وحدت نیوز(آرٹیکل) یمن ایک عرب اسلامی ملک ہے جو کہ جنوب ایشیا میںواقع ہے۔اس ملک کی زمین بہت زیادہ زرخیز ہے اور کاشتکاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ۔ یمن کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے تا ہم دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔اسلامی مکاتب فکر میں سے زیدی شیعہ اور اہل سنت کی آبادی دوسرے فرقوں سے زیادہ ہے۔یمن کی 60 فیصد آبادی زیدی شیعوں پر مشتمل ہے۔زیدی شیعہ بارہ اماموں میں سے چار اماموں کو مانتے ہیں اور چوتھے امامؑ کے بعدان کے بڑے بیٹے حضرت زیدرحمتہ ا ﷲعلیہ کو امام مانتے ہیں۔ زیدیوں کے بیشتر فقہی مراسم اہل سنّت برادران کی طرح ہیںجس کی وجہ سے ایک عام فرد کویمن میں زیدی شیعوں اور اہل سنّت کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر رہنے والے زیدی شیعوں اور اھل سنّت کے درمیان کس قدر اخوت کا رشتہ اور ہم ّہنگی ہے۔یمن دنیا کی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس کی زمینیں اگر چہ زرخیز ہیں تا ہم مختلف حکومتوں کی عدم توجہ اور لاپرواہی کی وجہ سے ملکی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے جس کی وجہ سے ملکی سیاسی صورتحال بھی ہمیشہ بحران کا شکار رہا ہے۔ 2011 میںیمنی عوام نے اس وقت کے صدر علی عبداﷲصالح کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے کیے جس کے دور میں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملک میں بیرونی مداخلت بھی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔
حکومت کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کی وجہ سے آخر کار عوامی دبائو میں آکر علی عبداﷲصالح کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کی جگہ منصور الہادی صدر منتخب ہوا۔تاہم صدر منصور الہادی بہی سابقہ صدر کی غلط حکومتی پالیسیوں سمیت بیرونی ایجنڈوں پر عمل پیرا رہا۔ جس کے نتیجہ میں عوام کے غم و غصہ میںایک بار پھر شدید اضافہ ہوااور یمن کے شمالی علاقوں سے حوثی قبایل اور دیگر کثیر تعداد میں عوام نے مل کر یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا۔ حوثی قبائل اور دیگر یمنی عوام کا صنعا پر قبضہ کے بعد صدر منصور الہادی نے عوامی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر 22 جنوری 2015ء کو استعفیٰ دیاجس کے ساتھ ہی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ بھی مستعفی ہوئی۔ انقلابیوں کی احتساب <Accounitability>اور بازپرسی <Investigation>کی خوف سے منصور الھادی اور کچھ دیگر کرپٹ <Corrupt>اعلی حکومتی اراکین صنعا سے خفیہ طور پر فرار ہوئے۔صنعا پر قبضہ کے بعد حوثیوں کی مضبوط اور ملک گیر تنظیم ،انصاراﷲ نے 6 فروری 2015ء کو عبوری حکومت تشکیل دی جس کی تائید حوثیوں کے علاوہ یمن کے دیگر مکاتب فکر اورعوامی حلقوں نے بھی کیں۔انصاراﷲ نے عبوری حکومت کیلئے ایک انقلابی کونسل <Revolutionary Council>تشکیل دی جس میں حوثیوں کے علاوہ اہل سنّت اور دیگر مکاتب فکر کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
انصاراﷲتنظیم کے بانی شیخ بدرالدین الحوثی تھے جن کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔حسین الحوثی کے بعد تنظیم کا موجودہ سربراہ عبدالمالک الحوثی ہیں۔ انصاراﷲتنظیم کا بنیادی نعرہ<Motto>ــ" اﷲ اکبر ، امریکہ مردہ باد ، اسرائیل مردہ باد ، یہود پر لعنت،اسلام فتح مند رہے!" ہے جو اس تنظیم کے مقاصد اور اہداف کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔اور شاید اسی نعرے کی وجہ سے آج اس تنظیم کو سخت سے سخت مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن تحریکوں نے بھی دنیا کے سامراجی اور استعماری طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا شعار بلند کیا اور ان کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کیا ،انہیں ہر طرح کے سازشوں اور مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انصاراﷲکی طرف سے انقلابی کونسل اور عبوری حکومت <Interim Government>کی تشکیل کے بعدیمن کے مستعفی صدر نے سعودی بادشاہ اور بعض دیگر عرب ،خلیجی بادشاہوں کے ایماء پر 21فروری2015ء کو اپنا استعفی واپس لینے کا اعلان کیا اور اپنے کچھ وفادار ساتھیوں کو بلا کر عدن شہر کو ملک کا عبوری دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے پھر سے یمن کا صدر ہونے کا دعویٰ کیا۔
یمن کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے سعودی بادشاہ نے یمن کی انقلابی حکومت کو جس نے کچھ عرصے کے بعد انتخابات کرنے کا اعلان بھی کیا تھا،اپنی بادشاہت<Monarchy>کیلئے بڑا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف اپنے بعض پٹو خلیجی بادشاہوں کو ملا کر ایک جنگی اتحاد> <War Allienceتشکیل دی۔اس مقصد کی خاطر سعودی عرب ایک خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔سعودی اتحادی فوج نے یمن کی عوامی انقلابی حکومت کو بزور بازو ختم کرنے کیلئے 26مارچ 2015 ء کو فضائی اور زمینی حملے شروع کیا۔اس حملے کا مقصد خود سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی عرب ممالک کی بادشاہتوں کو بچانا ہے کیونکہ سعودی سرحد سے متصل ملک یمن میں ایک اسلامی جمہوری <Islamic Republic>نظام نہ صرف سعودی بادشاہت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خطے کی دیگر بادشاہتوں کیلئے بھی خطرناک ہوسکتی ہے۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یمن میں اسلامی جمہوری نظام حکومت کے قیام سے سعودی عرب اور خطے کے دیگر خلیجی ممالک کے عوام جو کئی عرصے سے بادشاہتوں کے قید و بند میں زندگی گزار رہے ہیں اپنے ممالک میں بھی اسلامی جمہوری نظام کیلئے قیام کریں گے اور عوامی بیداری کی یہ لہر شدت اختیار کرسکتی ہے۔لہٰذا اس ٖفوجی اتحاد کی پوری کوشش ہے کہ یمن کی انقلابیوں کو شکست دے کر پھر سے اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسلط کرتے ہوئے عوامی بیداری <Public Awareness>کے اس عظیم لہر کو روکیں۔سعودی اتحادی افواج کے حملوں سے اب تک تیرہ ہزار معصوم شہری شہیدجبکہ تیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تربچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔اس مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے یمن کی بنیادی ڈھانچہ <Infrastructure>تباہ ہوا ہے جبکہ ملک بری طرح غذائی اور طبی بحرانوں کا شکار ہے۔یمن جنگ کے حوالے سے مغربی میڈیا اور اس کے آلہ کار دیگر میڈیا ذرائع کا کردار نہایت غیر منصفانہ اور شرمناک ہے۔آپ نے بھی بارہا سنا ہوگا کہ ان میڈیا ذرائع کے اوپر یمن کی انقلابیوں) جن کی اکثریت حوثیوں پر مشتمل ہے( کیلئے لفظ "باغی"استعمال کیا جاتا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے اور اس سے بعض ذرائع ابلاغ کی اصل چہرہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔حوثی 2000 سالوں سے یمن میں مقیم ہیں اور ان کی سیاسی تنظیم"انصاراﷲ" نہ صرف ملکی طور پر رجسٹرد ہے بلکہ اسے باقی تمام مکاتب فکر خصوصااہل سنت ،سول سوسائٹی اوریمن کے 60 فیصد سے زیادہ سرکاری افواج کی حمایت بھی حاصل ہے جو اس بات کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ یہ لوگ نہ صرف باغی نہیں ہیں بلکہ ملک کے وفادار بھی ہیں۔ حوثیوں کے باغی نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اب تک یمن میں انقلابیوں کے خلاف نہ تو کوئی بڑا عوامی مخالفت <Public Resistance>سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل عام ہوا ہے۔ اگر حوثی باغی ہوتے تو شام و عراق میں جس طرح باغی داعش<ISIS> کے ہاتھوں لاکھوں بے گناہ نسانوں کی قتل عام ہوا ،اسی طرح یمن میں بھی ہوتا۔باغی تو انہیں کہا جاتا ہے جو کسی جائز اور درست اکثریتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جبکہ یمن کے انقلابی تو صرف اپنے ملک کی دفاع کر رہے ہیں اور ملک کو استعماری قوتوں کی چنگل سے نجات دینا چاہتے ہیں اورملک کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد 75فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت یمن کے انقلابی گارڈز،رضا کار عوامی دستے اور سرکاری فوج اندرونی محاذ پر ملک کے مقبوضہ علاقوں کو القاعدہ کے دہشتگردوں اور منصور الھادی کے وفادار فوجیوں سے آزاد کرانے کیلئے بر سرپیکارہیں جبکہ بیرونی محاذ پر جارح سعودی اتحاد کے فوجیوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔اس وقت یمن کے اکثریتی علاقوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہے جبکہ عدن شہر سمیت چند دیگر علاقوں پر منصور الہادی کے فوجیوں اور القاعدہ دہشتگردوں کا قبضہ ہے تاہم انقلابی افواج کی سخت مزاحمت سے مقبوضہ علاقوں سے ان دہشتگردوں کا قبضہ ختم ہو رہا ہے۔یمن کی عوامی انقلابی حکومت نہ صر ف خلیجی بادشاہتوں کیلئے خطرہ ہے بلکہ دنیا کے دیگر استعماری طاقتوںامریکہ،اسرائیل ،برطانیہ اور فرانس کیلئے بھی خطرہ ہے اس لیے برائے نام حقوق انسانی <Human Rights>کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ قوتیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ سعودی اتحادی افواج کی فنّی ومالی مددort> <Financial & Logestic Suppبھی کر رہی ہیں۔تاہم ان کو سوائے معصوم شہریوں کے قتل عام کے سوا نہ صرف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ سعودی عرب کی معیشت بری طرح تباہ ہونے کے ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی بار عالمی بینک<World Bank>سے قرض لینا بھی پڑا ہے۔عالم اسلام کی ماتھے پر بد ترین داغ یہ ہے کہ یمن پر حملہ کرنے والے سارے عرب ممالک مسلمان ہیں ۔بعض حلقوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انقلابیوں سے مقامات مقدسہ یعنی مکہ اور مدینہ کو خطرہ لاحق ہے جو کہ ایک سراسر غیر منطقی بات ہے کیونکہ یمن کے انقلابی عوام بھی مسلمان ہیں اور ان کو بھی دنیا کے دیگر تمام مسلمانوں کی طرح مکہ و مدینہ عزیز ہیں۔یہ شور و غل محض آل سعود کی بادشاہت کو بچانے کیلئے ہے جو ان کی نمک خواروں کی طرف سے کیا جارہا ہے!
لہٰذا ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ بادشاہتوں کی بقاء کیلئے لڑے جانے والے اس جنگ سے دور رہیں اور اپنے وطن عزیز کی ارضی و نظریاتی سالمیت کو خطرے سے دوچارنہ کریں۔
تحریر۔۔۔۔محمد طحٰہ منتظری