وحدت نیوز (آرٹیکل) فضائل کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذاتی فضائل اور دوسری نسبی فضائل ۔ ذاتی فضائل سے مراد وہ کمالات ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے ۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ فضائل جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں ہم حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے فضائل کا تقابلی جائزہ لینے کی کو شش کریں گے۔
۱۔خاندانی شرافت
قانون وراثت کے مطابق والدین کی صفات جیسے نجابت و شرافت وغیرہ فرزند کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔ابن عساکر اور ابن اسحق کے بیان کردہ شجرہ نسب کے مطابق حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے اور بنی اسرائیل کے امام تھے ۔ ان کی خاندانی شرافت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جناب عیسی ٰ علیہ السلام جسے اولوالعزم نبی اس خاندان سے آئے ۔قرآن کریم میں اس خاندان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:{ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین } بے شک اللہ نے آدم ، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی خاندانی شرافت تمام مسلمانوں کیلئے روشن ہے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس خاندان سے محبت کو اجررسالت قرار دیا ہے ۔امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق اوپر والی آیت میں آل ابراہیم سے مراد خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ۔ اس کے علاوہ آیت تطہیر میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے ۔سورۃ ابراہیم میں اس خاندان کو شجرۃ مبارکۃ سے تعبیر کیا ہے اسی طرح سورہ انسان اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں نے نازل ہواہے ۔
۲۔والدین
جناب مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران تھے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے ملتا ہے امام صادق علیہ السلام واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جناب عمران اور جناب زکریا دونوں اپنے دور کے پیغمبروں میں سے تھے ۔
جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکے والد گرامی محمد بن عبداللہ خاتم انبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔ آپ تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ ہیں انہی کی وجہ سے خداوند عالم نے کائنات کو خلق فرمایا : یا احمد ! لولاک کما خلقت الافلاک اے احمد میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا ۔
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ اپنے زمانے کی عبادت گزار خاتون تھیں اور صاحب اولاد نہیں تھی انھوں نے خدا سے اولاد کی دعا کی تو لطف الہی سے حاملہ ہوئیں ۔ان کی شرافت اتنی تھی کہ خدا ان کی نذر قبول کر کے فرماتا ہے {فتقبلھا ربھا} اس کے رب نے اسے قبول کیا۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی وہ عظیم خاتون ہیں جس کے بارے میں رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔ {واللہ ما اخلف لی خیرا منھا ، لقد اٰمنت بی اذکفر الناس صدقتنی اذکذبنی الناس ۔۔۔۔۔} خدا کی قسم ! مجھے خدیجہ سے بہتر بیوی عطا نہیں کی گئی ۔ اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ۔ اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب زہراء سلام اللہ علیہاسے فرماتے ہیں { ان بطن امک کالامامۃ و عاء} گویا تیری والدہ کا شکم امامت کے لئے ایک ظرف کی مانند تھا ۔ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کئے۔ جناب خدیجہ ان چار خواتین میں سے ہیں کہ بہشت ان کی مشتاق ہے۔
۳۔اسم گذاری
جناب مریم سلام اللہ علیہاکا نام ان کی والدہ نے رکھاجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{ انی سمیتھا مریم } میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ اور خدمتگزارکے ہے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکا نام خداوند عالم کی جانب سے معین ہوا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نو اسماءہیں :فاطمہ ، صدیقہ ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ ، محدثہ اور زہرا ۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی ولادت ہوئی تو خدا نے ایک فرشتہ کو بھیجا تا کہ نام فاطمہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا۔
۴۔ظاہری حسن
امام باقر علیہ السلام جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتے ہیں:{ اجمل النساء} وہ ساری عورتوں سے زیادہ خوبصورت خاتون تھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن ان عورتوں کے سامنے جو اپنی خوبصورتی کو فساد کا بہانہ قرار دیتی ہیں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو پیش کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم مریم سلام اللہ علیہا سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ؟
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتے ہیں :{ کانت فاطمۃ سلام اللہ علیہاکوکبا دریا بین النساء العالمین } حضرت زہراء سلام اللہ علیہاعالمین کی تمام عورتوں کے در میان ستارہ ضوفشاں ہیں ۔ بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکو زہرا ان کے نورانی چہرے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ فاطمۃ حوراء الانسیۃ } فاطمہ انسانی شکل میں حور ہیں ۔ مجموعہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب سیدہ کے چہرے سے نور پھوٹتا تھا اور وہ چودھویں چاند کی طرح چمکتا تھا جب مسکراتی تھیں تو ان کے دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔
۵۔ایمان کامل
حضرت مریم سلام اللہ علیہااورحضرت زہراءسلام اللہ علیہا دونوں ایمان کامل کے درجہ پر فائز تھے۔ جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ کمل من الرجال کثیر و لم یکمل من النساءالا مریم بنت عمران و آسیۃ امراۃ فرعون و فاطمہ } مردوں میں سے بہت سارے لوگ ایمان کامل کے درجے پر فائز تھے لیکن عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران ،آسیہ اور فاطمہ کے کوئی کامل نہیں ۔
۶۔ ظاہری آلودگیوں سے پاک
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خط نجاشی کو لکھا اس میں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بتول کے نام سے یاد فرمایا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق مریم سلام اللہ علیہا اور فاطمہ سلام اللہ علیہادونوں بتول تھیں ۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بتول سے مراد کیاہے ؟ تو فرمایا :{البتول لم ترحمرۃ قط ای لم تحضن فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیاء} بتول یعنی وہ خاتون جس نے کبھی سرخی نہیں دیکھی ہو یعنی کبھی حائض نہ ہوئی ہوکیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے ناپسند ہے۔ قندوزی نے ینابیع المودۃ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بتول اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے حیض و نفاس سے دور فرمایا ہے ۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے لئے صفت طہارت کا ہونا قطعی امر ہے جبکہ جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں روایات مختلف ہیں بعض روایات کے مطابق خاص دونوں میں جناب مریم سلام اللہ علیہامسجد سے باہر جایا کرتی تھی ۔
۷۔کفیل اور سرپرست
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی ان کی ولادت سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھی ان کی والدہ نے ان کومعبد کے لئے نذر کر چکی تھی جب مریم سلام اللہ علیہا کو معبد منتقل کردی گئی تو معبد کے راہبوں کے درمیان ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف ہوا اس لئے قرعہ اندازی ہوئی تو جناب زکریا کا نام آیا جو کہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے خالو تھے۔ {و کفلھا زکریا}
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے کفیل اور سرپرست ان کے بابا حضرت محمد مصطفی ہیں ۔حضرت زکریا علیہ السلام جب جناب مریم سلام اللہ علیہاکے محراب عبادت میں داخل ہوتے تھےتو غیر موسمی پھل دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے لہذا پوچھتے تھے :{کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم سلام اللہ علیہا انی لک ھذا } اسی طرح بی بی دو عالم فاطمہ سلام اللہ علیہاکی کرامات دیکھ کر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسے سلمان و ابوذر بی بی حیران ہوجاتے تھے ۔
۸۔عصمت اور طہارت
خداوند عالم نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو نجاستوں سے پاک فرمایا :{و اذ قالت الملائکۃ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ اصطفک و طھرک۔۔۔۔۔} ( وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا بے شک اللہ نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تمھیں پاکیزہ بنایا ہے۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکیلئے اللہ تعالی فرماتا ہے:{ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطہرکم تطہیرا} اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی پاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ یقینا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا قطعی طور اس آیت کی مصداق ہیں بہت سارے اہل سنت مفسرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاجزء اہل بیت اور اس آیت میں شامل ہیں ۔
۹۔تمام خواتین پر فضیلت
جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اپنے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے جب کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ خداوند عالم جناب مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتا ہے:{ ان اللہ اصطفاک و طہرک و اصطفاک علی نساء العالمین} جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی فضیلت تمام زمانے کے عورتوں پر ہے اور اس کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ کانت مریم سیدۃ نساء زمانہا اما ابنتی فاطمہ فہی سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الاخرین } جناب مریم اپنے زمانے کی تمام عورتوں کی سردار تھی لیکن فاطمہ تمام زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہامحراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ۷۰ ہزار مقرب فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور اور کہتے تھے اے فاطمہ! خداوند عالم نے تجھے چن لیا، پاک کردیا اور تجھے تمام عورتوں پر فضیلت دی ہے ۔
۱۰۔فرشتوں سے ہم کلام ہونا
جناب مریم سلام اللہ علیہامحدثہ تھی اور جبریل ان پر نازل ہوتے تھے :{ قالت الملائکہ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ یبشرک ۔۔۔۔} جب جناب مریم سے فرشتوں نے کہا اے مریم! خدا تجھے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ جناب مریم سلام اللہ علیہاسے گفتگو کرتے ہیں:{فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا} جناب مریم سلام اللہ علیہاجب حاملہ ہوئیں اور بہت زیادہ غمگین ہوئیں تو آواز آئی اے مریم غمگین نہ ہوجاؤ:{ فناداھا من تحتھا الا تحزنی }
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بھی محدثہ تھیں امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو محدثہ کہتے ہیں کیونکہ فرشتے آسمان سے ان پر نازل ہوتے تھے اور اسی طرح ندا دیتے تھے جیسے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو دیتے تھے ۔ مصحف فاطمہ فرشتوں سے فاطمہ سلام اللہ علیہاکی گفتگو کا نتیجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان عندنا مصحف فاطمہ }ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہاہے ۔ حضرت زہراء جب اپنے بابا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بہت زیادہ غم و اندوہ سے دچار ہوئیں تو خداوند عالم نے ان کو تسلی دینے کیلئے جبرئیل اور فرشتوں کو بھیجا تا کہ ان کو تسلی دیں ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زہراء کی سب سے بڑی فضیلت ۷۵ یا ۹۵ دن تک جبرئیل امین کا مسلسل در خانہ زہرا پر نازل ہونا ہے،اوریہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مخصوص فضیلت ہے ۔
۱۱۔کرامت اور تصرف تکوینی
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے کھجور کے خشک درخت کو ہلا یا تو فورا پھل دار درخت بنا اور تازہ کھجوریں نکل آئے اور جناب مریم سلام اللہ علیہانے اسے تناول کیا ۔ {و ھزی الیک بجذع النخلۃ ۔۔۔۔ جنیا} اس کھجور کے درخت کی ٹہنی کو ہلاؤ تیرے لئے تازہ کھجوریں گریں گی ۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہابھی صاحب کرامات تھیں اور آپ کے بہت ساری معجزات آپ کے تصرف تکوینی کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ چکی کا خود بخود چلنا ۔ بچوں کے جھولے کا خود بخود جھولنا غذا کا آمادہ ہونا وغیرہ ۔یہ آپ کی تصرفات تکوینی کی مثالیں ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں : کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےامام علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا جب میں امام علی علیہ السلام کے گھر
گیا اور آواز دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا لیکن میں نے دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہے اور گندم آٹے میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ کوئی بھی چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔ میں واپس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نےایسی چیز دیکھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی میں حیران ہوں امام علی علیہ السلام کے گھر میں چکی خود بخود چل رہی تھی اور کوئی بھی چکی کے پاس نہیں تھا ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر لحاظ سے خداوند عالم نے میری بیٹی کے دل کو یقین سے اور اس کے وجود کو ایمان سے پر کردیا ہے ۔
۱۲۔بہشتی غذا کا ملنا
بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہشتی کھانے خدا کی طرف سے ان کو میسر ہوتے تھے:{ کلما دخل علیہا زکریا۔۔۔ وجد عندھا رزقا ۔۔۔۔بغیر حساب}
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکے لئے بھی مختلف مواقع پر بہشتی غذا میسر ہوئے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانے پر دعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{ہو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیہۃ سیدۃ نساء بنی اسرائیل} تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔
۱۳۔مصائب و آلام
مشکلات کمال کے راستے میں ایک موثر عامل اور تقرب الہی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا خداوند عالم کے تمام اولیاء خاص مصائب و آلام کے شکار بھی ہوئے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان اشد الناس بلاء النبیون ثم الوصیون ثم الامثل فالامثل ۔۔۔۔} جناب مریم سلام اللہ علیہابھی بہت سارے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوئیں پوری زندگی والدین سے جدا ہونا ، بچپن میں بیت المقدس کی خدمتگزاری، تمام تر طہارت کے باوجود لوگوں کے ان کے بارے میں سوء ظن کرنا اور تہمت لگانا ، جناب عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کسی کا پاس نہ ہونا ، باپ کے بغیر بچے کی پرورش کرنا یہ سارے مصائب و مشکلات جناب مریم سلام اللہ علیہاپر آئے ۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے مصائب و مشکلات بے شمار ہیں۔ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں تب بھی اپنی والدہ کی تنہائی اور پریشانی
کو درک کرتی تھیں جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام تر مشکلات اور اذیتوں کومشاہدہ کیں۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے بابا کے ساتھ شعب ابی طالب میں میں محصور ہوئیں اور اس کے بعدرسول خدا کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوہ احد کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات کے بعد زہراء پر مصائب کا ہجوم آیا اور ایک نئی رخ سے مصائب کا آغاز ہوا اور آپ مسلسل گریہ کرتی رہیں ۔ آپ کا پہلو شکستہ ہوگئی آپ کا فرزند محسن شہید ہوا اس قدر مصیبتیں آئی کہ آپ موت کی تمنا کرنے لگیں ۔
۱۴۔موت کی آرزو
جناب مریم سلام اللہ علیہا شدت غم اور لوگوں کے جھٹلانے کی وجہ مرنے کی آرزو کرتی ہیں :{یا لیتنی مت قبل ھذا } اے کاش میں اسے پہلے مرگئی ہوتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی شدت غم کی وجہ سے مرنے کی آرزو کرتی تھیں اور فرماتی تھیں :{اللہم عجل وفاتی سریعا } خدایا ! جلد از جلد میری موت آئے خداوند عالم نے بھی ان کی دعا قبول کی ۔
۱۵۔ روزہ سکوت
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے نادان لوگوں کی اہانت کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا { فلن اکلم الیوم انسیا} میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی ۔
جناب فاطمہ زہرا نے بھی خلیفہ اول و دوم کے سامنے سکوت اختیار کی اور ان سے بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا اور فرمایا کہ میں ہرگز ان سے بات نہیں کروں گی:{ واللہ لااکلمک ابدا} خدا کی قسم ! میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گی ۔
۱۶۔پاکیزہ فرزند
حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں قرآن میں آیا ہے :{ اللتی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا } مریم بنت عمران نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہیں ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی ۔خداوند عالم نے ان کی پاکیزگی کے نتیجے میں اپنی روح ان میں پھونک دی جس کے نتیجے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ خداوند عالم نے جناب زہراء سلام اللہ علیہاکو ان کی پاکدامنی کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے طاہر فرزند عطا کیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :{ان فاطمۃ سلام اللہ علیہااحصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار} بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی پس خدا نے ان کی نسل پر آگ حرام کر لیا۔
حسان بن ثابت اسی بات کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے :
و ان مریم سلام اللہ علیہا احصنت فرجھا و جاءت بعیسی علیہ السلام کبدر الدجی
فقد احصنت فاطمۃ سلام اللہ علیہابعد ھا و جاءت بسبطی نبی الھدی۔
بے شک جناب مریم سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور چاند جیسے حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں لائیں ۔
فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی عصمت کی حفاظت کی اور رسول خدا کے دو نواسوں کو دنیا میں لائیں ۔
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہتےہیں :
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
تانشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین
امام حسین علیہ السلام کے بارے میںعلامہ اقبال کہتے ہیں :
آن دگر مولائے ابرارِ جہان
قوتِ بازوئے احرارِ جہان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا و سردار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بیٹا حسین علیہ السلام ہے۔
۱۷۔عبادت و بندگی
قرآن کریم حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتا ہے:{ و کانت من القانتین } ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہامسلسل اطاعت ، نماز ، طولانی قیام اور دعا میں مشغول رہتی تھیں ۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہانے اس قدر عبادت کی کہ لوگ ان کی مثال دیتے تھے ۔ جناب مریم سلام اللہ علیہا محراب میں خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی محراب عبادت میں خدا سے راز و نیاز کرتی تھیں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{اذا قامت فی محرابہا ۔۔ نورھا لاہل السماء} جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو اہل آسمان کیلئے ان کا نور چمکتا تھا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی مختصر زندگی میں اس قدر عبادت کی کہ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے شب جمعہ اپنی والدہ کو محراب عبادت میں دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود بجالاتی رہیں یہاں تک کہ صحیح کی سفیدی نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا کرتی تھیں۔ حسن بصری کہتا ہے کہ اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیہاسے بڑھ کر کوئی عبادت گذار نہیں ملتا اس قدر عبادت میں کھڑی رہیں کہ ان کے پاؤں میں ورم آچکے تھے ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عبادت و قنوت اس حد تک تھی کہ آپ مصداق آیہ کریمہ {الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداً} تھیں ۔
۱۸۔معصوم کے ہاتھوں غسل
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی وفات کے بعد جناب عیسی علیہ السلام نے انھیں غسل دیا ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بھی امام علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا ۔مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کس نے غسل دیا تھا فرمایا : امیر المومنین علیہ السلام نے۔ مفضل کہتا ہے میں یہ بات سن کر حیران ہوا لہذا امام نے فرمایا گویا تم یہ بات سن کر غمگین ہوئے ہو میں عرض کیا جی ہاں میری جان آپ پہ قربان !ایسا ہی ہے ۔ امام نے مجھ سے فرمایا غمگین نہ ہو جاؤ، کیونکہ فاطمہ سلام اللہ علیہاصدیقہ تھیں اور سوائے صدیق کے کوئی غسل نہیں دے سکتا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مریم سلام اللہ علیہا کو سوائے عیسی علیہ السلام کے کسی اور نے غسل نہیں دیا۔
حوالہ جات:
امام حافظ ، عماد الدین ، قصص الانبیاء ، ص ۵۴۰۔
آل عمران : ۳۳۔
شوریٰ : ۲۳۔
طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۶۶۔
الاحزاب : ۳۳۔
ابراھیم : ۲۴۔
طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۲ ، ص : ۱۸۴۔
قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، ص : ۶۳۔
مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ، ج ۱۴، ص ۱۹۴۔
آل عمران ، ۳۷۔
محدث اردبیلی، کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۷۹۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۴۳۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص ۵۳۔
آل عمران : ۳۶۔
طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۷۳۔
محدث اردبیلی ، کشف الغمہ ، ج:۱ ، ص ۴۳۹۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴۳، ص : ۱۳۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ج۱۴ ، ص ۲۰۴۔
یضاً ، ص: ۱۹۲۔
بحرانی، ھاشم بن سلیمان، البرھان فی تفسیر القرآن ، ج۴ ، ص : ۶۶۔
قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، مترجم الطاف حسین ص ۲۳۱۔
ایضاً ، ص : ۱۸ ۔
سیوطی ، عبدالرحمن ، الدر المنثور ، ج۲ ، ص : ۲۳۔
آیتی ، عبدالمحمد، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۴۳۴۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص : ۱۴۔
قندوزی ، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص : ۳۲۲، حدیث : ۹۳۰ ۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ص ۱40، ص ۱۹۷۔
حافظ، عماد الدین ، قصص الانبیاء، ص : ۵۴۰۔
آل عمران ، ۳۶۔
آل عمران : ۳۷۔
آل عمران : ۴۲۔
الاحزاب :۳۳۔
طبرسی، جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج: ۲۲، ص : ۷، سیوطی ، عبدالرحمن ، الدرالمنثور، ج۵، ص : ۱۹۸، قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ ، ج۱،ص :۳۱۹۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج۴۳، ص : ۲۲، ۲۴، ۷۸۔
مکارم شیرازی، زہراء برترین بانوی جہان۔
ایضاً، ص : ۴۹۔
آل عمران : ۴۵۔
مریم : ۱۹۔
مریم : ۲۴۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۸۔
مجلسی ،محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۷۹۔
مریم : ۲۵۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۲۹۔
ایضاً : ص: ۴۵۔
ایضا:ص :۳۰۔
آل عمران :۳۷۔
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۲۷، ۳۱ اور ۷۷۔
زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں ۔
خمینی رحمۃ اللہ علیہ ، روح اللہ ، چہل حدیث ص : ۲۰۳۔
مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار ج ۴۳، ص : ۴۳۲۔
نجمی محمد صادق ، سیری در صحیحین ، ص ۳۲۴۔
ایضاً ، ص : ۳۲۵۔
مریم : ۲۳۔
دشتی ، محمد، فرھنگ سخنان حضرت زھرا، ص : ۱۷۷۔
مریم : ۲۶۔
قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص : ۵۷۱۔
تحریم : ۱۱۔
شافعی ، ابراہیم ، فرائد السمطین ، ج۲ ، ص ۶۵۔
مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۵۰ ۔
تحریم : ۱۲۔
آیتی ، عبدالحمید، تاریخ ابن خلدون ، ج:۱، ص : ۱۶۰۔
ابن بابویہ، محمد بن علی ، علی الشرائع ص : ۱۸۱۔
ابن بابویہ ، محمد علی، علل الشرائع ، ص : ۱۸۲۔
مجلسی ، محمد باقر ،بحارالانوار ، ج ۷۶، ص : ۸۴۔
ٓل عمران : ۱۹۱۔
ابن بابویہ ، محمد علی ، علل الشرائع ص : ۱۸۴۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی