وحدت نیوز(آرٹیکل) جمعہ کا دن تمام ایام میں زیادہ فضیلت اور برکت رکھنے والا دن ہونے کے ساتھ ساتھ سید الایام ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس دن ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کئے گئے، جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس دن زمانہ جاہلیت میں قریش قصی بن کلاب کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو یوم العروبہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور درجہ ہے۔ یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کا خصوصی امتیاز اور شرف صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا، کسی اور امت کو نہیں بخشا گیا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل فرمائی ہے: رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بڑا اور افضل دن جس میں سورج طلوع ہوا، وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔‘‘ ایک اور روایت کے مطابق حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن آدم علیہ السلام تخلیق کئے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا۔ اسی دن قیامت قائم ہوگی اور اسی دن ہی یعنی جمعہ کو ہی امام مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے، اسی دن مجھ پر درود بکثرت پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود شریف مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔"(شرح مسلم للسعیدی، جلد دوم صفحہ621)
خداوند کریم کا احسان و شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر ماہ رمضان المبارک کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع دیا اور یہ موقع عطا کیا کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے گناہوں کی تلافی کرسکیں اور اس ماہ مبارک کے فیض اور برکات کو سمیٹ سکیں، پوری دنیا کے گوش و کنار میں رمضان المبارک اپنی رحمتیں اور برکتیں لئے ہوئے ہمارے درمیان ہے اور عنقریب ہم سے رخصت ہو جائے گا۔ اسی مبارک مہینہ کی آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں، یعنی ان راتوں میں اللہ کی کتاب قرآن کریم جو پیغمبر اکرم (ص) کے سینہ پر نازل ہوئی، کے نزول کی راتیں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح انہی آخری ایام میں ایک یوم جمعہ ہے، جسے عام زبان میں ہم ’’جمعۃ الوداع ‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز ہر مسلمان کی روح انتہائی پاکیزہ اور بلند درجات پر پہنچ چکی ہوتی ہے اور ہر مسلمان خود کو اپنے پروردگار سے بےحد قریب محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا، جن میں مسلمانوں کے لئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لئے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔
رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے، رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں، تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔ پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانتداری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں۔ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے۔ مرکزیت اتحاد اور اطاعت امیر کے مظاہرے سے تجدید ایمان کریں اور خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی، کامیاب و کامران ہوگی۔
مسلمان معاشروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن کثیر تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اور عبادات کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ آج جمعۃ الوداع ہے جو انتہائی عظمت و رحمت کا دن ہے۔ اسی طرح جمعۃ الوداع کے دن پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم و بابرکت سال کے سب سے افضل ترین دن کو قبلہ اول کی آزادی کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصٰی کی آزادی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ بیت المقدس کو تمام ابراہیمی ادیان میں نہایت احترام کا مقام حاصل ہے۔ سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو ان کے نزدیک بھی مسجد اقصٰی نہایت محترم قرار پائی۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں آپ کے واقعہ معراج کو بیان کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی بھی تجلیل و تحسین کی گئی۔ ارشاد رب العزت ہوا: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک، وہی مسجد کہ جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ ذات خوب سننے والی اور دیکھنے والی ہے۔‘‘
انقلاب اسلامی ایران کے بانی اور بیسویں صدی کے عظیم رہنما حضرت آیت اللہ العظمٰی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن کو یعنی جمعۃ الوداع کو مسلمانوں کے درمیان ’’عالمی یوم القدس‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’جمعۃ الوداع یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ (ص)، یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا، وہ استعمار امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کرتا ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جمعۃ الوداع کو ہی کیوں یوم القدس قرار دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں یقیناً ہر ذی شعور یہی جواب دے گا کہ آج کے دن جہاں ہر مسلمان اپنے اللہ کے حضور سر بسجود ہو کر رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں لگا ہوا ہے، وہاں دنیا کے اندر مظلوم بنا دیئے جانے والے مسلمانوں اور انسانوں کو بھی یاد کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔‘‘ پس ثابت ہوتا ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیئے جانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جس روز پوری دنیا کے مسلمان یکجا ہو کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوں اور رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے میں مصروف عمل ہوں، وہاں اللہ کی مخلوق کو اپنی دعاؤں اور اپنے عمل میں یاد رکھیں اور حضرت محمد (ص) کی حدیث کا مصداق بنتے ہوئے دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا عہد کریں کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔
یقیناً رمضان المبارک کا برکتوں بھرا مہینہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم جہاں روزہ کی حالت میں تمام گناہوں سے پاک رہتے ہوئے اللہ کے قریب ہوں تو ایسے اوقات میں ہمیں اپنے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جسے بیت المقدس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے بازیابی کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتا ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی رات کہ جسے زندہ رکھنا سنت الٰہی ہے، اس کی رات ملائکہ اپنے رب کے حکم سے سلامتی نازل کرتے رہتے ہیں، مخلوقات کے مقدر کا فیصلہ اسی رات میں ہوتا ہے، تاہم جمعۃ الوداع یوم القدس ہے، یوم القدس اسی رات کے جوار میں ہے، مسلمانوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے، شب قدر میں اللہ سے راز و نیاز کے بعد جمعہ کو یوم القدس کے روز دنیا کی تمام شیطانی طاقتوں سے اظہار نفرت کریں۔ ایک عرصے تک آنحضرت (ص) مسجد اقصٰی کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ایک روز آپ (ص) مصروف نماز تھے کہ اللہ کا حکم آیا کہ رخ مسجد حرام کی طرف کر لیں، آپ نے دوران نماز ہی رْخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا۔ مضافات مدینہ میں اس مقام پر آج بھی مسجد قِبلتَین (یعنی دو قِبلوں والی مسجد) موجود ہے۔ زائرین مدینہ عام طور پر اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور ان کی امت کے نزدیک مسجد اقصٰی کو نہایت بلند مقام حاصل ہے اور آنحضرت (ص) چونکہ مسجد حرام سے پہلے اس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے، اس لئے مسلمان اسے اپنا قبلہ اول جانتے ہیں۔
روایات میں ملتا ہے کہ جس رات اللہ تعالٰی نے حضرت محمد (ص) کو معراج کا سفر طے کروایا، اس رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف بلایا اور مسجد اقصٰی میں آپ (ص) نے نماز ادا کی اور اس نماز میں آپ کے پیچھے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح مقدسہ نماز ادا کر رہی تھیں۔ اسی اعزاز پر آپ کو امام الانبیاء کا شرف حاصل ہوا۔ مسجد اقصٰی ہی سے آپ (ص) معراج کے اگلے سفر کے لئے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور لامکاں تک چا پہنچے۔ مسجد اقصٰی کے ارد گرد اللہ تعالٰی کی نشانیاں ہیں اور وہ نشانیاں جہاں اللہ تعالٰی کی جانب سے برکتیں نازل ہوتی ہیں، انبیاء کرام کے مزارات ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش اسی سرزمین پر ہوئی۔ قبل ازیں بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء علیہم السلام یہاں تشریف لائے۔ اسی وجہ سے اس کو انبیاءؑ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق یہی وہ جگہ ہے، جہاں سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کروایا تھا، جو مسجد اقصٰی کے قریبی علاقہ میں واقعہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میری نشانیوں کی زیارت کرو۔ اللہ کی نشانیوں کی زیارت اور وہاں کی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں، جیسے صفا اور مروہ کو اللہ تعالٰی نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ بیت المقدس مسجد اقصٰی قبلہ اول دنیا کی ایک چوتھائی قوم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے انتہائی متبرک، محترم اور دینی و روحانی مقام ہے اور ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے کہ وہ مسجد اقصٰی کی زیارت کرے اور یہاں نماز ادا کرے۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ’’کوئی سفر اختیار نہ کرو، سوائے تین مساجد کے ’’مسجد الحرام، مسجد نبوی (ص)،مسجد اقصٰی۔‘‘
کیونکہ دوسری کسی بھی مسجد کی نسبت مسجد الحرام میں عبادت کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اقصٰی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس! آج 69 برس گزر جانے کے بعد بھی انبیاء علیہم السلام کی سرزمین اور وہ مسجد کہ جہاں ختمی مرتبت حضرت محمد (ص) نے ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح کو نماز ادا کروائی، غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے شکنجہ میں ہے اور غاصب اسرائیلی دشمن آئے روز نہ صرف مسجد اقصٰی کی توہین کرتا ہے، بلکہ مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے لوگوں پر انسانیت سوز مظالم بھی ڈھاتا ہے۔ صیہونیوں کے دعوے کے مطابق القدس ان کی ملکیت ہے اور وہ کسی صورت بھی اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اسرائیل سے شائع ہونے والے عبرانی زبان کے ایک اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ یہودی تنظیموں نے اپنی حکومت اور یوکرائن کی مدد سے مسجد اقصٰی کے اندر معبد بنانے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل وزیر سیاحت نے اعلان کیا تھا کہ مسجد اقصٰی کی کھدائی سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی کان ملی ہے، جبکہ دوسری طرف حماس اور الاقصٰی فاؤنڈیشن نے اس دعوے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔ حماس نے کہا ہے اسرائیل سینکڑوں سرنگیں مسجد اقصٰی میں کھودنے کے باوجود ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت نہ کرسکا۔
ہیکل سلیمانی کے بارے میں یہودیوں کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں:
1۔ ہیکل سلیمانی عین اس مقام پر تھا، جہاں قبۃ الصخرہ واقع ہے۔ یہ موقف یہود میں قبول عام کی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے پروفیسر آشر کوف جن کی تحقیق کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ کے شمال میں قبۃ الروح کے اندر موجود پتھر کی جگہ واقع ہے، جبکہ قبۃ الصخرہ کے شمال میں ایک سو دس میٹر یعنی تین سو تیس فٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
3۔ تل ابیب کے ممتاز ماہر تعمیر توویاسا کیر کی رائے کے مطابق ہیکل قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصٰی کے درمیان عین اس جگہ واقع ہے، جہاں فوارہ واقع ہے۔
اسرائیل اپنے آقاؤں خصوصاً امریکہ کی آشیرباد پر فلسطین اور بیت المقدس کا قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ 1967ء سے لے کر اب تک 700 قراردادیں اسرائیل کے خلاف پاس ہوگئیں، جن میں سے امریکہ نے 270 قراردادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے ناجائز وجود کو بچایا۔ دیگر قراردادیں اسرائیل نے مسترد کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پر ویٹو کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرکے جہاں اسرائیل کے ناجائز وجود کو استحقاق بخشا، وہاں یو این کے وجود کو غیر موثر اور عضو معطل بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جب تک امریکہ اسرائیل کی ناجائز حمایت کرتا رہے گا، اس وقت تک مڈل ایسٹ میں مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔
اسرائیل کی غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی اسرائیل مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ صد افسوس کہ اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی میں یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ اور عالمی امن و انصاف کے دوہرے معیار کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اسرائیل جارحیت پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور صیہونی ہر قیمت پر وسیع تر صیہونی ریاست یعنی گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مخصوص ذہنیت اور مذموم مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ کی مکمل آشیر باد سے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنایا جا رہا ہے۔ اس کی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے، اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ لبنان کے پہاڑی علاقہ، اردن اور مصر کے صحرا سینائی کے علاقہ پر اسرائیل نے ناجائز غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں بالخصوص 2000ء میں لبنان سے پسپائی، 2004ء میں دو اسرائیلی فوجیوں کے بدلے میں حزب اللہ اور حماس کے سیکڑوں رہنماؤں کی رہائی، 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں 33روزہ جنگ کے نتیجہ میں شکست کھانے، 2008ء میں غزہ میں حماس کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں شکست، اسی طرح 2012ء اور 2014ء میں غزہ و فلسطین میں حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کھانے کے بعد اسرائیل نے خطے میں ناامنی پھیلانے کے لئے نت نئی دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کیا ہے، جو آج لبنان، شام، عراق و فلسطین اور لیبیا سمیت پاکستان اور دیگر ممالک میں داعش، النصرۃ اور نجانے کس کس نام سے کام کر رہی ہیں، ان تمام دہشت گرد گروہوں کو امریکی سرپرستی میں اسرائیل براہ راست مالی و مسلح معاونت کر رہا ہے، تاکہ پورے خطے میں موجود مسلمان ممالک کو دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے مسئلہ میں الجھا دیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو پس پشٹ ڈال دیا جائے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی بھی ملک کے اندر خانہ جنگی ہوگی تو وہاں کی حکومت اور عوام کس طرح مسئلہ فلسطین کے لئے جدوجہد کر پائیں گے، بہرحال اسرائیل کی اس مکروہ چال کو شام میں پانچ سال کی جدوجہد کے بعد ناکامی ہوئی ہے اور وہ تمام دہشت گرد گروہ کہ جن کو اسرائیل مدد کر رہا تھا اور یہاں تک کہ ان دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے زخمی دہشت گردوں کا علاج معالجہ اسرائیل کے گولان کی پہاڑیوں پر موجود اسپتالوں میں کیا جا رہا تھا، بالآخر ان دہشت گردوں کو شکست فاش ہوئی ہے، یہی صورتحال عراق میں ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی انہی دہشت گردوں کے خلاف ردالفساد آپریشن جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جو مکروہ چال چلی تھی، وہ آخر کار انجام کو پہنچ چکی ہے، جس کے بعد امریکی سیاست نے ایک نیا رخ اپناتے ہوئے تمام مسلمان ممالک کی سربراہی کرنے کا اعلان کیا ہے اور حالیہ دنوں میں ہی مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے شیطان کا استقبال کیا گیا اور اسے اربوں ڈالرز کے تحائف سے نوازا گیا، نجانے یہ تحائف کس لئے پیش کئے گئے، شاید عراق، افغانستان، شام، یمن، لیبیا اور پاکستان سمیت فلسطین میں بہنے والی خون کی ندیوں کے عوض عرب حکمرانوں نے امریکی صدر کو یہ تحائف پیش کئے ہیں۔؟ بہرحال یہ لمحہ فکریہ اور سوچنے والا ایک سوال ہے۔ مسلم دنیا کے ممالک کو جمع کرکے دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردی کے موجد امریکہ نے اسلام پر لیکچر دیتے ہوئے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، کسی میں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکی صدر یعنی شیطان بزرگ کی زبان روک لیتا۔
آج دنیا میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ جس کے باعث القدس و فلسطین کو پہلے سے زیادہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں، آج عرب دنیا کے حکمران دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور دہشت گردوں کے بانی اور جعلی ریاست اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے ساتھ مل کر نہ صرف فلسطین و القدس پر سودے بازی کر رہے ہیں بلکہ اپنے سے اختلاف رکھنے والی عرب و غیر عرب ریاستوں کو بھی نیا شام، یمن اور لیبیا بنانے کی تیاری کرنے میں مصروف عمل ہیں، اس کی تازہ مثالیں عرب دنیا اور امریکہ کی جانب سے ایران اور قطر کے خلاف کیا جانے والا اعلان جنگ ہے، قطر اور ایران دونوں کا گناہ یہی ہے کہ وہ فلسطین کاز کی حمایت کرتے ہیں، فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امریکہ اور اس کے عرب حواری فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد اور جعلی ریاست اسرائیل کو امن کا سفیر گردانتے ہیں۔ ان حالات میں قبلہ اول بیت المقدس کے تقدس کے تحفظ اور اس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرضیت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام بیدار ہو اور مسلمان حکمران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور وسیع تر اسرائیلی ریاست کے خواب اور صیہونیوں کے تمام تر ناپاک عزائم اور مذموم ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے دنیا کے اسلامی ممالک اپنی مشترکہ اسلامی فوج کا استعمال مسلمان ممالک کے خلاف کرنے کی بجائے اسرائیل کے خلاف پر عزم ہو جائیں۔ مسلم اقوام متحدہ کا اعلان کرکے یا پھر او آئی سی کو فعال ادارہ بنا کر اس پلیٹ فارم سے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین، کشمیر، شام، عراق، افغانستان، فلپائن، برما کے مظلوم مسلمانوں کے سلگتے مسائل حل کرنے کے لئے اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کریں۔
یہ ہر مسلمان کا مذہبی اور بنیادی حق ہے، کیونکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ انسانی حقوق چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کے مذہبی مقامات پر نہ تو قبضہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ مگر صد افسوس کہ مٹھی بھر صیہونیوں نے بین الاقوامی سامراج اور دہشت گرد طاقتوں کی آشیر باد سے 1948ء میں فلسطین پر ناجائز غاصبانہ قبضہ کر لیا اور بیت المقدس کا کنٹرول سنبھال کر اسے مسلمانان عالم کے لئے بند کر دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو او آئی سی کا قیام اسی لئے عمل میں آیا تھا کہ مسجد اقصٰی کو آزاد کرانا ہے، اس مقصد کے لئے باقاعدہ طور پر القدس فنڈ اور القدس فورس کی منظور ی بھی دی گئی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ القدس کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں، جبکہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ فلسطین کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ ہونے سے پہلے او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، جس میں باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے کہ آزاد فلسطین کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا خصوصاً فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھیں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی صرف حمایت ہی نہ کریں بلکہ سیاسی، سفارتی، مالی اور معاشی اعتبار سے بھی ساتھ ہوں اور اسرائیل اور امریکہ کو مقبوضہ فلسطین کو آزاد کرنے پر مجبور کریں۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کی مسلمان تنظیمیں، جماعتیں اور افراد بیت المقدس کی آزادی کے لئے احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہرے اور ’’القدس‘‘ ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا آغاز ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوا۔ انقلاب ایران کے بانی حضرت امام خمینی ؒ نے کہا تھا کہ ’’یوم القدس ایک ایسا دن ہے، جسے بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے، اسے صرف سرزمین قدس سے ہی وابستہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان مقابلے کا دن ہے۔‘‘ کیونکہ نصف صدی کے قریب بیت المقدس پر یہودی قبضہ اور بیت المقدس کے تقدس کی پامالی غیرت مسلم کو کھلا چیلنج ہے۔ غیور مسلمانو! بیت المقدس کی حرمت اور حفاظت درحقیقت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ ملت اسلامیہ کے حکمرانو! بیت المقدس کی آزادی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور آج مسجد اقصٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہے، اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور سپہ سالاروں میں کوئی سچا، کھرا، دلیر اور نڈر و بہادر مسلمان حکمران، سپہ سالار ہے جو قبلہ اول کو یہودیوں کے نرغہ سے آزاد کرا سکے۔ یوم القدس عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ آیئے! بیت المقدس کی آزادی کے لئے پوری دنیا کے مسلمان اپنے تمام تر اختلافات یکسر بھلا کر پوری طرح متحد ہو جائیں اور بیت المقدس کی آزادی ہر مسلمان کے دل کی آواز اور نعرہ بن جانا چاہئے۔
یاد رکھئیے! عالم اسلام کے اندرونی و بیرونی تمام دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسئلہ فلسطین و القدس کو فراموش کر دیا جائے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام اس طرح اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جائے کہ مسئلہ فلسطین اسے یاد ہی نہ رہے، تاکہ صیہونی حکومت کو اپنے خبیثانہ مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ فلسطین و القدس کی آزادی کی لڑائی اسلامی لڑائی ہے، ہم سب کی لڑائی ہے، یہ صرف عربوں کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، جس طرح بھی ممکن ہے، یہ جنگ لڑیں، اس جدوجہد میں حصہ لیں، اس مہم کو جاری اور اس آواز کو بلند رکھیں۔ اس عظیم مسئلہ (فلسطین و القدس) کی اہمیت کو گھٹا کر اسے عربوں کا داخلی معاملہ سمجھ لینا بہت بڑی بھول ہے۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.