وحدت نیوز(آرٹیکل) اب اس بات پر کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کوکسی بھی حال میں آگے لانا چاہتا ہے اور یقیناًبھارت کے جارحانہ قسم کے عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی یہ کوشش اسلام آباد سے افغانستان تک کے مسائل کو سخت متاثر کرسکتے ہیں ،یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکی بھارتی ان عزائم کے مقابلے کے لئے اور پاکستان کو اپنے قومی مفادات کو بچانے کے لئے کیا کرنا چاہیے اور پاکستان کیا کرسکتا ہے ؟کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں بھارت نے اقتصادی طور پر کافی بہتری حاصل کی ہے اور اسی بہتری کے زعم میں بھارت خطے میں اپنے عسکری اور سیاسی جارحانہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں پولیس مین کا کردار ادا کرے ۔
بھارت کے امریکہ کے ساتھ پر گذرتے لمحے گہرے سے گہرے ہوتے ہوئے روابط بھی اس کے اعتماد میں اضافہ کررہا ہے جبکہ امریکہ کو چین کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کو روکنے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر مسائل کے لئے بھارت کو استعمال کرنا چاہتا ہے ،امریکی سیکرٹری خارجہ کا حالیہ دورہ جنوبی ایشیا اور بھارت کے حق میں دہرایا جانا والا بیان اس بات کی واضح دلیل ہے،امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’افغانستان کےبارےامریکی اسٹرٹیجی میں بھارت کا مرکزی کردار ہے اور دونوں ممالک مضبوط اقتصادی رشتے میں جڑ تے جارہے ہیں ‘‘امریکی سیکرٹری خارجہ نے جہاں ایک طرف چین پر تنقید کی وہیں دوسری جانب عالمی امن کے لئے بھارت کے کردار کی تعریف بھی کی ۔
اس سے قبل افغانستان اور پاکستان کے امور امریکی خصوصی ایلچی ایلس ویلز نے کھل کر کہا تھا کہ بھارت امریکہ کا ایک اہم اسٹراٹیجک پارٹنر ہے اور خطے کی امن وسلامتی کی لئے بھارت کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے ،ویلز کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ بھارت کوایسے حساس نوعیت کے فوجی سازوسامان سے لیس کرنا چاہتا ہے جو اس سے قبل اس نے اپنے کسی بھی اتحادی کو نہیں دیے ۔جبکہ اسی سال جون کے مہینے میں امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقعے پر بھارت وزیراعظم مودی اور ٹرمپ میں جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والے ڈرون طیاروں کی فروخت کا بات چیت طے ہوئی تھی ،جس کے بارے میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے پاکستان کے شدید تحفظات کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی طاقتوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے بھارت کو ڈرونز کی فراہمی کا مطلب خطے میں طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرناہے ،اس قسم کے اسلحے کی فراہمی سے بھارت کے جارحانہ عزائم کو تقویت ملے گی ۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکل کولنس نے کہا تھا کہ امریکہ کے لئے روس سے زیادہ چین سے خطرہ ہے ۔چین کے مشرق و جنوبی سمندر میں بڑھتی ہوئی عسکری اور سول مومنٹ ،پاکستان بنگلہ دیش اور میانمار کے ساتھ اس کے مزید گہرے ہوتے روابط اور وسیع اقتصادی پروجیکٹس امریکیوں کو کھٹک رہے ہیں چین کے پیسفک سے لیکر براعظم افریقہ تک اقتصادی ،سیاسی اور عسکری اثرات پھیلتے جارہے ہیں جبکہ ان علاقوں میں امریکی اثر ورسوخ ایک حدتک کم ہوتا جارہا ہے امریکی چینی اس پھیلتے اثر رسوخ کو روکنے کے لئے بھارت کو شہ دینے کے ساتھ ساتھ اسے پولیس مین کے کردار کا لالچ بھی دے رہا ہے ،امریکہ نے گذشتہ دس سالوں میں بھارت کو پندرہ ارب ڈالر کا اسلحہ بھی فروخت کیا ہے جبکہ آنے والے سات سالوں میں امریکہ بھارت میں تیس ارب ڈالر کے فوجی منصوبوں کا بھی پلان رکھتا ہے ۔
اس کے علاوہ امریکہ بھارت اور جاپان نے اس سال جولائی میں خلیج بنگال میں مشترکہ عسکری مشقیں بھی کیں ہیں جبکہ اسی دوران چین اور بھارت میں سرحدی تنازعے پر کافی کشیدگی بھی پیدا ہوئی تھی ،اسی سال اگست کے مہینے میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیا ،ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس کی پالیسی وقت سے زیادہ حالات پر انحصار کرتی ہے ٹرمپ یہ کہنا چاہتا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کی واپسی وہاں کے حالات کے مطابق ہوگی ،ٹرمپ نے کھل کر پاکستان پر الزامات لگائے جبکہ پاکستان خود ہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور سب سے اہم اور کامیاب آپریشن دہشتگردوں کیخلاف پاکستان کرتا جارہا ہے ۔
ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزامات کی ایک وجہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے ساتھ ساتھ بھارت کواپنے ایجنڈوں کے لئے راضی رکھنا تھا ۔
امریکی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد پر جس انداز سے پاکستان نے اسے ویلکم کیا اس نے امریکہ پر مزید واضح کرہی دیا ہوگا کہ پاکستان کے اہم اتحادی ہونے کے امریکی کھوکھلے نعروں کی حقیقت پاکستان جان چکا ہے ،اس پر رہی سہی کسر پاکستان کی وزارت خارجہ اور ذمہ داروں کے بیانات نے پوری کردی ،پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں مزید بہتری لانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ پالیسی کو مرتب کرتے وقت امریکی خوشی یا ناراضگی کو بالا ئے طاق رکھنا ہوگا،یہ بات واضح ہے کہ امریکہ سمیت تمام سامراجی قوتوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت و صلاحیت ایک آنکھ نہیں بہاتی اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک آگے بڑھے لہذا تاریخ نے ہمیں ایک ایسے نادر موڑ پر لاکر کھڑا کردیا کہ ہے کہ ہم باجود سیاسی و معیشتی مشکلات کے خود کو امریکی بلاک سے نکالیں جو در حقیقت ایک طوق کی مانند ہماری گردن پر بوجھ بننا ہوا ہے ۔
امریکی بلاک سے نکلنا یقیناًپاکستان کے لئے آسان نہیں ہوگا لیکن قوم میں اس قدر تونائی ہے کہ وہ اس نادر اور سنہری تبدیلی کی خاطر آنے والی مشکلات کو سہہ سکتی ہے ۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کو یہ کہنا بلکل درست ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اپنے مفادات کومقدم رکھے گے ،خواجہ آصف نے یہ بات بھی سو فیصد درست کہی ہے کہ مستقبل میں بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں زیادہ خوشگواری کا امکان نہیں ،امریکہ آج یہاں ہے لیکن کل نہیں ہوگا علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی امن کو یقینی بنائے گے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو بھرپور طریقے سے استعمال کرے گے ،پاکستان کے حق میں سب سے اچھا یہی ہوگا کہ وہ خود کو نہ صرف امریکہ بلکہ امریکی بلاک سے فاصلے پر رکھے اور علاقائی و ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعاون کو مزید بہتر کرے ،علاقائی ممالک سے تعاون ابھرتے چین اور روس کے ساتھ مزید بہتر تعلقات پاکستان کو انڈو امریکہ عزائم سے بچنے میں مدد فراہم کرے گا لیکن خدا نخواستہ پاکستان پھر سے امریکی ایجنڈوں کو حصہ بنتا ہے تو پھر نہ صرف چین جیسے اہم ترین دوست اور علاقائی ممالک سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ خطے میں بھارتی بالادستی کی امریکی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی ۔
تحریر۔۔۔حسین عابد