وحدت نیوز(آرٹیکل) مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ تحریک پاکستان جب چل رہی تھی تو تمام مسلمان ( شیعہ و سنی) مل کر کام کر رہے تھے اور قیام پاکستان کی مرکزی قیادت شیعہ و سنی رہنماوں کے ہاتھ میں تھی جبکہ مکتب دیوبند قیامِ پاکستا ن کا کٹر مخالف اور کانگرس کا مکمل طور پر سیاسی حلیف تھا۔
اس وقت میں دفاعِ امامت کے نام سے حال ہی میں لکھی جانے والی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ تکفیریوں کی طرح اہل تشیع میں بھی کچھ لوگ پاکستان میں جمہوریت کے مخالف ہو چکےہیں اور اس طرح پاکستان کو کمزور کرنے میں کوشاں ہیں۔ حالانکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ پاکستان کا پہلے سال کا بجٹ راجہ صاحب محمود آباد ایک شیعہ نے ادا کیا. پاکستان کا پہلا بنک بھی شیعہ نے بنایا. پاکستان کا پہلا اخبار بھی شیعہ نے قائد اعظم کے حکم پر شروع کیا. پاکستان پہلی ائر لائن کی بنیاد بھی شیعہ نے رکھی اور اسی طرح قیامِ پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک بریلوی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
رہی بات دیوبندی و سلفی حضرات کی تو انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا اور سرکاری اداروں میں اپنے سہولتکاروں کو بٹھایا جس کی وجہ سے آج وہ پاکستان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس طاقت کے حصول کے لئے انہوں نے شیعہ و سنی دونوں کا ڈٹ کر قتلِ عام بھی کیا ہے.
تاریخ تشیع میں علامہ شہید سید عارف حسین الحسینی وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اہل تشیع کے ضعف کے علاج کا نسخہ سیاسی طور پر طاقتور ہونا بتایا. اور انکے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے اور انہیں سیاسی طور پر مضبوط کرنے کا عہد اور عزم کیا. اور مینار پاکستان پر لاکھوں شیعیان حیدر کرار کے اجتماع میں اعلان کیا گیا کہ اب ہمیں بھی حکومت چاھیے ، اب ہمیں بھی وزارت چاہیے. اور یہ اعلان ہی شاید انکی مظلومانہ شہادت کا سبب بنا ۔
یہ افسوس کن امر ہے کہ آج اہلِ تشیع میں بھی وہابیوں اور دیوبندیوں کی طرح سوچنے والے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو ایک باقاعدہ جمہوری و سیاسی عمل سے گزرنے کے بجائے کسی بھی ہتھکنڈے کے ساتھ حکومت کو ہتھیانا چاہتے ہیں اور جمہوریت و سیاست کوکفر اور شجرِممنوعہ سمجھتے ہیں۔یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو طالبان و داعش کی طرح حکومت تو ہتھیانا چاہتے ہیں لیکن جمہوری سسٹم کا حصہ بنے بغیر۔ گویا ایک متشدد اور تکفیری سوچ اہل تشیع میں بھی سرایت کر رہی ہے۔
یہ لوگ پہلے اپنے ذھن میں ایک مفروضہ بناتے ہیں کہ لوگوں کا عقیدہ اور ایمان یہ ہے پھر اس پر تضحیک آمیز تجزیہ وتحلیل پیش کرتے ہیں.
پہلے ایک حقیقت خارجی کو محض ایک مفروضہ یا حقائق کے خلاف بیان کرتے ہیں پھر اس پر مفصل طولانی بحث کو توھین وتجریح کے کلمات کے ساتھ ذکر کرتے ہیں. نہ تو انکے پاس اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کے لئے کوئی روڈ میپ ہے. اور نہ ہی وہ کوئی عملی قدم اٹھاتے ہیں . خود میدان سیاست میں آتے نہیں اور دوسروں کی حوصلہ شکنی اور ان پر نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں.بالکل داعش، القائدہ اور طالبان کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک بنی بنائی حکومت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ لوگ دوسروں کو کم عقل اور اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے شیعہ، نظامِ امامت و ولایت پر ایمان و یقین نہیں رکھتے۔
ہمارا ان سے سوال ہے کہ آپکو کس نے کہا کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے یعنی آپ کے علاوہ سب پاکستانی شیعہ علماء ہوں یا غیر علماء وہ نظام ولایت وامامت کو قبول نہیں کرتے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ امامت و ولایت ہی تشیع کی اساس ہے!؟
یہ لوگ خود حکم ثانوی کے تحت حزب اللہ کو تو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ فرانس کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام اور جسے معاہدہ طائف کے تحت دوبارہ لبنان حزب اللہ کی شراکت سے چلایا جارھا ہے اس کا حصہ بنیں اور انتخابات میں شرکت کریں. کیونکہ سیاسی طور پر طاقتور ہوئے بغیر نہ تو حزب اللہ اپنے وجود کا دفاع کر سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کا مقابلہ کر سکتی ہے.
ہمارا ان سے دوسرا سوال ہے کہ کیا پاکستان میں جب شیعہ و سنی سیاسی طور پر کمزور ہونگے تو اس کا انہیں مزید کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اس سے تکفیریت، وہابیت اور دیوبندی مکتب کو مزید طاقت نہیں ملے گی؟
اگر پاکستان کے شیعہ و سنی سیاسی طور پر مضبوط ہوتے تو کیا انتخاباتی مہم کے دوران تکفیری عناصر انہیں اس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹ سکتے تھے!؟ اور کیا کسی کویہ کی جرات ہو سکتی تھی کہ وہ پاکستان کو کافرستان ، پاک فوج کو ناپاک فوج اور قائد اعظم کو کافراعظم کہے!؟
ہمارا ان لوگوں سے سوال ہے کہ قیام پاکستان کے دشمنوں کے لئے میدانِ سیاست خالی کر دینا عقلمندی ہے یا بیوقوفی!؟
ہم ان لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ عددی نسبت کے لحاظ سے لبنان میں شیعوں کی تعداد پاکستان کے شیعوں سے زیادہ ہے اور ملک کو اسرائیل کے قبضے سے بھی شیعوں نے اپنی مقاومت سے آزاد کروایا ہے. اگر پاکستان میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والے شیعہ حضرات انکی جگہ لبنان میں ہوتے تو کیا شراکت اقتدار قبول کرتے یا وھاں پر نظام ولایت وامامت قائم کرتے اور جمھوری اسلامی ایران کا لبنان کو ایک صوبہ بناتے.
ان لوگوں کے افکار کے کی ترجمان کتاب "دفاع امامت" کو آج ص نمبر 105 سے ص نمبر 124 کو دو بار پڑھا. جس سے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی ہیں انہیں چاہیے کہ حزب اللہ کے بارے میں مطالعہ کریں اور حزب اللہ کو تخیلاتی افسانے کے بجائے حقیقت کے قالب میں ویسا سمجھیں جیسی کہ حزب اللہ حقیقت میں ہے۔
انہوں نے حزب اللہ کے بارے میں ص 115 پر لکھا ہے :
" اسی طرح معاشی نظام انکا اپنا ہے. کاروبار انکا اپنا ہے. تجارت انکی اپنی ہے. تعلیمی سسٹم انکا اپنا ہے. تمام چیزیں انکی اپنی ہیں اور تمام چیزوں میں خود کفیل ہیں. ان تمام چیزوں میں وہ حکومت کے اسیر نہیں ہوتے. حکومت کے فیصلوں میں انکے تابع نہیں ہیں. حکومت کے معین کردہ نظام کے مطیع نہیں ہیں. ان تمام امور کے اندر حکومتی ڈھانچے کے اتباع کرنے والے نہیں ہیں. "
اس پیرا گراف میں یا تو بالکل سفید جھوٹ بولا گیا ہےاور یاپھر مصنف کی معلومات بالکل صفر ہیں ، زمینی حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کا لبنانی شیعوں کے لئے کوئی مستقل معاشی نظام نہیں ہے. ویلفیئر کے بعض ادارے ہیں جن سے بعض حاجتمند استفادہ کرتے ہیں. لیکن عوام کی معیشت ملکی نظام سے جڑی ہوئی ہے حکومت کے سب اداروں میں لوگ نوکریاں کرتے ہیں اور حکومتی خدماتی اداروں بلدیات سے وزارتوں تک سے خدمات حاصل کرتے ہیں ۔
حزب اللہ کی اعلی قیادت سے راقم الحروف نے بالمشافہ سنا ہے کہ نہ تو ہماری تنظیم کی کوئی تجارت ہے اور نہ ہی کاروبار اور آپ خود بھی مختلف ذرائع سے تصدیق کر سکتے ہیں.
اسی طرح لبنان کے شیعوں کا کوئی مستقل تعلیمی سسٹم نہیں ہے. لبنانی شیعوں کی اکثریت قاطع حکومتی اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہے. بہت سے مشرقی ومغربی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں اور حزب اللہ کا بھی ایک المھدی اسکولز سسٹم ہے جس کے تحت چند علاقوں میں اسکولز قائم ہیں اور ایک تعداد بچوں کی ان اسکولوں میں پڑھتی ہے اور یہ ادارے بھی رجسٹرڈ ہیں. امریکن یونیورسٹی بیروت میں شیعہ جوان کافی تعداد میں پڑھتے ہیں اور اعلی تعلیم کے لئے فرانس امریکا جرمنی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں. سوریہ کی یونیورسٹیوں میں بھی کافی تعداد میں لبنانی نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں.
اسی کتاب میں ص115 پر لکھا ہے:
"اگر کوئی یہ کہے کہ حزب اللہ طاغوتی نظام کا حصہ ہے تو اسے استغفار کرنا چاہئے. اسے نہ نظام امامت کی ابجد کا پتہ ہے اور نہ حزب اللہ کی حیثیت کا علم ہے."
میرا مصنف سے سوال ہے کہ کیا لبنان کا نظام حکومت طاغوتی نہیں!؟ یا کیونکہ حزب اللہ اس میں جب عملی طور پر پارلیمنٹ ، وزارت اور ریاست ہر چیز میں شریک ہے تو اس نے اس طاغوتی نظام کا استحالہ کر دیا ہے. ؟
اس "دفاع امامت" کتاب میں جو تھیوری اور آئیڈیالوجی حزب اللہ کے عنوان کے تحت ان مذکورہ صفحات میں پڑھی یہ کافی حد تک اس تھیوری اور آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھتی ہے جسکا پروپیگنڈہ آجکل حزب اللہ مخالف اور دشمن العربیہ ، الجزیرہ یا دیگر انٹرنیشنل میڈیا کر رھا ہے.
. اور جس ویڈیو خطاب کا حوالہ دیا اسی کی بنیاد پر دشمن بھی پروپیگنڈا کر رھا ہے اور حزب اللہ کی لیڈرشپ اپنے دسیوں بیانات اور خطابات میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہمارا اصل ھدف کیا ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور واضح بیان کر چکے ہیں جب تک ملک کی اکثريت ہمارے سیاسی نظام کو قبول نہیں کرتی ہم اپنی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں گے. اور ملک کے نظام کو معاھدہ طائف اور موجود نظام کے مطابق دوسروں کے ساتھ ملکر چلائیں گے. اس انتخابات میں حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے سیکورٹی رسک کی پرواہ کئے بغیر الیکشن کمپین کی خود سربراہی کی ہے. اور اعلان کیا کہ ہم نئی حکومت میں کرپشن کے خاتمے پر بھرپور توجہ دیں گے.
اس نہج پر سوچنے والے افراد عوام کو پاکستان سے مایوس کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی تکفیریوں اور پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے چونکہ شاید یہ اُن کے ہم مشرب ہیں اور ان کا ایجنڈہ مشترکہ ہے۔اہل تشیع کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی سازشوںمیں آکر ملک و قوم سے مایوس ہونےکے بجائے میدانِ سیاست میں آکر اپنا فعال کردار ادا کریں۔
سیاست سے علیحدگی کا تجربہ صدام حسین کے دور اقتدار سے پہلے عراق کے شیعہ علماء نے کیا تھا اور سیاسی نظام سے علیحدگی کی پالیسی اختیار کی تھی. اس کے بعد انہیں 35 سال تک صدام کی آمریت کا دور دیکھنا پڑا.
جب لوگوں کو جمہوریت اور عوامی طاقت سے مایوس کردیا جاتا ہے تو پھر ان پر آمریت مسلط کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ہماری شیعانِ پاکستان سے یہ درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے شیعہ و سنی کی تفریق مٹا کر سیاسی میدان میں فعال ہوں اور مایوسی و تھکاوٹ کے مارے ہوئے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ یہ ملک ہم سب نے مل کر بنایا تھا اور اس ملک کو ہم سب نے مل کر ہی سنوارنا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی