وحدت نیوز(آرٹیکل) سرزمین حجاز ہمارے لئے انتھائی مقدس سرزمین ہے. اور یہ ہماری عقیدتوں کا مرکز بھی ہے لیکن اس مقدس سرزمین پر مسلط آل سعود کی حقیقت کیا ہے. کوئی بھی منصف مزاج شخص جب انکی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ماسوائے ظلم وبربریت ، قتل وغارت ، تباہی وبربادی کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا. جزیرہ عرب کے لاکھوں انسانوں کے خون اور جلتے ہوئے گھروں اور خیموں کی آگ سے تعمیر ہونے والی اس مملکت سے حرمين شريفين كي حفاظت اور امت مسلمة كي حقوق كي پاسداری ممکن هی نهین. جب بیت اللہ الحرام ، مسجد نبوی كي حرمت اورجنت البقیع ،جنت المعلی ، کربلا معلی كا وجود انکے شر سے محفوظ نہیں رہ سکے ، تو پھر ان سے کسی مقدس چیز کی حفاظت کی توقع کیا کی جا سکتی ہے.
ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں اور منصفانه جائزه ليتے هين اور انڈیا کے ساتھ انکے تعلقات کی تاریخ قديم اور حاضر سے پردہ اٹھاتے ہیں.
انڈیا سعودی تعلقات کا جائزہ تین مراحل کی شکل میں لیا جا سکتا ہے.
پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک تقریباً 43 سال
دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک تقریبا 35 سال
تیسرا مرحلہ 2000 سے 2017 تک تقریبا 17 سال
پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک :
* 1932 جب سعودی ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن فیصل آل سعود نے حجاز مقدس یا جزیرہ عرب پر قبضہ کیا اور اسکا مقدس نام تبدیل کرکے اپنے خاندانی نام سے منسوب کرتے ہوئے سعودی عرب رکھا. تو جواھر لعل نہرو نے انکے اس کارنامے کی بہت تعریف کی اور انکی شجاعت ( لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام ) اور سیاسی بصیرت کو سراہا. یہیں سے آل سعود اور ھندو لیڈروں کے تعلقات کا سلسلہ شروع ہوا. اور نقطہ اتحاد یہ بھی تھا کہ آل سعود نے طاقت کے بل بوتے پر جزیرہ عرب کو متحد کیا اور کانگرس بھی ہندوستان سے جدا گانہ ملک پاکستان کا مطالبہ طاقت سے دبانا چاہتی تھی.
* مئی 1955 کو اس وقت کے سعودی ولی عہد ملک فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے انڈیا کا دورہ کیا. جو کہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی تھے. اور انھوں نے مضبوط دو طرفہ تعلقات اور تعاون کے اصول طے کئے.
* ان کے نیو دھلی دورے کے چند دن بعد ہی خود سعودی فرمانروا ملک سعود بن عبدالعزیز نے 17 دن کا انڈیا کا دورہ کیا. اور اس دورے میں وہ انڈیا کے نیو دھلی کے علاوه بمبئ ، حیدرآباد ، میسور ، شملا ، آگرہ اور علی گڑھ وغیرہ مختلف شہروں میں گئے. اور دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے.
* 1956 میں انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سعودیہ کا دورہ کیا اور انکا والہانہ استقبال ہوا. اور اسے جدہ اسٹیڈیم میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کر نے کا شرف دیا گیا یہ پروٹوکول اور شرف کسی بھی غیر ملکی مہمان کو نہیں دیا جاتا تھا.
* اس کے بعد امریکہ اور روس کے ما بین کولڈ وار کا دور تھا. اور دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم ہوئی . انڈیا روس کے بلاک میں چلا گیا اور سعودیہ امریکی بلاک کا حصہ تھا اس لئے انکے تعلقات بھی کولڈ ہو گئے.
دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک:
امریکی بلاک میں ہونے کے ناطے سعودیہ کی پاکستان سے قربتیں بڑھیں. بھٹو چونکہ روس کی طرف میلان رکھتا تھا اس لئے بھٹو اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص دیوبندی اور نام نہاد خلافت اسلامیہ کے ایجنڈے پر کام کرنے والی جماعتوں سے قربتیں بڑھیں. جب فوجی انقلاب کے ذریعے جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا اور سعودیہ کی نظریاتی طور پر ہم فکر جماعتوں کو بھی سیاسی عروج ملا تو پاکستان کے مستقبل کے لئے موسم خزاں اور وھابیت وتکفیریت کی بہار کا دور شروع ہوا .
اور دوسري طرف پاکستان سے قربت اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود انڈیا کے ساتھ سعودی تعلقات بدستور قائم رہے.
* 1981 میں دونوں ملکوں کے ما بین اقتصادی اور ٹیکنالوجی تعاون کو بڑھانے کے لئے مشترکہ فورم بنا.
* 1982 کو انڈین وزیراعظم اندراگاندھی نے سعودیہ کا رسمی دورہ کیا
اور مندرجہ ذیل شعبوں میں انکے ما بین تعاون جاری رھا.
1- پاور اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون جاری رھا.
2- بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.
3- 1990 میں کولڈ وار کے خاتمے کے بعد اور دوسری خلیجی جنگ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا. اس کے بعد سعودی اور خلیجی ممالک میں خطرات کا احساس بڑھا. اس لئے انہوں نے اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے انڈیا سے تعلقات بڑھائے. اور چند سالوں میں انڈیا سب سے زیادہ سعودیہ سے خام تیل کا خریدار بنا.
تیسرا مرحلہ 2000 سے 2017 تک
سعودی انڈین تعلقات کا عروج:
یہ دور سعودی انڈین تعلقات کی بہار کا دور ہے. ان دونوں ممالک کے مابین اس وقت بہت قربتیں ہیں لیکن اس مرحلے پر روشنی ڈالنا اور پاکستانی عوام کو انڈین سعودی گٹھ جوڑ سے آگاہ رکھنا نہ ہماری حکومت کی اولویات میں شامل ہے اور نہ ہی ہمارا میڈیا اس پر شور مچاتا ہے. ہمیں انڈین ایرانی تعلقات تو نظر آتے ہیں لیکن انڈین سعودی تعلقات نظر نہیں آتے.
ہم یہاں ان پر روشنی ڈالتے ہیں.
انڈیا اور سعودیہ کے مابین سیاسی ،اقتصادی ،امنی اور دفاعی معاہدے ہیں.
انڈیا اپنی ضرورت کا 30% پٹرول سعودیہ سے خریدتا ہے جوکہ پانچ لاکھ بیرل روزانہ بنتا ہے. سعودی رپورٹس کے مطابق انڈیا انکا چین ، امریکا اور امارات کے بعد دنیا میں چوتھا بڑا بزنس پارٹنر ہے. وہ روزانہ پانچ لاکھ بیرل پٹرول سعودی عرب سے امپورٹ کرتا ہے. 2000 سے 2006 تک 68 انڈیا کی کمپنیاں سعودیہ میں کام کرتی تھیں. 2006 سے 2009 تک انکی تعداد 250 تک پہنچ گئی. اور ابھی انکی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے. پاکستان کے ساتھ سعودی تجارت فقط 4.5 بلین ڈالرز سالانہ ہے - 2016 تک انڈیا اور سعودیہ کے مابین تجارت 150 بلین ڈالرز سالانہ ہے. بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.
سعودي سركاری وفود کے انڈیا کے دورے :
- 2005 کو سعودی وزارت پٹرولیم اور انڈین وزارت پٹرولیم کے ما بین مشترکہ تعاون کی کمیٹی تشکیل پائی.
- 2006 سعودی فرمانروا ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کا دورہ. از سر نو سعودی عرب اور ھندوستان کے تعلقات اس دورے سے بہت مضبوط ہوئے اور یہ دورہ بھارت کے یوم آزادی کی مناسبت کے ایام میں ہوا اور ملک عبداللہ نے اپنے خطاب میں انڈیا کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا.
اس کے بعد دو طرفہ تعلقات اور وفود کے تبادلے کا وہ دور شروع ہوا جو تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا. حتی کہ سعودی وزیر خارجہ جبیر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر ہرگز انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے. سعودی نمک خوار اور محب وطن ہونے کے دعویدار اسکا ذکر کبھی نہیں کریں گے.
سعودی وفود کے سرکاری انڈیا کے دورہ جات:
- سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے 2006 میں انڈیا کا دورہ کیا.
- فروری 2008 اور دسمبر 2008 میں سعود الفیصل نے انڈیا کے دو دورے کئے
-2006 اور 2008 کے درمیان دیگر مختلف سعودی وزراء جن میں وزیر عدل ، وزیر صنعت وتجارت ، وزیر پٹرولیم ومعدنیات ،وزیر صحت اور وزیر تعلیم نے بھی کئی ایک دورے کئے. اور اپنی اپنی وزارتوں کے متعلق امور پر دو طرفہ تعاون کے معاہدوں پر انکے اور انڈین وزراء کے مابین دستخط ہوئے.
- 15 ،16 جنوری 2009 کو سعودی انٹیلی جینس کے سربراہ امیر مقرن بن عبدالعزیز نے بھی انڈیا کا دورہ کیا.
- اپریل 2010 میں ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اعلی سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے انڈیا کا دورہ کیا.
- اگست 2009 اور نومبر 2010 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے انڈیا کا دورہ کیا.
- 28 مارچ 2011 کو سعودی فرمانروا کے خصوصی نمائندے کے طور پر امیر بندر بن سلطان نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے خصوصی ملاقات کی.
- فروری 3-5 2011 کو سعودی وزیر اقتصاد و منصوبه بندي نے انڈیا کا دورہ کیا اور اقتصادی تعاون کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی.
- فروری 2012 کو امیر عبدالعزیز بن سلمان بن عبدالعزیز وزیر پٹرولیم ومعدنیات نے انڈیا کا دورہ کیا.
- مارچ 2012 پہلی بار امام مسجد الحرام شیخ عبدالرحمن سدیس نے انڈیا کا پانچ روزہ دورہ کیا.
4-6 جنوری 2012 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے - 76 رکنی وفد کے ساتھ انڈیا کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کی مشترکہ صنعتی وتجارتی کونسل کے نویں اجلاس میں شرکت کی.
-30 اپریل 2012 کو امام مسجد الحرام شیخ خالد غامدی نے انڈیا کا دورہ کیا.
- سعودی مجلس شوریٰ کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد آل شیخ نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈیا سیاستدانوں اور پارلیمنٹرین سے ملاقات کی.
- 2015 کو سعودی وزیرخارجہ عادل جبیر نے انڈیا کا دورہ کیا اور بیان دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے.
- 2015 میں انڈیا کی فضائیہ کی مشقوں کو دیکھنے سعودی وزیر دفاع آئے.
انڈین سرکاری وفود کے سعودیہ کے دورہ جات.:
- اپریل 2008 کو انڈین وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- اپریل 2009 کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ ای. احمد نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 31 اکتوبر 2009 کو انڈیا کے وزیر مالیات پرناب مکھرجی نے دس رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے سعودیہ کا دورہ کیا. اور مشترکہ مالیاتی امور کی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی.
- 27 فروری 2010 کو انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا.
- 22 فروری 2011 کو انڈیا کے وزیر گیس وپٹرولیم نے سعودیہ کا دورہ کیا مشترکہ تعاون کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی.
- 26 مارچ 2011 کو انڈین وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 4 اپریل 2016 کو نریندرمودی انڈیا کے وزیر اعظم نے سعودیہ کا دورہ کیا اور اس کا بے نظیر استقبال ہوا. پاور ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صنعت وتجارت کے میدان میں معاہدے اور 400 انڈین کمپنیوں کو سعودیہ کی طرف سے پرمٹ دینے پر اتفاق ہوا.
انڈیا اور سعودیہ کے مابین امنی اور دفاعی تعلقات:
- 2009 میں دونوں ملکوں کے ما بین امنیتی اور دفاعی معاہدے ہوئے. جن کی بنیاد پر جماعۃ الدعوۃ اور لشکر طیبہ پر سختیاں شروع ہوئیں. سعودیہ نے بمبئی حملوں میں مطلوب لشکر طیبہ کے افراد کو اپنے ملک سے بھی نکال دیا اور بعض کو انڈیا کے حوالے کیا.
- فروری 2014 کو دو هندوستاني جنگی بحری بیڑے سعودیہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں شریک ہوئے.
- مارچ 2015 کو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے. انڈین نیشنل دیفنس کالج اور سعودی اعلی دفاعی کالج کے مابین دونوں ممالک کے وفود کے تبادلے ہوئے.
- 2015 کو انڈین جنگی بحری بیڑے جدہ آئے. اورانڈیا فضائيه کے جنگی جہاز اور اسلحہ منتقل کرنے والے جہاز بھی سعودیہ لینڈ ہوئے. ان پر ایک بڑی تعداد میں انڈیا کے فوجی بھی سعودیہ پہنچے.اور اسي سال سعودی فوجی آفیسرز انڈیا کے نیشنل ڈیفنس کالج ٹریننگ کے لئے آئے.
- انڈین بحریہ کے دو جنگی بیڑے ای این ایس دھلی اور ای این ایس ٹریشل 10 ستمبر 2015 کو سعودی بندرگاہ الجبیل پر لنگر انداز ہوئے. انڈیا کا ای این ایس ٹریشل جنگی بحری بیڑا 163 میٹر لمبا ہے اور جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہے. زمین سے زمین پر متوسط مدی کے میزائل اور اینٹی ایئر کرافٹ نصب ہیں.
تحقیق وتحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
مصادر ومنابع : سعودی وخلیجی سائٹس اور جرائد کی رپورٹس