوری تک کا دور ہے جس میں امریکا ایران تعلقات ایسے تھے جیسے کہ آج کے دور میں امریکا سعودی عرب تعلقا ت ہیں یعنی ایران مشرق وسطی میں امریکی پولیس کا کردار ادا کرتا تھا، شاہ ایران اپنی شاہ خرچی میں مگن رہتا اور نظامی معمالات چاہئے و اقتصادی ہوں یا سیاسی غیرملکی سنبھالا کرتے تھے، یہاں تک کے تعلقات اس قدر قریبی تھے کہ قانوں توڑنے یا قتل کرنے پر ایرانی کو تو سزا ملتی تھی لیکن فرھنگی کو استثناء حاصل تھا، مضبوط تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگالیں کے 1957 میں مارچ کی 5 تاریخ ایران اور امریکا نے صدر آئزن ہاور پیس پروگرام کے تحت ایٹمی توانائی کے سول استعمال کا باقاعدہ معاہدہ کیا،اس معاہدے کے تحت امریکا نے ایران کوکئی کلو گرام یورینیم کی افزودگی کو لیز کیا، آج یہی امریکا ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا سب سے بڑا حریف ہے جبکہ ایران کئی بار اپنے پرامن نیوکلیئر پروگرام کی یقین دہانی بھی کرواچکا ہے،لیکن امریکا کو قبول نہیں۔
دوسرا دور انقلاب اسلامی کے بعد کا ہے جس میں امریکی دشمنی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، 11 فروری 1979 سے منقطہ ہونےوالے ایران و امریکا تعلقات میں آج تک بحالی نہیں آسکی ہے، انقلاب اسلامی کے بانی نے امریکا کو شیطان بزرگ کہا تو دوسری جانب امریکا نے ایران کو برائیوں کی جڑ قرار دیا ہوا ہے، مختلف ادوار میں ان دونوں ممالک میں گرما گرمی بڑھتی رہی ہے،کبھی لفظوں کی جنگ تیز ہوجاتی ہے تو کبھی دونوں ممالک میںمفاہمت اور گفت و شنید بھی دیکھنے کو ملی ہے، یہ سب امریکا اور ایران کی حکومتوں اور انکی پالیسی پر منحصر ہے کہ وہ تعلقات کو کس حد تک آگے بڑھائیں۔
تاریخ حقائق بتاتے ہیں امریکا میں آنے والی ڈیموکیڑیٹ پارٹی کی حکومتوں کے ادوار میں امریکی پالیسی میں ایران کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم ریپبلیکن پارٹی کا رویہ جارحانہ ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنکا تعلق بھی ریپبلیکن پارٹی ہے اپنی صدارت سنبھالتے ہیں ایران پر برس پڑے،حتی کے اپنی صدارتی مہم کے دوران بھی انہوں نے ایران کے خلاف 40سے زائد تقریر یں کیں جسے عالمی میڈیا نے ریکارڈ کیا ہے، حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پانچ جمع ایک معاہدے کے بھی شدید مخالف ہیں، امریکی صدارت کے تبدیل ہوتے ہیں امریکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی واقع ہوتی دیکھائی دی جس میں سب سے پہلے امریکی صدر نے اپنے صدار تی حکم نامہ کے تحت 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی ان سات ممالک میں ایران سمیت عراق، شام، سوڈان، لیبیا و دیگر کے شہری شامل میں ،امریکی صدر کے اس اقدام کے رد عمل میں ایران نے بھی امریکا کے شہریوں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ ایران کے مرکزی بینک نے یہاں تک اعلان کیاہے کہ آئندہ ڈالر کی جگہ دیگر کرنسی میں تجارت کی جائیگی ۔
اس موجود صورتحال سے ایران کی انقلابی ساخت کو تو شاید کوئی نقصاں نہیں پہنچےلیکن اصلا ح پسند طبقہ حالیہ الیکشن میں ضرور متاثر ہوگا، گذشتہ دنوں ایران کے انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک تقریر میں تنزیہ کہا کہ ہمیں ٹرمپ کا شکر گذار ہیں کیونکہ اُس نے امریکا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ،جارحیت وتشدد اور عدم برداشت پر مبنی حقیقی چہرے کودنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے، انقلاب اسلا می کے سربراہ کے اس بیان سے واضح ہوتا دیکھائی دے رہا ہے کہ ایران کا انقلابی حلقہ ٹرمپ کے شدت پسندانہ رویہ کو انقلاب کی مزید کامیابی و مضبوطی کے لئے استعمال کرے گا ، اسطرح انقلابی حلقے کا وہ موقف سچ ثابت ہوتا جارہا ہے کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں، پانچ جمع ایک معاہدے کے دوران انقلاب اسلامی کے سربراہ نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں تاہم موجود ہ ایرانی حکومت کے پروپوزل پر اس معاہدے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ امریکا کی طرح ایران میں بھی دو طرح کے گروپس یا طبقات اوررحجانات پائے جائے ہیں ایک رجحان اصول گر یعنی وہ طبقہ ہے جو انقلاب اسلامی کے بنیادی اصولوں کا شدت سےحامی ہے جبکہ دوسرا اصلا حات پسند ہیں یعنی یہ پالیسوں میں اصلا ح کے خواہش مند اور دنیا کے رائج قوائین کے تحت ملک کو چلانے کے قائل ہیں ، موجود ایرانی صدر اصلا ح پسند کہلاتے ہیں اسی لئے انہوںنےانقلابی روش سے ہٹ کر امریکاسمیت دیگر معمالات میں مذاکرت کی راہ کو منتخب کیا تاہم اب اُسی امریکا کا رپبلیکن صدر اُنکے لیے خطرہ بن گیا ہے اور اِسکی جانب سے اُٹھائے جانے والے اقدامات نے آئندہ آنے والے الیکشن میں اصول گروں (انقلابیوں ) کے لئے مزیدراہ ہموار کردی ہے ،کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات اصول گر صدارتی امیدوار کے لئے الیکشن مہم کا کردار ادا کریں گے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق آئندہ ایران میں صدارتی الیکشن جون 2017 میں ہونے تھے تاہم رمضان المبارک کی وجہ سے یہ الیکشن مئی میں متوقع ہیں، اس حوالے سے معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ ابھی تک اصلاح پسند وں کی جانب سے کوئی واضح شخصیت بحیثیت صدارتی امیداور سامنے نہیں آئی ہے، البتہ موجود ایرانی صدر حسن روحانی دوبارہ الیکشن لڑ سکتے ہیں، لیکن انکے خلا ف عدالتوں میں کئی کیسس موجود ہیں جسکی وجہ سے یہ گمان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ڈی کولیفائی کردیا جائےگا۔ جبکہ اصول گر وں کی جانب سے مختلف شخصیات کے حوالے سے چیہ مگوئیاں کی جاری ہیں جن میں بڑا نام خود سابق ایرانی صدر احمد نژاد کا ہے،احمد نژاد کے حوالے سے خبر سامنے آئی تھی کہ انقلاب اسلامی کے سربراہ نے انہیں الیکشن لڑنے سے منع کیا ہے لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے منع نہیں کیا لیکن کسی بھی تصادم سے بچنے کے لئے احتیاط کرنے کو کہاگیا تھا،چونکہ یہ احتیاط اس وجہ سے بھی تھی کہ احمد نژاد اور مرحوم آیت اللہ رفسنجانی کے درمیان اختلافات موجود تھے ،آیت اللہ رفسنجانی اصلاح پسندوں کی بڑی شخصیات میں شامل تھے ، چونکہ اب مرحوم اس دنیا میں نہیں رہے اس وجہ سے شاید احمد نژاد دوبار الیکشن میں سامنے آجائیں، اسکے علاوہ چند اور نام بھی سامنے آئے ہیں۔
قوی امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ آئندہ ایران میں احمد نژاد اور موجود ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا، اور اگر احمد نژاد الیکشن جیت جاتے ہیں عالمی معمالات میں امریکا ایران اور لے کر مزید نئی تبدیلیاں اور تناو بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔
لیکن مضبوظ ذرائع کا کہناہے کہ حالیہ الیکشن میں اصول گرا ایک ایسی شخصیت کو سامنے لانے کے لئے کوشیش کررہے ہیں جو اس وقت انقلاب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیئے جاتے ہیں ، یہ شخصیت آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی ہے، آیت اللہ ابراہیم ریئسی مشہد میں حرم امام رضا کے مسئول ہیں، وہ ماضی میں ایرانی عدالتی نظام میں اہم عہدہ پر بھی فائر رہے ہیں جبکہ ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۶ تک آڑانی جنرل کی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں، وہ جنوبی خراسان صوبہ سےماہرین کونسل کے رکن بھی ہیں، آیت اللہ ابراہیم رئیسی کے بارے میں دی گارجین نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی اور کہا تھا کہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کو آئندہ رہبر یت کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں کون دنیا کی سپر طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا ہے اور ایرانی عوام اُسے منتخب کرتے ہیں، اسکا فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی سامنے آئے گا مگر یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ایرانی الیکشن کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔
تحریر۔۔۔۔سید محمد احسن