اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی

20 June 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) علامہ اقبال اور مولوی حضرات کی کشمکش ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی، یہ دراصل اقبال کی ہی ایک نظم کا عنوان ہے۔[1] کچھ لوگوں نے اقبالیات کا مطالعہ کرنے کے لئے اور کچھ نے اقبالیات پر پردہ ڈالنے کے لئے،  اقبالیات کو کئی حصوں اور ادوار میں تقسیم کیا, تاکہ حسبِ موقع یہ کہا جاسکے کہ یہ تو اقبال کا ارتقائی یا ابتدائی دور تھا, لہذا فلاں شعر کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن ان درجہ بندیوں کے باوجود کلیات اقبال سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور[2]

ظاہر ہے کہ اقبال ؒکی جنگ اس ملّا سے تھی، جو خود غرض تھا اور یا پھر دین کے پیغام کو نہیں سمجھتا تھا، پھر وقت گزرتا گیا اور یہ ناسمجھ مولوی بھی نسل در نسل  پھیلتے گئے، یہاں نتک کہ ممتاز مفتی کو بھی ان خود غرض یا ناسمجھ مولویوں سے شکوہ ہی رہا۔ ممتاز مفتی کے بعد تو خود غرض اور ناسمجھ مولوی حضرات کو گویا کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہمارے ہاں جگہ جگہ اقبال کا دھتکارا ہوا   ناسمجھ مولوی، دین کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔

ایک دن ہم نے بھی بزمِ خیال میں، سب سے پہلے پاکستان کہا تو ایک مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، رونی صورت بنا کر کہنے لگے نہیں نہیں! عزیزم یوں نہیں کہتے، سب سے پہلے اسلام اور حرمین شریفین ہیں۔ ہم نے عرض کیا چلیں ٹھیک ہے، سب سے پہلے وہی جو آپ کہیں! ذرا یہ تو بتائیں کہ اگر آپ کے نزدیک سب سے پہلے اسلام ہے تو پھر یہ خادم حرمین شریفین نے ٹرمپ کی بیوی کے ساتھ مصافحہ کرکے حرام فعل انجام دیا یا نہیں!؟ وہ فوراً بولے نہیں نہیں، آپ نے دوسروں کی قبر میں تھوڑے ہی جانا ہے، اپنی اصلاح کی فکر کریں، اپنے ملک کا حال دیکھیں۔ ہم نے کہا بالکل بجا فرمایا آپ نے، سچ مچ میں  ہمارے ملک کا بہت برا حال ہے، ہماری فوج کے ریٹائرڈ جنرل کو بغیر سینیٹ کو اعتماد میں لئے، سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا ہے، وہ فوراً بولے کہ آپ نے راحیل شریف کی قبر میں تھوڑا جانا ہے، جو ہو رہا ہے ہونے دیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور بس۔ ہم نے کہا یہ بھی  ٹھیک ہے، آج کے بعد ہم صرف اپنی اصلاح کریں گے لیکن اگلے ہی دن، ہم نے دیکھا  کہ مولوی صاحب اِدھر اُدھر، ایّھا الناس! اٹھو اٹھو، شام میں جہاد کرنا ہے، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، حرمین شریفین کا دفاع کرنا ہے، کی صدائیں دے رہے تھے۔

ہم نے پوچھا مولانا صاحب! آپ نے ہی تو کہا تھا کہ دوسروں کو چھوڑو اور صرف اپنی اصلاح کی فکر کرو، یہ اب آپ اپنے ہی قول کے خلاف لوگوں کو  جہاد اور قیام کی دعوت دے رہے ہیں، مولوی صاحب نے پھر پینترا بدلا  اور تجوید کے مخارج کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے بولے، برخوردار! تم سمجھے نہیں، اپنی اصلاح ضروری ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا عین فریضہ ہے۔ ہم نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے، چلیں ہم بھی آپ کے ساتھ لوگوں کو قیام و جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے پھر قلابازی لی اور کہنے لگے پہلے اپنے ملک کو آزاد کراو اور پھر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات کرو، کیا تمہیں نظر نہیں آرہا کہ کتنی کرپشن ہے اس ملک میں!؟ ہم نے کہا مولانا صاحب! بالکل سو فیصد، آپ کی بات  ٹھیک ہے۔ اب ہم کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں،  مولانا صاحب چونک کر بولے، ارے عمران خان، وہ تو خود یہودیوں کا ایجنٹ ہے! داماد ہے داماد یہودیوں کا۔ ہم نے دست بستہ عرض کیا، مولوی صاحب! عمران خان نے تو کسی کو گالیاں  نہیں دیں، عدالت میں جاکر کیس کیا ہے؟ اگر آپ کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ بھی کرپشن کا کیس دائر کروائیں، یہ گالیاں تو نہ دیں۔ کسی کا  داماد ہونا کوئی بری بات تو نہیں۔ فتح مکہ سے بھی پہلے خود ہمارے پیارے نبی ﷺ کے ہاں ابوسفیان جیسے بدترین دشمن کی بیٹی تھی۔ آپ رشتے داری کی وجہ سے کسی کو کوسنے کے بجائے اصولوں کی بات کریں۔

اگر ایک ارب 65 کروڑ کے اثاثوں کی بدولت نواز شریف پاکستان کے پہلے امیر ترین شخص ہیں تو عمران خان بھی ایک ارب 40 کروڑ کے اثاثوں کے ساتھ پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہیں، اگر آپ میں اخلاقی جرات ہے تو آپ بھی عمران خان پر کرپشن کا کوئی مقدمہ دائر کروائیں۔ جب یہ سنا تو مولوی صاحب سٹپٹا گئے، پھر تیور بدلے اور فتوے کا استرا لہراتے ہوئے بولے بچے تم توبہ کرو، تم شخصیت پرستی کر رہے ہو، تم نے عمران خان کو بت بنا دیا ہے۔ ہم نے کہا قبلہ، ہمارا تو عمران خان سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ کبھی ان کے جلسے جلوس میں  جانا ہوا اور نہ ہی کبھی ان سے ملا قات ہوئی، ہم تو اصولوں کی بات کرتے ہیں، اگر آج بھی عمران خان پر آپ ایک پائی کی کرپشن ثابت کر دیں تو ہم ان کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار ہیں، لیکن۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ آپ  کے سامنے شاہ سلمان نے کفار کے ساتھ دوستی کرکے، ٹرمپ کے ساتھ رقص کرکے، اس کی بیوی سے مصافحہ کرکے، کفار کو اربوں کے ہدیے دے کر صرف اصولوں کو ہی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کو توڑا ہے لیکن اس کے باوجود آپ سعودی خاندان اور شاہ سلمان کی حمایت سے ایک انچ  بھی پیچھے نہیں ہٹے، بتایئے بت پرستی اور شخصیت پرستی ہم کر رہے ہیں یا آپ۔ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب مسکرا کر بولے! برخوردار عمرہ کرنے چلنا ہے، مفت میں ٹکٹ مل جائے گی۔ ہم نے عرض کیا جی نہیں، بہت شکریہ! البتہ وہ ایک صاحب ہیں، جنہیں سلیم صافی کہا جاتا ہے، انہی کو عمرہ کروا دیجئے گا، وہ بھی آپ کی طرح موجودہ حکومت اور سعودی خاندان کے پرستاروں میں سے ہیں، وہ آپ کی دعوت ضرور قبول کر لیں گے۔ عمرے کی دعوت اتنی پرکشش تھی کہ اس کے ساتھ ہی ہمارے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

 [1] بانگ درا (حصہ اول) زہد اور رندی
[2] بال جبریل، حال و مقام


تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree