وحدت نیوز(آرٹیکل) مقدمہ:تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف ابعاد میں سے کسی ایک بعد{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانےیا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنےکا نام ہے تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔امام حسین علیہ السلام کی تربیت رسول خداؐ جیسے ہستیوں کے دامن میں ہوئی ہے ۔ ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک کے لئے تربیت کے سنہری اصول بتا دئے ہیں۔ اگر انسان ان اصولوں پر عمل کرے تو کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔ ً کربلا کا زندہ وجاوید واقعہ اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے تربیتی پیغامات کو ہرسال لوگوں تک پہنچاتا ہے تاکہ بنی نوع انسان ان انمول پیغامات پر عمل کریں اور اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کی راہ اختیار کریں۔قیام امام حسین علیہ السلام کے بھی بہت سی جہات ہیں جو قابل بررسی ہیں جیسے عرفانی، سیاسی، اجتماعی، تاریخی و غیرہ۔ اس تحریر میں ہم قیام امام حسین علیہ السلام کے تربیتی پیغامات کو بطورمختصر بیان کرنے کی کوشش کرینگے۔
1۔خدا پر ایمان
امام حسین علیہ السلام توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ توحید کے اندر دوسرے تمام اوصاف خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ :اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔ دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔امام حسین علیہ السلام حر کے لشکر سےمخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ: میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔ صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے خیمہ کی طرف آئے تو آپ نے فرمایا : خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔۱۱جب زخمی ہو کرکربلا کی زمین پر تشریف لائے تو فرمایا: الہی رضا بقضائک و تسليما لامرک و لا معبود سواک يا غياث المستغيثين۔
2۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان
امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں : ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو فرزند رسول کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ نے پر مجبور کررہے ہیں حالانکہ رسول خدا (ص)کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسول(ص) کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔ ابن عباس جواب میں عرض کرتے ہیں : میں ان لوگوں کے بارے میں اس قرآنی آیت کے سوا کچھ نہیں کہوں گاکہ(یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی نسبت کافر ہو گئے ہیں) ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام ؑ نے فرمایا: خدایا! تو گواہ رہنا ،ابن عباس نے صراحتاً ان لوگوں کے کافر ہونے کی گواہی دی ہے ۔امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا:{انشدکم الله ھل تعرفونی ،قالوااللهم نعم انت ابن رسول الله و سبطہ قال انشدکم الله ھل تعلمون ان جدّی رسول الله قالوا اللهم نعم }میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاں آپ رسول اللہ(ص) کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خدا(ص]ہے۔5۔حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :{الحمد الله الذی اکرمنا بنبیہ محمد}تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد(ص) کے ذریعے کرامت بخشی۔
3۔ توکل بر خدا
امام حسین علیہ السلام کے کلمات اور افعال وکردار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ خدا پر توکل کرتے تھے ۔امام ؑ مکہ سے نکلتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :{فمن کان باذلا فینا مہجتہ موطنا علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا فانی راحل مصبحا ان شاء الله}جو بھی اپنے خون کو ہماری راہ میں بہانا چاہتا ہے اور خدا سے ملاقات کا مشتاق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔میں کل صبح سفر پر نکل رہا ہوں۔ آپ ؑنے صرف اپنے اصحاب اور ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کیا اسی لئے آپ نے فرمایا کہ : {فمن احبّ منکم الانصراف فلینصرف}جو واپس جاناچاہتا ہے وہ واپس چلا جائے ۔ شب عاشور چراغ بجھا کر فرمایا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے فرمایا :{ما توفیقی الا بالله علیہ توکلت والیہ انیب} میری توفیق خدا سے ہے اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی میری پناہ گاہ ہے۔ وہ تمام خطبات جو روز عاشور آپ نے دیے ان میں یہ جملہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ:{انی توکلت علی اللّٰہ ربی وربکم} میں خدا پر توکل کرتا ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔
4۔ صبر و تحمل
امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں نمونہ تھے ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نام ام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت فرمایا :{اللہم تقبل منا هذا القربان القلیل} اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔امام حسین علیہ السلام ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں : یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میں آپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔
5۔ اخلاص
امام حسین علیہ السلام کے قیام کاکوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خداکی رضا کی خاطر لوگوں کو گمراہی سے بچانا تھا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔امام حسین علیہ السلام نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ {انی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول الله ارید ان امر بالمعروف وانہی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی} میں اس وجہ سےقیام نہیں کر رہا ہوں تاکہ فسادپھیلاؤں اور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے قیام کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ : میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔
6۔ وفاداری
قیام امام حسین علیہ السلام میں ہر طرف وفاداری کے پیکر نظر آتے ہیں ۔اسی وفا داری کو دیکھ کر اباعبداللہ ؑ ارشاد فرماتے ہیں : {فانی لا اعلم اصحاباً اوفی ولا خیراً من اصحابی} میں نے اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اچھے اصحاب نہیں دیکھے۔شیخ مفید کتاب ارشاد میں لکھتے ہیں کہ جب شمر ملعون آیا اور کہا کہ :{انتم یا بنی اختی آمنون }اے میری بہن کے فرزندو!تم امان میں ہوتو پیکر وفاحضرت عباس نے جواب میں فرمایا کہ : {لعنک الله ولعن امانک اتؤمننا وابن رسول الله لا امان لہ}تم اور تمہارے امان نامے پر خدا کی لعنت ہو، کیا تو ہمیں امان دیتا ہے جبکہ رسول خدا ؐ کے فرزند کیلئے امان نہیں ہے۔ کتاب اعیان الشیعہ میں حضرت عباس ؑ کا جواب اس طرح سے موجود ہے۔تبت یداک ولعن ما جئتنا بہ من امانک یا عدوالله اتأمرنا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاطمہ وندخل فی طاعۃ اللعناء ۔ اے دشمن خدا وای ہو تجھ پر ، لعنت ہو تمہارے امان پر ۔کیا تم یہ کہتے ہو کہ ہم اپنے بھائی وآقا حسین ؑابن فاطمہؑ کو چھوڑ دیں اور لعینوں کی اطاعت کریں۔عمرو بن قرظہ روز عاشور دشمنوں کے تیروں کے سامنے امام ؑ کے لئے سپر بنتے ہیں تاکہ امامؑ پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اس قدر زخمی ہو گئے کہ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور حضرت سے پوچھنے لگے : اے فرزند رسول !کیا میں نے وفا کی ہے ۔ حضرت نے جواب دیا :ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت جا رہے ہو ،رسول خداؐ کو میرا سلام کہنا۔حضرت مسلم ابن عوسجہ فرماتے ہیں کہ :{والله لو علمت انی اقتل ثم احیا ثم احرق ثم احیا ثم اذری یفعل بی ذالک سبعین مرۃ ما فارقتک} خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور جلاکر راکھ کیا جائے پھر اسے ہوا میں اڑایا جائے گا، اسی طرح ستر بار یہ عمل دہرایا جائے تب بھی میں آپ کوچھوڑکر نہیں جاؤں گا۔
7۔ شوق شہادت
اما م ؑ اورا صحاب امام ؑ شہادت طلبی کے مظہر اور نمونہ تھے خصوصاً اما م حسین علیہ السلام اس میدان میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ امام ؑ جب مدینہ سے روانہ ہورہے تھے تو آپؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :{فمن کان باذلاً فینا مہجتہ موطناً علی لقاء الله نفسہ فلیرحل معنا}جو بھی شہادت کا طالب ہے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا چاہتاہے وہ میر ے ساتھ چلے۔راہ حق میں موت کو امام ؑ زینت قرار دیتے ہیں {خطَّ الموت علی ولد آدم مخطَّ القلادۃ علی جید الفتاۃ} موت ،بنی آدم کے لئے اس گردن بند کی طرح ہے جو جوان لڑکیوں کے گلے میں ہوتا ہے۔شب عاشور امام ؑ کے اصحاب شوق شہادت میں محو تھے اور شہادت کی تمنا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: تعریف اور حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں آپ ؑ کی مدد کرنے کی سعادت بخشی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے کی شرافت عطاکی ۔ایک مقام پر امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :{انی لااری الموت الا سعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الا برماً }میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا هوں ۔قاسم بن الحسن سے جب امام ؑ نے پوچھا کہ : {کیف الموت عندک} موت آپ کے نزدیک کیسی ہے تو فرمایا:{یا عماہ احلی من العسل}چچا شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔ حضرت قاسم نے موت کو شہد سے تشبیہ دے کر یہ بتا دیا کہ جو شہادت کاجذبہ رکھتا ہے اس کے نزدیک موت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔
8۔ حجاب وعفت
کربلا میں خواتین مخصوصاحضرت زینب ،ام کلثوم اور دوسری مخدرات اپنے آپ کو نامحرموں کی نظروں سے پچانے کی کوشش کرتی تھیں ۔ حضرت ام کلثوم بازار کوفہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں:{یا اہل الکوفۃ اما تستحیون من الله ورسولہ ان تنظرون الی حرم النبی} اے اہل کوفہ کیا تمہیں خدا اور اس کے رسول ؐ سے شرم نہیں آتی کہ تم حرم نبی ؐ کو دیکھ رہے ہو۔حضرت زینبؑ نے پردہ کے بارے میں یزید کو مخاطب کر کے بہت ہی سخت الفاظ میں فرمایا : اے رسولؐ کے آزاد کردہ کی اولاد !کیا یہ عدالت ہے کہ تمہاری بیویاں اور کنیزیں پردہ میں ہوں اور رسول خداؐ کی بیٹیاں اسیر کرلی جائیں اور ان کے پردے کو چھین لیا جائے ۔ ان کے چہروں کو عیاں کیاجائے اور دشمن انہیں اس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر پھرائیں کہ شہر،دیہات اورقلعہ کے لوگ اور بیابانی افراد ان کو دور ونزدیک سے دیکھیں۔صحابی رسولؐ حضرت سہیل بن سعدنے بازار میں جب حضرت سکینہ سے کہا میں آپ کے نانا کا صحابی ہوں ،کیامیں اس حالت میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں۔ حضرت سکینہ ؑ نے فرمایا کہ اس نیزہ بردار کو آگے بھیج دیں تاکہ لوگ ان سروں کو دیکھنے میں مشغول ہوں اور حرم رسول پر ان کی نگاہ نہ پڑے۔
9۔عزت نفس
عزت نفس مومن کی برجستہ صفات میں سے ایک صفت ہے ۔خداوند متعال نےاس صفت کو اپنے لئے اور انبیاء الہی اور مومنین کے لئے قرار دیا ہے ۔خداوند متعال نے فرمایا :{و لله العزۃ و لرسولہ و للمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون}عزت، خداوند متعال اور انبیاء اور مومنین کے لئے ہے ۔ سید محسن امین لکھتے ہیں : امام حسین علیہ السلام ظلم و ستم اور ذلت کو قبول نہ کرنے ،ظلم و ستم کے مقابلے میں ڈٹ جانے، خدا کی راہ میں جہاد کو آسان سمجھنے اور عزت و آزادگی حاصل کرنے میں ضرب المثل ہیں ۔وہ ہر انسان کا جو روح برتر کا مالک ہو نمونہ عمل ہیں .ہر باضمیر اور عالی ضمیر انسان اس کی اقتداء کرتا ہے اور وہ ہر زمانے میں ان تمام انسانوں کے لئے جوذلت و پستی کو قبول نہیں کرتے، راہنما و رہبر ہیں ۔اسد حیدر یوں لکھتا ہے : امام حسین علیہ السلام نے عزت دین کی خاطر زندگی کو اہمیت نہیں دی اور اپنی امت کی کرامت کی خاطر دشمنوں سے راسخ عزم کے ساتھ مقابلہ کیا اور تمام خطرات سے روبرو ہوکراسکے باوجود کہ دشمنوں نے وحشیانہ مظالم ڈھائے جو کہ قابل شمارش نہیں ،پھر بھی ان تمام مشکلات کو سہتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :(موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے اور جب شہید ہو رہے تھے تو فرمایا:( الموت اولی من رکوب العار و العار اولی من دخول النار) اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں ( انی لا اری الموت الا سعادۃ ولا الحیاۃ مع الظالمین الا برما) میں موت کو سعادت لیکن ظالموں کے ساتھ زندگی کو ذلت و خواری سمجھتا ہوں ۔عاشورا کے روز قیس ابن اشعث کو فرمایا :( لا والله لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرلکم اقرار العبید۔خدا کی قسم ذلت کاہاتھ تمھارے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح فرار یا اقرار نہیں کرونگا ۔آپ فرماتے ہیں :( الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنیتین بین السلۃ و الذلۃ و هیہات منا الذلۃ) اس زناکار فرزند زناکار نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مخیر کر دیا ہے ذلت اور شہادت لیکن ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔ مقدس و پاک ماوں کی گود میں پلنے والے اور پاک و غیرت مند والدین کے فرزندوں کو گوارہ نہیں کہ وہ پست و ذلیل افراد کی اطاعت کریں ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنیفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:( یا اخی والله لو لم یکن فی لدنیاء ملجاء و لا ماوی لما بایعت یزید بن معاویۃ)۴۰اے برادر خدا کی قسم اس دنیا میں میرے لئے اگر کوئی ٹھکانہ نہ رہے تب بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا ۔
10۔شجاعت
سید علی جلال مصری لکھتے ہیں :عاشورا کے دن دو طاقتوں کے درمیان فرق تصور سے بھی بالاترتھا اس کے باوجود شجاعت ، پائیداری اور استقامت میں امام حسین علیہ السلام نے ہر دانشمند و عاقل کو حیران کر دیا چونکہ اس کی مانند کوئی نہیں تھا جس طرح امام حسین علیہ السلام کے دشمن پستی و ذلت میں بے مثال تھے۔سید محسن امین امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں لکھتے ہیں : جب پیادہ افراد نے امام پر حملے کئے تو امام نے اپنی تلوار سے دشمن کی صفیں کاٹ ڈالیں، دشمن، امام سے اس طرح سے بھاگے جس طرح بھیڑیں شیر سے بھاگتی ہیں ۔صاحب کشف الغمہ کمال الدین سے امام علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:۴۲ امام حسین علیہ السلام کی شجاعت سے اصحاب کے چہرے لحظہ بہ لحظہ نورانی تر ہو جاتےتھے اور ایک خاص آرامش اور خاموشی ان پر طاری تھی کہ بعض اصحاب دوسرے اصحاب سے فرماتے تھے( انظروا لا یبالی بالموت فقد قال لہم الحسین صبرا بن الکرام فما الموت الا قنطرۃ تعبر بکم عن الیوس و الضرار الی الضنان الواسعہ و النعم الدائمۃ) امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اے جوان مردو صبر کرو ،موت صرف ایک پل کی طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور مشکلات سے نجات دے کر بہشت اور ابدی نعمات کی طرف پہنچانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتی۔امام ؑ اور اصحاب امام ؑ شجاعت کے میدان میں ہر ایک کے لئے نمونہ ہیں ۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے میں حمید بن مسلم نقل کرتے ہیں :خدا کی قسم کسی کو بھی امام حسین علیہ السلام کی طرح نہیں دیکھا جو دشمن کی کثرت کی وجہ سے مغلوب ہو چکا ہواور اسکے فرزندوں اور اصحاب کو قتل کر دیا گیا ہو لیکن پھر بھی قدرت قلبی اور ثابت قدم اور عزم راسخ کا مالک ہو۔
11۔حق طلبی اور احقاق حق
قیام امام حسین علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو دوبارہ زندگی بخشی اور بدعتوں اور تحریفوں سے دین اسلام کو نجات دلائی۔امام علیہ السلام صرف یزید کی بیعت نہ کرنےکےلئے مدینے سے نہیں نکلے تھے بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی احیاء اور امت کی اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن منکر کی خاطر نکلے،امام خمینی فرماتے ہیں :امویان اصل اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے تا کہ ایک عربی ریاست قائم کریں۔دوسری جگہ پر فرماتے ہیں :اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو یزید اور پیروان یزید اسلام کو الٹا لوگوں تک پہنچا دیتے۔مدینہ سےروانہ ہوتے وقت آپ نے فرمایا: جو بھی میری پیروی کرے گا اور میری باتوں کو قبول کرے گا تو سعادت پائے گا اور جو میری اطاعت نہ کرے اور میری اطاعت کے دائرے سے باہر چلا جائے تو اس وقت تک صبر کرے گا کہ جب تک نہیں کرتا خداوند متعال میرے اوراس کے درمیان حکم۔امام علیہ السلام نے اپنے خطوط میں فرمایا: میں تمہیں قرآن وسنت کی طرف دعو ت دیتا ہوں چونکہ سنتوں کو ختم کیاگیا ہے اوربدعتوں کو زندہ کیا گیا ہے ۔
12۔فطرتوں کا بیدار کرنا
بنی امیہ کی مسموم تبلیغات کی وجہ سے مسلمان صحیح اعتقادات سے کوسوں دور ہو چکے تھے،یہاں تک کہ عاطفہ نام کی کوئی شئی باقی نہ رہی ۔اسلامی معاشرے میں اس قسم کی تبدیلی سے معاشرہ ذلت و پستی اور موت کے دھانے پہنچ چکا تھا۔امام علیہ السلام نے یزیدی فوج میں موجود نام نہادمسلمانوں کی فطرتوں کو جھگا نے اور انکی روح و وجدان میں تحول لانے کی کوشش کی اور ان کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ لیا لیکن پھر بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا چونکہ ان لوگوں کے پیٹ حرام چیزوں سے بھرے ہوئےتھے اور وجدان سرے سے ہی ختم ہو چکا تھا،جیسا کہ آپ نے فرمایا:(ویحکم یا شیعۃ آل ابی سفیان!ان لم یکن لکم دین ،و کنتم لا تخافون المعاد،فکونوا احرارا فی دنیاکم ه۔۔۔۔) وائے ہو اے ابو سفیان کے پیروکار!اگر تم لوگوں کا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت سے خوف محسوس نہیں کرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد زندگی کر لو۔۔۔ دوسری جگہ پر امام[ع] فرماتے ہیں :( الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم یحوطونہ ما درت معایشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون ۔امام نے اس زمانے کے دینداروں اور ہر زمانے میں آنے والے افراد سے مخاطب ہو کر فرمایا : لوگ دنیا کے غلام ہیں اور جب سختیاں اور مشکلات آجائیں تو بہت ہی کم دیندار رہ جاتے ہیں ۔
13۔ایثار و فداکاری
ایثار و فدا کاری عشق ملکوتی ہے جو رحمت الہی سے اخذ ہوتا ہے۔ کربلا میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے ایثار و فدا کاری کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ ہیں ۔ان میں سے ہر ایک شخص شہادت میں پہل کر رہا تھا۔ ہر ایک کی خو اہش یہی تھی کہ دوسروں سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر جان قربان کر دے ،اور جب کوئی موت کے دھانے پہنچ جاتا تو دوسروں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ثابت قدمی سے رہنے کی وصیت کرتا،اصحاب امام حسین علیہ السلام خداوند متعال کے حضور جانے کے لئے بے تاب تھے۔
14۔غیرت
امام حسین علیہ السلام اورآپ کے اصحاب غیرت کے پیکر تھے ۔ امام نے یہ کبھی گوارا نہیں کیا کہ جیتے جی کوئی اہل حرم کے خیموں کی طرف جائے یا اہل حرم خیموں سے باہر آئیں ۔حتی اس وقت بھی جب آپ ؑ زخمی حالت میں تھے اور حضرت زینب ؑ آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچی تو فرمایا بہن زینب واپس خیمہ میں جاؤ میں آپ ابھی زندہ ہوں۔حضرت عباس رات کو خیموں کی حفاظت کے لئے خیموں کے گرد چکر لگاتے تھے تاکہ خواتین وبچے بے خوف وہراس سو جائیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تھے تو دشمن کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں اور کسی میں یہ جرأت بھی نہیں تھی کہ آپ کے سامنے جائے ۔ شمر ملعون کہنے لگا کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ حسینؑ زندہ ہیں یا نہیں تو خیموں پر حملہ کردو۔ امام نے جب یہ سنا تو فرمایا: اے پیروان ابوسفیان ! اگر تم میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو کم ازکم دنیا میں آزاد رہو۔ یعنی کم از کم حیا دار بنو ،خواتین اور بچوں سے تمہاری کیا دشمنی ہے ۔کوئی پوچھتا ہے :ماتقول یابن فاطمہ؟ اے فرزند فاطمہ ؑ کیا کہہ رہے ہو۔امام ؑ نے فرمایا:{انا اقاتلکم وانتم تقاتلونی والنساء لیس علیہن حرج }میں تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے ۔عورتوں نے کیا بگاڑا ہے ۔
15۔ مواسات وایثار
امام حسین علیہ السلام نے فقط دوستوں کے ساتھ نہیں بلکہ دشمن کے ساتھ بھی مواسات اور ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حر کا لشکر جب کربلا پہنچا تو پیاس کی شدت سے ان کی حالت بری تھی تو آپ نے فرمایا کہ دشمنوں کو پانی پلایا جائے نہ فقط انسانوں کو بلکہ ان کے جانوروں کو بھی سیراب کیا گیا۔ شب عاشور اصحاب امام ؑ آپس میں یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ کل ہم پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرینگے اور امام ؑکے عزیزوں پر ہم سے پہلے آنچ آنے نہیں دیں گےجبکہ دوسری طرف خاندان بنی ہاشم کے جوان اکھٹے ہو تے ہیں اور حضرت عباس ؑ جوانان بنی ہاشم سے مخاطب ہو کر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اصحاب غیروں میں شمار ہوتے ہیں اور بار سنگین کو خاندان کے افراد کو اٹھانا چاہیے ۔ آپ لوگوں کو سب سے پہلے میدان میں جانا چاہیے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو پہلے میدان کی طرف میدان بھیجا گیا۔حضرت عباس ؑ کے اسی کردار کی وجہ سے آپ کو زیارات میں ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے کہ{فلنعم الاخ المواسی}کس قدر اچھے مواسات کے حامل بھائی ہیں۔
16۔ تسلیم ورضا
امام ؑاپنے تمام افعال میں تسلیم ورضا کا درس دیتے ہیں ۔ آپ ؑسے جب عبداللہ ابن مطیع نے کوفہ کے لوگوں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا:{یقضی الله ما احبّ} خدا جس چیز سے محبت کرتا ہے اسے مقدر کرتا ہے۔شہیدمرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ رضا وتسلیم میں سے ایک یہ ہے کہ کام کسی اور کے ہاتھ میں ہو یعنی خدا کے فرمان اور امر سے ہو۔ شخصی اور خواہش نفس کی پیروی میں نہ ہو۔امام ؑکے اقوال سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ انجام دیتے ہیں وہ رضائے الٰہی میں انجام دیتے ہیں ۔ امام ؑ اپنی آخری دعا میں فرماتے ہیں {صبراً علی قضائک یا ربّ لا الہ سواک یا غیاث المستغیثین ، مالی رب سواک ولا معبود غیرک ، صبراً علی حکمک} پروردگا ر!آپ کی قضا پر صبر کرتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اے فریاد کرنے والوںکی فریاد سننے والا ، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں۔
حوالہ جات:
1۔اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
2۔مفاتیح الجنان دعا عرفہ۔
3۔العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣۔
4۔الارشاد ج٢ ص٩٤۔
5۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٣٠٦۔
6۔لھوف ص ١٢٠۔
7۔الارشاد ج٢ ص١١٥۔
8۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦۔
9۔الارشاد ج٢ص٧٥۔
10۔ بحار الانوار ج ٤٤ ص٣٢٩۔
11۔ کلمات الامام الحسین ص٤٠٠۔
12۔بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩،حماسہ حسینی ج١ ص٢٠٧۔
13۔العوالم ٢٧٢۔
14۔الارشاد ج٢ص٩١۔
15۔الارشاد ج٢ ص ٨٩۔
16۔ اعیان الشیعہ ج١١ص٤٧٧۔
17۔سوگنامہ آل محمدص٣٠٤۔
18۔بحارالانوار ج٤٥ص٢٢۔
19۔الارشاد ج ٢ض٩٢ ۔
20۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ٣٦٧،حماسہ حسینی ج١ ص٢٥٦ ۔
21۔لہوف ص ٩٠، حماسہ حسینی ج ١ ص ١٥٢۔
22۔کلمات امام حسین علیہ السلام ؑ ص٤٠٢۔
23۔حماسہ حسینی ج١ ص ٢٧٠۔
24۔ مقتل الحسین ؑ ص٤٠٠۔
25۔احتجاج طبرسی ج٢ص ٣٥۔
26۔حیاۃ امام حسین علیہ السلام بن علی ؑ ج٣ ص٣٧٠۔
27۔اخلاق فلسفی،ص ١٩٦
28۔فی رحاب ائمہ اھل البیت، ج٢، ص ٦٦
29۔سیدحیدر،مع الحسین فی نھضتہ،ص ٢٥
30۔مجلسی،بحار الانوار،ج٤٤،ص١٩٢
31۔سید بن طاووس ،لھوف ،ص ١٣٨
32۔مجلسی ،بحار ،ج٤٥،ص٧
33۔ موسوعۃطبقات الفقہاء،ج١ص ۳۲۔
34۔سید محمد ہادی ،فادتنا کیف نعرفھم، ج٦ ص ٥٩
35۔ارشاد مفید،ص٢٦٣
36۔ اربلی،کشف الغمۃ فی معرفۃالائمۃ ، ج٢ص ٢٢٩۔
37۔ فرہنگ عاشورا در کلام امام خمینی ،ص١٥۔
38۔صحیفہ نور،ج١٢ص١٥
39۔ہمان ج١٧ص٥٨
40۔محمد بن احمد مستوفی ،برگزدہ از الفتوح ابن اعثم کوفی،ص١٧۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی