وحدت نیوز(آرٹیکل) سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا مشورہ کر کے فیصلہ کرنا چاہیے، فیصلہ کر کے قدم اٹھاناچاہیے، بولنے کے بعد سوچنے سے بہتر ہے کہ سوچنے کے بعد بولا جائے، صحیح بات بھی غلط موقع پر نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے خوارج کی بات صحیح تھی لیکن موقع محل غلط تھا،جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔
ہماری ایک بہت محترم اور قریبی شخصیت کے بارے میں کچھ بتا تا چلوں، موصوف کا شمار اچھے خاصے سیانوں میں ہوتا ہے، آئی ٹی میں پی ایچ ڈی ہیں، آج کل ایک عرب ملک میں پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایک عرب ملک کی یونیورسٹی میں انہوں نے ملازمت کے لئے اپلائی کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں بلا کرصاف کہہ دیا کہ آج سے آپ ان طالب علموں کے مرشد ہیں۔
مرشد کی اصطلاح سنتے ہی موصوف کے ذہن میں پاکستانی پیرومرشد گھومنے لگے۔وہ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایڈوائزر کو یہاں کی اصطلاح میں مرشد کہا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں تھانے جانے پڑا تو وہاں ایک کمرے کے باہر لکھا تھا مکتب سیر و سلوک۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو خوش ہوئے کہ یہاں تو تھانوں سے میں بھی عرفانی باتیں ہوتی ہیں اور سیروسلوک کا شعبہ موجود ہے ، شاید بعض مجرموں کی سیروسلوک سے اصلاح کی جاتی ہو، پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس شعبے سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسے یہاں کی اصطلاح میں مکتب سیرو سلوک کہا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ یونیورسٹی کے طلاب کو اولی الامر سے بھی پالا پڑتا ہے۔ اولی الامر کے بارے میں چھان بین کی تو یہ جان کر ہنسی آگئی کہ یہاں گارڈین کو اولی الامر کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے چوک میں تیر کے نشان کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہو ہے ولایۃ مدحا، ہمیں بہت تجسس ہواکہ ولایت فقیہ تو سنا تھا اب یہ کونسی ولایت ہے، مقامی لوگوں نے استفسار پر بتایا کہ یہاں پر اس کلمے سے مراد ضلع ہے۔
موصوف کے مطابق، یونیورسٹی کے دفتر میں بعض ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آئے کہ وہ کسی کو سامنے کھڑا کر کے انت حرامی کہہ دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فورا اس بدتمیزی کے خاتمے کے لئے ایکشن لینے کا سوچا تو ہمیں بتا یا گیا کہ یہاں غلطی کرنے والے کو حرامی کہا جاتا ہے ، لہذا اگر کوئی دفتری اہلکار کوتاہی کرے تو اسے محبت سے سمجھاتے ہوئے حرامی ہی کہاجاتا ہے۔
بات اصطلاحات کی ہی ہو رہی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ انتہائی نازک کام ہے۔ چالاک لوگ چند اصطلاحات کے ساتھ ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔مثلا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح، اس اصطلاح سے وہی لوگ استفادہ کررہے ہیں جو خود دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ اسی طرح دینی طالب علم کی اصطلاح کو ہی لیجئے، یہ اصطلاح خود طالب علموں کا حق مارنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، مثلا آپ ایک کام اگر کسی اور سے کروائیں تو اسے آپ کو حق زحمت دینا پڑتا ہے لیکن آپ ایک دینی طالب علم سے اپنا کام نکلوائیں اور پھر آرام سے کہہ دیں کہ آپ تو دینی طالب علم ہیں۔۔۔
دینی طالب علم بھی تو دو طرح کے ہیں، ایک وہ ہیں جو پاکستان اور بانی پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پاکستان دشمنوں کے ایجنٹ ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو پاکستان کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ملک و ملت کے تحفظ کی خاطر جان دینے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔
آج کل ہمارے ہاں جو بھی دینی طالب علم ہو اسے دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہمارے حساس ادارے بلاتفریق سارے دینی طالب علموں کو ملک دشمن ہی سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ ملک دشمن دینی مدارس کی تنظیمیں، ٹرسٹ،مدرسے ، مساجد،مفتی ، مولوی، مراکز اور مذہب وغیرہ سب کچھ مشخص ہے۔
اپنے ملک کے سیکورٹی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ اگر آپ واقعی اس ملک کی سلامتی کے لئے مخلص ہیں تو پھر عام شہریوں خصوصا دینی طالب علموں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئیں، آپ ملکی سلامتی کے لئے بھرپور تحقیق اور تفتیش کریں لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ،اس انداز میں باز پرس کریں کہ پاکستانی عوام اور دینی طالب علم اس میں اپنی توہین یا خوف محسوس نہ کریں ۔
اسی طرح ہمارے ہاں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح اقلیت کی بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں اقلیت میں ہونا کوئی جرم ہے۔ حتی کہ صفائی کے اشتہار میں بھی خاکروبوں کی بھرتی کے لئے اقلیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خاکروب اس لئے خاکروب نہیں ہیں کہ وہ اقلیت میں ہیں ، بلکہ وہ اس لئے اس پیشے کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہیں۔لہذا خاکروب کے لئے اقلیت کے بجائے تعلیمی پسماندگی شرط ہونی چاہیے تاکہ لوگ کسی اقلیت کو پسماندہ اور گھٹیا سمجھنے کے بجائے تعلیمی پسماندگی سے نفرت کریں ۔
حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ میں خاکروبوں کی بھرتی کے لئے اقلیت میں ایک مسلمان فرقے کا نام بھی لکھا گیا، جس کے بعد لوگوں نے احتجاج کیا اور خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اس پر معذرت کر لی۔
یہ معذرت کی اصطلاح بھی ایک فیشن بن گئی ہے۔ کیا اس لفظ معذرت سے حکومت کی ذمہ داری ادا ہوگئی ہے!؟
اس معذرت کے بعد تو حکومت اور عوام سب کی اجتماعی ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔ اب ضروری ہے کہ ہم غلطی، احتجاج اور معذرت کے دائرے سے باہر نکلیں۔ بلاتفریق مذہب و مسلک تمام پسماندہ طبقات کے لئے ایسے خصوصی اور معیاری تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جہاں ہنگامی بنیادوں پر علم کی روشنی کو پھیلایاجائے۔
یاد رکھئے !سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے فقط معذرت کے لفظ پر خوش ہوجانا بہت بڑی غلطی ہے۔ خوشی کا مقام تب ہے کہ جب پسماندہ طبقات کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ادارے اور سکول بھی بنائے جائیں۔
ہمیں ایک لفظ کی غلطی پر معذرت طلب کرنے کے بجائے اس پر معذرت کرنی چاہیے کہ ہم ایک عرصے سے اپنے ملک میں تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے فریضے سے غافل تھے۔ اس واقعے سے ہم جاگے ہیں اب معذرت کی لوریاں سننے کے بعد دوبارہ سوجانا کوئی عقلمندی نہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.