وحدت نیوز(آرٹیکل) معاویہ خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام حسین علیہ السلام کے لئے غیرمعمولی احترام کا قائل تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام مکہ اور مدینہ کے عوام کے یہاں بہت زیادہ ہر دلعزیز ہیں اور آپ کے ساتھ عام افراد جیسا رویہ نہيں اپنایا جاسکتا۔ معاویہ کو ہر وقت آپ کے قیام کا خوف رہتا تھا۔ چنانچہ اس نے امام کے سامنے قبض و بسط کی پالیسی اپنائی یعنی ایک طرف سے آپ کی منزلت کو مد نظر رکھتا تھا اور بظاہر آپ کے لئے احترام کا قائل تھا اور آپ کی تعظیم کرتا تھا اور اپنے کارگزاروں کو بھی ہدایت کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو نہ چھیڑیں اور ان کی بےحرمتی سے پرہیز کریں۔دوسری طرف سے امام کی مسلسل اور شب و روز نگرانی کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا اور سفر اور حضر میں آپ کی تمام حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔ اس نے حتی امام حسین علیہ اسلام کی عظمت اور معاشرتی منزلت کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو بھی سفارش کی تھی کہ امام کے ساتھ رواداری سے پیش آئے اور آپ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔1
50ہجری میں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے اگرچہ آپ ؑنےاپنے بھائی کی طرح معاویہ کے خلاف قیام نہیں کیا لیکن وقتا فوقتا حقایق کو برملا کرتے تھے اور معاویہ اور اس کے عمال کے مظالم اور مفاسد کو لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے ۔چنانچہ جب معاویہ نے آ پؑ کو اپنی مخالفت سے روکا تو آپ ؑنے مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ایک خط معاویہ کولکھا جس میں اس کی سختی سے مذمت کی۔
1۔تم حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے قاتل ہو جو سب کے سب عابد وزاہد تھےاور بدعتوں کے مخالف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکیاکرتے تھے ۔
2۔ تم نے عمرو بن حمق کو قتل کیا جو جلیل القدر صحابی تھے جن کابدن کثرت عبادت کی وجہ سے نحیف و کمزور ہو چکا تھا۔
3۔تم نے زیاد بن ابیہ کو { جو ناجائز طریقے سے متولد ہوا تھا }اپنا بھائی بنا لیا اوراسےمسلمانوں پرمسلط کردیا ۔ زیاد ابو سفیان کے نطفہ سے ناجائز طریقے سے پیدا ہوا تھا اس کی ماں بنی عجلان کی ایک کنیز تھی اور ابو سفیان نے ناجائز طریقے سے اس کے ساتھ ہمبستری کی جس سے زیاد پیدا ہوا حالانکہ اسلام کا حکم یہ تھا کہ{الولد للفراش و للعاہر الحجر} 2۔
4۔ تم نے عبد اللہ بن یحیی حضرمی کو اس جرم میں شہید کیا کہ وہ علی ابن طالب علیہ السلام کے دین و مذہب ہر عمل کرتا تھا۔کیا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دین و مذہب پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا دین و مذہب نہیں تھا وہی دین جس کے نام پر تم لوگوں پر حکومت کر رہے ہو ۔
5۔تم نے مجھے مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی سے روکا ہے لیکن میری نظر میں مسلمانوں کے لئے تیری حکومت سے زیادہ بدتر اور کوئی فتنہ نہیں ہے ۔اور میں تم سے جہاد کرنے کو بہترین عمل سمجھتا ہوں۔3۔
ابن ابی الحدید{ الاحداث} میں ابو الحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں : معاویہ نے حکومت سنبھالتے ہی اپنے عمال کو جو مختلف علاقوں میں رہتےتھے حکم دیا کہ شیعوں کے ساتھ نہایت سخت سلوک کیاجائے ۔ اور ان کے نام کو کو دیوان سے حذف کیا جائے اور بیت المال سے انہیں کچھ نہ دیا جائےاور انہیں سخت سزا دی جائے ۔ معاویہ کے اس حکم کی بنا پر شیعوں کےلئے زندگی گزارنا خاص طور پر کوفہ میں سخت ہو گیاتھاکیونکہ معاویہ اور اس کے افراد کی جاسوسی کے خوف سے ہر طرف نا امنی پھیل چکی تھی یہاں تک کہ افراد اپنے خدمتگاروں پر بھی بھروسہ نہیں کرتےتھے ۔اس نے علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے فضائل و مناقب پر پابندی لگانےکے ساتھ عثمان کے فضائل و مناقب کو زیا دہ سے زیادہ بیان کرنے اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آنے کا حکم دیا یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلے میں سابقہ خلفاء کے فضائل میں حدیث گھڑنے اور نشر کرنے کا حکم دیا تاکہ علی ابن ابی طالب کی شخصیت اور شہرت کم ہو جائے لیکن اس کے برعکس اس قسم کے دستورات سے اسلامی معاشرے میں حدیث گھڑنے کا رواج عام ہو گیا ۔
حضرت علی علیہ السلام اس سے پہلے سے ہی باخبرکرچکے تھے۔ آپ ّنے فرمایا تھا :{ اما انہ سیظہر علیکم بعدی رجل رحب البلعوم ، مندحق البطن .... الا و انہ سیامرکم بسبی و البرءۃ منی ....}۴۔ میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہو گا جس کا حلق گشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا ۔جو پائے گا نگل جائےگا اور جو نہ پائے گا اس کی اسےکھوج لگی رہے گی {بہتر تو یہ ہے }تم اسے قتل کرڈالنا لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہر گز قتل نہ کروگے وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے برا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو ۔جہاں تک برا کہنے کا تعلق ہے ،مجھے برا کہہ لینا اسلئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے {دشمنوں سے} نجات پانے کا باعث ہے لیکن {دل سے} بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ میں دین فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سبقت رکھتا ہوں۔ آپؑ نے اس خطبہ میں جس شخص کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے بارے میں بعض نے زیاد بن ابیہ اور بعض نے حجاج بن یوسف اور بعض نے معاویہ کوکہا ہے ۔ابن ابی الحدید نےآخری شخص کو مصداق قرار دیتےہوئے معاویہ کے حضرت علی علیہ السلام کو لعن کرنے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔ اس کے بعد وہ ان محدثوں اور راویوں کا ذکر کرتا ہے جنہیں معاویہ نے امیر المومنین علیہ السلام کی خلاف احادیث گھڑنے کے لئےدرہم و دیناردیاتھا ۔جن میں سے ایک سمرۃ بن جندب تھا جسے ایک لاکھ درہم دیا گیا تھاتاکہ وہ یہ کہے کہ یہ آیت {و من الناس من یعجبک قولہ فی الحیاۃ ..}حضرت علیعلیہ السلام کی شان میں اور یہ آیت { و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات الله ...}ابن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔5۔مفسرین کے بقول پہلی آیت اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو ظاہرہی طورپرپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کرتا تھا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا لیکن حقیقت میں وہ منافق تھا ۔جبکہ دوسری آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ثعلبی مفسر اہل سنت نےاس آیت کی شان نزول کو لیلۃ المبیت قراردیا ہے ۔ 6۔
معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کئے گئےصلح پر عمل نہ کرتے ہوئے یزید کو اپنا جانشین معین کیا اور لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیا اگرچہ دین اسلام کی کچھ ممتاز شخصیتوں نے اس عمل کی مخالفت کی لیکن اس نے مخالفت کئے بغیر خوف و ہراس اور لالچ دے کر اپنا مقصد حاصل کیا ۔
ابن ابی الحدید معاویہ کی پرخوری کے متعلق لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ایک دفعہ اسے بلایا تو معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔دوسری تیسری مرتبہ جب بھیجا تو یہی بتایا گیا جس پر آپ ؐ نے فرمایا :{اللہم لا تشبع بطنہ }خدایا اس کے پیٹ کو کبھی نہ بھرنا ۔اس بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ جب کھاتے کھاتےتھک جاتا تھاتو کہتا تھا{ارفعوا فوالله ما شبعت و لکن مللت و تعبت } دستر خوان اٹھاو َ خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک گیاہوں ،مگر پیٹ ہے جو بھرنے کا نام نہیں لیتا۔اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم کرنا اور اپنے عاملوں کو اس کاحکم دینا تاریخی مسلمات میں سے ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور منبر پر ایسے الفاظ کہے جاتے تھے جن کی زد میں اللہ اور رسولؐ بھی آجاتے تھے۔ چنانچہ ام المومنین ام سلمہؓ نے معاویہ کو لکھا:{انکم تلعنون الله و رسولہ علی منابرکم و ذلکم انکم تلعنون علی ابن ابی طالب و من احبہ و انا اشہد ان الله احبہ و رسولہ }تم اپنے منبروں پر اللہ اور رسول پر لعنت بھیجتے ہو وہ یوں کہ تم علی ابن ابی طالب اور ان کو دوست رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہو اور میں گواہی دیتی ہوں کہ علی کو اللہ اور اس کا رسول بھی دوست رکھتےتھے۔7۔
معاویہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس کی جان ومال محفوظ نہیں ہیں اور جو شخص تمام اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں کوئی حدیث بیان کرے گا اسے بہت زیادہ انعام و اکرام دیا جائےگا اس نے حکم دیا تھا کہ سارے اسلامی ممالک میں منبروں سے علی علیہ السلام کو ناسزا کہا جائے اور اس نے اپنے مددگاروں کی مدد سے بعض اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کےشیعوں کو قتل کروایا اور ان میں سے بعض کے سروں کو نیزوں پر چڑھا کر شہروں میں پھروایا تھا وہ عام شیعوں کو جہاں کہیں بھی دیکھتا آزار و اذیت دیا کرتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی پیروی سے باز رہیں اور جو اس حکم کو نہیں مانتا تھا اسے قتل کر دیاجاتا تھا ۔8۔
60 ہجری قمری میں معاویہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹےیزید نے اس بیعت کے مطابق جو اس کے باپ نے اس کے لئے لوگوں سےلی تھی اسلامی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی اور اس نےمدینہ کے لوگوں سے خاص طور پر چند شخصیات سے بیعت لینی چاہی جن میں امام حسین علیہ اسلام سر فہرست تھے۔ امام ؑاس کی بیعت نہ کرتے ہوئے مکہ کی طرف نکل گئے اور کچھ مہینے مکہ میں مقیم رہے لیکن جب یزید اور اس کے افراد کے ناپاک عزائم سے آگاہ ہوئے جو آپؑ کو مراسم حج کے ایام میں شہید کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے ناجائز مقاصد تک آسانی کے ساتھ پہنچ جائیں ،تو آپ ؑکوفہ کی طرف چلے کیونکہ کوفہ کی اکثریت شیعوں کی تھی اور انہوں نے خطوط کے ذریعے آپؑ کے ساتھ وفادار رہنے اور یزید سے بیزاری کا اعلان کیا تھا ۔لیکن عبید اللہ بن زیاد جو کوفہ کا گورنر تھا ڈرا دھمکا کر اور بعض لوگوں کو لالچ دے کر ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جس کے نتیجہ میں کربلا کا خونین و دردناک واقعہ پیش آیا اور امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب کوپردیس میں مظلومانہ شہید اور آپ کے اہل بیت کو اسیر کیاگیا ۔
اگرچہ واقعہ کربلا ظاہری طور پر بنی امیہ اوریزید کی فتح اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شکست تھی مگر تاریخ اسلام میں اس نے عظیم انقلاب پیدا کیا اور اس کی وجہ سے خواب غفلت میں پڑے مسلمان جاگ گئےاور بنی امیہ کی دین دشمنی اور امام حسین علیہ السلام کی حق طلبی آشکار ہوگئی۔اس عظیم انقلاب نے معاویہ اور اس کے افراد کی بیس سالہ گھنونی سازش کو خاک میں ملا دیا جو حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ناموں کو اسلامی معاشرےسے سرے سے ختم کرنا چاہتے تھے اور شیعوں کو غلط طریقے سے معاشرے میں پیش کر رہے تھے ۔چنانچہ شیعہ اور سنی مورخین نے لکھا ہےکہ واقعہ کربلا نےجس طرح مسلمانوں کے دلوں میں بنی امیہ اور یزید سے نفرت پیدا کیا اسی طرح مسلمانوں کو اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نزدیک کرنے اور ان کی محبوبیت میں اضافہ کا باعث بنا تھا۔ اسی طرح مورخین لکھتے ہیں : واقعہ کربلا کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے جب بنی امیہ کی حکومت کی بدنامی دیکھی تو عمر بن سعد سے اس خط کو واپس کرنے کا کہا جس میں اس نے اسے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم دیا تھا ۔ لیکن عمربن سعد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں نے اسے مدینہ بھیج دیاہے تاکہ لوگ اس خط کو پڑھیں اور مجھے اس ظلم میں شامل نہ سمجھیں ۔اس کے بعدکہا: خدا کی قسم میں نےاس کے نتیجہ کے بارے میں تجھے آگاہ کیا تھا اور تم سے اس طرح سے بات کی تھی کہ اگر اپنے باپ سے اس طرح سے بات کرتا تو شاید حق پدری ادا ہو جاتا ۔عبید اللہ کا بھائی عثمان نے ابن سعد کی باتوں کی تائید کی اور کہا :میں فرزندان زیاد کی قیامت تک کی ذلت کی زندگی کو ترجیح دیتا اگر یہ لوگ حسین ابن علی کے قتل میں شریک نہ ہوئے ہوتے ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : جب سر مبارک امام حسین علیہ السلام کو یزید کےسامنے لایا گیا تو یزید خوشی کا اظہا ر اور ابن زیاد کی تعریف کر رہا تھا لیکن تھوڑی مدت میں ہی حالات بدل گئے اور سرزمین شام کی فضا یزید کے خلاف ہو گئی اور لوگوں نے اسے لعن و نفرین کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ ندامت کا اظہار کرتا تھا اور ابن زیاد کی مذمت کرتے ہوئے کہتا تھا : اسی نے حسین ابن علی کے ساتھ سخت رویہ اختیارکیا کیونکہ حسین ابن علی نے بیعت سے انکار کر کے دوردارز علاقے میں رہنے کے لئےکہا تھا لیکن ابن زیاد نے ان کی بات کو رد کر کے انہیں قتل کیا اور لوگوں کو میرا دشمن بنا دیا ۔ 9۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت اور اہل بیت علیہم السلام کی اسیری نے لوگوں پر حقایق روشن کر دئیے یہاں تک کہ سر زمین شام کا ماحول{جہاں سالہا سال سے معاویہ اور اس کے افراد کی حکومت تھی}بنی امیہ کے خلاف اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں بدل گیاکیونکہ ابھی تک بنی امیہ کی حکومت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو کافر ،باغی اور خوارج بتاتی تھی اور فریب دینے والےنعروں سے علویوں اور شیعوں کو اذیت و آزار پہنچاتے تھے ۔لیکن آپؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، بدعتوں اور برائیوں کا مقابلہ اورامت کی اصلاح جیسےمقاصد کی خاطر قیام فرمایا اور اپنی شہادت اور اہل حرم کی اسیری کےذریعے اسلامی معاشرے میں ان اصولوں کو رائج کیا جن کی وجہ سے ہر آزاد منش انسان کے لئے بنی امیہ سے جہاد کرنے کا راستہ ہموار ہو گیاچنانچہ یکے بعد دیگرے بنی امیہ کی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئےیہاں تک کہ معتزلہ اور قدریہ نے بھی قیام کیا ۔اسی طرح کچھ شیعوں نے سلیمان بن صرد خزاعی کی رہبری میں قیام کیا اس کے علاوہ قیام مختار اور زید بن علی کا قیام قابل ذکر ہےجنہوں نے قیام عاشورا کواسوہ اور نمونہ قرار دیا تھا ۔خلاصہ یہ کہ کربلا کے خونین قیام نے مسلمانوں ،خاص طورسے شیعوںمیں جراٴت ،شہامت اور شہادت طلبی کا جذبہ پیدا کیا جس کے بعد انہوں نے بنی امیہ کے حکمرانوں کی نیند حرام کر دی اگرچہ اس راہ میں سخت شکنجوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑایہاں تک کہ راہ خدا میں شہید ہو گئے۔
حوالہ جات:
1۔یعقوبی، ج2، ص228؛ ابن عثم کوفی، ج4، ص343؛ طبری، ج5، ص303۔ الذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص291۔ الدینوری، کشّی، محمد بن عمر؛ رجال الکشی، ص48.
2۔ تاریخ یقوبی، ج2 ،ص 127۔
3۔الامامۃ وا لسیاسۃ ،ج 1، ص 155 – 157 ۔
4۔ نہج البلاغہ ،خطبہ 57۔
5۔ شرح نہج البلاغہ ، خطبہ 56،ج 1، ص 355۔
6۔ بحار الانوار، ج 19،ص 38 ۔تفسیر نمونہ ،ج 2۔
7۔عقد الفرید،ج3 ،ص 131، ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین ،ص20۔
8۔ شیعہ در اسلام ،علامہ طباطبائی، ص 40 -46
9۔ تاریخ ابن اثیر ،ج2، ص 157۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی