وحدت نیوز(آرٹیکل) عرب ممالک اور پاکستان دینی رشتے میں منسلک ہیں، ان کے آپس میں گہرے روابط پائے جاتے ہیں، ان کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس طرح کے جملے جتنے بھی لکھے جائیں ان کے لکھنے سے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آجائے گی۔
مثلا اگر ہم سارا دن بیٹھ کر چینی ، چینی، چینی کہتے رہیں تو اس سے ہمارا منہ میٹھا نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ریاض کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان اور ملت پاکستان کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی برا ہوا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہمیں سچائی کو چھپانے کے بجائے عیاں کرنا چاہیے اور اپنے ملک کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
عرب ممالک کی کسی سے نہ ہی تو دینی و مسلکی دوستی ہے اور نہ ہی اس بنیاد پردشمنی، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود سوچ لیں کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ دین یا مسلک مشترک ہے، نہیں ہر گز نہیں تو پھر یہ دوستی کیوں !؟ صاف ظاہر ہے کہ مفادات کی دوستی ہے۔
اسی طرح کیا پاکستان کو ریاض کانفرنس میں نظر انداز کرنا ، پاکستان اور کشمیر کا ذکر نہ کرنا، دینی یا مسلکی اختلافات کی وجہ سے تھا!؟
نہیں ہر گز نہیں بلکہ یہ سب موقع و مناسبت کے لحاظ سے عرب ممالک کے مفادات کے خلاف تھا۔
ہم ہیں کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر اپنی امیدیں عربوں سے لگائے بیٹھے ہیں ، اورسعودی عرب کی پالیسی دیکھ لیجئے کہ اس نے عالمی فوجی اتحاد کا کمانڈر تو پاکستان سے منگوایا لیکن اس فوجی اتحاد کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کے علاوہ باقی سب کچھ ہے۔
ایسا فوجی اتحاد جس کا کمانڈر تو پاکستانی ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں کشمیر نہیں، کیوں کیا سعودی مسلک اس سے منع کرتا ہے ، نہیں بلکہ سعودی حکومت کے مفادات کو اس سے نقصان پہنچتاہے۔
جس طرح گزشتہ دنوں ٹرمپ کا ریاض میں شاندار استقبال کیا گیا ہے ،آپ خود بتائیں یہ کتنی بڑی اور اہم کانفرنس تھی ، صرف سعودی عرب سے ہی گلہ کیوں!؟ دیگر مقررین کی خبر بھی لیجئے ، کیا اس کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کے حوالے سے کسی ایک مقرر نے بھی کوئی ایک لفظ بولا، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو بھارت کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے !کیا انہیں ان کے مسلک نے بھارت کے خلاف بولنے سے روکا تھا!
نہیں ہر گز نہیں بلکہ بھارت کے خلاف بولنا ان کے حکومتی مفادات کے خلاف تھا۔
اچھا ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو خطاب کا موقع نہیں دیا گیا اور پوری کانفرنس میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا گیا لیکن مجال ہے کہ کسی مقررنے کوئی ایک لفظ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ہی کہا ہو یا پاکستان کے بارڈرز پر بھارت کی گولہ باری کے بارے میں کچھ کہاہو۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا!؟ کیا ان کے دین یا مسلک نے انہیں روکا تھا یا ان کے حکومتی مفاد میں نہیں تھا۔
یاد کیجئے ۱۹۵۶ ء کا وہ دن جب مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھا اور پاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے تو ایسے میں جواھر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
اس وقت بھی سعودی حکومت نے نہرو کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا اور " مرحبا یا رسول الاسلام " کے نعرے لگائے۔
اس واقعے کے اگلے روز "روزنامہ ڈان " نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔
اگلے دن سعودی عرب کی ایمبیسی نے اس کی یہ توجیہ پیش کی کہ اس سے مراد امن کا پیامبر ہے ،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ لاکھوں ہندوستانی ا ور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے امن کا پیامبر کیسے بن گیا ہے۔۔۔۔اور یہ بھی لکھا کہ پاکستانی مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے: دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ اصطلاح پیامبر اسلام ﷺسے مخصوص ہے۔
آپ نریندر مودی کے دورہ سعودی عرب کو ہی لیجئے، نریندر مودی کا بھی اسی طرح شاندار استقبال کیا گیا اور شاہی محل میں، شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ نریندر مودی کو عطا کیا۔ باقی جو معاہدے اور معاملات طے پائے وہ اپنی جگہ محل بحث ہیں۔
کفار کے سرداروں کے یہ استقبال اور عزت افزائی سعودی بادشاہوں کے دین کا تقاضا نہیں بلکہ ان کے حکومتی مفادات کے لئے ضروری ہے۔
ہم میں سے کچھ لوگوں نے مسلک، فرقے اور دین کا کمبل اوڑھا کر آل سعود کی حقیقت کو چھپانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ رقص سعودی بادشاہ کرتے ہیں اور تاویل ہمارے ہاں کا ملاں کرتا ہے، نامحرم عورتوں سے مصافحے سعودی حکمران کرتے ہیں اور جواز ہمارے ہاں کے جہادی ڈھونڈتے ہیں، کفار کے سرداروں کو آل سعود چومتی ہے اور اس کے جائز ہونے کے لئے احادیث ہمارے ہاں کے محدثین کرام تلاش کرتے ہیں۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ بادشاہ اپنے حکومتی مفادات کے پیچھے چلتے ہیں اور ہم میں سے بعض لوگ ان کے کرتوتوں کا دفاع مسلک کے مورچے سے کرتے ہیں۔ تاریخ ملوکیت و بادشاہت کا خلاصہ یہی ہے کہ بادشاہوں کی پالیسیاں مسالک کے تابع نہیں ہوتیں بلکہ وہ مسالک کو اپنے تابع رکھ کر مسالک سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.