وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ ایاّم تاجدارِ ولایت اور خلیفہ راشدحضرت امام علی ؑ کی شہادت کے ایام ہیں، پورا عالم اسلام سوگوار اور اداس ہے، لیکن فقط سوگواری اور اداسی ، اس زخم کا مرہم نہیں ہے۔ اگر ہمیں مقتول سے محبت ہے اور ہم شہید کے ساتھ اپنی محبت کے تقاضے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو فقط اشک بہانے یا قاتل کو برا بھلا کہنے سے اس محبت کا حق ادا نہیں ہوجائے گا۔
محبت کے دعویداروں کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ قاتل اور مقتول کے درمیان اختلاف کیا تھا؟ یہ ٹھیک ہے کہ انیس رمضان المبارک کو قاتل نے امام مبین کے سر اقدس پر ضرب لگائی اور اکیس رمضان المبارک کو آپ شہید ہو گئے لیکن اب محبت کے دعوے داروں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا آپ کے کفن دفن کے ساتھ آپ ؑ کی سیرت اور مشن کو بھی دفن کر دیا جائے یا اسے دنیا میں باقی رکھا جائے۔
حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل سے نفرت کے ساتھ ساتھ ، امام علیؑ کے مشن اور سیرت کو بھی زندہ رکھا جائے۔ اگر ہم نے فقط قاتل کو برا بھلا کہا اور امام کے مشن اور سیرت کو نہیں بچایا تو ہم بھی قاتل کے مددگاروں میں سے ہیں۔ چونکہ قاتل نے امام مبینؑ کو اُن کے مشن اور سیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
اگرہم نے چودہ سو سال کے بعد آج بھی امامؑ کی سیرت کا احیا کر لیا تو گویا ہم نے ابن ملجم کو شکست دیدی لیکن اگر فقط ہماری زبان پر تو علیؓ علیؓ رہا اور ہم زبانوں سے تو قاتل کو برابھلا کہتے رہے لیکن اپنے اعمال کو سیرت علی ابن ابی طالب ؑ کے مطابق انجام نہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری محبت فقط چند آنسووں اور نعروں تک محدود ہے۔
امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالبؑ کی شہادت کا واقعہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو اسی سے خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
عبدالرحمن بن ملجم مرادی یمن کا رہنے والا تھا۔ جب خلیفہ سوم کو قتل کردیا گیا اور حضرت علی ؑ مسند خلافت پر بیٹھے تو آپ نے یمن کے سابق حاکم کو اپنی جگہ برقرار رکھا اور انہیں خط لکھا کہ اپنے علاقے کے دس ایسے افراد کو میری طرف بھیجو جو فصیح ترین، عقلمندترین ، دانا اور فہیم ہوں تو ان دس آدمیوں میں سے ایک یہی ابن ملجم مرادی تھا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کوئی عام سا ، سادہ لوح بندہ نہیں تھا کہ جسے دھوکے کے ساتھ قتل پر آمادہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا شمار اپنے زمانے کے سمجھدار لوگوں میں ہوتا تھا۔
یہ چھانٹے ہوئے سمجھدار لوگ جب حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سلام کے بعد ابن ملجم کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
السلام علیک ایہاالامام العادل ، والبدر التمام واللّیث الہمام ، والبطل
الضرعام ، والفارس القمقام ومن فضّلہ اللّہ علی سائر الایام صلی اللہ علیک وعلی آلک الکرام اشہد أنّک امیرالمؤمنین صِدقاً وحقاً وأنّک وصیُّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم من بعدہ۔( بحارالانوار، ج ٤٢ ،ص٢٦٠۔)
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم بھی حضرت امام علیؑ کی خلافت و ولایت اور امامت کا اقرار کرتا تھا اور آپ کے فضائل پڑھتا تھا۔
بعد ازاں ابن ملجم کوفہ میں ساکن ہوا ۔ یہ جنگ جمل اور صفین حضرت علی ؑ کے لشکر میں تھا بعد ازاں خوارج کا ہم فکر ہوگیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ابن ملجم کو ایسا کیا ہوا کہ یہ خلیفہ راشد اور امام وقت کا جانی دشمن بن گیا!؟ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ملجم کو امام کی پیروی سے نکال کر امام کی دشمنی پر آمادہ کرنے والے دو خارجی تھے۔ ایک کانام برک ابن عبد اللہ اور دوسرے کا نام عمرو بن بکر تمیمی ہے۔ یہ خارجی وہ لوگ تھے جو صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعوی کرتے تھے اوریہ جنگ صفین میں حضرت امام علی ؑ سے جدا ہوگئے تھے۔
یہ لوگ اپنے آپ کو اتنا سمجھدار سمجھتے تھے کہ قرآن سے اپنے مسائل خود حل کرنے کے درپے تھے ، اور امام علیؑ کی اطاعت کے بجائے صرف اللہ اور قرآن کی اطاعت کا نعرہ لگاتے تھے۔ یہ لوگ اول درجے کے عبادت گزار اور قاری قرآن تھے لیکن قومی، سیاسی اور اجتماعی مسائل کو نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ مکے میں ابن ملجم کو انہوں نے اس بات پر قائل کیا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ نعوذ باللہ حضرت امام علیؑ ، قرآن پر عمل نہیں کر رہے اور حکم خدا پر عمل نہیں ہورہا۔ ابن ملجم ان کی دلیلوں سے قائل ہوگیا اور اس نے ان سے وعدہ کیا کہ عالم اسلام کے سیاسی مسائل کے حل کے لئے وہ امیرالمومنین ؑ کو شہید کرے گا۔ اس کے بعد جب ابن ملجم کوفے میں پہنچا تو کوفے میں ابن ملجم کو قطام نامی عورت نے بلایا ، قطام کا باپ اور دو بھائی خارجیوں میں سے تھے اور مولاؑ کے ساتھ جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس نے بھی ابن ملجم کو امیرالمومنینؑ کو شہید کرنے کے صلے میں شادی کا لالچ دیا۔
یوں ابن ملجم جیسا سمجھدار شخص بھی قومی، ملی، اجتماعی اور سیاسی سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے خوارج کے ہمراہ ہو گیا اور خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسولﷺ کے قتل کا مرتکب ہوا۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اسلام فقط عبادات اور تلاوت قرآن تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے لئے مقامی، ملی، اجتماعی، بین الاقوامی اور سیاسی شعور بھی ضروری ہے۔ ورنہ جس آدمی کو اسلام کا حقیقی شعور نہ ہو تو خوارج کی طرح کوئی بھی اپنی مرضی کی چند آیات سنا کر اور چند احادیث کو جوڑ توڑ کر، اس کے دین سے کھیل سکتاہے، اس کی نماز و روزے کو بدل سکتا ہے، اسے خودکش بمبار بننے پر تیار کر سکتا ہے اور اسلام کی محبت کے نام پر بے گناہ انسانوں کو قتل کروا سکتا ہے۔ آج بھی یہ جتنے بھی بے گناہ انسانوں کے قاتل ، ہمارے ارد گرد موجود ہیں ، ان سب کو اسلام کے نام پر ہی تیار کیا گیا ہے۔
یہ آج جو دنیا میں قرآن و حدیث کا نام لے کر ، لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، یہ خوارج اور ابن ملجم کا طرز عمل ہے۔ اگر ہم اپنے زمانے کے خوارج اور ابن ملجم کو روکنا چاہتے ہیں ، اگر ہم امیرالمومنینؑ حضرت علی ابن بیطالب ؑ کی طرح دین کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرے میں سنی سنائی باتوں کے بجائے، دین کی حفاظت کے لئے دین کے فہمِ عمیق اور حقیقی دینی تعلیمات کی حاکمیت کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہماری زبانوں پر نام علیؑ کے ساتھ ہمارے کاموں میں بھی سیرت علیؑ کی جھلک ہونی چاہیے۔ ورنہ یاد رکھئے ! وہ محبت جو صرف زبانوں تک محدود ہو اور سیرت و عمل کی پابند نہ ہو، اسی سے گمراہیاں پھیلتی ہیں اور خوارج اور ابن ملجم جنم لیتے ہیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.