نظام سلطہ کی سازشیں اور جیل بھرو تحریک

13 October 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس سے پہلے کہ شیعہ لاپتہ جوانوں کی رہائی کے لئے چلائی جانے والی جیل بھرو تحریک پر بات کریں، اصل مسئلہ کی بہتر تفہیم کی خاطر کچھ دیگر موارد کو سمجھنا ضروری ہے ۔ گذشتہ 3 سے 4 سالوں میں عالمی منظر نامہ بالخصوص مشرق وسطٰی کی خراب صورتحال نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں، جسکے نتیجہ میں عالمی کھلاڑیوں نے نئے سرے سے اپنی صف بندیاں ترتیب دی ہیں۔ تسلط پسند قوتیں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور آل سعود شام میں اپنی شکست کا بدلہ ہر اس فرد، ادارے اور ملک سے لیں گی اور لے رہی ہیں، جو اُن کے ظالم تسلط پسندانہ نظام کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ گذشتہ کچھ ماہ سے مقام معظم رہبری کی جانب سے اسی تسلط پسند نظام  کے بارے میں ایک اصطلاح ''نظام سُلطہ'' کے نام سے بہت زیادہ استعمال ہو رہی ہے، جس کی عوام میں تشریح و ابلاغ کے لئے اصرار بھی کیا گیا ہے۔ "نظام سُلطہ" یعنی تسلط پسند قوتیں، جن میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، آل سعود و دیگر شامل ہیں۔ جنھوں نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ایک نیا مرحلہ وار نظام تشکیل دیا ہے، جسے مقام معظم رہبری نے "نظام سُلطہ" کا نام دیا ہے۔ یہ مذکورہ قوتیں اپنے مفادات کے حصول اور دیگر ممالک کو اپنے زیر تسلط لانے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتیں ہیں، حتٰی اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اسی نظام سُلطہ کے زیر تسلط ہے، اسی وجہ سے ان کے خلاف اقوام متحدہ سے آج تک کوئی اہم قرارداد منظور نہیں ہوسکی، کیونکہ اقوام متحدہ جیسے فورم کی تشکیل ہی ان تسلط پسند قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے دی گئی ہے۔ یہ تسلط پسند طاقتیں مختلف بہانوں سے اپنے جائز و ناجائز مفادات کے حصول کی خاطر مختلف طریقہ کار اپناتی ہیں، جو ممالک اندرونی طور پر کمزور ہوتے ہیں، یہ اُن پر براہ راست حملہ آور ہوتی ہیں، جیسے کہ فلسطین، شام، عراق، یمن، لبنان اور افغانستان جیسے ممالک کی مثال موجود ہے۔

جن ممالک میں نظام حکومت بہتر ہو اور حکومت کو عوامی حمایت بھی میسر ہو، تو ایسے ممالک میں ان کے لئے اپنا تسلط جمانا تھوڑا مشکل ہوتا ہے تو اس مشکل کو حل کرنے کے لئے نظام سلطہ میں شامل ممالک کے پاس اقوام متحدہ جیسا ادارہ موجود ہے، جو ان کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے ان مخالف ممالک پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا دیتا ہے، مثلاً، ایران، روس، قطر اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی کی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں۔ تیسرا سب سے موثر ہتھکنڈہ جو یہ عالمی تسلط پسند قوتیں اپناتی ہیں، وہ مختلف ممالک کے حکمرانوں کو خرید کر اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتیں ہیں، جس کے بعد ان ممالک کے حکمران اپنے ملکی مفادات اور عوامی امنگوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے بیرونی آقاوں کی خوشنودی کے لئے ہر اقدام انجام دیتے ہیں۔ اس ہتھکنڈے کے زیر تسلط ممالک میں بحرین، نائیجریا، برما، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ نائجیریا جہاں پر عالمی تسلط پسند قوتوں نے جب دیکھا کہ ایک ایسی تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے، جو مستقبل میں اُن کی راہ میں روکاوٹ بن سکتی ہے تو نائجیریا کی حکومت نے انہی بیرونی آقاوں کی ایماء پر  ہتھیار ذخیرہ کرنے اور ملک دشمنی کا بہانہ بناتے ہوئے اپنے ہی سینکڑوں شہریوں کو قتل کرکے اسلامی تحریک کے سربراہ آیت اللہ ابراہیم زکزاکی کو زخمی حالت میں اسیر کر لیا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔ بعد میں اس سانحہ کی تفتیش کے لئے جو فرضی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جس نے چالیس روز بعد اپنی روپورٹ پیش کی تو اس رپورٹ کے مطابق مرکزی حسینیہ اور آیت اللہ زکزاکی کے گھر سے  برآمد ہونے والے اسلحہ کی لسٹ میں کچھ پرانے زمانے کی تلواریں، تیر، 2 پستول اور 2 بندوقیں ظاہر کی گئیں، جو کہ کسی صورت بھی ریاست کے لئے خطرہ نہیں تھیں۔ اسطرح بحرین میں آل سعود کی ایماء پر ادھر کے شہریوں پر مظالم کی ایک طویل داستان ہے۔

تاسیس پاکستان سے یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج تک پاکستان میں فوجی حکومت ہو یا سیاسی، پاکستان کبھی بھی امریکی و سعودی تسلط سے باہر نہیں آسکا۔ آل سعود کی جانب سے پرویز مشرف کو تحفے میں لندن کے پوش علاقہ میں خوبصورت گھر، شجاع پاشا کو امارات میں ریاستی سکیورٹی آفیسر اور راحیل شریف کی بھاری رقم کے عوض آل سعود کی نوکری سے ایک ایسی مذموم رسم کی ابتداء ہوگئی ہے کہ فوج میں موجود ہر جنرل ریٹائرمنٹ کے بعد اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھونا چاہے گا اور اس کے حصول کی خاطر ریٹائرمنٹ سے قبل ہی آل سعود اور امریکہ کے لئے دستیاب ہوگا۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا بھی ہے، حکومت بنائی بھی انہی عالمی طاقتوں کی حمایت سے جاتی ہے، گرانے کے لئے بھی اِنکی ہی حمایت درکار ہوتی ہے اور پھر سیاسی پناہ بھی انہی ممالک میں لی جاتی ہے۔ مشرق وسطٰی میں نظام ُسلطہ امریکہ، اسرائیل و آل سعود کے پیدا کردہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی عبرت ناک شکست کے بعد بدلہ لینے کی خاطر ایک طرف سے داعش کی ملت تشیع جہاں کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے، مثال کے طور پر افغانستان میں شیعہ نشین علاقوں پر داعش کے مسلسل حملے، ایران میں امام خمینی رضوان اللہ کے مزار اور پارلیمنٹ پر حملے اور پاکستان میں پاراچنار، اندرون سندھ اور کوئٹہ بلوچستان میں درگاہوں پر خودکش حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ دوسری طرف داعش کے خالق نظام سُلطہ میں شامل ممالک کے زیر تسلط ممالک بالخصوص پاکستان میں آل سعود کے حکم پر ریاستی سطح پر ملت تشیع پاکستان کی اجتماعی و قومی جدوجہد کو روکنے کے لئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، جس میں عزاداری کو محدود کرنا، ملت کے فعال علماء و خواص کو شیڈول فورتھ میں ڈال کر مقدمات میں الجھانا، قومیات میں سرگرم جوانوں کو غیر قانونی طریقہ سے لاپتہ کرنا شامل ہے۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے شروع ہوکر سندھ میں کالعدم جقسم، متحدہ قومی موومنٹ، دہشتگرد سپاہ صحابہ سے ہوتا ہوا ملت تشیع تک آپہنچا ہے۔ مذکورہ سب جماعتیں براہ راست ریاست توڑنے اور سینکڑوں لوگوں کے قتل میں ملوث تھیں، مگر سوال یہ ہے کہ ملت تشیع نے کبھی مملکت خداداد کے بارے برا سوچا تک نہیں، ہمیشہ اپنے کردار سے وطن دوستی کا ثبوت دیا تو پھر ان کو لاپتہ کیوں کیا گیا۔؟ جبکہ ملت تشیع میں سے کسی جوان نے کسی فیکٹری میں 200 افراد کو زندہ نہیں جلایا، کسی ریاستی ادارے پر حملہ نہیں کیا، کبھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا، تو پھر ریاست ایسا سلوک کیوں کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب اگر ادارے نہ بھی دیں تو ملت جعفریہ کو اس کا جواب معلوم ہے کہ یہ سب آل سعود کی ایماء پر کیا جا رہا ہے۔ ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو شیعہ لاپتہ جوانوں کا مسئلہ آج سے 4 سال پہلے تک اتنا سنگین نہیں تھا۔ 2006ء میں فقط دو سے چار شہروں میں چند ایک واقعات ریکارڈ ہوئے تھے، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان نمایاں تھا۔ مگر گذشتہ 2 سے 3 سال میں ریاست کی طرف سے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ گمشدگی کے ان پے در پے واقعات نے ایک ایسی گھٹن کی سی فضاء بنا دی ہے، جس میں کوئی اس حساس ایشو کے بارے بات کرنے کو تیار نہیں۔ جو بزرگان و خواص اس بارے میں تھوڑی ہمت کرکے متعلقہ اداروں سے سوال کر ہی لیتے تو جواب میں سرد خانوں کی راہ دکھا دی جاتی یا کم از کم شیڈول فور کی دھمکیاں دی جاتیں۔ کراچی میں کچھ افراد تو وہ ہیں، جو ان لاپتہ شیعہ جوانوں کے کیسز کی پیروی کر رہے تھے، ان کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ کہیں شنوائی نہ ہونے کے بعد اگر ان لاپتہ جوانوں کے رشتہ دار یا دوست اس حساس ایشو کو اجاگر کرنے کے لئے میڈیا کا رخ کرتے تو میڈیا ہاوسز اور اخبارات خبر لگانے سے معذوری کا اظہار کر دیتے۔

دوسری طرف  ان لاپتہ جوانوں کے ضیعف والدین کی حالت دیکھ کر سانسیں بند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر گزرتے دن، ہفتے اور مہینے گھر کا سماں ایسے ہے جیسے صحن میں مستقل ایک جنازہ پڑا ہو، جسے دفنایا جاسکتا ہو اور نا جلایا جاسکتا ہو۔ فراق یوسف ؑ میں حضرت یعقوب ؑ جیسے جلیل القدر نبی خدا اپنی آنکھیں سفید کر دیتے ہیں، یہ ضیعف والدین تو اتنا صبر نہیں رکھتے۔ اس خوف اور گھٹن کی فضاء میں اپنے ان لاپتہ جوانوں کی رہائی کے لئے جیل بھرو تحریک کو شروع کرنا کراچی کی شیعہ عوام، علماء و خواص، تنظیمات کا بالعموم اور حجت الاسلام علامہ حسن ظفر نقوی کا بالخصوص دلیرانہ فیصلہ ہے۔ علامہ حسن ظفر نقوی کی احتجاجاً گرفتاری کے وقت عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی سے ایک عوامی پریشر بنا اور سوشل میڈیا پر موجود جوانوں کی ایک ٹیم نے بہترین انداز میں اس تحریک کو ٹاپ ٹرینڈ تک پہنچایا، جسکے بعد وہ میڈیا جو ایک خبر لگانے سے اجتناب کر رہا تھا، اسے لائیو کوریج دینا پڑ گئی۔ نتیجہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوگا، مگر وہ جو خوف اور گھٹن کی فضاء بنی ہوئی  تھی، وہ اس تحریک سے ٹوٹ گئی ہے۔ اب پاکستان کی دیگر شیعہ قومی جماعتوں جن میں شیعہ علماء کونسل اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے بھی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جس سے ملت جعفریہ میں عملی اتحاد و وحدت کی فضاء قائم ہوئی ہے، جس کے بعد یہ تحریک اور زور پکڑ گئی ہے۔

تاحال قائدین نے اس تحریک کو  کراچی تک محدود رکھا ہوا ہے اور پہلے مرحلہ میں خود حجۃ الاسلام علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے گرفتاری پیشی کی ہے، اس کے بعد 13 اکتوبر کو حجۃ الاسلام علامہ سید احمد اقبال رضوی عباس ٹاون سے گرفتاری دینے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے باقی تمام صوبوں کے بڑے شہروں میں علماء کرام تیار ہیں اور اس سلسلہ میں لاہور، ملتان، اسلام آباد، کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں پریس کانفرنسز کے ذریعے اعلان کرچکے ہیں کہ اگر قائدینِ تحریک نے اعلان کیا تو اس احتجاج کا سلسلہ پورے پاکستان میں پھیلا دیا جائے گا۔ ابھی تک یہ تحریک کامیابی سے جاری ہے، مگر اس تحریک کو موثر سے موثر تر بنانے کے لئے کچھ مزید اقدامات کی گنجائش باقی ہے، جیسا کہ ریکارڈ سازی جاری ہے، یہ ریکارڈ سازی اور لسٹیں مرتب کرنے کے بعد ایک اجتماعی پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کروانے کی ضرورت ہے، جس کی پیروی کے لئے وکلاء کا ایک پورا پینل ہو اور اس پٹیشن کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ملکر بڑے شہروں میں پریس کانفرنسز کروانی چاہییں، تاکہ بات فقط احتجاج تک محدود نہ رہے۔ باخبر افراد اور میدان میں وارد علماء بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب امور کی انجام دہی اتنی سادہ و آسان نہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کیا کچھ داو پر لگا کر یہ تحریک شروع کی گئی ہے۔ عین ممکن ہے جماعتی سطح پر وقتی بہت کچھ کھونا پڑے، مگر حاصل ہونے والا قوم کا اعتماد اور ان مظلوم ضیعف والدین کی دعائیں یہ سارا نقصان پورا کر دیں گی، کیونکہ ایسے مشکل مراحل میں ثابت قدمی الٰہی تحریکوں کے لئے ہمیشہ احیاء کا باعث بنتی  ہے۔

 تحریر۔۔۔۔وفا عباس نقوی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree