وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیس ویں صدی کی دنیا دو عالمی جنگوں اور پھر سرد جنگ کے بعد وہ نہیں رہی تھی جو انیس ویں صدی یا اس سے پہلے تھی ،بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کو یکدم بدل کررکھ دیا اور ایران میں آنے والے انقلاب کہ جس کی بنیاد مذہبی تھی نے اس بدلتی دنیا پر اپنے منفرد انداز کے گہرے نقوش مرتب کرنا شروع کردیئے۔لیکن اکیسویں صدی ،خاص کر اس کی پہلی دہائی کے بعد بین الاقوامی سطح پر جس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ہورہی ہیں وہ بھی یقینا اپنے اندر بالکل ہی انفرادیت کی حامل ہیں ۔اب دنیا کسی ایک بڑے ملک یا طاقت کے زیر اثر نہیں رہی ہے اور نہ ہی کسی ایک بلاک یا دو بلاکوںکے کنٹرول میں ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
آج کی ہماری دنیا اس حوالے سے کثیر قطبی (ملٹی پولر)بنتی جارہی ہے جس کی اہم وجہ سامراج ازم کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن تو دوسری جانب ان کے مدمقابل وجود میں آنے والی نئی طاقتیں جیسے روس ،چین تو دوسری جانب انتہائی اثر رسوخ اور موثر کردار کے حامل ممالک جیسے ایران ،جنوبی افریقا ،ترکی اور برزایل وغیرہ نے بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن کو ہر پہلو سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔گرچہ ایران کو اس کے اتحادیوں (مزاحمتی بلاک)کے سبب بہت سے دانشور اور تجزیہ کار روس اور چین کے بعد تیسرے درجے پر قراردیتے ہیں خاص کر مشرق وسطی جیسے انتہائی اہم اور زرخیز علاقے میں ایران کا مضبوط کردار اسے انفرادیت ضرور دیتا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جارہاہے کہ چند قوتوں یا کثیر قطبی ( ملٹی پولر)موجودہ عالمی صورتحال کا تسلسل باقی رہے گا گرچہ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے سبب دنیا میں بے چینی اور تصادم کے خطرات میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہے گا لیکن ہمارے خیال میں بے چینی اور تصادم کے خطرات کی اصل وجہ کثیر قطبی کو قرارد دیناکچھ زیادہ درست تجزیہ نہیں لگتا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خود کوعالمی طاقت کا تنہا مرکز ومحور سمجھنے والی سامراجی ( امپیریلزم )قوتوں کے ہاتھوں سے لمحہ بہ لمحہ سرکتی بساط کے سبب پیداہونے والی صورتحال ہے جو کہیں بے چینی تو کہیں تصادم کی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔
امریکی برتری میں کمی ۔
امریکہ جوکہ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد واحد عالمی قوت کے طور پر خودکو پہچنوا رہا تھا گذشتہ قریب ایک دہائی سے بری طرح اپنی برتری کو باقی رکھنے کی کوششوں میں ہے لیکن مسلسل اس کی طاقت اور اثر رسوخ میں کمی ہوتی جارہی ہے ۔بارک اوباما کے دور میں ہم امریکی بے بسی اور پریشانی میں اس کی عالمی سطح پر گرتی ہوئی پوزیشن اور کم ہوتا کنٹرول کو دیکھ سکتے ہیں کہ خود اوباما کا کہناتھا کہ امریکہ پس پشت رہ کرمسائل کو ہینڈل کرنے کی کوشش کرے گا مطلب واضح تھا کہ امریکہ سامنے آکر فرنٹ لائن میں کھیلنے کی پوزیشن نہیں رکھتا ۔اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں بہت سے امریکی تجزیہ کار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایک کمزور،گومگو اور ناکامی اورز وال کے شکار ہوتے ملک کی پالیسی ہے ۔بین الاقوامی سطح پرامریکہ کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک مسلم امہ کے درمیان انتہائی اہم و منفرد اتحادی سعودی عرب کو بھی اوباما کی اس پالیسی کے بارے میں کہنا پڑا کہ’’ امریکہ اب اپنے اتحادیوں کو چھوڑ رہا ہے ،وہ پہلے جیسا مددگار اور پشت پناہ نہیں رہا ،اس نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے ‘‘۔
ظاہر ہے کہ اوباما کی پالیسیاں خود اس کی اپنی ذاتی پالیسی تو ہرگز نہیں تھی بلکہ یہ جارج ڈبلیوبش کی پالیسیوں خاص کر عراق و افغانستان پرحملہ کے نتائج اور سن دوہزار چھ ،آٹھ اور نو میں لبنان،فلسطین کے علاقہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ناکامی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال تھی تو دوسری جانب اسی دوران سن دو ہزار آٹھ میں امریکی معیشت بھی شدید بحران کا شکار رہی ہے ۔اس دوران میں گرچہ جارج دبلیوبش نے کوششیں تو بہت کیں کہ امریکی پوزیشن کو روس چین ،ایران ،ترکی جنوبی افریقہ اور برازیل کے حوالے سے برقرار رکھے لیکن لاطینی امریکہ اور ایشیا میں حریت پسندتحریکوں اور مزاحمتی موومنٹس ،عرب ممالک میں پیداہونی والی عوامی تحریکیں ایک چلینج بن کر سامنے آگئیں ۔
یقینا ان حالات نے بھی اوباما انتظامیہ پر بہت دباو ڈالا ہواتھا یہاں تک کہ اس کے اثرات کو اوباما کے بعدامریکی انتخابات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نے امریکہ جیسے ممالک کی اندرونی ساخت اور اسٹریکچر ،پالیسیز اور اداروں میں موجود بے یقینی اور تضادات کو مزید واضح کردیا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی در حقیقت امریکی پالیسیوں کی فرسودگی کو ظاہر کرتی ہے ۔ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے وقت پہلے سے اندرونی طور پر منقسم امریکی معاشرہ اور ریاستی ادارے ایک ایسے صدر کا سامنا کررہے تھے جو بذات خود نفسیاتی طور پر ایک ایسا بے چین شخص کے طورپر سامنے آیا ہے کہ ایک طرف جہاںریاستی معاملات کو چلانے کے لئے جرنیلوں کا سہارا لیتا ہے تو دوسری جانب اندرونی طور پر امریکی روایتی پالیسی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے کئی قسم کے محاذ کھڑا کردیتا ہے ۔وہ نہ تو نہ تو میڈیا کے ساتھ معاملات اچھے رکھ پارہا ہے اور نہ ہی خود اپنے ایڈوائزروں کے ساتھ اس کی بنتی ہے ۔ٹرمپ کے دور اقتدار میں اٹھائے گئے بہت سے اقدامات یکے بعد دیگر شکست کا سامنا کررہے ہیں ،خواہ پناہ گزینوں کا معاملہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ڈیل کا معاملہ ٹرمپ کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔
ٹرمپ نے مشرق وسطی میں مسلسل امریکن پالیسی کی ناکامی کو سہارادینے کی خاطر ایک بڑی چھلانگ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 53ممالک کے اجلاس سے خطاب کیا جو در حقیقت روس، ایران ،حزب اللہ اور حماس (یعنی مزاحمتی بلاک )کیخلاف اظہار قوت کرنا اور مشرق وسطی میں اپنے دوستوں کو تحفظ کا احساس دلانا تھا لیکن یہ تمام تدبیریں اس وقت الٹی پڑ گئیں جب امریکی اتحادی خود دست و گریباں ہوئے اور قطر کیخلاف سعودی عرب ،امارات بحرین اور مصر نے محاذ کھڑا کردیا ۔ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے ایک بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی اور اس کوشش کو ’’تاریخی معاہدہ‘‘اورـ’’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘‘ کا نام دیا لیکن یہ کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہیں باوجود اس کے کہ اپنے دو اہم ایڈوائزوںجیراڈ کاونجراور جیسین گرین پلاٹ کی دیوٹی لگائی کہ وہ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچائیں۔ان کے ایڈوائزر محمود عباس ،نیتن اور سعودی عرب کے درمیان بڑے چکر کاٹتے رہے لیکن ان چکروں کا کوئی بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ ٹرمپ محمود عباس سے یہ ڈیمانڈ کررہا تھا کہ غزہ پٹی میں حماس کے کنٹرول کا خاتمہ کیا جائے ،جو اس پر توانائی سے زیادہ بوجھ تھا ،یہاں تک کہ ٹرمپ کودرمیان میں مصر کو لے آنا پڑا اورخود محمود عباس سے براہ راست یہ کہنا پڑا کہ غزہ والوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے پائیں وہ مصر کے چینل کے ذریعے انجام پانے چاہیے اور یوں فتح اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ غزہ ایک حد تک تنہائی سے نکل آیا اور فتح کی جانب سے غزہ کے لئے موجود روکاوٹیں ختم ہوئیں، فلسطینی دو گروہوں کے درمیان موجود کشیدگی کسی حدتک کم ہوئی لیکن اب اس کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور کیا اس کی شکل صورت ہوگی؟کیونکہ اس معاہدے کا مقصد غزہ پٹی کی عوام ریلیف دینا تو نہیں ہرگز نہیں تھا۔یہ وہ اہم سوال ہے کہ جس کے جواب کی تلاش ہمیںیہ بتلا رہی ہے کہ مشرق وسطی اور عالمی سطح پر ایک نئی بے چینی پیدا ہورہی ہے کیونکہ دونوں گروہوںکے درمیان اس بات پر اتفاق تو ہوا کہ ایک ہی حکومت ہوگی اور غزہ والے خود کو مکمل طور پر رام اللہ کی اتھارٹی یعنی محمود عباس کے کنٹرول میں دینگے لیکن غزہ میں موجود مزاحمتی تحریک اپنا اسلحہ،زیر زمین خندقوں اور گذرگاہوںکے ساتھ برقرار رہے گی ۔ٹرمپ اسرائیل کے کہنے پر جس اصل چیز کی تلاش میں تھا وہ اب بھی اپنی جگہ پر اسی طرح باقی تھی یعنی تحریک مزاحمت کا وجود،اس کی طاقت ،اس کا اسلحہ کہ جس کے خاتمے کے لئے یہ ساراجال بنا گیا تھا۔
ٹرمپ کے سامنے موجود مسائل کی فہرست طویل ہے کہ جہاں ہر قدم اسے یہ احساس دلارہا ہے کہ امریکہ اب تنہا قوت نہیں رہا ہے ،شمالی کوریا کے میزائل و ایٹمی پروگرام ہو یا پھر ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل کا خاتمہ ،داعش کیخلاف اس کی جنگ کے نعرے ہو ںیا پھر حزب اللہ، حماس اور ایران اورچین و روس کے بڑھتے اثر روسوخ کیخلاف اس کی محاذ آرائی کی کوششیں ۔یہاں تک کہ ٹرمپ اپنے ہی اتحادیوں کے ہاتھوں بھی بری طرح شکست کا سامنا کررہا ہے عالمی ماحولیات اور ایرانی ایٹمی معاہدے میں اسے یورپ کی شدید مخالفت کا سامنا ہے تو نیٹو کے مسئلے پر اب بھی تنازعہ باقی ہے،اکتوبر میں ٹرمپ کی جانب سے ایران اور لبنانی جماعت حزب اللہ کیخلاف پارلیمنٹ سے چار قوانین کو منظور کرایا گیا جسے کسی بھی وقت سینٹ میں پیش کیا جانا ہے یہ چار قوانین ایران کے بلیسٹک میزائل پروگرام ،عام انسانوں کو ڈھال کے طور استعمال کرنا( بطور ہیومن شیلڈ)، مالی امدادکو روکنا اور لبنانی جماعت حزب اللہ کو مکمل طور پر دہشتگردی کی لسٹ میں شامل کرنا ہے ،واضح رہے کہ اس سے قبل امریکہ نے حزب اللہ کو سیاسی و عسکری طور پر دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کے عسکری حصے کو دہشتگرد قرار دیا تھا ۔
اگرچہ یہ پابندیاں اور قوانین کی تشکیل کوئی نئی چیز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس بار ان قوانین کے حق میں دو نوںپارٹیوں یعنی ڈیموکریٹ اور ریپپلکنز نے اتفاق سے ووٹ دیا ہے یہ چیز ٹرمپ کو اس بات کی جرات دے سکتی ہے کہ یورپ پر دباو ڈالے کہ وہ بھی اس قرارداد میں شامل ہوجائیںا گرچہ ایرانی ایٹمی معاہدے کے خاتمے کو لیکر ٹرمپ کویورپ کی جانب سے سخت قسم کا ردعمل دیکھنے کو ملاہے ۔گرچہ امریکہ کہہ سکتا ہے کہ نئی پابندیوں کا ایٹمی ڈیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس ڈیل کو متاثر کرتا ہے لیکن کیا یورپ اتفاق کے ساتھ ان نئی پابندیوں میں ٹرمپ کا ساتھ دے گا ؟کیا یورپ ان پابندیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حق میں ہوگا ؟کیونکہ یہ پابندیاں مشرق وسطی خاص کر لبنان میں بڑے بحران کو جنم دے سکتیں ہیں اور مسلسل سیاسی بحران میں چلے آرہا لبنان اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ جس کی خواہش مشرق وسطی میں امریکی اتحادی رکھتے آرہے ہیں ۔
اور کیا امریکی اس پابندی کا اثر یورپی ان کمپنیوں اور میگا پروجیکٹس پر نہیں پڑے گا جو ایران میں اربوں ڈالر کے معاہدے کرچکیں ہیں ؟
اہم سوال یہ بھی ہے کہ ان نئی پابندیوں کو چین اور روس کیسے دیکھیں گے ؟اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ان نئی پابندیوں کے لئے اقوام متحدہ یا سیکوریٹی کونسل کا شیلٹر کسی طور بھی حاصل نہیں کر پائے گا لیکن ان پابندیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات عالمی سطح پر موجود تقسیم کو مزید گہرانہیں کرے گی ؟اور اگر ان پابندیوں کو ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو خود امریکہ اس وقت کس پوزیشن میں کھڑا ہوگا۔کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ چاہتا ہے کہ ان پابندیوں کا اعلان 1983میں بیروت میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے دن کے ساتھ ہو اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی سکریٹری خارجہ کا حالیہ دورہ سعودی عرب ،قطر و پاکستان میں دیگر ایشو ز کے علاوہ یہ موضوع بھی زیربحث رہا ہے۔دوسری جانب بہت سے تجزیہ کار پیوٹن کا دورہ ایران اور ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات کے ایک پہلو کو اسی تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ شائد مزاحمتی بلاک اور اس کے اتحادی اس قسم کی ممکنہ صورتحال کے لئے پہلے سے ہی خود کوسیاسی وسفارتی میدانوںمیں تیارکر رہے ہوں ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرق وسطی میں امریکی پالیسی بری طرح ناکامی کا شکار ہے اور ہر کوشش مزید ناکامی کو گہری کرتی جارہی ہے ،وہ مشرق وسطی کہ جہاں بیرونی قوت کے طور پر صرف امریکہ تن و تنہا کھلاڑی کے طور پر دیکھائی دیتا تھا آج اپنی پوزیشن کو باقی رکھنے کی کوشش میں ہے ۔لبنان میں سعد الحریر ی کو ہٹانے سے لیکر محمود عباس کا دورہ سعودی عرب و فلسطینیوں کے درمیان معاملات کے حل کی کوشش تک ٹرمپ اور مشرق وسطی میں اس کے دوستوں کی اسی حکمت عملی کے ابتدائی گام تھے کہ جنہیں اٹھنے سے پہلے ہی گھٹنے ٹیک دینا پڑے۔
مشرق وسطی خاص کر شام و عراق کے اندرپیدا کیا گیا دہشتگردی کا بحران کہ جسے مذہبی فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کی بہت کوشش ہوئی جو کہ ایک جیوپولیٹکل جنگ تھی اور اپنے اندر متعدد اہداف رکھتی تھی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تباہ کن جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور اس کے منصوبہ سازوںکو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت وہ اس جنگ میں ناکامی کے آفٹرشاکس کو سہہ رہے ہیں ۔ان حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطی میں اٹھایا جانے والا امریکی ہر اقدام بری طرح شکست سے دوچار ہورہا ہے عراق یمن شام سے لیکر لبنان تک تمام مہرے جو امریکہ اور اس کی پالیسی فالورز چلاتے ہیں بری طرح پٹتے جارہے ہیں ۔
صدام کے بعد کا عراق ہو یا اربوں ڈالر خرچہ کروانے والے شام و یمن تینوں ممالک میں امریکہ نہ صرف اپنی پوزیشن کھو چکا ہے بلکہ یہ تینوں ملک اس بلاک میں اپنی پوزیشن مزید گہری کرچکے ہیں جسے مزاحمتی بلاک ،روسی چینی ایرانی بلاک یا اتحادی کا نام دیئے جاتے ہیں ۔
چین ،روس اور یورپ ۔
چین نہ صرف اقتصادی ،عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز رفتاری کے ساتھ دوسروں کے لئے چلینج بنتا جارہا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی ایسا اتحاد اور وحدت کو قائم رکھا ہوا کہ کسی بیرونی قوت کو ایسا کوئی سوراخ نہیں مل رہا کہ وہ چین کو اندر سے الجھانے کی کوشش کرے یا چینی معاملات میں اثر انداز ہوسکے ،جیسا کہ ماضی کی بڑی قوت سودیت یونین کے ساتھ ہوا تھااور جیساکہ آج بھی بہت سے ممالک کے ساتھ ہورہا ہے ۔حکمران کیمونسٹ پارٹی ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی پوزیشن مضبوط کرتی جارہی ہے ،اسی سال اکتوبر میں ہونے والا چینی حکمران جماعت کا سالانہ انیسواں کنونشن اس بات کی علامت تھا کہ اکیسویں صدی کے آدھے سے بھی کم عرصے میں چین دنیا میں اپنی پوزیشن سب سے اوپر لیکر جائے گا۔چین کی اس کامیابی کو اس سوشلسٹ نظام میں بھی دیکھا جارہا ہے جو خاص چینی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اور چینی مخصوص اشتراکی اقتصادی نظام کے درمیان ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے لئے پیدا کی جانے والے گنجائشات شامل ہیں ۔
چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا ایک اہم راز اس کی اس حکمت عملی میں بھی پوشیدہ ہے کہ دیگر طاقتوں کے برخلاف چین نے اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ کسی قسم کا سامراجی ایجنڈا نہیں رکھتا اور ساتھ میںاس نے اب تک دنیا میں کہیں پر بھی کسی بھی قسم کے براہ راست ٹکراو یا جنگ سے بھی خود بچائے رکھا ہوا ہے ۔جبکہ اس کے برعکس دیگرطاقتوں نے اپنے سامراجی نوعیت کے ایجنڈوں کے ساتھ ساتھ جنگوں اور تصادم میں بھی خود کو مصروف کر رکھا ہوا ہے ،حتی کہ روس نے بھی خود کو براہ راست کئی محاذوں میں مصروف رکھا ہوا ہے کہ جس کے سبب اس کی معیشت کی بڑھتی ہوئی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بہت سو ں کا خیال یہ ہو کہ روس کا شمار اس کی معیشت اور اندرونی ایشوز کے سبب بڑی قوت کے طور پر نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ روس اور ایران جیسے ممالک اپنی درست اور بروقت کامیاب پالیسیوں کے سبب ایسی مضبوط پوزیشن میں آکر کھڑے ہوئے ہیں کہ کم ازکم روس کو کسی بھی طور بڑی قوت اور ایران کو موثر طاقت کی صف سے باہر نہیں کیا جاسکتااسی طرح اگر ہم روس اور ایران کو ان کی حلیف دیگر قوتوں جیسے عراق شام لبنان و فلسطین اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ دیکھیں گے تو واضح ہوگا کہ یہ اتحاد چینی ہم آہنگی اور تعاون کے بعد دنیا میں ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر چکا ہے جبکہ اسی اتحاد ی اعضاء کی دوسرے اہم فورمز کی تشکیل اور موجود گی جیسے شنگھائی تعاون تنظیم وغیرہ تو ان کے طاقت کے دائرے کا مزید بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔روس کے کردار کو یوکرائن سے لیکر مشرق وسطی میں شام عراق ایران سعودی عرب مصر ترکی تک اگر دیکھا جائے تو اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت اور طاقت کے توازن میں اس کا بڑھتا ہوا کردار مزیدواضح ہوجائے گا ایک طرف وہ جہاں ایران اور شام کا حلیف ملک ہے وہیں پر اس کے مصر سعودی عرب ترکی کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں ۔
گذشتہ سات سالوں نے واضح کردیا کہ یورپ اور امریکہ کا مختلف پہلو سے روس پر برتری رکھنے کے باوجود روس نے عالمی سطح پر کامیاب حکمت عملی (ٹیکٹیکل ایڈاوانٹیج)کے اعتبارسے بہت سے عالمی مسائل میں برتری حاصل کی ہے ۔انہی کامیابیوں نے روس کی پوزیشن کو جہاں رائے عامہ میں تقویت دی ہے وہیں پر یورپ اور امریکہ کی پوزیشن کو سخت نقصان پہنچایا ہے ،جبکہ دوسری جانب جہاںبین الاقوامی سطح پر امریکہ اور یورپ کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے وہیں پر انہیں داخلی سطح پر بھی انتہائی مسائل کا سامنا ہے کہ جن میں سرفہرست امریکی انتخابات اور ایک غیر مستقل مزاجی کے حامل بے چین شخص کا بطور صدر انتخاب ،اور انتخابات میں روسی مداخلتوں کا بحران ،جو کہ اب بھی ایک لٹکتی تلوار کی طرح موجود ہے ،برطانیہ کا یورپی یونین سے باہر نکلنا ،عوامیت یا پاپولرازم اور دائیں بازو کی علیحدگی پسند تحریکوں کا وجود میںآنا ،امریکہ کے ساتھ نیٹو اور ماحولیاتی بل پر عدم اتفاق جیسے مسائل شامل ہیں ۔
تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )