’’مسئلہ فلسطین ‘‘سے’’ اسرائیلی عربی تنازعے تک ‘‘

14 December 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطینی زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ بعض عرب ممالک(سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اور مصر) اب فلسطینی مسئلے کو وہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جو سن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دے رہے تھے اور نہ ہی ان ممالک کے لئے اسرائیل ایک غیر قانونی غاصب وجود رہا ہے بلکہ یہ ممالک اسرائیل کی جانب ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جس کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور جس سے تعاون لیا جاسکتا ہے ۔

ان ممالک کا خیال ہے کہ انہیں اسرائیل کے حوالے سے مزید عملی (Pragmatic)اور حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنا چاہیے ۔

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی یہ حقیقت پسندی عرب رائے عامہ اور عربوں کی مجموعی سوچ کے دائرے کو پھلانگنا نہیں چاہتی اور زیادہ سے زیادہ وہ اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے میں غیر جانب دارانہ کردار اپنانے کی کوشش کرے گی ۔

ظاہر ہے کہ عرب رائے عامہ کو پھلانگنے کا مطلب حکمرانوں کیخلاف عرب عوام کا ردعمل ہوگا جو ان کے اقتدار کے لئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔
ان عرب ممالک نے اسی نام نہاد حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائزکرنے کی جانب قدم اٹھانا شروع کردیا ہے لیکن یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو رائے عامہ کی ہمواری تک پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں جیسے کہ کسی برے عمل کی انجام دہی کے بعد اسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے یا پھر جیسے کہ ہر برا کام خفیہ و پوشیدہ انداز سے انجام دیا جاتا ہے ۔

 اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ’’مسئلہ فلسطین ‘‘کی رائج اصطلاح کی جگہ ’’اسرائیل عرب تنازعہ ‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا اور یہ اصطلاح تیزی کے ساتھ عرب مخصوص زرائع ابلاغ میں عام ہونے لگی یہاں تک کہ الحیات جیسے اخبار نے دس اکتوبر کو اپنے ایک مضمون میں ایک گام آگے جاتے ہوئے ’’اسرائیلی فلسطینی موضوع‘‘کی اصطلاح کا استعمال کیا ۔

اس مضمون سے بات واضح تھی کہ وہ اس سارے مسئلے کو دو اطراف کے درمیان جاری کشمکش اور جنگ و جدال کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

سات اکتوبر کو الشرق الاوسط اخبار میں ایک سعودی رائٹر نے 1973کی جنگ کے حوالے سے لکھا کہ ’’اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید کسی قسم کی توسیع پسند جنگ نہیں کی ۔۔۔اسرائیل نے اس کے بعد جو بھی جنگیں کیں ہیں وہ سب دفاعی نوعیت کی تھیں خواہ وہ لبنان میں ہو جیسا کہ فلسطینی جماعت پی ایل او کیخلاف یا پھر حزب اللہ کیخلاف ۔۔‘‘ مضمون نگار نے بڑے ظالمانہ انداز سے یہ بھی لکھا کہ ’’جو کچھ اسرائیل نے غزہ میں کیا وہ صرف چند آپریشنز تھے ۔

عرب حکمران شروع سے ہی فلسطین کے مسئلے میں اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں انکے سیاسی بیانات اور ان کے عمل میں موجود تضاد واضح ہے۔

حال ہی میں استنبول میں ہونے والی ہنگامی اسلامی سربراہی کانفرنس کے پہلے ہی سیشن میں اکثر اہم عرب ممالک کے سربراہ غائب تھے شائد وہ قبلہ اول سے مطلق اس حساس نوعیت کے مسئلے کو اس قدر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اب بھی چاہتے ہیں زبانی کلامی بیانات پر اکتفا کریں ،عرب اور مسلم عوام کی بھر پور خواہش تھی کہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس کچھ عملی اقدامات کے بارے میں اعلان کرے جیسے فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ ،پہلے گام کے طور پرامریکی سفیروں کو بلاکر احتجاج ریکارڈ کرانا اور روابط کے خاتمے کی دھمکی دیناتاکہ ٹرمپ اپنا اعلان واپس لے ،اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنا اور فلسطینی انتفاضہ کی مکمل حمایت کا اعلان کرنا ۔۔۔

لیکن اگر بغور اوآئی سی کے اعلامیے کو پڑھا جائے تو یہ اعلامیہ ماسوائے خالی بیانات اور تشہیرات کے کچھ بھی اپنے اندر ٹھوس چیز نہیں رکھتا ۔

استنبول میں ہونے والے اس اجلاس میں سب سے سخت لب و لہجہ اردگان کا تھا لہذا مسلم امہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ دنیا بھر کے حریت پسند انسان اردگان سے یہ توقع رکھ رہے تھے کہ وہ اس اجلاس ترکی میں اسرائیلی سفارتخانہ بند کرنے کا اعلان تو کرے گا لیکن اردگان نے سوائے جذباتی گفتگو کے عملی طور پر نہ تو سفارتخانہ بند کرنے کی بات کی اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ جاری تجارت اور میگا پروجیکٹس سے پچھے ہٹنے کی بات کی ۔

فلسطین صدر محمود عباس کی طویل اور تکراری گفتگو میں ایک بھی بار ’’مزاحمت اور انتفاضہ ‘‘کا تذکرہ نہیں ہوا وہ بھی اردگان کی مانند صرف بار بار جذباتی الفاظ کو دہرانے کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہ کہہ سکا جیسے عملی اقدام کہا جاسکے ۔

اسرائیلی تجزیہ کار سچ کہا کرتے تھے کہ عرب کچھ دن خوب شور مچاینگے لیکن سچائی وہ بھی جانتے ہیں ،نیتن یاہو نے بھی سچ کہا تھا کہ ہمارا مسئلہ عرب حکمران نہیں ہیں بلکہ وہ رائے عامہ ہے جو عرب و مسلم ممالک کی سڑکوں پر موجود ہے ‘‘

لہذا دنیا بھر کے حریت پسندوں کو چاہیے کہ وہ اس ظلم اور ناانصافی کیخلاف آواز اٹھاتے رہیں مسلم و عرب عوام کو چاہیے کہ وہ آواز اٹھاتے رہیں اور فلسطین میں موجود انتفاضہ کی پیٹھ گرماتے رہیں یہاں تک حکمران مجبور ہوں کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کریں ۔


تحریر۔۔۔۔حسین عابد



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree