وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کا ذکر آتے ہی سنہ1948ء کا تاریخی نکبہ یعنی فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی صیہونی مصیبت ارو تباہی غاصب اسرائیل کے وجود کا خیال آتا ہے جس کے بعد سے آج تک تقریبا ستر سالہ دور میں مظلوم فلسطینی ملت غاصب صیہونیوں کے شکنجہ میں ہے اور بد ترین مظالم برداشت کر رہی ہے اور خاص بات تو یہ ہے کہ امریکی حکومت روز اول سے ہی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے وحشت ناک مظالم کی سرپرستی کر رہی ہے اور صیہونیوں کے لئے مسلسل اسلحہ کی امداد میں اربوں ڈالرز غاصب اسرائیل کو دے چکی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالیہ دنوں امریکی حکومت نے انسانی قتل وغارت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ اور مسیحی برادری کے خلاف ایسا اقدام اٹھا لیا ہے کہ جس کے باعث نہ صرف دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجودکروڑوں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطین کے تاریخی دارلحکومت یروشلم (القدس) کو صیہونی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے لئے دارلحکومت قرار دینے کا یکطرفہ فیصلہ اور اعلان کیا ہے اس عنوان سے دنیا بھر میں مسلم دنیا احتجاج کر رہی ہے جبکہ فلسطین کے اندر مسیحی عوام نے بھی امریکی حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اسی عنوان سے سب سے اہم پیش رفت انڈونیشیا کے دارلحکومت جکارتہ میں منعقد ہوئی جو کہ ٹھیک 7دسمبر کو جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی جبکہ 6دسمبر کو امریکی حکومت نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔جکارتہ میں ہونے والی کانفرنس میں اہم ترین فیصلے کئے گئے جس کو ’’اعلان جکارتہ‘‘ کا عنوان دیا گیاہے۔
جکارتہ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والی کانفرنس کاعنوان ’’اعلان بالفور کے ایک سو سال اور فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط اور فلسطینیوں کی مزاحمت‘‘ رکھا گیا تھا جس میں انڈونیشیا کی اہم شخصیات سمیت پانچ سو سے زائد این جی اوز، انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل اداروں کے اراکین سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں اور بالخصوص فلسطین،پاکستان ، لبنان، شام،ایران،بھارت، ملائیشیا، فلپائین،ارجنٹائن سمیت دیگر ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ بین الاقوامی مندوبین میں فلسطین سے معروف اسکالر طاہر شیخ، پاکستان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر صابر ابومریم، لبنان سے عالمی تحریک برائے حقوق واپسی فلسطین کے سربراہ شیخ یوسف عباس، ایران سے انقلاب اسلامی ایران کے بانی رہنما آیت اللہ امام خمینی کی دختر محترمہ ڈاکٹر زہرا مصطفوی ، فلسطینی تحریک آزادی کی این جی اوز کے اتحاد کے ترجمان سروش نژاد، بین الاقوامی خبر رساں ادارہ قدس پریس کے سربراہ شکیبائی ، بھارت سے معروف اسکالر او ر فلسطین موومنٹ کے چئیر مین فیروز مٹھی بور والا ، ملائیشیا سے علماء کونسل کے مرکزی رہنما شیخ محمد عزمی، فلپائن سے فلسطین فاؤنڈیشن کے چیئر مین علی البنال اور ارجنٹائن سے رابن سہیل اسد و دیگر نے شرکت کی ۔
کانفرنس کی میزبانی وائس آف فلسطین انڈونیشیا کے چیئر مین مجتہد ہاشم کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ کانفرنس میں جکارتہ کی معروف شخصیات پارلیمنٹ کے اراکین بین الاقوامی ہم آھنگی برائے مذہب کے صدر اور صدر انڈونیشیا کے ترجمان بالترتیب رکن اپرلیمنٹ ڈاکٹر زلکفی حسن، عبد اللہ بیک، معروف پانسیلا، ایما راچمن اور دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کے اختتام پر شرکائے کانفرنس سے متفقہ طور پر مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کہ جس میں امریکی صدر نے القدس شہر کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، اس حوالے سے اہم اعلان جاری کیا جسے تاریخی حیثیت دیتے ہوئے ’’اعلان جکارتہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، واضح رہے کہ یہ کانفرنس اعلان بالفور کے ایک سو سالہ سیاہ تاریخ کی مذمت میں منعقد کی گئی تھی جس پر اعلان جکارتہ کی ایک تاریخی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔اعلان جکارتہ مندرجہ ذیل ہے۔
اعلان جکارتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم انڈونیشیا کے دارلحکومت جکارتہ میں پارلیمنٹ ہاؤس میں مورخہ7,8دسمبر2017 ء کو منعقد ہونے والی عالمی فلسطین کانفرنس کے شرکاء جو کہ فلسطین، پاکستان، لبنان، شام، ایران، بھارت، ارجنٹائن، فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہیں متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ، تحریک آزادئ فلسطین کہ جس کا دارلحکومت یروشلم شہر (القدس شہر) ہے اس کی حمایت جاری رکھیں گے، ہم دنیا بھر کے عوام اور اقوام سے کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کے لئے دنیا بھر میں جاری عالمی مزاحمت اور انتفاضہ فلسطین کی حمایت جاری رکھیں تا کہ فلسطین کے مظلومین کے لئے سنہ1948ء کی سرحدوں پر محیط ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کہ جس کا دارلحکومت القدس ہو، اوروہ تمام فلسطینی اقوام (مسلمان، عیسائی، یہودی) اوروہ لوگ کہ جو سنہ1917ء سے پہلے اور بعد میں دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے فلسطین نہ آئے ہوں باہم اتفاق و یکجہتی کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کریں۔اعلان جکارتہ کے سات نکات میں دوسرا اہم نکتہ میں کہا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس ۔ جکارتہ واضح طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے دارلحکومت القدس ۔یروشلم کی حیثیت بدلنے کے یکطرفہ فیصلہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے ٹرمپ کے اس فیصلہ کو زبردست طریقے سے مسترد کر دیا گیاہے ۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کاالقدس سے متعلق یکطرفہ فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی ہے۔ہم ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی دارلحکومت القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کے اس اعلان کویروشلم کے لئے شدید خطر ناک تصور کرتے ہیں اور اسے فلسطین و القدس کو صیہونیوں کے لئے یہودیانے کی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ نہ صرف یروشلم میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کے لئے سنگین خطرہ ہے بلکہ مسیحی مقدس مقامات کو بھی شدید خطرہ لاحق سمجھتے ہیں۔
اعلان جکارتہ کے تیسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ برطانوی استعمار کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کے لئے پیش کیا گیا ’’اعلان بالفور‘‘ فلسطینیوں کے لئے ’’نکبہ‘‘ ثابت ہوا جس کے باعث گذشتہ ایک سو سال سے فلسطینیوں کی نسلوں کی تباہی جاری ہے ، ہم متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ برطانوی استعماری حکومت کی جانب سے سنہ1917ء میں فلسطینیوں کے خلاف پیش کیا جانے والا ’’اعلان بالفور‘‘ ایک ناقابل رحم اور ناقابل معافی جرم ہے ۔چہارم بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور فلسطین کے مظلوم عوام پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط اور روزانہ کی بنیادوں پر فلسطینیوں پر جاری رکھے جانے والے صیہونی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔اعلان جکارتہ کا پانچواں نکتہ دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کے لئے سرگرم افراد سے اپیل سے متعلق ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم دنیا بھر میں تحریک آزادئ فلسطین کے لئے سرگرم عمل اداروں، گروہوں، تنظیموں، این جی اوز، سول سوسائٹی، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور رہنماؤں، انسانی حقوق اور امن پسند کارکنوں سے کہتے ہیں کہ سب کے سب متحد ہو کر ایک آواز ہو تے ہوئے فلسطین کی آزادی کے لئے جاری مزاحمت اور مزاحمتی گروہوں کی حمایت کریں اور فلسطین کے مقدس دارلحکومت القدس کے دفاع وتحفظ کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔اعلان جکارتہ کا چھٹا نقطہ خصوصی طور پر مسلم و اسلامی دنیا سے متعلق ہے کہ جس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہم خصوصی طور پر مسلم دنیا سے کہتے ہیں کہ القدس کے دفاع کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد کو قائم رکھیں اور دشمن کے منفی ہتھکنڈوں فرقہ واریت، تقسیم اور دیگر منفی سازشوں کا مقابلہ اپنی وحدت اور اتحاد سے کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور فلسطین و القدس سے متعلق اپنی شرعی ذمہ داریوں کو انجام دیں تا کہ القدس غاصب صیہونیوں کے شکنجہ سے آزاد ہو جائے۔اعلان جکارتہ کے ساتویں اور آخرین نقطہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم شرکائے عالمی فلسطین کانفرنس جکارتہ فلسطینی مہاجرین کہ جنہیں غاصب صیہونیوں نے جبری طور پر فلسطین سے بے دخل کیا ہے ان سب فلسطینیوں کے کے حق واپسی کی بھرپو ر حمایت کرتے ہیں ، ہم عالمی برادری سے غزہ کے مسلسل کئی سالہ صیہونی محاصرے کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور فلسطین بالخصوص مغربی کنارے میں صیہونی آباد کاری کے عمل کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تحریر: صابر کربلائی