وحدت نیوز(آرٹیکل) میں سردیوں میں بہت سرد اور گرمیوں میں جلادینے والی گرمی کا حامل ہوں، خشک پہاڑوں کے ان گنت سلسلے میرے اطراف کو گھیرے ہوئے ہیں، لہذا نہ میرے ہاں زیادہ بارش ہوتی ہے اور نہ ہی حیات انسانی اور حیوانی کے آثار ہیں۔
ایران کا بارڈر قریب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے مجھے بسانے کا فیصلہ کیا اور محدود تعداد میں لوگوں نے بسیرا ڈالا کہ جن میں سے اکثر دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔
پھر کیا تھا؟ مقدس مقامات پر زیارت کرنے والے لوگ جب یہاں جاتے ہوئے پہنچتے تو نہ راستہ ان کے لئے کٹھن تھا، نہ میری سرزمین ان کے لئے تنگ، جاتے ہوئے کھلکھلاتے چہرے سے مجھے خدا حافظ کہتے تھے اور وطن کی محبت کا اظہار ادھر دیکھنے کے لائق تھااور حسب حال میں بھی انکی جو خدمت ہوتی وہ کرتا، اگرچہ نہ میں اتنا سرسبز تھا اور نہ ہی خوش آب و ہوا۔
اور جب یہی مسافر واپس میری سرزمین میں قدم رکھتے تو فرط محبت سے میری مٹی کو چومتے، مادر وطن میں ہونے کا احساس ان کے آنکھوں کے بند توڑ دیتا اور جذبات اور احساسات کے ملے جلے انداز کا نشیمن گاہ بھی میں ہی تھا۔
کہتے ہیں زمانہ ایک جیسا نہیں رہتا، مجھے بھی کسی بدنظر کی نظر لگ گئی اور جہاں مجھے سرزمین استقبال و بدرقہ کہا جاتا تھا آج میرے مسافروں کو اذیتناک مراحل سے گذرنا پڑ رہا ہے۔
میرے سینے پر انکا لہو بہایا گیا، ان کو لوٹا گیا، ان کے دلوں میں خوف ڈالا گیا، انکی خواتین کی بیحرمتی کی گئی، ان کے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ان کے آنے اور جانے کے راستے میں جیل بنایا گیا۔
جہاں میں ہر روز اس بات کا شاہد ہوں کہ نہ انکو صحیح رہائش دی جاتی ہے، نہ مناسب کھانا، وہ پانی کی بوند کو ترستے ہیں، گرمی کی شدت اور سردی کے زور کے آگے بہت سوں نے جان کی بازی ہار لی، بہت سے لاعلاج مرض میں گرفتار ہوئے۔
اب میں کیا کروں کیسے ان معصوم مسافروں کی دل گیری کروں کہ مجھ کو اپنوں نے ایسے حال میں دھکیلا ہے، مجھے رحمت سمجھنے والے اب میرے نام سے لرز جاتے ہیں۔
تحریر۔۔۔محمد جواد عسکری