دورہ ٹرمپ اور آل سعود

26 May 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) حال ہی میں ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب اور وہاں موجود پچاس اسلامی ممالک کے سربراہان کوٹرمپ کے، " اسلام" کے موضع پر لیکچر نے خادم الحرمین شریفین کے نظریے اور حیثیت کو مسلمانوں کے سامنے واضح کردیا ہے۔اب مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ خادم الحرمین اور دفاع حرمین کے نعرے بلند کرنے والوں نے سب سے پہلے حرم کی تقدس اور تعلیمات اسلام کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور پاکستانی عوام کے جذبات کو الگ مجروح کیا۔ آل سعود نے ایک ایسے شخص کو دعوت دی جو اسلام دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے پھر وہ ایک ایسے ملک کا صدر ہے جس نے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ امریکہ ہی وہ واحد ملک ہے جس نے سب سے زیادہ اسرائیل کے ناجائز وجود کا دفاع کیا اور قبلہ اول "بیت المقدس" کی بے حرمتی اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کیا،۔اس کے علاوہ تقریبا تمام عالمی دہشت گردوں کی بیک بون بھی امریکن سی آئی اے ہے۔ ٹرمپ وہ صدر ہے جس نے آتے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور اقدامات کیے ۔ مزید یہ کہ سر زمین حجاز میں جہاں خواتین کو پردے کے ساتھ گاڑی تک چلانے پر پابندی ہے وہاں ٹرمپ کی بیوی اور بیٹی بے حجاب تشریف لاتی ہیں اور خادم الحرمین اپنے تمام اکابرین کے ہمراہ ان کے اسقبال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رقص کی محفلیں سجاتے ہیں۔ سب سے اہم نقطہ یمن جنگ کے بعد سے اسلامی اتحادی افواج یا اسلامی نیٹو یا آل سعود کے بلیک واٹر کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہیں اور مال دنیا کی خاطر ذلت برداشت کرنے والے سربراہان کے چہرے بھی بے نقاب ہوچکے ہیں۔آخری اہم نقطہ یہ کہ ہم پاکستانیوں کے لئے شرم کی بات ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو اس پوری کہانی میں کوئی کردار ہی نہیں دیا گیا اور جس شخص پر پورا پاکستان فخر کرتا تھا یعنی ہمارے جنرل ریال صاحب، معزرت کے ساتھ جنرل راحیل شریف صاحب کی حیثیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ جنرل صاحب کو کس اسلامی اتحادی افوج کا سربراہ بنایا تھا وہ راز بھی عوام کے سامنے آشکار ہوگیا ہے۔

حجازوہ سر زمین ہے جہاں جہالت کی تاریکی میں سے نور اسلام روشن ہوا تھا، آج ایک دفعہ پھر اس سر زمین سے لشکر دجال بنانے کی خبریں آرہی ہیں، جہاں پہلے قتل و غارت اور لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں تھا وہاں حضرت محمد ؐ نے افکار اسلام سے سب کو بھائی بھائی بنا دیا تھا، آج اس مقدس زمین پر پھر سے بھائی کو بھائی سے لڑوانے کی تیاری ہو رہی ہے اورآل سعود، آل یہود کے دلوں کی آرزوں کو پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

آخر آل سعود ایسا کیوں نہ کریں ؟ آل سعود امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کا کہنا کیوں نہ مانیں ؟ ان کی حکومت کی بنیاد ہی ان تینوں کے سہارے قائم ہے ۔جس نے آل سعود کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو وہ ان ساری باتوں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ستمبر1969 میں سعودیہ کے بادشاہ فیصل نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ" ہم سعودی خاندان یہودیوں کے کزنز ہیں"اور اس بات کا ثبوت آج ہم سعودیہ کے بادشاہ سلمان اور محمد بن سلمان کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلوقات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔آل سعود نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سہارے حکومت کی ہے کیونکہ انہوں نے ظلم و جبر سے حکومت حاصل کی ہے اور اس ظالمانانہ حکومت کو قائم رکھنے کے لئے اسلام دشمنوں کا سہارا لینا ضروری ہے ۔لہذا سعودی حکومت کو برطانیہ کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کرنے کا پہلا معاہدہ26 دسمبر1915 میں طے پایا تھا جس کے بدلے میں اُس وقت سعودیہ اور برطانیہ کے مابین200 معاہدات طے پائے جن کی لاگت17.5 بلین ڈالر تھی اور تیس ہزار برطانوی شہری سعودی عرب میں تجارتی اور دوسرے زرائع میں کام کرنے کا معاہدہ بھی شامل تھا۔سعودی حکومت اور برطانوی غلامی کے انداز کو جعفر البکی اپنے ایک کالم میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:"سلطنت بر طانیہ کے دور میں سلطان نجد عبدالعزیز السعود عراق میں موجود برطانوی ہاکمشنر پرسی کاکس کے سامنے اس طرح عزت و احترام سے اپنے سر کو جھکا دیتے ہیں اورانتہائی عاجزی سے کہتے ہیں کہ آپ کا احترام میرے لئے میرے ماں باپ کی طرح ہے، میں آپ کے احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ نے مجھے اس وقت سہارا دیا اور بلندی کی طرف اٹھایا جب میں کچھ بھی نہ تھا میری کچھ حیثیت نہیں تھی، آپ اگر ایک اشارہ کریں تو میں اپنی سلطنت کا آدھا حصہ آپ کو دوں۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ کی قسم اگر آپ حکم دیں تو میں اپنی پوری سلطنت آپ کو دینے کو تیار ہوں"۔عبد العزیز نے یہ سب باتیں اکیس نومبر1912کو العقیر کانفرنس میں اس وقت کہا جب سلطان نجد، سلطنت عراق اور سلطنت شیخین کویت کی سر حدوں کا تعین کیا جارہا تھا۔

دورہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی برطانیہ اور سعودیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرح ہے بلکہ اس حوالے سے اس وقت ایک کارٹون بھی دنیا بھر میں مشہور ہوا ہے جس میں یہ دیکھا یا گیا ہے کہ ٹرمپ عرب شیخ یعنی سلمان سے گرم جوشی سے گلے مل رہے ہیں اور ٹرمپ کا ہاتھ گلے ملتے وقت عرب شیخ کی جیب میں ہے جس کا مقصد واضح ہے، چونکہ اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ملکوں میں امریکہ بھی سر فہرست ہے اور تقریبا امریکہ کا ہر شہری42500 ڈالرز کا مقروض ہے، اس موقع پر آل سعود کی بیوقوفی اور آل یہود سے دلی لگاؤ نے امریکی معیشیت کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔امریکہ کے کچھ مطالبات تھے جو اس دورے سے مشروط تھے اور جب تک امریکہ کو اپنے مطالبات پورے ہونے کا یقین نہیں ہوا ٹرمپ نے دورے کا عندیہ نہیں دیا ۔امریکہ نے اس دورہ میں ایک تیر سے دو نہیں تین شکار کئے ہیں۔اول دورہ ٹرمپ سعودی حکومت کو110 ارب ڈالرز کا پڑا جس سے امریکی معیشیت کو فائدہ پہنچا اور اتنی بڑی تعداد میں دفاعی معاہدے سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے جان میں جان آئی ۔ دوم امریکہ کو خطے میں اپنی مفادات اور اسرائیل کی حفاظت کے لئے ایک ذمہ دار چوکیدار کی ضرورت تھی اس خواہش کو خادم الحرمین نے نہ صرف پورا کیا بلکہ ٹرمپ کے سامنے 50ممالک کے سربراہان کے سروں کو جھکا کر یہ ثابت کیا کہ صرف میں نہیں ہمارے پچاس غلام بھی اس چوکیداری کو تیار ہیں، جو ہر وقت آپ کے فرمان پر لبیک کہیں گے۔ تیسرا امریکہ اور اسرائیل نے آل سعود کے ہاتھوں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پر ایک ایسا فوجی اتحاد بنوایا (کرایے کے فوجیوں کا ٹولہ مرتب کیا)جن کا مقصد فقط مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کو جاری رکھنا ہے اور اسرائیل کے ہر شمن سے مقابلہ کرنا ہے۔

لہذا آل سعود کی عالمی طاقتوں کے لئے غلامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی اس دوستی اور اتحاد میں اپنی اوقات کا صحیح اندازہ ہوگیا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں اب مزید ذلیل نہیں ہونا چاہیے کم سے کم اٹھارہ کروڑ عوام کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے اور داؤ پر لگے ملکی عزت و وقارکو بچانا چاہیے۔ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، ساتھ ہی پاکستان کے دوست اور دشمن ملکوں کی لسٹ میں بھی رودوبدل کی ضرورت ہے، ہمیں اب سعودی عرب کی شادی میں پاکستان کو بیگانہ بنے کی ضرورت نہیں۔


تحریر۔۔۔ ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree